محترمہ ڈاکٹر حافظہ خولہ علوی اپنے مرحوم و مغفور والد مولانا عبد الوکیل علوی کے بارے میں تاثرات بیان کرتی ہیں
ابو جان کی حیات کی آخری ساعتیں بڑی باسعادت تھیں!!!
مجھے ابو جان کے آخری وقت اور نزع کے عالم کی کیفیات اور تفصیلات معلوم ہوئیں۔ خصوصاً یہ کہ
ان کی کوئی نماز قضا نہیں ہوئی تھی اور
بستر مرگ پر بھی انہوں نے آخری نماز، نماز ظہر کی بروقت ادائیگی کی تھی !!!
وہ مسلسل قرآنِ مجید پڑھتے اور ذکر الٰہی میں مصروف رہے تھے، کلمہ طیبہ پڑھتے رہے تھے!!!
ان کے ماتھے پر پسینہ آیا ہوا تھا!!!
وہ آخر دم تک ہوش و حواس میں رہے تھے!!!
وہ باوضو حالت میں اللہ تعالیٰ کے پاس حاضر ہوئے تھے!!!
ان کا نزع کا وقت اللہ تعالیٰ نے بڑا آسان کر دیا تھا!!!
اور ان کو ” حسن خاتمہ “ نصیب ہوا تھا!!!
تو یہ سب جان کر
میرے رگ و پے میں جیسے ٹھنڈ پڑ گئی!!!
جسم و جاں پرسکون ہو گئے!!!
دل ودماغ پر اطمینان طاری ہو گیا!!!
اللہ اللہ !!! ایسی قابلِ رشک موت!!!
ایسا حسن خاتمہ!!!موت کی ایسی آسانی!!!
اس نے میرے غم و الم کی کیفیت کو گویا راحت وسکون میں تبدیل کر دیا!!!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سردیوں اور جاڑے کے موسم میں جنوری کا مہینہ مجھے بہت اداس کر دیتا ہے۔ کیونکہ اس ماہ میں ہمارے تقریباً سارے بزرگوں کی وفات ہوئی۔ اور وہ شدید سردی اور دھند و کہر کے موسم میں اس دار فانی سے ہمیشہ کے لیے ہمیں داغ مفارقت دے گئے۔
14 جنوری 2014 کو میرے سسر محترم مولانا محمد یوسف ، 11 جنوری 2016ء کو میرے والد صاحب مولانا عبد الوکیل علوی اور 19 جنوری 2019 کو میری ساس محترمہ کی وفات ہوئی۔
اس کے علاوہ 18 دسمبر 1995 کو میرے نانا جان مولانا عبدالرحمن کیلانی، 8 فروری 1988ء کو میری نانی جان محترمہ حمیدہ بیگم ، یکم فروری 2010ء کو آپا عقیلہ (ہماری دوسری نانی جان جن سے نانا جان نے نانی جان کی وفات کے بعد عقد ثانی کیا تھا )، 22 دسمبر 2019ء کو میرے چچا جان محترم عبد الرشید علوی بھی اس دنیا سے رحلت کر گئے تھے۔
والدین کی موت اولاد کے لیے ناقابل تلافی نقصان ہوتا ہے۔ ہمارے لیے بھی یہ بہت بڑا سانحہ ہے لیکن اللہ تعالیٰ کا فضل وکرم اور اس کی رحمت کی امید نہایت حوصلہ افزا ثابت ہوتی ہے، دل کی ڈھارس بندھاتی ہے اور عملی زندگی کے امتحان میں ان کے نقش قدم پر چلنے کی ترغیب دلاتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرے پیارے ابو جان مولانا عبد الوکیل علوی جماعت اسلامی کے علمی و تحقیقی ” ادارہ معارفِ اسلامی،“ منصورہ، لاہور کے سابق سینئر ریسرچ سکالر تھے۔ وہ جماعتِ اسلامی کے مخلص کارکن اور مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کے دیرینہ رفیق تھے۔
انہوں نے ان کی کئی تصانیف پر تنقیح و تحقیق کے کام کیے تھے یعنی لوازمات ( انہیں متعلّقات یا ترتیب و تنظیم بھی کہہ سکتے ہیں) مثلاً تفہیم الاحادیث ، سیرت سرورِ عالم، تذکرہ انبیاء ورسل، اسماء الحسنٰی وغیرہ۔
خصوصاً تفہیم الاحادیث کا آٹھ جلدوں میں کم و بیش چار ہزار صفحات پر پھیلا ہوا احادیثِ رسول کا عالی شان ذخیرہ جس کی جمع و ترتیب اور تخریج کا عظیم الشان کام تقریباً بارہ تیرہ برس کی جہدِ مسلسل کے بعد ابا جان نے قرطاسِ ابیض پر نقش کیا جو ان کی سعی پیہم اور مستقل مزاجی کی نہایت روشن مثال ہے۔
انہوں نے ساری زندگی قرآن و حدیث پڑھنے اور لکھنے لکھانے میں گزاری۔ وہ جماعتِ اسلامی سے تا حیات وابستہ رہے تھے۔
وہ معروف مفسرِ قرآن، صاحبِ ” تیسیر القرآن “ مولانا عبد الرحمٰن کیلانی کے سب سے بڑے داماد تھے، حکیم عبد اللہ آف جہانیاں کے بھانجے تھے اور خود بھی قرآن و سنت کے عالم باعمل تھے۔
تنقیح و تحقیق کے میدان میں وہ بڑے فرض شناس اور کہنہ مشق محقق اور نہایت محنتی و مستقل مزاج انسان تھے۔ وقت کے بہت پابند تھے اور آفس سمیت ہر جگہ سدا وقت پر حاضر ہوتے تھے۔
وہ قلم کے مزدور تھے اور انہوں نے قلم کی مزدوری کرتے زندگی بسر کر دی تھی۔ ان کے پاس قلم و قرطاس کے سوا کچھ نہ تھا۔ ان کا سفرِ زندگی بامقصد اور لہو ولعب سے پاک تھا۔ وہ زہد و ورع اور تقویٰ کی مثال تھے۔
مولانا عطاء اللّٰہ حنیف صاحب نے ان کی صلاحیتوں کو بھانپ کر انہیں جماعتِ اسلامی میں شمولیت اور مولانا مودودی سے منسلک ہونے کا مشورہ دیا تھا۔
” اس طرح کا علمی و تحقیقی کام آپ صرف جماعتِ اسلامی میں شامل ہو کر سر انجام دے سکتے ہیں۔“ انہوں نے ابو جان کی رہنمائی کی تھی۔
” میں نے جماعت سے جو عہدِ وفا جوانی میں اُستوار کیا تھا، تا دمِ آخریں اسے نبھایا تھا۔“ ابو جان نے اپنے عمل سے ثابت کیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اباجان 1988ء سے عارضہ قلب میں مبتلا تھے۔ 1994ء میں ان کا پہلا اور 2005 ء میں ان کا دوسرا بائی پاس آپریشن ہوا تھا۔ اور اب ڈاکٹر تیسرا بائی پاس آپریشن تجویز کر چکے تھے لیکن ان کی کمزوری اور بزرگی کی وجہ سے اس کو عملی جامہ نہیں پہنایا جاسکتا تھا۔ البتہ علاج معالجہ اور ادویات کا استعمال مسلسل جاری تھا۔
چند سال قبل وہ ڈینگی بخار کی وجہ سے کافی کمزور ہو گئے تھے لیکن لکھنے پڑھنے کا کام وہ مسلسل کرتے رہے تھے اور ادارہ میں اپنی خدمات سر انجام دیتے رہے تھے۔ وہ قلم کی مزدوری چھوڑنے کے لیے تیار نہ تھے۔ بالآخر ضعفِ صحت کی وجہ سے گزشتہ تقریباً دو سال سے انہوں نے ادارہ سے (تینتالیس برس کی ملازمت کی مدت مکمل کرنے کے بعد) ریٹائرمنٹ لے لی تھی کہ اب ان سے صحیح طرح کام نہیں ہو پاتا تھا اور وہ صرف رزقِ حلال کے خُو گر تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
11 جنوری بروز سوموار کو رات کی سیاہ دھاری، صبح کی سفید دھاری سے الگ ہو چکی تھی اور میں ناشتے سے پہلے معمول کے کاموں میں مشغول تھی۔
” ابو جی کی طبیعت کافی خراب ہے، انہیں سانس لینے میں کافی دقت ہو رہی ہے، اس لیے وہ صبح تقریباً چار پانچ بجے سے جناح ہاسپٹل میں ایڈمٹ ہیں۔“اچانک موبائل پر میری بڑی آپی کا میسج آیا۔
” انسان کی زندگی ، اس کی طاقت اور بساط کا عالم یہ ہے کہ وہ ایک سانس کے لیے بھی ذاتِ باری تعالیٰ کا محتاج ہے۔ اور اگر سانس لینے میں اٹک جائے تو وہ موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا ہو جاتاہے۔“ میں نے سوچا۔
میرا دل بے حد پریشان ہوگیا کیونکہ ابو جان بدھ سے کافی بیمار تھے۔ میں نے قاسم بھائی کو کال کی لیکن انہوں نے فون نہ اٹھایا۔ مجھے مزید پریشانی لاحق ہو گئی اور میں نے ابو بکر بھائی کو فون کیا۔
انہوں نے تھوڑی دیر بعد فون اٹھایا۔
” ابو جی جناح ہاسپٹل میں ایمرجنسی میں داخل ہیں۔ آپ ان کے لیے دعا کریں۔“ انہوں نے بتایا۔
” ان کو اس وقت کیا مسئلہ ہے اور ڈاکٹر کس چیز کا علاج کر رہے ہیں؟“ میں نے پوچھا۔
” ڈاکٹر بلغم کے اخراج کی مسلسل کوشش کر رہے ہیں، کھانسی زیادہ آنے کی وجہ سے ان کی سانس اکھڑنے لگتی ہے، بی پی بہت زیادہ ہائی ہے۔“ انہوں نے جواب دیا
” کیا ابو جان سے میری بات ہو سکتی ہے؟“ میں نے مزید پوچھا۔
” اس وقت تو ان کا بات کرنا مشکل ہے۔“ اس نے جواب دیا
اس کے بعد میں نے کال ختم کر دی۔ ظہر تک میں اپنے ادارہ میں تدریسی و انتظامی ذمہ داریوں میں مصروف رہی لیکن مجھے ابو جان کا خیال آتا رہا۔ اور میں ان کے لیے دعائیں کرتی رہی۔
ظہر کے بعد میں نے پھر دونوں بھائیوں کو باری باری فون کیا لیکن انہوں نے فون نہ اٹھایا۔
” ابو جی کی طبیعت بہت زیادہ خراب ہے، دعا کریں۔“ تقریباً سوا دو بجے بڑی باجی کا فون آیا۔
میں نے ابو بکر بھائی کو فون کیا جو ابو جان کے پاس موجود تھے۔
’’آپ بس دعا کریں، ابو جی کی طبیعت بہت زیادہ خراب ہے۔“ اس نے روتے ہوئے کہا اور فوراً فون بند کر دیا۔
” شاید ابو جان کا آخری وقت آن پہنچا ہے۔“ ابوبکر بھائی کے اس بری طرح رونے سے میں کھٹک گئی۔
فوراً وضو کر کے دو رکعت نماز ادا کر کے رورو کر ان کے حسنِ خاتمہ اور نزع کے وقت کی آسانی کے لیے دعائیں کرنے لگی۔
” ابو جان اللہ تعالیٰ کو پیارے ہو چکے ہیں۔“ تھوڑی دیر بعد مجھے ان کی وفات کی خبر بڑی باجی سے موبائل میسج کے ذریعے موصول ہو گئی۔ شاید فون پر خود بتانے کی سکت نہ رہی تھی!!!
ابو جان خالقِ حقیقی کے بلاوے پر لبیک کہہ چکے تھے۔ انا للہ وانا الیہ راجون .
میرا دل جیسے کسی نے مٹھی میں لے لیا ہو!!!
میری آنکھوں سے بڑی سرعت سے آنسو ٹپ ٹپ گرنے لگے!!!
میری زبان سے ان کی مغفرت کے لیے مسنون دعائیں جاری ہو گئیں!!!
” اللھم اغفرلہ وارحمہ ۔۔۔“
اللہ کی مشیت یہی ہے کہ
’’کل من علیہا فان ‘‘ کہ ’’ اس دھرتی پر آباد ہر ذی روح کو فنا ہونا ہے‘‘۔
لیکن ’’ ایک عالِم کی موت عالَم کی موت ہوتی ہے۔‘‘
ع گلِ آرزو کی جو باس تھے، وہی لوگ ہم سے بچھڑ گئے
میں نے بدقت اپنی ساس اور جٹھانی کو ابو جان کی وفات کی خبر سے آگاہ کیا۔
لیکن ۔۔۔ اب مسئلہ یہ بن گیا تھا کہ میرے رفیقِ حیات ڈاکٹر محسن صاحب اس وقت گھر میں موجود نہیں تھے!!!
اور ان کا موبائل فون بند ہونے کی وجہ سے ان سے رابطہ ممکن نہیں ہو پا رہا تھا!!!
” الانتظار اشد من الموت “ کا محاورہ یاد آرہا تھا کہ۔۔۔
انتظار کی گھڑیاں بہت دشوار ہو گئی تھیں!!!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گزشتہ چند روز سے اور خصوصاً آخری رات اور آخری دن سانس اکھڑنے کی وجہ سے ان کے لیے بڑی مشکل رہی تھی لیکن ابوبکر بھائی کے بقول ” اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے ان کا نزع کا مشکل ترین وقت بڑا آسان کر دیا تھا۔“ فللہ الحمد
” اللہ تعالیٰ! ہمارے لیے بھی اس کٹھن وقت کو آسان فرما دینا۔ ‘‘
’’اے اللہ! ہمارے لیے موت کی بے ہوشیوں اور تکلیفوں کو آسان کر دینا‘‘۔ (آمین)
آخری وقت میں ابوبکر بھائی ابو جان کے پاس تھے۔ انہیں ابو جان کے نزع کے وقت کا اندازہ تک نہ ہوا تھا۔ ان کے ہاتھوں میں ابو جان کے ہاتھ تھے، ان کے قریب انہوں نے آخری ہچکی لی تھی اور دم توڑا تھا۔
موت نے آگے بڑھ کر ان کو اپنی آغوش میں لے لیا تھا۔ اللہ جل شانہ ان کے پَل پَل سے باخبر تھا اور ابوبکر بھائی ان کا سایہ بنے ہوئے بھی بے خبر تھے۔ اور وہ باوضو حالت میں کلمہ پڑھتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہو چکے تھے!!!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں ڈاکٹر محسن صاحب کو وقفے وقفے سے کال کر رہی تھی لیکن ان کا موبائل بند تھا۔ اور مجھے اضطراب میں مبتلا کررہا تھا۔
عصر کے بعد ساڑھے تین بجے بڑی مشکل سے ان سے رابطہ ہوا تو وہ ایک جنازہ پڑھانے دوسرے شہر گئے ہوئے تھے۔ انہوں نے جنازہ کے فوراً بعد جلدی سے واپسی کا سفر اختیار کیا۔ ان کے گھر پہنچتے ہی مغرب سے چند منٹ قبل لاہور کے لیے ہماری روانگی ہو گئی۔
میں نے سوموار کا مسنون نفلی روزہ رکھا ہوا تھا۔ راستے میں، میں نے روزہ افطار کیا۔ ” دل چاہتا ہے کہ پر لگا کر اپنے باپ کی میت کے پاس پہنچ جاؤں۔“ میں نے بچوں سے کہا جو مجھے روتے اور دعائیں کرتے ہوئے دیکھ کر کبھی پریشان ہوتے تھے اور کبھی دعائیں مانگنے لگ جاتے تھے۔ ڈاکٹر محسن صاحب نے انہیں میت کے گھر کے آداب بتائے، کچھ مزید باتیں سمجھائیں اور جنازہ کی مسنون دعائیں دہرائی کروائیں۔
سارا راستہ ہم روتے اور ابو جان کے لیے دعائیں کرتے رہے۔ ڈرائیور نے گاڑی تیز چلائی لیکن راستے میں کافی رش تھا جس کی وجہ سے ہم سات سوا سات بجےگھر پہنچے۔
” گھر کے باہر ٹینٹ لگے ہوئے تھے۔ اور اندر باہر رش ہی رش تھا۔ خلقت کا تعزیت کے لیے آنا جانا لگا ہوا تھا۔“ میں نے کبھی اس منظر کے بارے میں گمان تک نہ کیا تھا۔
میں گھر کے اندر داخل ہوئی تو میں نے دیکھا کہ ابو جان کا جسدِ خاکی ڈرائنگ روم میں رکھا ہوا تھا (اور ان کی روح یقیناً جنت الفردوس میں پہنچ چکی تھی ان شاء اللہ)
کمرہ خواتین سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ میں آگے بڑھ کر اپنی امی جان (محترمہ پروفیسر ثریا بتول علوی صاحبہ) سے ملی اور پھر میں نے پُر نم آنکھوں کے ساتھ ابو جان کی میت کے قریب ہو کر چادر ہٹا کر ان کا چہرہ دیکھا۔ وہ دنیا سے جا چکے تھے لیکن ان کا نورانی چہرہ ان کی صالح زندگی کے اختتام کی داستان سنا رہا تھا!!!
میں ان کے پلنگ کی پٹی کے ساتھ سر ٹِکا کر روپڑی۔ مجھے یوں لگ رہا تھا کہ وہ سو رہےہیں اور ابھی اُٹھ جائیں گے۔
” اس شجرِ سایہ دار کی گھنی چھاؤں سے ہم محروم ہو چکے ہیں۔“ یہ خیال میرے دل کو کاٹے جا رہا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بعد میں جب مجھے ابا جان کی آخری رات اور آخری دن کی ساری تفصیلات معلوم ہوئیں۔ چھوٹی بھابھی نے اس وقت مجھے یہ باتیں مختصراً بتائیں اور پھر بعد میں ابوبکر بھائی نے ابو جان کی بیماری کی تفصیلات جزئیات کے ساتھ مجھے بتائیں۔
” ابو جی کو صبح چار بجے ہم دونوں بھائی پہلے قریبی پرائیویٹ ہسپتال ” منصورہ ہسپتال “ لے گئے تھے۔ انہیں چار پانچ دن سے نزلہ زکام لگا ہوا تھا، سینے میں بلغم جمی ہوئی تھی، جس کی وجہ سے انہیں کھانسی بہت زیادہ آتی تھی۔ یک دم کھانسی کا دورہ پڑجاتا تھا اور کھانس کھانس کر تنفس بے ترتیب ہو جاتا تھا اور ان کی سانس اکھڑنے لگتی تھی، بی پی بھی ہائی ہو جاتا تھا اور بڑی دیر بعد ان کی طبیعت بحال ہوتی تھی مگر کچھ دیر بعد دوبارہ یہی سلسلہ شروع ہو جاتا تھا۔“ ابوبکر بھائی نے گفتگو کی ابتدا کی۔
” شدید تکلیف کے باوجود وہ صبر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے اجر کے امیدوار رہتے تھےاور دعائیں پڑھتے رہتے تھے۔ وہ ’ صبرِ جمیل ‘ کی زندہ مثال تھے۔“ امی جان نے بتایا۔
” گزشتہ رات کو جب ان کی طبیعت زیادہ بگڑ گئی تو ہم نے ڈاکٹر کو گھر بلا لیا۔ جس نے انجیکشن وغیرہ لگایا۔
’ پریشانی والی کوئی بات نہیں۔ کچھ دیر میں طبیعت ٹھیک ہو جائے گی۔ان شاءاللہ۔“ اس نے تسلی دی۔
” ڈاکٹر کے جانے کے بعد آپ کے ابو جان کی طبیعت کچھ دیر تو سنبھلی رہی لیکن پھر پہلے سے بھی زیادہ بگڑ گئی۔
اس رات ان کی طبعت جتنی خراب ہوگئی تھی، پہلے کبھی طبعت اتنی زیادہ خراب نہیں ہوئی تھی۔“ والدہ محترمہ نے بتایا۔
سب نے فیصلہ کیا کہ انہیں ہاسپٹل لے جائیں۔ لیکن وہ ہاسپٹل نہیں جانا چاہتے تھے۔
’’ میں گھر میں ہی ٹھیک ہوں۔ مجھے ہسپتال نہ لے کر جائیں۔“ وہ کہتے تھے۔
لیکن سب کے سمجھانے پر وہ آخر کار ہسپتال جانے کے لیے آمادہ ہو گئے تھے کیونکہ گھر والوں سے بھی ان کی تکلیف دیکھی اور برداشت نہیں کی جارہی تھی۔ اتنی تکلیف میں بھی ان کی زبان ذکرِ الٰہی سے تر رہتی تھی۔ بوقتِ ضرورت سرہانے رکھے مٹی کے ڈھیلے سے وہ خود تیمم کر لیا کرتے تھے۔ سکول لائف سے شروع کی گئی نمازِ تہجد کی عادت انہوں نے زندگی کے آخری دنوں تک نبھائی تھی۔
امی جان ساری رات جاگنے کے بعد اب کچھ دیر کے لیے لیٹ گئی تھیں۔
” اُٹھ جائیں، میں جا رہا ہوں۔ “ ابو جان نے انہیں چار بجے کہا۔
میرے والدین ایک دوسرے کے کتنے مزاج آشنا تھے کہ
ابو جان نے جاتے وقت امی جان کو جگا کر تہجد پڑھنے اور اپنے جانے کے بارے میں بتایا!!!
اور امی جان نے ان کو ان کے دین، ایمان اور آخری عمل کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کرکے ان کو الوداع کر دیا!!!
