میری عظیم رہنما ماں پروفیسر ثریا بتول علوی کے حالات و واقعات زندگی
ڈاکٹر خولہ علوی :
” صرف ایک فرد کو اندر جانے کی اجازت ہے۔“ وارڈ کیپر نے آئی۔ سی۔ یو وارڈ کے اندر داخل ہونے والے دو اکٹھے افراد کو روک دیا۔
دونوں اپنی باری پر ایک ایک کرکے اندر چلے گئے اور تھوڑی دیر بعد باہر آگئے جہاں مزید چند افراد ملاقات کے لیے موجود تھے۔
ان کے بعد مزید چند لوگ باہر کھڑے تھے۔
یہ سلسلہ طویل ہوتا گیا۔
وارڈ کیپرز اب اس مریضہ کے متعلقین سے واقف ہوچکے تھے۔
وہ تیمار دار لوگوں کو آتے دیکھ کر ان کے حلیے اور گفتگو سے پہچان لیتے کہ یہ فلاں بزرگ خاتون کے ملاقاتی ہوں گے۔ اور ان کا اندازہ درست ثابت ہوتا۔
ایک فیملی آئی جن کے ساتھ پرام میں ایک چھوٹا سا، پیارا سا گل تھوتھنا صحت مند سا بچہ انگوٹھا منہ میں ڈالے چوس رہا تھا۔
جب بچے کی ماں اندر جانے لگی تو اس نے پرام دروازے کے باہر رکھ دی۔
” باجی! اس کو بھی ساتھ لے جائیں۔ یہ بھی مریضہ سے ملاقات کر لےگا۔“ وارڈ کیپر نے جلے بھنے انداز میں پیچھے سے آواز دے کر اندر جاتی تیماردار خاتون کو واپس بلا کر کہا۔
یہ مریضہ میری والدہ محترمہ پروفیسر ثریا بتول علوی صاحبہ ہیں جو جدید ” تحریک نسواں اور اسلام “ جیسی عظیم کتاب لکھنے کی وجہ سے اس موضوع پر گویا Authority کی حیثیت رکھتی ہیں۔ کیونکہ یہ کتاب ہمارے معاشرے کی مٹھی بھر مغرب زدہ عورتوں کی فکری گمراہی، نام نہاد جدیدیت اور تحریک نسواں کے فتنوں کو قرآن و سنت کی روشنی میں کھول کھول کر واضح کرتی ہے۔ اور مغربی تہذیب وتمدن کی یلغار کے سامنے بند باندھنے کی ایک بھرپور کاوش ہے۔
وہ اس کتاب کے علاوہ اپنی دیگر تحریری و تدریسی خدمات کی وجہ سے بھی معروف ہیں۔ ” تنظیم اساتذہ پاکستان، خواتین“ کی صدر اور نگران بھی رہی ہیں۔
ان کے ” ڈاکٹرز ہسپتال “ ( لاہور) میں داخل ہونے کے بعد ان کے تیمار داروں کی کثرت کی وجہ سے ڈاکٹروں اور نرسوں کے ساتھ ساتھ وارڈ کیپر اور عملے کے دیگر لوگ بھی ان کے بارے میں بخوبی آگاہ ہو چکے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
22 نومبر 2020ء کو رات تقریباً دس بجے رافعہ باجی کا فون آیا جس میں انہوں نے امی جان کی طبیعت کی خرابی اور انہیں ہسپتال داخل کروانےکے بارے میں بتایا۔ میرے ذہن میں امی جان کی پونے دو سال قبل کی شدید بیماری کی یادیں تازہ ہو گئیں۔ میرا دل دہل گیا اور میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔
” امی جان کو کیا ہوا ہے باجی؟ “ میں نے بے چینی سے پوچھا۔
” ان کی طبیعت بہت زیادہ خراب ہو گئی ہے۔ سانس اکھڑ رہا تھا اور انہیں سانس لینے میں بہت دشواری ہو رہی تھی۔ بی پی بہت زیادہ لو ہوگیا تھا اور ہارٹ بیٹ کم ہوتی جا رہی تھی۔ ہم انہیں قریبی ” منصورہ ہسپتال “ لے گئے تھے۔ وہاں ڈیوٹی پر موجود اسٹاف نے امی جان کو ابتدائی طبی امداد دی ہے۔ آکسیجن فراہم کی ہے، انجیکشن لگایا ہے، ای۔ سی۔ جی کی ہے لیکن معاملہ ان کے کنٹرول سے باہر ہے۔ رات کے وقت ان کا سارا سٹاف، ڈاکٹرز اور سپیشلسٹ بھی موجود نہیں ہیں۔ لہٰذا انہوں نے ” شیخ زید ہسپتال “ میں ریفر کر دیا ہے۔“ بڑی باجی نے تفصیل سے بتایا۔
