رعنائی خیال/ ڈاکٹر رابعہ خرم درانی ………
مجهے اس بات کی سمجه نہیں آتی کہ ڈاکٹر ایسا کہیں کہ ہم دو میں سے ایک جان کو بچا سکتے ہیں .. ماں اور بچہ دونوں ہی جانیں ایک دوسرے سے منسلک ہوتی ہیں … دونوں ہی بیک وقت ایک سی درد برداشت کرتی ہیں اور ایک سے حالات سے گزرتی ہیں .. ان دونوں ہی کو خطرات لاحق ہوتے ہیں .. ایک کی جان بچانے کے لئے دوسرے کی جان کی قربانی کوئی شرط نہیں ہے .. ہاں بعض صورتوں میں کسی ایک یا دوسرے کی جان کو نسبتاً زیادہ خطرات لاحق ہوتے ہیں اور ایسا دوران زچگی پیدا ہونے والی پیچیدگیوں کے باعث ہوتا ہے ..
یہ ایک غلط العام سوچ ہے جو کہ عموماً انڈین فلموں اور ڈراموں سے پھیلی ہے کہ شائد ماں کو مرنے دیں تو بچہ بچ جائے گا یا بچہ کو جانے دیں تو ماں کو بچا سکتے ہیں ..
نہیں بهئ ایسا نہیں ہے ..
درحقیقت یہ دونوں اپنی اپنی جگہ دو مکمل انسان ہیں جو زچگی کے عمل سے گزر کر اپنی الگ حیثیت میں دنیا پر ظاہر ہوتے ہیں .. ایسا ممکن ہوتا ہے کہ ڈاکٹر عزیزو اقارب کو یہ سمجهانا چاہیں کہ اگر آپ نارمل ڈیلیوری پر اصرار کرتے رہے تو شائد آپ ماں کو ” آپریشن ” سے تو بچا لیں لیکن اس دوران آکسیجن کی کمی کے باعث بچہ دم گھٹنے کا شکار ہو سکتا ہے ..
تو بچانا ماں یا بچے کی جان میں سے ایک کا نہیں ہوتا بلکہ نارمل لیبر یا آپریشن میں سے کسی ایک کے انتخاب کا ہوتا ہے ..
ایک اور وضاحت کرتی چلوں کہ
حمل کا دورانیہ ایک عورت کے لئے جہاد کا میدان ہے .. اور عمل زچگی کو آپ حالت جنگ سمجه لیں .. اگر عورت ایک کامیاب زچگی سے سرفراز ہوئی ہے تو وہ ”غازی” ہے اور اگر دوران زچگی وہ جان کی بازی ہار دیتی ہے تو وہ ”شہید” ہے .. اور شہید کی جگہ جنت کے باغات میں ہے ..
اسی طرح جو بچہ اس دوران اپنی جان جان آفریں کے سپرد کر دیتا ہے وہ اپنی والدہ کا جنت میں انتظار کرتا ہے ..