امی جان فوراً اٹھ گئیں اور سرہانے رکھی آب زمزم کی چھوٹی بوتل پکڑی اور کچن میں جاکر آبِ زمزم نیم گرم کیا۔ اور انہیں آبِ زمزم پلانے کی کوشش کی لیکن انہوں نے نہ پیا۔
” آپ تھوڑا سا آبِ مزم پی لیں۔“ امی جان نے اصرار سے کہا۔
” نہیں۔“ ابو جان آبِ زمزم پینے کے لیے آمادہ نہ تھے۔ بمشکل امی جان نے انہیں ایک چمچ پلایا۔ پھر قاسم بھائی نے ایک چمچ پلایا پھر ان کے انکار کے باوجود اصرار کر کے دونوں نے انہیں پانچ چمچ پلا دیے۔ ” بس، بس“ وہ مسلسل کہہ رہے تھے۔
” بس اب میرا دانہ پانی ختم ہو گیا ہے۔“ پانچویں چمچ کے بعد انہوں نے مزید آبِ زمزم نہ پیا اور کہنے لگے۔
( اور واقعی یہ ان کی آخری خوراک تھی کہ آبِ زمزم کھانا پینا سب کچھ ہے۔ اس کے بعد وہ انجیکشنز اور ڈرپوں پر رہے تھے )
قاسم بھائی نے پونے پانچ بجے ڈرائیور کو فون کرکے بلایا۔ ابوبکر بھائی بھی ساتھ جانے کے لیے تیار ہو گئے تھے۔
” یا اللہ ! اب میرا فیصلہ کر دینا۔“ گھر سے نکلنے سے پہلے انہوں نے آخری بات یہ کی۔
( اور اللہ رب العزت نے ان کی دعا قبول کرتے ہوئے چند گھنٹے بعد ان کا احسن انداز میں فیصلہ فرمادیا )
درد اتنا تھا کہ رات دل وحشی نے
ہر رگ جاں سے الجھنا چاہا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قاسم بھائی اور ابوبکر بھائی پہلے انہیں ’ منصورہ ہسپتال ‘ لے کرگئے جہاں انہیں داخل کر لیا گیا۔
” آپ ان کو جناح ہاسپٹل لے جائیں۔ یہ دل کے مریض بھی ہیں، وہاں اس وقت متعلقہ ڈاکٹر موجود ہوں گے۔‘“ کچھ دیر بعد ڈاکٹروں نے جواب دیتے ہوئے کہہ دیا۔
چنانچہ دونوں بھائی ایمبولینس میں ابو جان کو جناح ہسپتال لے گئے۔ وہاں ڈاکٹروں نے انہیں فوراً ایمرجنسی میں داخل کر لیا اور ٹریٹمنٹ دی، انہیں ڈرپ لگا دی اور سانس کی بحالی کے لیے نیبلائزر سے مسلسل نیبلائزر کرنے لگے۔ ای سی جی مشین لگا کر اس سے دل کی دھڑکنیں چیک کرتے رہے۔ مختلف ڈاکٹرز وقتاً فوقتاً ان کا چیک اپ کر رہے تھے اور انہیں فوری اور مکمل ٹریٹمنٹ دے رہے تھے جیسے ایمرجنسی والوں کا طریقہ ہوتا ہے۔
اس دوران قاسم بھائی ، ابوبکر بھائی ، قاسم بھائی کا ملازم منشاء بھائی اور ڈرائیور عبدالرزاق بھائی سب ہسپتال میں موجود تھے، عیادت کے لیے بھی چند لوگ آئے ہوئے تھے۔ ایمرجنسی کے اندر صرف ایک فرد کو ابا جان کے پاس رہنے کی اجازت تھی۔ قاسم بھائی اور ابوبکر بھائی ان کے پاس باری باری موجود رہتے تھے۔
ابو جان کی زبان اور ہونٹ مسلسل دھیرے دھیرے حرکت کر رہے تھے۔ وہ لگاتار اذکار اور دعائیں پڑھ رہے تھے۔ ساری زندگی کی عادات نے فطرتِ ثانیہ بن کر مرتے دم تک وفا نبھائی تھی۔ وہ زندگی میں زہد و ورع اور تقویٰ کی مثال تھے تو موت کے خاموش قدموں کے قریب بھی ان کی یہی روٹین زندہ تھی۔
ڈاکٹر مسلسل بلغم کے اخراج کی کوششوں میں مصروف تھے۔ ہاسپٹل میں دونوں بھائیوں کو سب بہن بھائیوں کے وقفےوقفے سے فون آرہے تھے۔ سب ابو جان سے بات کرنا چاہتے تھے لیکن ایمرجنسی میں ہونے کی وجہ سے کسی کی بھی ان سے بات نہیں ہو پائی۔ دراصل ڈاکٹر اس وقت واضح صورتحال نہیں بتا رہے تھے۔
جدہ سے عبد الجلیل حسن بھائی ، بھابھی اور ریاض سے چھوٹی بہن ، دبئی سے سب سے بڑی باجی ، کراچی سے آپی ، اسلام آباد سے چھوٹی بہن اور میں اوکاڑہ سے فون کرکے خیریت دریافت کر رہی تھیں اور ابو جان سے بات کرنا چاہتی تھیں۔
پردیس میں مقیم سب بہن بھائی پریشان تھے۔
” خدانخواستہ اگر ابو جی کی طبیعت زیادہ سیریس ہے تو ہم فوراً سیٹ بک کروالیں اور لاہور آجائیں۔“ سب پوچھ رہے تھے لیکن ڈاکٹر واضح طور پر کچھ نہیں بتا رہے تھے۔
ابا جان ہوش میں تھے اور جزع و فرع کرنے کے بجائے ایک سچے ولی اللہ کا طرزِ عمل اختیار کرتے ہوئے مسلسل اذکار و ادعیہ مسنونہ پڑھ رہے تھے۔ ’’سبحان اللہ ‘‘
مومن کا معاملہ بھی عجیب ہے۔ اگر اسے تکلیف پہنچے اور وہ اس پر صبر کرے تو اس کے لیے اجرِ کثیر ہے اور اگر کوئی نعمت ملنے پر وہ شکر کرتے تو بھی اس کے لیے اجر ہی اجر ہے!!!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج سے تقریباً پونے دو سال پہلے جون 2014ء میں رمضان سے پہلے ابو جان کی طبیعت بہت زیادہ خراب ہو گئی تھی۔ اتنی زیادہ ۔۔۔ کہ بظاہر ان کی زندگی کی امید نظر نہیں آرہی تھی۔ چنانچہ سب بہن بھائی قرب وجوار سے ابو جان کے پاس آگئے تھے۔
ہم نو بہن بھائیوں میں سے اس وقت آٹھ بہن بھائی اکٹھے ہو گئے تھے۔ لیکن جس ذی روح کی اللہ تعالیٰ نے جتنی زندگی لکھی ہو، اس نے اتنی سانسیں پوری کرنی ہوتی ہیں! اس وقت ابوجان کا جانے کا وقت نہیں لکھا ہوا تھا، چنانچہ انہوں نے زندگی کے تقریباً پونے دو سال مزید بسر کیے۔
ہماری ایک بہن نے بعد میں والدہ سے ابو جان کی طبیعت کی خرابی کی اطلاع نہ دینے کا شکوہ کیا تھا۔
” میں پہلے بھی کم ہی کبھی آپ کے ابوجان کی طبیعت کی خرابی سے آپ لوگوں کو آگاہ کرتی تھی تاکہ بیٹے بیٹیاں اپنے گھروں میں پریشان نہ ہوں۔ اس لیے آج بھی میں نے کسی کو آپ کے ابو جان کی طبیعت کی خرابی کے بارے میں نہیں بتایا تھا۔“ امی جان نے بعد میں ایک بیٹی کے شکوے کے جواب میں کہا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بارہ بجے کے بعد ابو جان کی حالت سنبھلنی شروع ہو گئی۔ سانس نسبتاً بحال ہو گیا۔ بی پی بھی بہتر ہو گیا۔
” کچھ دیر بعد ہم پیشنٹ کو ڈسچارج کر دیں گے۔“ ڈاکٹروں نے تب چیک کرکے کہا۔
ابو جان اول وقت میں نماز پڑھنے کے عادی تھے لیکن آج انہوں نے ہاسپٹل سے چھٹی کا انتظار کیا کہ اب وہ گھر جا کر نمازِ ظہر ادا کریں گے لیکن ڈاکٹروں نے پھر انہیں جلدی چھٹی نہ دی۔
” بیٹا ! مجھے وضو کروا دو، میں نے نماز پڑھنی ہے۔“ ابوجی نے تقریباً ڈیڑھ بجے ابوبکر بھائی سے کہا۔
ابوبکر بھائی نے انہیں وضو کروانے کی بجائے پاک مٹی کا ڈھیلا لا کر اس سے تیمم کروا دیا۔ پھر ابا جان نے لیٹے لیٹے اشاروں سے نماز ادا کرنا شروع کر دی۔ اتنی دیر میں ڈاکٹر چیک کرنے آگیا۔
” ماشاء اللہ ! یہ اتنے بوڑھے اور کمزور ہیں اور اتنی تکلیف کے باوجود نماز کی ادائیگی کر رہے ہیں۔“ ابا جان کو نماز پڑھتے دیکھ کر وہ متاثر ہوا۔
نماز کے بعد ڈاکٹر چیک کرکے چلا گیا۔
دیگر سنیئر، جونیئر ڈاکٹر اور نرسیں وغیرہ ایمرجنسی میں اپنی اپنی ڈیوٹی پر موجود تھے۔
پَل پَل لمحے گزرتے رہے، گھر والے فون کرتے رہے، سب خیریت پوچھتے رہے۔ دعاؤں کے سلسلے چلتے رہے کہ
” یا اللہ! ہمارے ابو جی کو ایمان والی زندگی اور صحت و تندرستی عطا فرما۔“
” ڈاکٹر محسن صاحب کے گھر آنے کے بعد میں آج لاہور ابا جان کی خیریت پوچھنے ضرور جاؤں گی اور وہاں تین چاردن رہوں گی تاکہ اس وقت امی جان کے پاس ایک بیٹی تو مستقل موجود ہو۔“ میرا اوکاڑہ سے لاہور جانے کا پختہ ارادہ بن چکا تھا۔
لیکن تقدیر غالب آجاتی ہے، مقدر میں لکھا ہوا پورا ہو جاتا ہے اور انسانوں کی منصوبہ بندی دھری کی دھری رہ جاتی ہے۔
اَب ابو جان کا سانس کافی بحال تھا۔ دل کی دھڑکنیں ٹھیک تھیں۔
” پیشنٹ کی حالت اَب زیادہ بہتر ہو رہی ہے۔“ ڈاکٹر مزید مطمئن تھے۔
لیکن شمع تو گُل ہونے سے پہلے ٹمٹما رہی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نمازِ ظہر کی ادائیگی کے بعد ابو جان اذکار اور دعائیں پڑھ رہے تھے۔ ابوبکر بھائی نے ان کا ایک ہاتھ مسلسل تھاما ہوا تھا۔
اچانک اسے محسوس ہوا کہ وہ شاید کچھ کہنا چاہتے ہیں۔ اس نے اندازے سے انہیں کروٹ بدلوادی لیکن اس نے دیکھا کہ وہ غیر مطمئن محسوس ہو رہے تھے۔ اس نے انہیں اب بٹھا دیا لیکن وہ ہنوز بے چین محسوس ہو رہے تھے۔ اس نے انہیں دوبارہ سیدھا لٹا دیا۔
پھر ابا جان نے اس کا ہاتھ زور سے تھام لیا۔ اس نے سمجھا کہ وہ شاید تسلی چاہتے ہیں۔ اس نے بھی ان کا ہاتھ دبا کر انہیں حوصلہ دیا۔ دوسری اور پھر تیسری دفعہ بھی ایسے ہی ہوا۔ اس کے بعد اس کی نگاہ ان کے چہرے پرپڑی۔
ابو جان کے لب ہل رہے تھے اور وہ کچھ پڑھ رہے تھے۔ پھر انہوں نے زور کی ایک ہچکی لی اور اس کے بعد ان کی گردن ڈھلک گئی۔ اس ہچکی نے ابوبکر بھائی کا دل تڑپا کر رکھ دیا اور جیسے ان کی جان نکل گئی ہو!!!
