محمد-نور-الہدیٰ-،-اردو-کالم-نگار-،-جرم-حق-گوئی

سہولت بازار اور طلب و رسد کا قانون

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

محمد نور الہدیٰ :

کبھی آپ نے اس رویے پر غور کیا کہ ہم ” آسان خریداری “ کیلئے کسی بڑے نام والے ڈیپارٹمنٹل سٹور پر جائیں جہاں ایک چھت تلے سب اشیاء میسر ہوں لیکن ضرورت کی کسی شے کی نایابی کی صورت میں کچھ اشیاء ہمیں اوپن مارکیٹ کے ساتھ ساتھ وہاں سے بھی نہ ملیں تو ہم بالکل برا نہیں مانتے، نہ کسی کو کوستے ہیں۔

وہاں اگر بل کی ادائیگی کیلئے لمبی لائن میں لگ کر ہمیں گھنٹہ کھڑے بھی ہونا پڑے تو ہم محسوس نہیں کرتے۔ عام مارکیٹ کی نسبت مہنگی اشیاء بھی بخوشی خریدتے ہیں۔ اجناس کی شارٹیج، زائد نرخوں کی وصولی اور لمبی قطاروں پر نہ تو ہمیں ناگواری ہوتی ہے، نہ ہی اس پر اعتراض کرتے ہوئے سوشل میڈیا پر شور ڈالا جاتا ہے، نہ ہی چینلز رپورٹ کرتے ہیں،ڈھونڈنے سے بھی اس ” ظلم “ سے متعلق ہمیں کوئی خبر نہیں ملتی، ہم خاموشی یہ سب کچھ قبول اور برداشت کرتے ہیں کیونکہ ان جگہوں پر آنے والی کلاس ذرا الگ نوعیت کی ہوتی ہے۔

اس کے برعکس سستے یا رمضان بازاروں میں آنے والی عام کلاس ہوتی ہے اور ہمارا زیادہ زور بھی مڈل اور لوئر کلاس اور انہیں ڈیل کرنے والوں پر چلتا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ہمیں ان بازاروں میں مطلوبہ شے نہ ملنے، رش ہونے اور قطاروں پر لگنے پر اعتراض بھی ہوتا ہے اور اس ” استحصال “ کو ہیڈ لائنز میں بھرپور انداز میں ڈسکس بھی کیا جاتا ہے، مضامین لکھے جاتے ہیں، کلپس اپ لوڈ ہوتے ہیں، احتجاج ہوتے ہیں۔ سہولیات کی کمی یا اشیاء کی نایابی کو ایشو بنا کر حکومت کو کوسا جاتا ہے اور ذرائع ابلاغ اپنا ہونے کا خوب پتہ دیتے ہیں۔

ہم یہ بات بھول جاتے ہیں کہ حکومتیں محدود وسائل کے باوجود عوام کی سہولت کیلئے اقدامات کرتی ہیں لیکن ہم ان کا حق ادا نہیں کر پاتے، کیونکہ ہمیں ایسا کرنے کی عادت نہیں ہے۔

حکومت پنجاب ماہِ رمضان کی مناسبت سے سہولت بازاروں کا قیام عمل میں لائی اور ان بازاروں میں عام عوام کیلئے سستی اجناس کی دستیابی کو یقینی بناتے ہوئے آٹا، چینی اور دیگر اجناس پر بھاری تاریخی سبسڈی بھی مہیا کی۔ ظاہر ہے، یہ سبسڈی ہمیں ملٹی نیشنل ڈیپارٹمنٹل سٹورز پر تو میسر نہیں آ سکتی۔ سبسڈی پر اشیاء لینے کیلئے مڈل اور لوئر کلاس بڑی تعداد میں سستے بازاروں کا رخ کرتی ہے۔ ایسی صورت میں بعض اوقات اشیاء کی عارضی قلت پیدا ہونا معمولی بات ہے۔

تاہم اس تناظر میں یہ دیکھنا اہم ہے کہ بحران کہاں اور کیوں پیدا ہوتا ہے۔ اس کا سادہ اور مختصر جواب یہی ہے کہ جب لوگ ایک ہی مرتبہ میں (ایک ہی چکر میں)، کوئی شے ضرورت سے زیادہ خرید لیں تو دیگر خاندانوں کیلئے اجناس کم پڑ جاتی ہیں۔

وگرنہ آٹا تو رمضان المبارک سے قبل بھی ہمارے گھروں میں جاتا تھا۔ چینی پہلے بھی خریدی جاتی تھی۔ اور ان دونوں اجناس کا استعمال اتنا ہی ہوتا تھا جتنا اب ہو رہا ہے۔ فرق صرف یہ آتا ہے کہ فقدان کے ڈر سے، یا پھر چیز سستی ہونے پر ہم ضرورت سے زیادہ خریدنے کی کوشش کرتے ہیں، جس سے بعض اوقات عارضی بحران کا سامنا کرنا پڑ تا ہے۔ لیکن حکومتی اقدامات جلد اس فقدان پر قابو پا لیتے ہیں اور اشیاء کی فوری اور وافر سپلائی یقینی بنائی جاتی ہے۔