” ان کی حالت اب کیسی ہے؟ ایک دفعہ پونے دو سال پہلے بھی ان کی طبیعت اس طرح بہت زیادہ خراب ہوئی تھی۔ کیا اب بھی ان کی حالت ویسی ہے یا کچھ کمی وبیشی ہے؟“ میں نے سوال کیا
” امی جان کی حالت تقریباً ایسی ہی ہے جیسی پونے دو سال قبل تھی۔ اللہ تعالیٰ انہیں زندگی اور صحت وتندرستی عطا فرمائے۔“ باجی نے بتایا۔
” آمین ثم آمین۔“ میرے دل سے نکلا۔
میں اللہ تعالی سے امی جان کی شفائے کاملہ و عاجلہ کی دعائیں کرتی رہیں۔
پھر میں نے دوبارہ فون کیا۔ حسن بھائی سے بات ہوئی۔
” امی جان کی حالت اب کیسی ہے؟ کیا وہ ہوش میں ہیں؟“ میں نے پوچھا۔
” جی ہاں۔ اب ان کی حالت پہلے سے بہتر ہے۔ ڈاکٹرز نے ای سی جی کی ہے۔ آکسیجن مسلسل لگی ہوئی ہے۔ اب وہ سی ٹی سکین کر رہے ہیں۔“ حسن بھائی نے بتایا۔
” ڈاکٹر نے کون سی بیماری تشخیص کی ہے؟“ کورونا بیماری کے دور میں، میں نے ڈرتے ڈرتے مزید پوچھا۔
” ڈبل نمونیا۔ ڈاکٹر انہیں چودہ دن ہسپتال میں آئسولیشن میں رکھنے کی تجویز دےرہے ہیں۔“
” کیا؟ “ میرا دل دھک سےرہ گیا۔
” کیا اب ان کی حالت خطرے سے باہر ہے؟ “ میں نے ہمت مجتمع کرکے ایک اور سوال کیا۔
” ابھی آکسیجن لگی ہوئی ہے۔ “ حسن بھائی نے بتایا۔
” ڈاکٹر کورونا کیس بتا رہے ہیں کیا؟“ میں بڑی مشکل سے یہ سوال زبان پر لانے میں کامیاب ہوئی تھی۔
” جی ہاں!“ حسن بھائی نے پریشانی سے جواب دیا۔
” اب کیا ہوگا؟ آپ لوگ کیا سوچ رہے ہیں؟ “ میں نے پوچھا۔
” آکسیجن سلنڈر کا انتظام کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
اگر سلنڈر مل گیا اور ڈاکٹر آمادہ ہوئے تو امی جان کو ڈسچارج کروا کر گھر لے جائیں گے ان شاءاللہ۔“ انہوں نے اپنا ارادہ بتایا۔
” بالکل صحیح۔“ میں نے ان کی تائید کی۔
” باقی ٹریٹمنٹ ان شاءاللہ گھر کریں گے اگر اللہ کو منظور ہوا تو۔“ حسن بھائی نے جواب دیا۔
” کیا واقعی امی جان کو کورونا بیماری کا مسئلہ بن گیا ہے؟“ میں نے اپنی یقین دہانی کے لیے پھر پوچھا تھا۔
” واللہ اعلم۔ ڈاکٹر کہہ تو یہی رہے ہیں۔
دراصل میڈیکل کی اصطلاح میں وباء کے دنوں میں جو بھی مریض آئے، پہلے اسے وباء میں ہی مبتلا سمجھا جاتا ہے۔ ایک جان پہچان والے ڈاکٹر نے بھی یہی سمجھایا ہے کہ آپ لوگوں کے لیےمریضہ کو گھر لے جانا بہتر رہے گا۔“ انہوں نے کہا تھا۔
” کیا گھر میں امی جان کے لیے آئسولیشن قابل قبول ہوگی؟“ میں نے پوچھا تھا۔
” جی۔ اب آئسولیشن ضروری تو ہے لیکن ’ آئسو لیشن ‘ سے بزرگ مریضوں کی بیماری بڑھنے کے علاوہ ان کی ذہنی و نفسیاتی کیفیت بدل جاتی ہے۔ جو مزید مسائل اور بیماریوں کا باعث بن سکتی ہے۔“
” کووڈ 19 کا پھیپھڑوں پر کتنا اثر ہوا ہے؟“ میں نے اندازہ کرنا چاہا۔
” ابھی ڈاکٹروں نے یہ نہیں بتایا لیکن وہ ’ آئسولیشن ‘ کے لیے بہت زیادہ زور دے رہے ہیں۔“ حسن بھائی دھیرے دھیرے بول رہے تھے۔