انہوں نے گھبرا کر ڈیوٹی پر موجود ڈاکٹر کو آواز دی۔ ان کی بدحواسی دیکھ کر ڈیوٹی ڈاکٹر کے ساتھ سینئر لیڈی ڈاکٹر بھی بھاگی چلی آئی۔ وہ آتے ہی ابا جان کو دیکھ کر پریشان ہو کر کہنے لگی کہ
” انہیں کیا ہو گیا ہے؟ انہیں کیا ہو گیا ہے؟“
اور پھر فوراً ای سی جی کرنے والے کو آواز دی۔ وہ جلدی سے آگیا اور فوراً ای سی جی کرنے لگا۔
ای سی جی کا لفظ سنتے ہی I.C.U وارڈ کے سارے ڈاکٹر سیکنڈوں میں ابا جان کے اردگرد اکھٹے ہو گئے۔
وہ ابا جان کو مصنوعی سانس دینے اور دل کی Pumping کی کوشش کرنے لگے لیکن ان کی ساری دردوں کے درماں ہو چکے تھے۔ باہر سے قاسم بھائی اور دیگر لوگ بھی اندر آگئے۔ ای سی جی مشین پر ان کے دل کی دھڑکنیں مدھم ہوتے ہوتے بالکل معدوم ہوتی چلی گئیں!!!
جب دل کی لائن سیدھی ہو جائے تو پھر زندگی دَم توڑ دیتی ہے!!!
’’ انا للہ وانا الیہ راجعون ‘‘۔
موت سے پہلے جو مصروفِ تکلم تھا ابھی
لمحہ بھر کے بعد وہ اک سازِ بے آواز تھا
( بعد میں جب ہم نے آخری ای سی جی رپورٹ دیکھی جو ان کی وفات کے بعد ان کی ٹانگوں سے لپٹی ہوئی گھر آئی تھی تو ہمارے دل مٹھی میں آگئے تھے۔ دل کی لکیر کو سیدھا دیکھ کر ہمارے دل تڑپ گئے تھے )۔
ابوبکر بھائی نے ڈاکٹر کو مصروف چھوڑ کو فوراً باجی کو روتے ہوئے فون کر دیا کہ
’’ دعا کریں، ابا جان کی طبیعت بہت زیادہ خراب ہے۔ اب انہیں صرف دعاؤں کی ضرورت ہے‘‘۔
باجی نے سب بہن بھائیوں کو فوراً فون کر دیا۔ میں یہ سن کر وضو کرکے سجدہ ریز ہو گئی اور باقی سب بہن بھائیوں نے بھی اپنی اپنی جگہ دعا کے لیے دستِ طلب دراز کردیے۔
اُدھر ہاسپٹل میں قاسم بھائی ڈاکٹروں سے کہنے لگے کہ
’’ بس کر دیں۔ انہیں تکلیف دینے کی ضرورت نہیں۔ وہ اللہ تعالیٰ کے پاس جا چکے ہیں۔‘‘
” پیشنٹ کا انتقال ہو چکا ہے۔“ ڈاکٹروں نے اپنی تسلی کرکے ان کی موت کا اعلان کیا۔
میڈیا کے دور میں منٹوں میں ان کی وفات کی خبر ہر سُو پھیل گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ یکم جنوری 1940ء کو پیدا ہوئے تھے اور گیارہ جنوری 2016ء/ 30ربیع الاول 1437ھ کو اس فانی دنیا سے چھہتر سال کی بہاریں (اور گیارہ دن ) گزار کر رخصت ہو گئے تھے۔
میں نے ان کی وفات کی خبر ملنے کے بعد اپنی والدہ کو فون کیا۔
” امّی جان! آپ کی طبعت کیسی ہے! آپ ٹھیک ہیں؟“ میں نے ان سے بات کی۔ مجھے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ اب ان سے کیا اور کس طرح بات کروں؟
” بس! اب کہانی ختم ہو گئی ہے۔“ انہوں نے ایک وہ جملہ بولا جو ہمیشہ کے لیے میرے دل و دماغ پر نقش ہو گیا۔
میرے پاس اس کے بعد کہنے کے لیے کیا رہ گیا تھا؟؟؟
سوائے ” اللھم اغفرلہ وارحمہ ۔۔۔“ کہنے کے۔ پھر میں نے فون بند کر دیا۔
ابا جان نے 28 سال دل کی طویل بیماری کاٹی تھی۔ انہیں گردوں کا مسئلہ بھی لاحق تھا، بی پی ہائی ہونے کی تکلیف اس پر مستزاد تھی۔ آخری ہفتہ انہوں نے بہت تکلیف برداشت کی تھی لیکن کبھی ناشکری کا کوئی کلمہ زبان سے نہیں نکالا تھا اور ہمیشہ صابر رہے تھے۔
آج اللہ رحمان و رحیم نے اپنی مہربانی سے ان کا نزع کا وقت اتنا آسان کر دیا تھا کہ ان کا ہاتھ ابوبکر بھائی کے ہاتھوں میں ہونے کے باوجود بھائی کو پتہ تک نہیں چلا تھا۔ صرف آخری ہچکی نے انہیں خبردار کیا تھا اور جاتے ہوئے بھی انہوں نے پڑھتے ہوئے ہی دنیا کو الوداع کیا تھا۔
” اللہ تعالیٰ ! ہمیں ان کے نقشِ قدم پر چلنے والا بنانا اور ہمیں ان کے لیے صدقہ جاریہ بنانا۔ آمین“ میں رب تعالیٰ سے دعا کرتی ہوں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جدہ میں مقیم بڑے بھائی حسن بھائی جان نے بعد میں بتایا کہ
” ایک دوروز سے میری طبیعت میں بڑی بے چینی تھی، کسی کام میں ان کا دل نہیں لگ رہا تھا، نیند بھی صحیح طرح نہیں آرہی تھی۔ پیر کو جب مجھے ابو جان کی ناسازی طبع کی اطلاع ملی تو اپنی طبیعت کی بے قراری کی وجہ فوراً سمجھ آگئی۔
جس وقت ابا جان کی طبعیت زیادہ خراب ہونے کا معلوم ہوا تھا تو فوراً جدہ ائیرپورٹ سے لاہور کے لیے سیٹ کا پتہ کیا لیکن پھر سیٹ نہ ملنے کی بنا پر میں مکہ میں حرم شریف چلا گیا تھا اور وہاں خانہ کعبہ کا طواف کر رہا تھا۔
دورانِ طواف میں ابا جان کی زندگی و صحت کے لیے بڑے خشوع و خضوع سے دعائیں کرتا رہا تھا اور جب طواف مکمل ہوا تو دل بڑا پُر سکون ہو چکا تھا۔ مکہ میں 12:25 پر طواف مکمل ہوا اور یہ پاکستان میں 2:25 کا وقت تھا۔ ابا جان کا عین وفات کا وقت ۔
( دو دن بعد بدھ کو میں نے دوبارہ حرمِ مکی میں جا کر ابا جان کی طرف سے عُمرہ کیا تھا اور جمعرات کو ظہر کے وقت وہ اپنی فیملی کے ہمراہ پاکستان پہنچا تھا )۔
حسن بھائی پرسکون ہو چکے تھے لیکن نہیں جانتے تھے کہ جانے والا بے حد آسانی سے جا بھی چکا ہے۔
الحمد للہ! ثم الحمد للہ! کہ ابا جان نمازِ ظہر کی ادائیگی کے بعد دنیا کی تکلیفوں اور غموں سے نجات پا کر، صاف ستھرے اور پاکیزہ ہو کر خالقِ کائنات کے حضور حاضر ہو گئے۔
” اللہ میاں جی! ہم تیرے رضا پر راضی برضا ہیں۔ اپنے احکامات کی مصلحتوں کو تو خود سب سے بڑھ کر جاننے والا ہے۔ تو نے ہمارے ابا جان کی سب دنیاوی تکلیفوں کو ختم کر دیا ہے۔ اَب آگے کے سرے مرحلے اپنی مہربانی سے آسان تر فرمادے۔“ آمین
مجھے نبی مکرم و معظمﷺ کے الفاظ مبارک یاد آگئے جو انہوں نے اپنے اٹھارہ انیس ماہ کے بیٹے ابراہیم کی وفات پر کہے تھے۔
” ہمارے دل غمگین ہیں،
آنکھیں آنسو بہاتی ہیں، لیکن ہم زبان سے وہی کہیں گے جس سے ہمارا رب راضی ہو۔“
” اللھم اجرنا فی مصیبتنا واخلف لنا خیرا منھا “
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سب اہلِ خانہ اور عزیز و اقارب نے اس حدیث پر کما حقہٗ عمل کر کے ” صبرِ جمیل “ کا مظاہرہ کیا تھا، والدہ محترمہ مکمل حوصلے میں تھیں۔ انہوں نے ہر غمی کے موقع پر ماضی میں بھی ہمیشہ صبرِ جمیل کا دامن تھامے رکھا تھا اور اب بھی صبر کی بہترین حالت میں تھیں۔ سب کی آنکھوں سے اشک بہہ رہے تھے، دبی دبی ہچکیاں جاری تھیں لیکن کسی ایک فرد کی بھی آواز بلند نہیں ہوئی تھی۔ الحمد للہ
رات گیارہ بجے چھوٹی بہن اسلام آباد سے اور ایک بجے بڑی آپی کراچی سے فلائٹ سے گھر پہنچیں۔ دو اڑھائی بجے امی جان نے سب کو کہہ کہہ کر زبردستی لٹا دیا لیکن کسی کو نیند نہیں آئی اور سب جلدی ہی اٹھ گئے۔
میت گھر میں موجود ہو تو کسے نیند آتی ہے!!!
یہ بڑی طویل رات تھی اور کاٹے کٹ نہیں رہی تھی۔
صبح چار بجے جہانیاں ( خانیوال ) سے میرے چچا چچی، تینوں پھپھیاں اور ان کے بچے وغیرہ پہنچ گئے۔
پانچ بجے ملتان سے دیگر کئی مہمان آچکے تھے۔ صبح تقریباً ساڑھے چھ بجے سب سے بڑی باجی دبئی سے اپنے بیٹے عمار کے ہمراہ گھر پہنچ گئیں۔