بحران کی دوسری صورت طلب و رسد میں توازن سے تعلق رکھتی ہے۔ طلب و رسد کا قانون ہمیں بتاتا ہے کہ جب کسی شے کی ڈیمانڈ بڑھ جائے تو سپلائی میں فرق آ جاتا ہے۔ ڈیمانڈ اور سپلائی کے اس فرق کی وجہ سے متعلقہ اجناس پیدا کرنے والے عوامل کو من مانی کرنے کی سوجھتی ہے۔ ذخیرہ اندوز اور منافع خور متحرک ہو کر میدان میں اتر آتے ہیں اور شے کو سٹاک کرنے یا قیمتیں بڑھانے کا کوئی نہ کوئی جواز پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

یوں بعض اشیاء کی مصنوعی قلت پیدا ہو جاتی ہے۔ یہی حال چینی اور آٹے کے ساتھ کیا جا رہا ہے۔ طلب بڑھی تو قیمتیں بڑھانے کیلئے شوگر اور فلور ملوں نے ارباب اختیار کو بلیک میل کرنے کی کوشش کی لیکن پہلے سے تیار حکومت اس سازش کو ناکام بنا رہی ہے ۔ مجموعی طور پر حالات ایسے نہیں ہیں جیسے ذرائع ابلاغ پر بتائے جا رہے ہیں۔

گزشہ چند دنوں سے آٹے اور چینی کی نایابی بارے خبریں گردش کر رہی ہیں۔ اس پراپیگنڈہ کا پیچھا کرنے کیلئے میں چند رمضان بازاروں میں گیا۔ مجھے کہیں کوئی کمی نہیں دکھائی دی۔ میں نے وہاں آٹا اور چینی کا وافر سٹاک موجود پایا۔ رش ضرور تھا لیکن اشیاء مل رہی تھیں۔ بلکہ دو، ایک مقامات پر تو میرے سامنے آٹے اور چینی کے ٹرکوں کی ان لوڈنگ ہوئی۔ میں نے جتنے رمضان بازاروں کا مشاہدہ کیا، صورتحال تسلی بخش ہی نظر آئی۔

پنجاب کے صوبائی وزیر خوراک عبدالعلیم خان نے اس تناظر میں ماہ رمضان کی آمد سے بہت پہلے تیاری شروع کر دی تھی۔ وہ اپنی ٹیم کے ہمراہ کسی بھی ممکنہ بحران سے نبٹنے کیلئے پیشگی تیار تھے۔ اس ضمن میں انہوں نے متعدد محکمانہ اجلاس لئے اور اب تک لے رہے ہیں۔ علیم خان مذکورہ تمام صورتحال پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں۔ انہیں اپنے اقدامات پر بھروسہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت کی جانب سے مصنوعی قلت پیدا کرنے والوں کو آڑے ہاتھوں لیا جا رہا ہے جس سے بعض عناصر کو مایوسی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

حکومت کے پاس بیک اپ پر اجناس کی وافر سپلائی موجود ہے جو مارکیٹ کو مہیا کی جا رہی ہے۔ اب تک حکومت آٹے کے مجموعی طور پر 16 لاکھ سے زائد تھیلے رمضان بازاروں کو سپلائی کر چکی ہے جبکہ اس وقت بیک اپ پر بھی بڑی مقدار میں آٹا موجود ہے۔

دوسری جانب 40 ہزار میٹرک ٹن چینی اوپن مارکیٹ اور رمضان بازاروں کو اب تک مہیا کی جا چکی ہے جبکہ کسی بھی ممکنہ بحران سے بچنے کیلئے چینی کا وسیع ذخیرہ بھی بیک اپ کے طور پر موجود ہے۔ فئیر پرائس شاپس پر معیاری پھل اور سبزیاں بھی میسر ہیں۔ یعنی سہولت بازارں کی ضروریات پوری کرنے کیلئے حکومت ذمہ دارانہ کردار ادا کر رہی ہے۔

ماہ رمضان ہمیں اپنی زندگیوں میں صبر اور اصلاحات نافذ کرنے کی یاددہانی کرواتا ہے لیکن مقام افسوس ہے کہ ہم اس مقدس مہینے میں بھی ذاتی مفادات کی تسکین کو ترجیح دے رہے ہوتے ہیں۔ حالیہ صورتحال کے تناظر میں ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم بحیثیت انفرادی، اپنے رویوں پر نظرثانی کریں اور ایسے عوامل کو ترک کریں جن کی وجہ سے کم از کم ہماری ذات کسی شے کا بحران پیدا کرنے میں حصہ دار بن رہی ہو۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں