بسلسلہ استقبال رمضان المبارک ، محترمہ ڈاکٹر بشریٰ تسنیم کے سلسلہ ہائے مضامین کی تیسری تحریر
پہلے یہ پڑھیے :
رمضان المبارک میں احتساب اور اصلاح کیسے ہو؟ (1)
رمضان المبارک میں احتساب اور اصلاح کیسے ہو؟ (2)
اللہ رب العلمین اور بندہ مؤمن کے درمیان عبد اور معبود کا رشتہ جس قدر مضبوط ہوگا ایمان کی دوسری شق ” محمد رسول اللہ “ کی گواہی اتنی ہی سچی ہوگی۔ اگر احتساب نفس سے یہ نتیجہ نکلا کہ عقیدہ توحید کے شیشے میں بال ہے تو عقیدہ رسالت میں جھول لازمی ہوگا اور یہ اللہ الخالق کے ساتھ شرک کی مزید ایک کڑی ہوگی۔
اللہ پہ پختہ ایمان ہی ہمیں یہ ماننے پہ مجبور کرتا ہے کہ اس نے اپنا ایک پیغمبر ہماری راہنمائی کے لئے مبعوث فرمایا۔ وہ انسانوں میں سے ایک انسان، اللہ کے بندوں میں سے ایک بندہ ہے.خاص الخاص خاصیت یہ ہے کہ اللہ نے اس بندے کو اپنے لیے منتخب کر لیا، اپنا محبوب بنایا ، امام الانبیاء بنایا، ہمارے لیے اسوہ کامل بنایا۔ رب نے ان کا درجہ جو مقرر کر دیا کوئی اس کو نہ بڑها کر رب کے برابر کر سکتا ہے نہ اس کی شان میں کوئی گستاخی کر سکتا ہےاس لیے کہ وہ خاتم النبیین ہے۔
اللہ تعالى نے فرمایا اگر توحید کی اعلیٰ ترین ایمانی کیفیت پا کر مجھ سے محبت محسوس ہوتی ہے تو اس کا ثبوت بھی پیش کرو. اور وہ ثبوت رسول کی اطاعت کرنا ہے ، سب کے لیے اسوہ کامل وہی ہے۔
( قل ان کنتم تحبون اللہ فاتبعونی یحببکم اللہ و یغفرلکم ذنوبکم واللہ غفور رحیم)
[سورہ ال عمران 31]
ہم اللہ سے محبت کے دعوے دار اپنا محاسبہ کریں کہ جو رشتہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان قائم کیا وہ کس نہج پہ ہے؟ اللہ تعالیٰ نے تو قانون بنایا کہ اتباع نبی کی شرط پہ میری محبت حاصل ہوگی۔ ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت میں کتنے سرخرو ہیں؟ اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام کو اس کی اطاعت کو اپنی مرضی سے من کی خواہش پہ سمجھا اور اسی کو دین سمجھا تو پھر یہ بھی سوچیں کہ ہم نے رب کی مرضی کے خلاف کیا اور اس پہ إصرار بھی کیا.۔
گویا کہ جو پیمانہ اللہ نے اپنی محبت کے لیے بنایا ہم نے اس سے انحراف کی پالیسی اپنائی۔ اللہ رب العزت نے اپنے نبی کو بشر کہا ہم نے غلو کیا. اللہ تعالیٰ نے فرمایا غیب کا علم میں نے کسی کو نہیں دیا. ہم نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں انہیں حاضر و ناظر بنا دیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خود وضاحت کر رہے ہیں کہ اگر مجھے غیب کا علم ہوتا تو میں اپنے لئے خیر ہی جمع کر لیتا اور مجھے کوئی تکلیف یا پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑتا.
مگر ہم مصر ہیں کہ وہ غیب سے واقف ہیں. اللہ تعالیٰ نے شفاعت کے لیے سارے اختیارات اپنے پاس رکھے ہیں اور شفاعت کے لیے ایک پیمانہ رکھا ہے مگر ہم اس پہ مطمئن ہیں کہ شفاعت کے لئے قرآن و سنت کے مطابق عمل کریں نہ کریں شفاعت ہمارا حق ہے کہ اس کے امتی ہیں۔
کیا کبھی سوچا ہم نے کہ جب میدان حشر میں ہمارا نام پکارا جائے گا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا چہرہ خوشی سے دمک اٹھے گا یا اداس ہوگا؟
کیا ہم ان لوگوں میں شامل ہوں گے جو اللہ کے اذن سے جنت میں پہلے پہل داخل ہوں گے اور نبی صلعم فخر کریں گے یا ہم وہ نکمے نالائق امتی ہوں گے جن کی شفاعت کا اذن ملنے کے انتظار میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کھڑےرہیں گے اور ہمیں ڈرنا چاہیے اس وقت سے جب ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کچھ لوگوں کی شکایت اللہ سے کر رہے ہوں گے کہ انہوں نے میرے بعد قرآن کو چھوڑ دیا تھا ۔
( وقال الرسول یا رب ان قومی اتخذو ھزا القرآن مھجوراً )
[سورہ الفرقان 30]
سیرت النبی کی روشنی میں اپنےاعمال کا جائزہ لیں اور فہرست بنائیں کہ ہم نے کتنی بدعات زندگی میں فرض سمجھ کراپنا رکھی ہیں. اپنا محاسبہ کریں کہ ہم شفاعت کے قابل کون کون سے اعمال کر رہے ہیں؟ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ جس بندے کے اعمال سنت رسول کے مطابق پائے گا اسی کو قبول کرے گا ، اسی کی شفاعت کا اذن دے گا ۔ رب العزت تو اسی سے خوش ہوگا جو اس کے نبی کا کہنا مانے گا۔ ہم اندازہ لگائیں کہ صبح سے شام تک کتنے کام ایسے ہیں جو مسنون طریقہ سے کرتے ہیں اور بدعات سے پاک ہوتے ہیں؟
ایک بار پھر سوچ لیں ہم اللہ کے ساتھ، اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کس طرح کا رشتہ بنائے ہوئے ہیں۔ اگر اللہ تعالیٰ نے جو مقام کامل اپنے نبی کا مقرر کرکے ہمیں دیا ہم اس کو بعینہ تسلیم نہیں کرتے تو اللہ کے معاملات میں مداخلت کرتے ہیں۔ کیا یہ عقیدہ توحید اور ایمان کے منافی نہیں؟ عقیدہ توحید و رسالت میں پختگی نہ ہوگی تو ساری عبادتیں بھی اللہ کے رنگ میں رنگی نہ ہوں گی۔
اصلاح کیسے ہو؟
1 ۔ اپنے غلط افکار پہ اللہ تعالیٰ کے حضور صدق دل سے معافی مانگی جائے اور دعا کی جائے کہ اللہ رب العزت ہمیں عقیدہ رسالت اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی محبت، عقیدت، اتباع کے لیے سچا علم، عطا فرمائے. وہی علم جو خود رب نے اتارا ہے.. .غلو کے فتنہ سے بچائے۔
2 ۔ سیرت النبی کا مطالعہ قرآن و حدیث کے ساتھ ساتھ لازمی کیا جائے۔
3 ۔ روزانہ ایک سنت کو زندگی میں شامل کیا جائے اور بدعات کو ختم کیا جائے ۔
4 ۔ نبی کریم کی شفاعت حاصل کرنے کے لیے وہ اعمال کئے جائیں جن سے شفاعت ملنے کی امید دلائی گئی ہے.
5 ۔ درود شریف پڑھنا دراصل اللہ تعالیٰ سے عہد کی تجدید ہے کہ ہم اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی تعلیمات اور مشن کو جاری رکھیں گے۔
کیا وعدے کی تجدید کے الفاظ سینکڑوں کے حساب سے ہوں اور وعدہ وفا نہ کیا جائے تو یہ اتباع رسول ہوگی؟ اگر اتباع رسول نہ ہوئی تو اللہ سے محبت کیسے مانی جائے گی؟
لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ دراصل وہ شجر طیبہ ہے جس پہ اعمال صالحہ کے پھل لگتے ہیں. (جاری ہے )