اللہ تعالیٰ نے ابا جان کی وفات کے بعد کے مراحل میں بڑی اچھی علامات دکھائی تھیں۔ وفات کے بعد بھی ابا جان کا جسم بالکل نرم تھا۔ وفات سے پہلے انہوں نے جرابیں پہنی ہوئی تھیں جو وفات کے بعد کسی نے نہیں اتاری تھیں۔
رات کو آٹھ بجے کسی کے توجہ دلانے کے بعد باجی نے جرابیں اتاریں۔
” میں نے دونوں پاؤں کے انگوٹھے باندھے ہیں تو پاؤں بالکل نرم و گرم ہیں اور آرام سے اِدھر اُدھر مڑ رہے ہیں۔“ باجی نے بتایا۔
میت کو غسل دینے کے لیے بہت سے افراد اصرار کر رہے تھے۔
” نہلانے کے لیے آپ دونوں بھائی اور تینوں بہنوئی کافی ہیں۔ دیگر افراد کی کیا ضرورت ہے؟“ میں نے ابوبکر بھائی سے پوچھا۔
” آپی ! لوگوں کا اصرار اتنا زیادہ ہے کہ ہم انکار نہیں کرسکتے۔ اس لیے زیادہ لوگوں کو غسلِ میت میں شریک کر رہے ہیں۔“ وہ پُرنم آنکھوں سے کہنے لگا۔
” مسنون طریقے سے بیری کے پیسے ہوئے پتوں کو پانی میں شامل کر کے پانی گرم کیا گیا اور پھر اس پانی سے میت کو غسل دیا گیا۔“ ڈاکٹر محسن صاحب بعد میں بتا رہے تھے۔
” جسم نرم ہونے کی بنا پر میت کو بڑی آسانی سے غسل دیا گیا۔ بازو وغیرہ آرام سے حرکت کر رہے تھے۔ آرام سے کروٹیں بدلوائی گئیں، جسم انتہائی نفیس، صاف ستھرا اور پاکیزہ تھا۔“ وہ مزید بتا رہے تھے۔
” دنیا میں جس طرح وہ نفیس اور پاکیزہ رہتے تھے، نہلاتے وقت بھی ان کا جسم ایسا ہی تھا۔“ وہ گواہ تھے۔
ہمارے ہمسائے ظہور اعوان صاحب بااصرار غسلِ میت میں شامل ہوئے تھے۔
” میں نے کئی میتوں کو غسل دیا ہے لیکن ہاسپٹل سے آئی ہوئی یہ پہلی ڈیڈ باڈی ہے جس میں کوئی بُو (Smell) نہیں ہے اور سارا جسم انتہائی صاف ستھرا اور پاکیزہ ہے۔“
غسل کے بعد انہوں نے بتایا۔
” الحمدللہ علیٰ ھذہ النعمۃ ‘‘۔
نہلانے کے بعد انہیں کفن پہنا کر بڑی محبت اور دعاؤں کے ساتھ رخصت کرنے کے لیے تیار کر دیا گیا۔ ہم نے ان کا آخری دیدار کیا ۔ پُر نور چہرہ تابندہ محسوس ہو رہا تھا۔ میں نے ابا جان کے نورانی چہرے پر آخری نگاہ ڈالی اور اس یقین کے ساتھ پیچھے ہٹ گئی کہ
” ہم بھی اللہ کے ہیں اور ہمیں بھی اسی کے پاس لوٹ کر جانا ہے۔“
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جنازہ منصورہ کے بڑے گراؤنڈ میں ادا کیا گیا۔ جو جناز گاہ کے طور پر بھی استعمال ہوتی ہے ڈاکٹر عبیدالرحمن محسن صاحب نے بڑی رقت کے ساتھ بڑے پرسوز انداز میں نمازِ جنازہ پڑھائی۔
میری زندگی کا یہ راز ہے
میری عمر اتنی دراز ہے
جو پیدا ہوا تو وقتِ اذاں
جو مرا تو وقتِ نماز ہے
دورانِ نماز اکثریت کی ہچکیاں بندھ گئیں۔ مجمع نے گریہ زاری اور دل سوزی سے ابا جان کی مغفرت اور بلندی درجات کے لیے دعائیں مانگیں۔ جذبات سیلِ رواں کی طرح امنڈ رہے تھے۔ میرے دل کی گہرائیوں سے دعائیں نکلیں کہ۔
” اللہ میاں! آپ کے اس نیک بندے کو ہم بڑی عزت و احترام کے ساتھ رخصت کر رہے ہیں۔ یا اللہ! یہ عزت تیرے دین پر عمل پیرا ہونے اور دین کا کام کرنے کی وجہ سے اُسے ملی ہے۔ یا اللہ! تو ہم سے بڑھ کر عزت و احترام سے اسے اپنے پاس رکھ لے اور اس کی مہمان نوازی فرما۔“ آمین
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابا جان مرحوم کو عظیم الشان جنازہ نصیب ہوا۔ ہزاروں افراد نے نمازِ جنازہ میں شرکت کی۔ بے شمار باپردہ خواتین نے بھی مسنون طریقے سے نمازِ جنازہ ادا کی۔ امام صاحب نے جب سورۃ الفاتحہ کے بعد سورۃ الفجر کی آخری آیات کی تلاوت کی۔
’’ یا ایتھا النفس المطمئنۃ۔۔۔‘‘ (سورۃ الفجر: 27۔ 30)
تو ہماری آنکھوں سے گرتے اشک اور ہمارے سینوں میں مقید دل دھڑک دھڑک کر گواہی دے رہے تھے کہ
’’ اے رب ! بے شک اس نفس پاکیزہ نے تیرے احکامات پر جم کر زندگی گزاری۔ اے اللہ یہ تیری طرف لوٹ گیا ہے۔ یہ تجھ سے راضی تھا، تو بھی اس سے راضی ہو جا، تو اسے اپنے بندوں میں شامل کر کے اپنی جنتوں میں داخل کر لے۔‘‘
بعد میں حافظ ادریس صاحب قاسم بھائی وغیرہ سے کہہ رہے تھے کہ
” جنازہ پڑھانے والے امام صاحب نے توحرم شریف کی یاد تازہ کر دی ہے۔“
جب میت کو دفنانے کے لیے لوگ قبرستان کی طرف چلے تو دور دور تک جنازے کے ہمراہی دکھائی دے رہے تھے۔ جنازے کو کندھا دینے والے بے شمار افراد تھے جو آتے اور کندھا دے کر چلے جاتے، پھر مزید افراد آجاتے جو کندھا دیتے اور نکل جاتے، پھر مزید افراد کندھا دینے آگے بڑھ آتے، یقیناً اللہ تعالیٰ یہ عزت صرف اور صرف اپنے دین دار اور مقرب بندوں کو عطا کرتا ہے۔
جنازے کی رفتار اتنی تیز تھی جیسے جنازہ تیزی سے کندھوں پر تیرتا ہوا جا رہا تھا گویا زبان حال سے کہ رہا تھا۔
’’ قدمونی قدمونی ‘‘۔ (مجے جلدی لے کرچلو، مجھے جلدی لے کر چلو)
اس حدیث مبارک پر تعامل نظر آنا اللہ رب العزت کے ہاں یقیناً ان کے بہترین اور شاندار استقبال کی خوش خبری سنا رہا تھا۔
” اللھم اغفرلہ وارحمہ وعافہ وعف عنہ واکرم نزلہ ووسع مدخلہ واغسلہ بالما والثلج والبرد ۔۔۔‘‘
جب ابا جان کو شہر خاموشاں کے اندر لے گئے تو دیکھنے والے دیکھ کر حیران رہ گئے۔
” ان کے لیے کھودی گئی قبر انتہائی نفیس اور صاف ستھری ہے جیسے سیمنٹ سے اس کے اندر کے اطراف کی لَپائی کی گئی ہو۔“ قاسم بھائی نے قبر دیکھ کر کہا۔
” جس طرح ہمارے ابو جان ساری زندگی خود نفیس اور پاکیزہ تھے، اسی طرح ان کی روح دو جہانوں کے مالک کے حضور حاضر ہوتے وقت باوضو اور پاکیزہ تھی اور اَب قبر کی آخری منزل بھی بظاہر انتہائی نفیس اور صاف ستھری دکھائی دے رہی تھی۔ سبحان اللہ !“ ابوبکر بھائی نے کہا۔
ہجروفراق کی آخری گھڑیاں آن پہنچی تھیں۔ ابا جان کو آگے بڑھ کر قبر کے اندر اتارنے والے ابوبکر بھائی، قاری عباس صاحب ( جامعہ تنویر القرآن کے مؤذن اور استاد ) اور وقاص بھائی تھے۔
” بسم اللہ وعلیٰ ملۃ رسول اللہ “
تینوں نےیہ مسنون دعا پڑھ کر انہیں قبر میں اتارا، ان کا چہرہ قبلہ رُخ کیا۔۔۔
اور پھر میرے نیک اور صالح باپ کو سب نے مَنوں مٹی تلے دفنا دیا۔۔۔
’’ اللھم ثبتہ بالقول الصادق “
پھر سب پُر نم آنکھوں اور دبی دبی ہچکیوں کے ساتھ قبر میں ان کی ثابت قدمی کی دعائیں کرنے لگے۔
منزل تو تیری یہی تھی
بس زندگی گزر گئی آتے آتے
کیا ملا تجھے اس دنیا سے
اپنوں نے ہی دفنا دیا تجھے جاتے جاتے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
” میں نے کئی میتوں کو قبر میں اتارا ہے لیکن اتنی خوبصورت قبر میں نے پہلے نہیں دیکھی۔ قبر بھی ان کا استقبال کر رہی ہے۔“ قاری عباس صاحب کہہ رہے تھے۔
دفنانے کے بعد سب تہی دامن لیکن کاندھوں پر غم و اندوہ کا بوجھ اٹھائے گھروں کو پلٹ گئے اور ابا جان نے اپنے اصلی گھر قبر کو آباد کر دیا!!!
