سہیل وڑائچ :
جہانگیر ترین نے پی ٹی آئی اراکینِ اسمبلی کو اپنے ساتھ اکٹھا کرکے ایک متاثر کن پاور شو کیا ہے۔
اس اقدام سے ثابت ہو گیا ہے کہ پی ٹی آئی کی ساخت میں ترین فیکٹر کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے۔ پی ٹی آئی کو سیاست میں اِن کرنے اور انتخابات جتوانے میں جہانگیر ترین کی ذہانت اور مہارت کا ہاتھ تھا۔ ایک زمانے میں جہانگیر ترین عمران خان کے مشیرِ خاص ہوتے تھے، پارٹی کے تمام فیصلوں میں ان کی مشاورت شامل ہوتی تھی۔ پی ٹی آئی کی حکومت بنی تو تب بھی جہانگیر ترین کو وہی اہمیت حاصل رہی، وہ کابینہ کے اجلاسوں میں شریک ہوتے رہے، کابینہ کے کئی وزیر ان کو اپنے محکموں کی کارکردگی کے بارے میں بریفنگ دیتے رہے۔
عمران خان سے اس قدر قربت اور بےحد اہمیت کے بعد ایسا کیا ہوا کہ دونوں کے تعلقات میں اس قدر دوری آگئی کہ ترین کو اپنے خلاف ہونے والے اقدامات کے حوالے سے ارکانِ اسمبلی کو اکٹھا کرنا پڑا ہے۔ ان دونوں کے معاملات میں پہلی دراڑ تو سپریم کورٹ کے اُس فیصلے سے آئی جس میں جہانگیر ترین کو نااہل اور عمران خان کو صادق و امین قرار دیا گیا۔
اسی وقت یہ باتیں سنی گئی تھیں کہ دراصل یہ سب کچھ سواپ اور انڈر اسٹینڈنگ کے نتیجے میں ہوا ہے اور اس فیصلے کے ساتھ ہی بلکہ پہلے سے کہا جانے لگا کہ کیا ہوا اگر ایک کھلاڑی آئوٹ ہو گیا، ٹیم تو جیت رہی ہے۔ ترین کے قریبی ساتھی سمجھتے ہیں کہ ان کی نااہلی میں تحریک انصاف کی قیادت کی مرضی بھی شامل تھی۔ جہانگیر ترین اپنی نااہلی کو اپنے سیاسی کیریئر کی سب سے بڑی پھانس سمجھتے ہیں۔
دوسری بڑی دراڑ پی ٹی آئی حکومت بننے کے بعد پڑی۔ جہانگیر ترین پی ٹی آئی کے اندر کی لڑائیوں اور سازشوں کو تو بڑی حد تک کنٹرول کر لیتے تھے لیکن جب حکومت بن گئی تو وزیراعظم سیکرٹریٹ اور کابینہ کے کارپرداز ان کی سازشوں کا مقابلہ نہ کر سکے۔
ہوا یوں کہ وزیراعظم نے جہانگیر ترین کو پرائم منسٹر کے مانیٹرنگ یونٹ کا انچارج بنا دیا، اس حیثیت سے وہ کابینہ کے اجلاسوں میں بھی شرکت کرتے اور وزراء کو بلا کر پالیسی پر ہدایات بھی دیتے۔ وزیراعظم سیکرٹریٹ کے انچارج پرنسپل سیکرٹری اعظم خان اور وفاقی وزیر اسد عمر اس انتظام پر خوش نہیں تھے۔
کہا جاتا ہے کہ اس نظام کو اس وقت شو ڈائون کا سامنا کرنا پڑا جس روز وزیراعظم اور جہانگیر ترین کی موجودگی میں اعظم خان نے یہ کہہ کر مانیٹرنگ یونٹ کو چیلنج کیا کہ ملک میں دو اتھارٹیز یا دو وزیراعظم نہیں ہو سکتے۔ انتظامیہ صرف ایک ہی وزیراعظم کو جوابدہ ہے اور وہ عمران خان ہیں۔ یہی وہ بریکنگ پوائنٹ تھا جب جہانگیر ترین کے حکومت کے اندر اختیارات ختم ہو گئے اور اس کے بعد ہی رفتہ رفتہ وزیراعظم اور ترین کے درمیان قربتیں ختم ہوئیں اور فاصلے پیدا ہو گئے۔
تعلقات کی خرابی شوگر بحران کے زمانے میں بڑھ گئی، شوگر رپورٹ میں جہانگیر ترین اور دوسرے شوگر مل اونرز کو مافیا قرار دے کر انہیں لوٹ مار کا ذمہ دار قرار دیا گیا۔ جہانگیر ترین نے پہلا وار ٹھنڈے دل سے برداشت کیا۔ ایف آئی اے، سرکاری اداروں اور عدالتوں کی پیشیاں بھگتیں، ساتھ ہی ساتھ عمران خان سے صلح صفائی کا راستہ بھی کھلا رکھا، حالات کچھ بہتر ہوئے تو جہانگیر ترین اپنے بیٹے علی ترین کے ساتھ انگلستان روانہ ہو گئے۔
انگلستان میں موجودگی کے دوران ہی ان کا وزیراعظم عمران خان سے رابطہ بحال ہو گیا، ایک دوسرے کے ساتھ ٹیکسٹ پیغامات کا تبادلہ ہونے لگا اور یوں لگتا ہے کہ یہی بہتر فضا تھی جس کو دیکھ کر جہانگیر ترین اپنے بیٹے کے ہمراہ واپس پاکستان تشریف لے آئے۔
پاکستان واپس آنے کے بعد بھی جہانگیر ترین اور عمران خان کا رابطہ بحال رہا بلکہ بقول جہانگیر ترین انہوں نے خود ٹیکسٹ پیغام کے ذریعے عمران خان کو چینی کی قیمتوں کے حوالے سے مشورے دیے اور وزیراعظم نے ان مشوروں پر ہو بہو عمل بھی کیا لیکن ترین کے قریبی ذرائع کےبقول، وزیراعظم ہائوس اور کابینہ میں بیٹھے کچھ لوگ پھر سے اپنے مشن میں کامیاب ہوئے اور ترین اور وزیراعظم کے درمیان پھر سے رابطہ ٹوٹ گیا، ساتھ ہی ترین کے خلاف کارروائیوں کا آغاز بھی ہو گیا۔
جہانگیر ترین گو کافی عرصے سے سیاسی طور پر خاموش ہیں لیکن عملاً وہ لاہور، اسلام آباد اور لودھراں ہر جگہ اراکینِ اسمبلی اور بیوروکریٹس سے ملاقاتیں کرتے رہتے ہیں۔ ان کا سیاسی ڈیرہ ہروقت آباد رہتا ہے جن 20سے زیادہ اراکین قومی و صوبائی اسمبلی نے جہانگیر ترین کے ساتھ کھڑے ہو کر حکومتی اقدامات کو رد کرنے کا فیصلہ کیا ہے، وہ سارے لوگ جہانگیر ترین کے انتہائی قریبی ساتھی تصور کئے جاتے ہیں، ان لوگوں کے سیاسی کیریئر میں جہانگیر ترین کا اہم کردار رہا ہے۔
توقع یہی ہے کہ یہ گروپ مزید بڑا ہو جائے گا اور حکومت نے اگر ان کو کوئی نوٹس نہ بھیجا اور ان کی طرف سے پاور شو پر خاموشی برقرار رکھی تو اسے پی ٹی آئی اور حکومت کی کمزوری پر محمول کیا جائے گا تاہم اس گروپ کے پیپلز پارٹی میں شامل ہونے کا کوئی امکان نظر نہیں آتا۔ جہانگیر ترین کی اسپیشلائزیشن صرف اور صرف پی ٹی آئی ہے اور وہ جو کچھ بھی کریں گے، پی ٹی آئی کے اندر رہتے ہوئے ہی کریں گے۔ اگر حکومت نے دبائو بڑھایا تو یہ فارورڈ بلاک کی شکل اختیار کر جائے گا وگرنہ موجودہ غیر رسمی شکل میں ہی چلتا رہے گا۔
اندازہ یہ ہے کہ جہانگیر ترین اپنی عادت کے عین مطابق بہت زیادہ تیز نہیں چلیں گے، وہ تیل دیکھو اور تیل کی دھار دیکھو کے قائل محسوس ہوتے ہیں، اس لئے ان کی طرف سے کسی جارحانہ سیاسی دائو پیچ کی امید نہیں ہے۔ وہ حکومت کے اقدامات دیکھ کر اپنی آئندہ کی پالیسی وضع کریں گے۔ توقع ہے کہ وہ تاش کے پتوں کو سینے کے ساتھ لگائے رکھیں گےاور اپنے پتے تب ہی شو کریں گے جب ملکی فضا میں سیاسی تبدیلی کے حوالے سے ارتعاش پیدا ہونا شروع ہوگا۔ ترین کے قریبی حلقوں کا خیال ہے کہ اگست ستمبر میں ایسے حالات پیدا ہونے کا امکان ہے۔ جہانگیر ترین بھی اپنے سیاسی دائو اس وقت تک بچا کر رکھیں گے۔
پی ڈی ایم کی ٹوٹ پھوٹ کے بعد سے سیاسی منظر نامے پر اپوزیشن کی طرف سے حکومت کو ہٹائے جانے کی کوششیں کامیاب ہونے کا کوئی چانس باقی نہیں رہا۔ ایسے میں تبدیلی کا اگر کوئی امکان باقی ہے تو وہ حکومت کے اندر ہی سے ہے۔ آصف زرداری، شہباز شریف اور بلاول بھٹو بھی اسی خیال کے حامی ہیں۔ گویا اگر سیاسی امکانات کا جائزہ لیا جائے تو مستقل قریب میں پی ٹی آئی کے اندر ہی سے بغاوت یا انحراف کا امکان ہے، ہمیں علم ہے کہ ایم این اے اور ایم پی اے غیرمطمئن ہیں، انہیں جو ترقیاتی فنڈز دیے گئے تھے ان پر بھی کٹ لگ گئے ہیں، ان کی کوئی بات بھی نہیں سنتا اور انہیں جب بھی کوئی ایسا کندھا میسر آیا جو انہیں سہارا دے سکے تو وہ اس کندھے کے ساتھ لگ جائیں گے۔ ‘
پی ٹی آئی کو فی الحال اپنی اس کمزوری کا اندازہ نہیں کہ جب بھی آزمائش کا وقت آئے گا اس کے لوگ اس کے ساتھ کھڑے نہیں ہوں گے۔اندازہ یہ ہے کہ جہانگیر ترین آخری وقت تک پی ٹی آئی اور عمران سے صلح صفائی کی کوشش کریں گے لیکن اگر یہ کوشش کامیاب نہ ہوئی اور ترین صاحب کو لگا کہ ان کے خلاف انتقامی کارروائیاں جاری ہیں تو پھر وہ اور زیادہ طاقت سے اپنا پاور شو کریں گے جو بالآخر فارورڈ بلاک یا ترین گروپ کی حیثیت سے سامنے آسکتا ہے۔