ڈاکٹر امتیاز عبدالقادر، سکالر

فکری اختلاف ۔۔۔ متوازن رویّہ ( چھٹی اور آخری قسط )

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

ڈاکٹر امتیاز عبد القادر
مرکز برائے تحقیق و پالیسی مطالعات، بارہمولہ

پہلے یہ پڑھیے

فکری اختلاف ۔۔۔ متوازن رویّہ ( 1 )

فکری اختلاف ۔۔۔ متوازن رویّہ ( 2 )

فکری اختلاف ۔۔۔ متوازن رویّہ ( 3 )

فکری اختلاف ۔۔۔ متوازن رویّہ ( 4 )

فکری اختلاف ۔۔۔ متوازن رویّہ ( 5 )

غلبہ دین کے بارے میں غامدی صاحب لکھتے ہیں:
’رسالت یہ ہے کہ نبوت کے منصب پرفائزکوئی شخص اپنی قوم کے لیے اس طرح خدا کی عدالت بن کرآئے کہ اس کی قوم اگراسے جھٹلادے تواس کے بارے میں خدا کا فیصلہ اسی دنیا میں اس پرنافذ کرکے وہ حق کا غلبہ عملََا اس پر قائم کر دے:

” اورہرقوم کے لیے ایک رسول ؑہے۔ پھرجب ان کا وہ رسولؑ آ جائے تو ان کے درمیان انصاف کے ساتھ فیصلہ کر دیا جاتا ہے اوران پرکوئی ظلم نہیں کیا جاتا ۔‘(یونس47)

رسالت کا یہی قانون ہے جس کے مطابق خاص نبیﷺ کے بارے میں قرآن کا ارشاد ہے: ’ وہی ہے جس نے رسولؑ کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا کہ اسے وہ ( سرزمین عرب کے ) تمام ادیان پرغالب کردے۔‘(الصف 9 )۔۔۔‘(میزان72)

قرآنی آیات سے استدلال کرکے ان کا ماننا ہے کہ اظہارِ دین رسولوں کے ساتھ خاص تھا اور یہ دلیلِ نبوت میں سے ہے۔ امتِ مسلمہ کو یہ کام نہیں سونپا گیا ہے ۔ امت کا کام شہادتِ حق اور انذارِعام ہے۔ بطورِدلیل سورہ توبہ کی آیت 122 کا حوالہ دے کے وہ لکھتے ہیں:

’ لوگوں کودین پر قائم رکھنے کے لیے ’ انذار ‘ کی ذمہ داری اب قیامت تک اس امت کے علماء ادا کریں گے۔علماء کی یہ ذمہ داری سورہ توبہ میں اس طرح بیان ہوئی ہے۔۔۔‘(میزان 72)

قرآن غامدی صاحب کے نزدیک قطعی الدلالہ ہے، وہ لکھتے ہیں:
’ دین میں ہر چیز کے رد و قبول کا فیصلہ اس کی آیاتِ بینات ہی کی روشنی میں ہوگا۔ ایمان وعقیدہ کی ہربحث اس سے شروع ہوگی اوراسی پرختم کی جائے گی۔ ہروحی ، ہرالہام ، ہرالقاء، ہرتحقیق اورہر رائے کواس کے تابع قراردیا جائے گا اور اس کے بارے میں یہ حقیقت تسلیم کی جائے گی کہ بوحنیفہؒ و شافعیؒ ، بخاریؒ و مسلمؒ ، اشعری و ماتریدی اور جنیدؒ وشبلیؒ ‘ سب پراس کی حکومت قائم ہے اوراس کے خلاف ان میں سے کسی کی کوئی بھی چیز قبول نہیں کی جاسکتی ۔“ ( میزان۔ ص 25)

اہلِ علم نے جاوید احمد غامدی کی فکر، تحقیق اور تعبیر سے سخت اختلاف کیا ہے۔ کچھ مسائل میں غامدی صاحب کی رائے اکابرین سے یکسر مختلف ہے، جن میں سے چند مسائل کا ذکر کرنا یہاں مناسب ہوگا، مثلََا
1 ۔ غامدی صاحب عیسٰی علیہ السلام کی آمدِ ثانی کو نہیں مانتے کیونکہ ان کی تحقیق کے مطابق وہ وفات پا چکے ہیں۔ (میزان، ص 178)

2۔ مہدی کی آمد سے بھی وہ اختلاف کرتے ہیں۔ بقول ان کے ظہورِ مہدی کی روایتیں محدثانہ تنقید کے معیار پر پوری نہیں اترتیں ۔ اِن میں کچھ ضعیف اورکچھ موضوع ہیں۔ ( میزان،ص 177)

3 ۔ اسلام میں ’ فساد فی الارض‘ اور’ قتلِ نفس ‘ کے علاوہ کسی بھی جرم کی سزا قتل کرنا نہیں ہے۔ (برہان، ص 143)

4 ۔ تصوف اسلام سے متوازی ایک الگ دین ہے۔ ( برہان، ص 181 )
5 ۔ ’ اقامت دین ‘ کے لیے جدوجہد ان کے نزدیک فرائضِ دینی میں ایک اضافہ ہے جس کی بنیاد قرآن و سنت میں نہیں ہے۔ ( برہان۔ ص 169)

6 ۔ غامدی صاحب کے نزدیک قرآن کاہرلفظ قطعی الدلالہ ہے اورقرآن کو اس کے قطعی مفہوم سے پھیرنے کے لئے خود قرآن ہی دلیل بن سکتا ہے۔ حالانکہ مسالک اربعہ کے فقہاء اوراہل حدیث علماء کا اس بات پراتفاق ہے کہ سنت قرآن کے کسی حکم کی تحدید وتخصیص کرسکتی ہے۔

غامدی صاحب نے اپنی طرف سے دلائل بیان کئے ہیں اور اختلاف کرنے والے اہلِ علم نے بھی ان کے نقد میں دلائل کا سہارا لیا ہے۔ عام قاری کا کام یہ ہے کہ دونوں طرف کے دلائل کو بغوردیکھے اور جن کے ہاں دلائل میں وزن محسوس ہو اسے قبول کرلے اور دوسرے فریق کی علمی کاوش کو سراہے اور ان کے خلوص کوشک کی نگاہ سے نہ دیکھیں۔

علم و تحقیق کی راہ آزمائشوں سے پُرہے۔ یہ کام مذہب سے متعلق ہو تو تقلید و روایت کا عامیانہ رجحان جہالت کی آخری سرحدوں کو پارکر جاتا ہے۔ مولانا محمد الیاس کاندھلویؒ، مولانا سید ابو الاعلٰی مودودیؒ اور جاوید احمد غامدی کے فکر وعلم اور فہمِ دین سے سخت اختلاف کیا گیا ۔ یہاں تک کہ یہ اختلاف انتہا پسندی، جارحیت اور تشدد کی صورت اختیار کرگیا۔ اس قسم کے ناقدین کا ایک ذہنی سانچہ بن چکا ہے جس میں جذباتیت کو کافی دخل ہے۔

تہذیب کا تقاضا ہے کہ علم و فکرکے میدان میں کسی کی بات سے آپ اتفاق نہ کرتے ہوں توعلم ودلیل کا ’ اسلحہ ‘ استعمال کرکے ضبط و وسعت قلبی کے ساتھ اپنی بات رکھیں۔ یہی درست رویہ ہے، جس سے اہلیان علم کو گزرنا چاہیے۔ سوال کرنا ، تنقید کرنا زندہ دماغوں کا حق ہے۔ سوالات قائم نہ کرکے،اختلاف نہ کرکے، عقل کو ’ موت ‘ کے حوالے نہیں کرنا چاہیے۔

برطانوی فلسفی ایڈمنڈ برک ؔنے کہا ہے کہ ” جس قوم کے پڑھے لکھے افراد میں بحث و مکالمہ کی روایت ختم ہوجائے، اس قوم کی مثال ایسے شخص کی سی ہے، جو سانس لے کر زندہ تو ہے مگر اس کے اعضاء مفلوج اور بے حرکت ہوچکے ہوں۔ مکالمہ ہی قوموں کی زندگی اور ان کے فکری ارتقاء کی علامت ہے“۔

ہمارے معاشرے میں ایک ہولناک خاموشی چھائی ہے۔ جو تنظیمیں، جماعتیں، ادارے نظریات کی بنیاد پر قائم ہوئے، وہ بھی جمود کا شکار ہیں۔ نئی نسل کے ساتھ ان کا رشتہ عملاََ کٹ چکا ہے۔ تعمیری کام بہت کم ہو رہا ہے البتہ وعظ و تبلیغ اور جذباتی تقریروں کے ذریعے عدم برداشت کی فضا ہموار کی جارہی ہے۔ مخالف کی رائے، ان کا وجود ناقابل برداشت بن چکا ہے۔

کوشش تو یہ ہونی چاہیے کہ دوسروں کی بات سُنیں، صرف سُننے کے لئے نہیں بلکہ اس بات کو سمجھنے کے لیے سُنے۔ خود کلام کریں تو بس جواب دینے کے لیے لب نہ کھولے بلکہ علم اور دلائل سے کام لے کر خوشگوار فضا میں اپنی بات سمجھانے کے لئے کلام کرے۔ مکالمے، مباحثے دوسروں پر فتح حاصل کرنے کے لیے نہ ہوں بلکہ دردِ دل سے پُر، اصلاح و تزکیہ کی نیت سے ہو۔ تب شاید تشدد ، تنفر سے بھرا موجودہ معاشرہ تبدیل ہو۔

اختلافات تو معاشرے کا لازمی جُزہے ، تنوّع عیب نہیں، حُسن ہے۔ زمین وآسمان کی تخلیق، شب وروز کا اختلاف اس بات کا بیّن ثبوت ہے۔ قرآن کے مطالعہ سے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ مذہبی امورات ہوں یا معاشرتی امور، سیاسی مسائل ہوں یا معاشی مسائل اختلاف تو ہر سوسائٹی میں رہے ہیں۔ البتہ اختلافات کے باوجود حسنِ معاشرت کیسے پیدا ہو، دوسری فکر یا رائے سے اختلاف کے علی الرّغم ایک دوسرے کی بات صبر، برداشت اور تحمل سے سننا، اس پرغورکرنا۔ اس شخص یا جماعت کے لیے حسن ظن رکھنا، ان کے سامنے اور پیٹھ پیچھے حق و صواب پر مبنی گفتگو کرنا ۔ یہ وہ متوازن رویہ ہے جس کی فی الوقت مسلمانوں کوضرورت ہے۔

اخلاقیات کا سنہری اصول یہی ہے کہ آپ اپنے لیے وہی پسند کریں جو آپ دوسرے کے لیے پسند کرنا چاہیں گے۔ اس زریں اصول پر عمل کرنے سے انسان اپنی فکر میں بہترین توازن قائم کر سکتا ہے۔ بہترین دانش انسان کے اندر موجود ہوتی ہے اور اندر سے مراد دراصل انسان کی ذات ہے ، اس کا وجدان ہے اور یہی وجدان انسان کیلئے بہترین رہنما ثابت ہوتا ہے۔

مطلق تقلید بھی ایک ایسا عنصر ہے جس کے سبب انسان عصبیت میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ ہمارے ہاں عموماً اس جانب توجہ نہیں دی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے ہماری اخلاقی اقدار اور معاشرتی ترجیحات زبردست بے ترتیبی کا شکار ہو گئی ہیں۔ ہماری فکر جب کسی مخصوص مکتب یا شخصیت تک محدود ہو جائے تو ہم انصاف کے تمام تر تقاضوں کو پس پشت ڈال کر خود کو حق کا اکلوتا علمبردار سمجھ کے اپنے مخالفین پر چڑھ دوڑتے ہیں۔ جس کے باعث اخلاقی زبوں حالی اور معاشرتی فساد بامِ عروج پر پہنچ جاتا ہے کیونکہ انسان اپنے جسم کا زخم تو بھول سکتا، معاف بھی کر سکتا ہے لیکن اپنی روح پر لگا زخم نہیں بھول سکتا۔ یہی چھوٹی سی چنگاری پھر شعلہ بن کے پورے معاشرے کو باہمی انتقامی فضاء کی بھینٹ چڑھا دیتی ہے۔

اصول یہ ہے کہ فکر کو قواعد کا پابند کرنا چاہیے، شخصیات کا نہیں۔ کیونکہ جب شخصیت پر تنقید ہوتی ہے تو پھر اس شخصیت سے متعلق افراد کی فکر میں ایک بھیانک بھونچال رونما ہو جاتا ہے، جو انسانی رویہ میں زبردست تعصب پیدا کرکے انسان کو نہ صرف اخلاقی لحاظ سے پسماندہ کر دیتا ہے بلکہ اس بدخلقی کا خمیازہ پورے معاشرے کو بھگتنا پڑتا ہے۔

شخصیت پر تنقید کوئی معنی نہیں رکھتی۔ شخصیت سے وابستہ نظریات پر تنقید دراصل علم و حکمت کا ابدی حسن ہے۔ انسان ہی نظریات وضع کرتا اور پھر انسان ہی دراصل ان نظریات کو عقیدت و تقدیس کے غلاف میں اوڑھ لیتا ہے۔ کوئی بھی نظریہ یا فکر فی نفسہ مقدس نہیں ہوتے۔ جب انسان کے جذبات متعلق ہوتے ہیں نظریات سے تو نظریہ عقائد کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ تب نظریہ عقیدہ بن جاتا ہے جس کی تقدیس سے ہر انسان بخوبی واقف ہے۔

تقدیس روحانی معاملات میں اکسیرِ راسخ ہے کہ انسان کے روحانی وجود کو تمکنت فراہم کرتی ہے۔ تقدیس کو ہم ایک روحانی ضابطے سے بھی تعبیر کر سکتے ہیں مگر اصل الاصول وہی ہے کہ انسان اپنی فکر میں ہر ممکنہ جھول کو یکسر دور کر دے تاکہ انسان کے اندر دوسرے انسان کی فکر کو قبول کرنے کا نہ صرف ظرف پیدا ہو سکے بلکہ ایک بہترین فکری اخوت کی فضاء بھی قائم ہوجائے۔ انسان کے اس عمل سے پورا معاشرہ فکری لحاظ سے متوازن ہو جائے گا اور جب معاشرہ فکری لحاظ سے متوازن ہو گیا تو گویا انسانی رویہ اخلاقی و سماجی لحاظ سے اوج پر پہنچ گیا۔

مولانا محمد الیاسؒ ، مولانا ابو الاعلٰی مودودیؒ اور جناب جاوید احمد غامدی ہمارے اکابر اور محسن ہیں۔ انہوں نے دین و ملت کی خوب خدمت کی جس کاصلہ انہیں اللہ کے حضورہی ملے گا۔ ان کی عظمت اپنی جگہ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ وہ تینوں انسان ہی ہیں اور ماسوائے رسول علیہ السلام کوئی بھی انسان خطا ونسیان ، نقد و اختلاف سے مبرّا نہیں۔

ہمارا رویہ یہ ہونا چاہیے کہ دلیل و برہان کی کسوٹی پر ہر مفکر کی بات کو پرکھ کر ردّ یا قبول کریں۔ اختلاف ذات سے نہ ہو بلکہ اُن صاحبانِ علم کی رائے یا فکرسے ہو۔ سُوءِ ظن کی جگہ حسنِ ظن کوجگہ دیں گے توہمارے باطن کے بہت سارے مسئلے خود بہ خود حل ہوں گے۔
٭٭٭


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں

ایک تبصرہ برائے “فکری اختلاف ۔۔۔ متوازن رویّہ ( چھٹی اور آخری قسط )”

  1. Suhail Bashir kar Avatar
    Suhail Bashir kar

    بہترین سلسلہ ،ضرورت ہے عمل کی