” اللہ تعالیٰ جی! ان کی قبر کو جنت کے باغوں میں سے ایک باغ بنا دینا۔ اور محمدﷺ کے اس غلام کا کفن میلا نہ ہونے دینا۔ آمین“
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دفنانے کے چند گھنٹے بعد موسم سرما کی پہلی بارش ہوئی اور بہت کُھل کر موسلا دھار برسی۔
آسمان تیری لحد پر شبنم آفشانی کرے
سبزہ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے
ابا جان کےانتقال کے وقت کی آسانیوں اور بعد کی نشانیوں سے ان کے ولی اللہ ہونے کا پتہ چلتا ہے۔ یہ علامتیں بظاہر تو اللہ تعالیٰ نے بہت بہترین دکھائی ہیں۔ میت کے جسم کی نرمی، نہلاتے وقت آسانی، عظیم الشان جنازہ، جنازے کا قبرستان کی طرف نہایت تیز قدمی سے جانا، روشن، کشادہ اور نفیس قبر کھودی جانا اور پھر دفنانے کے بعد بہترین اور خوبصورت قبر کا بننا وغیرہ اور پھر چند گھنٹے بعد موسلا دھار بارشد کا ہونا یقیناً یہ سب اتفاق نہیں ہوسکتا۔ ( پھر بعد میں ان کے بارے میں دیکھے گئے خواب بھی ان کے نہایت خوش و خرم ہونے اور ان کی بہترین حالت کے بارے میں اشارہ کر رہے تھے )
بلاشبہ یہ اللہ کی اپنے نیک اور مقرب بندے پر نازل کی گئی رحمتیں ہیں۔
’’ اللہ میاں! ہمیں ابا جان کے لیے صدقۂ جاریہ بنا، ہماری ٹوٹی پھوٹی گواہیوں کو ہمارے باپ کے حق میں قبول فرما اور ہماری گواہی کے ساتھ فرشتوں کی گواہیوں کو اور پھر اپنے فضل و کرم سے اپنی گواہی کو بھی شامل فرمالے۔ یقیناً تو اس بات پر قادر ہے۔ آمین ثم آمین “
مقدور ہو تو خاک سے پوچھوں
تو نے وہ گنج ہائے گراں مایہ کیا کیے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بُدھ کی سہ پہر کو سب خواتین ابا جان کی قبر پر جانے کے لیے تیار ہو گئیں۔ قبرستان گھر سے تقریباً بیس پچیس منٹ کی پیدل مسافت پر ہے۔
کل شام موسمِ سرما کی پہلی بارش ہوئی تھی جو بعد میں بوندا باندی کی شکل میں آج صبح تک جاری رہی تھی۔ اس بارش نے موسم کو جہاں کافی حد تک سرد کر دیا تھا، وہیں سڑکوں اور گلیوں پر کیچڑ اور کھڑے پانی کی صورت میں اس کے آثار اور نشانات جا بجا موجود تھے۔
لہٰذا قاسم بھائی نے گاڑیوں کا بندو بست کر دیا۔ سب خواتین قاسم بھائی اور عمار ( بھانجا ) کے ہمراہ قبرستان روانہ ہو گئیں۔ جلد ہی قبرستان آگیا۔ ہم سب لوگ گاڑیوں سے اتر کر شہر خموشاں کے اندر دعا پڑھتے ہوئے آگے پیچھے داخل ہو گئے۔
عمار نے ابا جان کی قبر کی نشاندہی کی تو میرے قدموں کی رفتار سست پڑ گئی تھی۔
” ابو جان کی قبر۔۔۔ “ میرے دل کو دھکا سا لگا تھا۔
” پرسوں تک تو وہ اس دھرتی کے اوپر چلتے پھرتے تھے۔ اس زمین کی فضاؤں میں وہ سانس لیتے تھے۔ آج وہ زمین کے اندر ہیں۔“ میرا دل افسردہ تھا۔
” اے انسان! تیری اوقات ہی کیا ہے! تجھے کس بات کا غرور ہے؟ تو آج صبح زمین کے اوپر ہے تو شام کو زمین کے اندر پہنچ جاتا ہے۔“ دل و دماغ میں خیالات برق رفتارسے آجا رہے تھے۔
دائیں بائیں ! آگے پیچھے، اس چھوٹی سی مکمل آبادی میں قبریں ہی قبریں تھیں۔ چھوٹی قبریں، بڑی قبریں، مختلف سائز کی قبریں۔ انسانوں کی آبادی سے الگ ایک خاموش لیکن مکمل آبادی!
میں دھیرے دھیرے قدم اٹھاتی اپنے ابو جان کی قبر پر جا پہنچی اور دعا کے لیے ہاتھ اٹھادیے۔ اور ان کی مغفرت کے لیے مسنون دعائیں مانگنے لگی۔
” اللہ میاں! میرے لیےاپنے باپ کو زمین کے پیٹ میں دیکھنا کیسا دشوار ہے!“ میرے چہرے پر غم پھیلتا گیا۔
میری آنکھیں اشکوں سے لَبالب بھر گئیں اور میرے دل و دماغ۔۔۔
وہ تو کسی اور ہی کیفیت میں تھے جو الفاظ میں بیان کرنا نا ممکن نہیں تو انتہائی دُشوار گزار ضرور ہے!!!
میرے اردگرد موجود میری بہنیں ، بھانجیاں ، بھتیجیاں اور دیگر رشتہ دار خواتین سب ہاتھ اٹھائے اللہ تعالیٰ سے میرے ابا جان کی مغفرت کے لیے دعاگو تھیں۔ دبی دبی سسکیاں وقتاً فوقتاً کسی نہ کسی طرف سے سنائی دے جاتی تھیں۔
” مجھے پورا یقین ہے کہ مہربان اور رحیم و کریم رب تعالیٰ نے میرے ابا جان کی قبر کو اندھیری کوٹھری کے بجائے قرآن کریم کی روشنی سے منور کر دیا ہوگا۔ وہ مٹی، کیڑے مکوڑوں، سانپ بچھوئوں اور اندھیر نگری میں نہیں بلکہ اپنے ربِ کریم کے مہمان بن کر اس کی ضیافتوں سے لطف اندوز ہو رہے ہوں گے۔“ میں پر یقین تھی۔
لوحِ قلب پر ان جذبات کے گہرے تاثرات لیے میں نے دعا مکمل کی اور پھرکچی قبر کی بھوری مٹی کو دیکھا جواردگرد کی قبروں میں تازہ ہونے کی وجہ سے نمایاں دکھائی دے رہی تھی۔
کچھ دیر بعد ہم شہر خموشاں کی پرسکون خاموشی اور اس کے مکینوں کو چھوڑ کر گھر واپسی کے لیے تیار ہو گئے۔ میں خاموشی اور دلی اطمینان کے ساتھ قدم بقدم ابا جان کی قبر سے دور ہوتی ہوئی گیٹ تک آگئی اور پھر سب باری باری گاڑیوں میں بیٹھ گئے۔
گاڑی سٹارٹ ہونےاور پھر چلنے کے بعد تاحدِّ نگاہ ابا جان کی بُھوری قبر کو میں نے نظروں میں اور پھر اوجھل ہونے کے بعد دل میں سمولیا۔
’’ اللھم ادخلہ الجنۃ و اعذہ من عذاب القبر “
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اللہ تعالیٰ! ہماری امی جان کو ایمان وصحت والی طویل زندگی نصیب فرما اور اس شجر سایہ دار کا سایہ ہم پر سلامت رکھنا۔ انہیں دین کی خدمت کرنے کی توفیق دے۔ اور ہمیں ان کی کما حقہ خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمانا۔ آمین ثم آمین
اللہ تعالیٰ جی! ہمارے ابا جان کی مغفرت فرما اور آگے کے تمام مرحلے ان کے لیے آسان تر کر دے۔ ہمیں ان کے لیے صدقہ جاریہ بنا اور روزِ آخرت ہم سب کو اپنی جنت میں اکٹھا کر دینا۔ آمین یارب العالمین
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابو جان کے بعد بظاہر زندگی اسی طرح رواں دواں ہے!!!
معمول کے سب کام ہو رہے ہیں۔۔۔
لیکن
ایک خالی پن کا احساس اور غم کی کیفیت۔۔۔ ٹھہر سی گئی ہے!!!
ان کا شفیق ہنستا مسکراتا چہرہ۔۔۔ بار بار تصور میں آکر آنکھوں کو نم کیے دیتا ہے!!! دل و دماغ سے یہ احساس زائل نہیں ہوتا!!!
ذرا سا وقت ملے تو یہی خیال ذہن میں آتا ہے:
” رب الرحمھما کما ربینی صغیرا۔۔۔“
” اے میرے رب! ان دونوں (والدین) پر اس طرح رحم فرما جس طرح انہوں نے مجھے بچپن میں پالا تھا۔“
اب اٹھ کے ذرا اشک میں آنکھوں کے سنبھالوں
قصے تیری یادوں کے تو تادیر چلیں گے
5 پر “گلِ آرزو کی جو باس تھے، وہی لوگ ہم سے بچھڑ گئے ( پہلی قسط )” جوابات
ماشاء اللہ.بہت عمدہ اور سبق آموز تحریر ہے.
بارک اللہ فیکم ونفع بکم وتقبل منکم قبولا حسنا.
آمین ثم آمین یا رب العالمین
پر تاثیر انداز میں مولانا صاحب کے بارے میں لکھا گیا ہے.
پڑھ کر نہایت رشک آیا.
اللہ تعالیٰ ہم سب کو بھی حسن خاتمہ نصیب فرمائے. آمین
Great Article
Topic is very beautiful and attractive
May Allah Almighty bless Molana with Jannat ul Firdos
Aameen