صبح سویرے امی جان کو ہسپتال سے ڈسچارج کروا کر گھر واپس شفٹ کر دیا۔ جہاں ان کی ٹریٹمنٹ اور احتیاطی تدابیر باقاعدگی سے جاری رہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنے فضل و کرم سے جلدی بہتر کر دیا لیکن ان کا علاج، پرہیز اور ادویات تا حال جاری ہیں۔ لیکن انہیں کورونا بیماری کا کوئی مسئلہ لاحق نہیں ہے۔
اور اللہ تعالیٰ نے انہیں موت سے زندگی کی طرف دوبارہ لوٹا دیا ہے۔ الحمد للّٰہ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امی جان کی حالیہ بیماری سے تقریباً پونے سال قبل ان کی طبیعت بہت زیادہ خراب ہو گئی تھی اور انھیں فوراً ہسپتال میں داخل کروانا پڑا تھا۔ میرے ذہن میں وہ رات اور اس کی پریشان کن اور تلخ یادیں تازہ ہو گئیں۔
18 اور 19 فروری 2018ء کی درمیانی رات کو تقریبا پونے ایک بجے تکیے کے نیچے رکھا میرا موبائل فون بجنے لگا تھا۔ میں نے نیند میں ہڑبڑا کر اٹھ کر موبائل ہاتھ میں لے کردیکھا تو ابوبکر بھائی کا فون آرہا تھا۔
” امی جان کی طبیعت بہت خراب ہے۔ آپ ان کے لیے بہت زیادہ دعا کریں۔“ ابوبکر بھائی نے سلام کرنے کے بعد پریشانی سے کہا تھا۔
” امی جان کو کیا ہوا ہے؟“ میں نے جلدی سے پوچھا تھا۔
” ان کا سانس بہت اکھڑا ہوا ہے اور انھیں کسی پل چین نہیں ہے۔ وہ بہت بے چینی محسوس کر رہی ہیں۔ اور بہت زیادہ تکلیف میں ہیں۔ اس کے علاوہ، لگتا تھا کہ شاید انہیں ہارٹ اٹیک بھی ہوا ہے۔ ان کی طبعیت دیکھ کر ان کو فوراً قریب واقع ” منصورہ ہسپتال “ میں داخل کروا دیا ہے جہاں انھیں ابتدائی طبی امداد دی جارہی ہے لیکن فی الحال ان کی حالت تسلی بخش نہیں ہے۔ ان کے لیے بہت زیادہ دعائیں کریں۔“ ابوبکر بھائی پریشانی سے بتا رہے تھے۔
میں نے ان سے کچھ سوالات پوچھے تھے۔ جن کے جوابات دے کر انہوں نے موبائل کال ختم کردی تھی۔
حسن بھائی، قاسم بھائی، بڑی باجی بڑی بھابھی سب لوگ ہسپتال میں موجود تھے۔ مجھے بہت زیادہ پریشانی محسوس ہونے لگی تھی۔ ڈاکٹر محسن صاحب آدھی رات کے بعد آنے والی اس ناگہانی فون کال کی وجہ سے پہلے سے بیدار ہوچکے تھے۔
” امی جان کو کیا ہوا ہے؟“ انہوں نے فوراً استفسار کیا ۔
میں نے انہیں تفصیلاً بتایا ۔ اتنی دیر میں ہسپتال میں موجود بڑی باجی کا فون آگیا ۔
” امی جان کی حالت تسلی بخش نہیں ہے۔ آپ بہت زیادہ دعا کریں۔“ باجی بھی یہی کہہ رہی تھیں۔
میرا مضطرب دل اور بے چین ہو گیا تھا۔ میں ان کے لیے زیر لب دعائیں کرتی اٹھی ۔اور جلدی سےوضو کرکےجائے نماز بچھا کر دعاگو ہو گئی ۔
تھوڑی دیر بعد حسن بھائی جان کا فون آگیا ” امی جان کا سانس بہت اکھڑا ہوا ہے اور سیٹ نہیں ہو رہا۔ بس دعا کریں۔“ بھائی بھی یہی بات کہہ رہے تھے۔
میں دوسرے کمرے میں آکر بہتے اشکوں کے ساتھ اللہ رب العزت کےحضور ہاتھ اٹھا کر دعا گو ہو گئی ۔
” یا الٰہی! میری والدہ کو صحت و تندرستی اور ایمان والی زندگی عطا فرما۔ ہم پر ان کا سایہ شفقت دراز رکھنا۔ اور اگر آپ نے ان کی تقدیر میں اپنا کوئی اور فیصلہ لکھا ہے تو ان کو حالت ایمان میں اپنے پاس بلانا۔ انھیں ہر قسم کی معذوری و محتاجی سے بچانا اور ان کا حسن خاتمہ فرمانا۔“ میں ان کے لیے دل کی گہرائیوں سے دعائیں کرتی رہی ۔
درمیان میں مختلف بہن بھائیوں کے وقتاً فوقتاً فون آتے رہے ۔ میں بھی بھائیوں کو تھوڑے تھوڑے وقفے کے بعد دل کی تسلی کے لیے فون کرتی رہی ۔
” تقریباً دو اڑھائی بجے معاملہ ڈیوٹی پر موجود سٹاف کے بس سے باہر ہو گیا ۔ انہوں نے امی جان کو ابتدائی طبی امداد دے کر انجیکشن لگا کر، ای سی جی کرکے ’ شیخ زید ہسپتال ‘ ریفر کر دیا ہے۔“ ابوبکر بھائی نے بتایا ۔
” آکسیجن سلنڈر والی ایمبولینس کا بندوبست کیا ہے جس میں امی جان کو مسلسل آکسیجن سپلائی ہو رہی ہے۔ اب ہم انہیں دوسرے ہسپتال لے کر جا رہے ہیں۔“ ابوبکر بھائی نے مزید بتایا ۔
چند منٹ بعد ایمبولینس نے ’ شیخ زید ہسپتال ‘ میں پہنچا دیا لیکن یہاں ڈاکٹروں نے ان کی زیادہ سیریس حالت دیکھ کر انہیں داخل ہی نہ کیا تھا اور انہیں ’ ڈاکٹرز ہسپتال ‘ یا ’ الشفاء ہسپتال ‘ لے کر جانے کا کہہ دیا تھا۔ یہ دونوں بڑے مہنگے ہسپتال ہیں۔ بلکہ ’ ڈاکٹرز ہسپتال ‘ تو عوام الناس میں ’ ڈاکو ہسپتال ‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
اسی ہسپتال میں امی جان کا 2016ء میں منی (mini) بائی پاس آپریشن ہوا تھا جس کے نتیجے میں ہارٹ سپیشلسٹ ڈاکٹر ہارون رسول نے دل کی نبض کو باقاعدہ (regulate) رکھنے کے لیے پیس میکر (Pace Maker) ڈال دیا تھا۔
اس کے علاوہ میرے والد محترم مولانا عبدالوکیل علوی مرحوم کا دوسرا ہارٹ بائی پاس آپریشن بھی 2005ء میں اسی ہسپتال میں ہوا تھا۔اس لیے بھائیوں نے امی جان کو فوراً وہاں لے جانے کا فیصلہ کرلیا ۔
پہلی ایمبولینس واپس جا چکی تھی۔ لہذا نئی ایمبولینس کا بندوبست کرکے امی جان کو ’ ڈاکٹرز ہسپتال ‘ پہنچایا گیا تھا۔ جہاں ڈاکٹروں نے مریضہ کی حالت دیکھ کر انہیں فوراً آئی۔ سی۔ یو میں داخل کر دیا تھاجہاں فوری طبی امداد اور انتہائی نگہداشت کے نتیجے میں امی جان کی حالت خطرے سے باہر ہوگئی تھی۔ الحمد للّٰہ۔
ہم نے صبح سویرے لاہور جانے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ ہم دونوں میاں بیوی مسلسل بیدار تھے اور دعائیں کر رہے تھے۔ ہسپتال میں موجود بھائی دور بیٹھے سب بہن بھائیوں کو ساتھ ساتھ امی جان کی حالت سے باخبر (update) کر رہے تھے۔
صبح تقریباً ساڑھے چار بجے بڑی باجی اور حسن بھائی ہسپتال سے گھر واپس آ گئے تھے۔ چھوٹی بہن ، جو اپنے میاں عنایت اللہ طور صاحب کے ساتھ پونے تین بجے شیخوپورہ سے ہسپتال پہنچ گئی تھی، اب وہ بھی حسن بھائی کے ساتھ گھر واپس آگئی ۔ ہسپتال میں قاسم بھائی اور بڑی بھابھی رہ گئے تھے۔ ہمیں اب کچھ تسلی ہو گئی تھی۔
صبح میں نے معمول کے کام کیے ، پھر بچوں کو ناشتہ کروایا ۔ خود ہم نے بھی ناشتہ کیا اور پھر صبح نو بجے دونوں بیٹوں سعد اور سعدان کو ساتھ لے کر لاہور روانہ ہوئے اور تقریباً ساڑھے گیارہ بجے سیدھا ہسپتال پہنچ گئے ۔ قاسم بھائی نے فوراً مجھے امی جان کے پاس آئی۔ سی۔ یو میں بھجوا دیا ۔
بہت جلد وہاں میری ملاقات امی جان سے ہو گئی تھی جو مختلف نالیوں اور پٹیوں میں لپٹی اور جکڑی ہوئی لیٹی تھیں۔ اس وقت تک وہ مکمل ہوش و حواس میں تھیں۔ شدید تکلیف میں مبتلا ہونے کے باوجود ہائے وائے کرنے کے بجائے نہایت صبر و ہمت سے زیر لب یا دعا مانگ رہی تھیں یا کسی قرآنی آیت کا ورد کررہی تھیں۔
میری صابرہ وشاکرہ ماں نے مجھ سےبالکل صحیح طرح لیکن مختصر سی گفتگو کی ۔ میرا، ڈاکٹر عبید صاحب اور بچوں کا حال احوال پوچھا ۔ ڈیوٹی پر موجود نرس سے میرا تعارف کروایا ۔ دو منٹ بعد میرا وقتِ ملاقات ختم ہوگیا اور میں باہر آگئی ۔
چند روز بعد حالت کافی بہتر ہونے کی وجہ سے والدہ کو ہسپتال سے گھر منتقل کر دیا گیا۔ اور ان کا علاج معالجہ گھر میں جاری رہا ۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں تب بھی نئی زندگی عطا فرمائی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پروفیسر ثریا بتول علوی صاحبہ مولانا عبدالرحمن کیلانی مرحوم (مفسر قرآن) کی بڑی صاحبزادی اور مولانا عبدالوکیل علوی مرحوم کی اہلیہ ہیں۔ وہ عالمہ دین اور مصنفہ کتب کثیرہ ہیں۔
امی جان انتہائی ذہین و فطین اور قابل خاتون ہیں۔ وہ 2 مئی 1947ء کو پیدا ہوئیں اور اب تک وہ زندگی کی تقریباً 74 بہاریں دیکھ چکی ہیں۔
زمانہ طالب علمی میں ان کا تعلیمی کیریئر نہایت شاندار رہا۔ انہوں نے 1962ء میں امتیازی پوزیشن سے میٹرک کیا۔ لاہور کالج فار ویمن میں داخلہ لیا۔ 1968ء میں پنجاب یونیورسٹی میں ایم اے عربی میں اول پوزیشن حاصل کرکے وہ گولڈ میڈل کی مستحق قرار پائیں اور پھر ایم اے اسلامیات میں امتیازی پوزیشن حاصل کرکے سلور میڈل بھی حاصل کیا۔
یہ صرف کہنے کی بات نہیں بلکہ حقیقت ہے کہ میری امی جان جیسی نابغۂ روزگار خواتین بہت کم ہوتی ہیں۔ مردوں میں سے تو بہت سے عالم و کامل ہوتے ہیں مگر خواتین میں ایسی مثالی خواتین شاذ ونادر دکھائی دیتی ہیں۔
کچھ لوگ غیر معمولی ہوتے ہیں۔ انہیں اللہ تعالیٰ ہمارے اندر نمونہ (Role Model ) بنا کر اس لیے بھیجتا ہے کہ یہ لوگ بھی تمہارے جیسے ہیں، تم ان جیسا بننے کی کوشش کرو۔ یہ تمہارے لیے مثال ہیں۔ والدہ کا شمار ان ہی لوگوں میں ہوتا ہے جن کی فکر زندگی اور طرز زندگی دوسروں کے لیے روشن مثال ہے۔
ہماری امی جان نے اپنے والدین کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنی اولاد کی احسن طریقے سے تعلیم و تربیت کی۔ اور درس و تدریس کو اپنی مبارک زندگی کا مشن بنائے رکھا۔ ستر برس سے زائد عمر میں وہ آج بھی حسب توفیق قرآن و حدیث کی تدریس کے ساتھ ساتھ باقاعدگی سے ہفتہ وار درس دیتی ہیں۔
انھیں اللہ تعالی نے کثیر اولاد سے نوازا ہے جن میں تین بیٹے اور چھ بیٹیاں شامل ہیں۔ (اس کے علاوہ دو بیٹے کم سنی میں وفات پا گئے تھے۔) جن میں سے سات بچے حافظ قرآن ہیں۔ ماشاءاللہ لا قوۃ الا باللہ۔
ساری اولاد بشمول بیٹیاں دینی و دنیاوی لحاظ سے اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں۔ الحمد للہ۔
اور اپنے اپنے دائرہ کار میں حسبِ استطاعت دین کی خدمت کرنے کی سعی و کوشش میں مصروف عمل ہیں۔
ایک بیٹی ڈاکٹر خولہ علوی اور دو داماد ڈاکٹر حبیب اللہ ضیائی اور پروفیسر ڈاکٹر عبید الرحمٰن محسن پی۔ ایچ۔ ڈی ڈاکٹر ہیں۔
ان کی اولاد سچے مسلمان، دین کے کامیاب داعی اور معاشرے کے فائدہ مند شہری بن کر ابھرے ہیں۔
دینی بنیادوں پر رشتے ناطے کرنے کی وجہ سے ماشاءاللہ داماد اور بہووئیں بھی دیندار اور پابند شریعت ہیں۔ اور نیکی اور تقویٰ کا یہ سلسلہ ان کے پوتے پوتیوں اور نواسے نواسیوں بلکہ اگے ان کے بچوں میں بھی جاری ہے۔الحمد للہ ثم الحمدللہ۔
ہر گھر میں کئی حافظ قرآن بچے اور بچیاں اپنے والدین کے ساتھ ساتھ اپنے دادا جان اور دادی جان کے لیے بھی صدقہ جاریہ ہیں۔
معروف مؤلف محترم طالب ہاشمی مرحوم صاحب نے آج سے تقریباً تین دہائیاں قبل ” تذکار صالحات “ نامی ایک کتاب تحریر کی تھی جس میں انہوں نے والدہ محترمہ کی داستان عزیمت بھی بیان کی تھی۔ اور انہیں عصر حاضر کی عظیم خواتین میں شامل کیا تھا۔
نہ صرف ان کا بلکہ ان کی والدہ یعنی ہماری نانی جان محترمہ حمیدہ بیگم زوجہ عبد الرحمن کیلانی کا تذکرہ خیر بھی انھوں نے ” تذکار صالحات “ میں کیا ہے۔
کئی رسائل و جرائد میں بھی وقتاً فوقتاً والدہ کے حالات و واقعات زندگی اور انٹرویوز شائع ہو چکے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امی جان نے کالج کی سرکاری تدریسی ملازمت احسن طریقے سے کرنے کے ساتھ ساتھ گھر اور بچوں پر بھی پوری توجہ دی۔ وہ دینی احکامات کی پابندی کرنے اور کروانے والی، گھر بنانے اور وفا شعاری کرنے والی، صلہ رحمی کرنے والی اور قطع رحمی سے اجتناب کرنے والی ایک مثالی خاتون ہیں۔
انہوں نے سادگی اور خلوص کے ساتھ بچوں کی اعلیٰ تعلیم و تربیت، گھریلو کام کاج کی ادائیگی، بچوں کے دیگر معاملات، گھریلو سطح پر قرآن و حدیث کی درس وتدریس، اور مہمانوں کی خدمت وغیرہ کو اپنا شعار بنائے رکھا۔
وقت کی پابندی، معاملہ فہمی، سادگی، خوش اخلاقی، امانت داری، مہمان داری، بچوں اور طالبات کی حوصلہ افزائی، شوہر کی اطاعت و خدمت، سسرال والوں کی بھرپور خدمت وغیرہ جیسی صفات ان کی ذات میں موجود ہیں۔
وہ وقت کی قدر کرتے ہوئے تمام کام بر وقت اور نہایت عمدہ طریقے سے سر انجام دیتی رہیں۔ بر وقت سادہ کھانا کھانا اور اپنی نیند پوری کرنا ان کی زندگی کے اصول ہیں ۔
وہ ماشاء اللّٰہ ابتدا سے ہی سحر خیز اور تہجد گزار ہیں۔ رات کو وہ عشاء کی نماز پڑھنے کے بعد فوراً سو جاتیں اور علی الصبح تہجد کے وقت جلدی بیدار ہو جاتیں اور فجر کی اذان تک اس بابرکت وقت میں کافی کام کر چکی ہوتیں۔
والد صاحب بھی ان کے ساتھ سنت کے مطابق بچوں کو سنبھالنے، تربیت کرنے اور گھریلو امور میں معاون و مددگار ہوتے تھے۔
ان کریمانہ عادات کی بنا پر اور اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے انہوں نے سدا صحت مندانہ زندگی بسر کی تھی لیکن اب گزشتہ کئی برسوں سے دیگر مسائل کے ساتھ دل خانہ خراب کی وجہ سے وہ صاحبہ فراش ہیں۔ الحمد للّٰہ، وہ چلتی پھرتی ہیں، واش روم خود جاتی ہیں، اپنے لیے کبھی کبھی خود بھی کھانا پکالیتی ہیں، تدریسی خدمات کے ساتھ اپنے آپ کو چھوٹے موٹے گھریلو امور میں بھی مصروف رکھتی ہیں تاکہ بقول ان کے ” وہ بالکل بیکار نہ ہو جائیں۔“
وہ ہمیشہ اللہ تعالٰی سے دعائیں کرتی ہیں کہ
” یاالہی ! میرا حسنِ خاتمہ کرنا، ایمان پر جینے اور ایمان پر ہی مرنے کی توفیق عطا فرمانا، ہر قسم کی معذوری و محتاجی سے بچانا اور چلتے پھرتے دنیا سے اٹھانا اور مجھ سے راضی و خوش رہنا۔“
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امی جان کے والد اور ہمارے نانا جان مولانا عبدالرحمن کیلانی مشہور و معروف مفسرِ قرآن اور کئی اہم ترین کتب کے مصنف تھے۔ اس کے علاوہ قرآن مجید کے بہت قابل اور ماہر خطاط بھی تھے۔ انہوں نے تقریباً پچاس قرآن اپنے ہاتھ سے تحریر کیے تھے جن میں سے زیادہ تر قرآن کریم ، قرآن کی طباعت کے لیے مشہور زمانہ ادارہ تاج کمپنی نے لکھوائے تھے۔
امی جان دینی گھرانے کی پروردہ، خالص دینی ذوق رکھنے والی اور دینی و دنیوی علوم سے آراستہ خاتون ہیں۔
انہیں قرآن و سنت اور علوم القرآن و علوم الحدیث میں گہری دلچسپی وراثت میں ملی ہے۔ قرآن و حدیث، تاریخ، آثار صحابہ اور مسلمہ فقہاء کی آراء پر ان کی گہری نگاہ ہے۔ دینی غیرت و حمیت کا جذبہ ان کی ذات میں بہت نمایاں ہے۔ اور یہ جذبہ ان کی تقریر و تحریر میں بھی جا بجا نظر آتا ہے۔
گورنمنٹ کالج فار ویمن سمن آباد، لاہور میں صدرِ شعبہ اسلامیات رہیں۔ نہایت قابل، محنتی اور کامیاب مدرسہ ہیں۔ اب پچھلے چند سالوں سے وہ ریٹائر ہو چکی ہیں۔
انہوں نے گھر میں بھی ابتدا سے قرآن کی درس و تدریس کا سلسلہ جاری رکھا۔ اپنی بیٹیوں کو خود قرآن مجید کا ترجمہ و تفسیر میٹرک تک پڑھا دیا کرتی تھیں۔ تدریس کا طریقہ عام فہم ، آسان اور دلچسپ ہوتا تھا۔
احادیث کی بنیادی کتب، عربی گرائمر وغیرہ بھی پڑھاتیں۔ ہر بیٹی کو میٹرک کے بعد تربیت دے کر قرآن مجید کا ترجمہ و تفسیر پڑھانے پر لگا دیا اور اس کی نگرانی اور پڑھانے کی تربیت اور اس کی اپنی مزید پڑھائی سب ساتھ ساتھ جاری رکھے۔ ہر منگل کو گھر میں بعد نمازِ عصر ہفتہ وار درس ہوتا تھا جو تا حال جاری وساری ہے۔
ابتداہ میں وہ اکیلی علاقہ کی بچیوں کو ترجمہ و تفسیر پڑھاتی رہیں، پھر بیٹیاں بڑی ہوئیں، قرآن مجید کا ترجمہ و تفسیر اور مزید دینی علوم حاصل کر لیے تو انہیں درس و تدریس میں اپنے ساتھ شامل کریا۔ بیٹیوں کے ساتھ پڑھی لکھی بہووئیں بھی ان سے مزید تربیت حاصل کرکے پڑھانے میں شامل ہوتی گئیں۔ ” لوگ ملتے گئے اور کارواں بنتا گیا“ کے مصداق طالبات کی تعداد میں بھی اضافہ ہوتا گیا۔
پھر شادیوں کے بعد مختلف شہروں میں مقیم ان کی اولاد اپنے اپنے گھروں اور علاقوں میں بھی حسب موقع اور حسب توفیق دین کا کام کر رہی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امی جان مختلف کتب کی مصنفہ ہیں اور ان کی کتابوں نے بڑی پذیرائی حاصل کی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں دردِ جگر عطا کیا ہے اور ان کے قلم میں روانی و تاثیر رکھی ہے۔ دل کے مخلص خیالات جب نوکِ قلم پر آکر قرطاس ابیض کی زینت بنتے ہیں توتحریر میں اثر پذیری اور دل سوزی پیدا ہو جاتی ہے۔
امی جان نے روز مرہ کی مختلف تعلیمی و تدریسی مصروفیات اور گھریلو مشغولیات کے باوجود نہایت بلندپایہ تصانیف پیش کرکے اسلام سے اپنی ذاتی وابستگی، شیفتگی اور غیر معمولی وارفتگی کا ثبوت دیا ہے۔
ان کی تحریروں سے عوام الناس خصوصاً خواتین کو بے حد فائدہ پہنچتا ہے۔ ان کی تصانیف عام فہم، سلیس اور سہل ہونے کے ساتھ ساتھ نقلی و عقلی دلائل کا خوبصورت مرقع ہوتی ہیں۔
ان کی تحریروں میں نہ صرف اعتدال اور توازن نظر آتا ہے بلکہ ان کا علمی درجہ بھی نہایت بلند ہوتا ہے۔
ان کی ہر کتاب کے کئی کئی ایڈیشن نکل چکے ہیں۔ ان کی تحریر کردہ مختلف کتب اور کتابچوں کی تفصیل حسبِ ذیل میں بیان کی جا رہی ہے۔
1۔ اسلام میں عورت کا مقام و مرتبہ
2۔ جدید تحریک نسواں اور اسلام
3۔ ہماری بدلتی قدریں
4 ۔ استاد: ملت کا محافظ
5 ۔ اربعین للنساء من احادیث المصطفیٰ
6 ۔ اسلام اور توہینِ رسالت
7 ۔ یومِ خواتین اور مسلمان عورت
8 ۔ حدود و قوانین
9 ۔ خواتین کمیشن رپورٹ کا جائزہ
10 ۔ طرزِ زندگی میں تبدیلی لائیے
11۔ قیامِ پاکستان کے حقیقی عوامل
12۔ تحفظ ناموس رسالت: امن عالم کی ضمانت
” اسلام میں عورت کا مقام و مرتبہ “ کتاب میں عورت کا مقام و مرتبہ بیان کرتے ہوئے حقوق نسواں، تحفظ نسواں، اور تکریم نسواں پر زور دیتے ہوئے ثابت کیا ہے کہ اسلام ہی حقوق نسواں کا حقیقی محافظ، نگہبان اور محسن ہے۔
” جدید تحریک نسواں اور اسلام “ کتاب میں والدہ نے مساواتِ مردوزن، مرد کی سربراہی، کیا عورت گھر کی سربراہ ہو سکتی ہے؟، ولایتِ نکاح، تعدادِ ازدواج، اور عورت کی نصف وراثت و شہادت، جیسے اہم، نازک اور حساس موضوعات پر قلم اٹھایا ہے اور قرآن و سنت کی روشنی میں مخالفین کے اعتراضات اور شکوک وشبہات کے مدلل انداز میں نقلی و عقلی جوابات دیے ہیں۔
یہ اپنے موضوع پر پہلی اور جامع ترین کتاب ہے جس پر ان کو پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل ہوسکتی تھی مگر انہوں نے اس ڈگری کو قربان کر کے، جس کے حصول کے لیے کم از کم تین چار سال درکار تھے، اسے 1995ء کی پہلی بیجنگ کانفرنس کے بعد عصر حاضر کی ضرورت کے مطابق لکھ کر جلد چھپوائی۔
انہوں نے اپنی اس اہم ترین تالیف ” جدید تحریکِ نسواں اور اسلام “ کے ذریعے بلاشبہ پاکستانی قوم کے لیے کفارہ ادا کرنے کا فریضہ انجام دیا ہے۔ یہ کتاب اسلام پسند خواتین کی عظیم اکثریت کے دل کی سچی آواز اور ان کے جذبات کی صحیح ترجمانی ہے۔
” اربعین للنساء من احادیث المصطفیٰ “ کتاب بے حد مقبول عام کتاب ہے جس میں خواتین سے متعلقہ چالیس احادیث کی حالاتِ حاضری کی روشنی میں تشریح کی گئی ہے۔ طالبات کے کئی مدارس کے نصاب میں بھی یہ کتاب شامل ہے۔
ان کی مزید کئی کتب زیر طبع ہیں۔ جو حکم ربی جلد شائع ہو جائیں گی۔ ان شاءاللہ۔
اللہ تعالیٰ ان کا زور قلم اور زیادہ کرے اور
ان سے دین کی خدمت کا کام لیتا رہے!!!
اور ان کی تصانیف اور ہم سب کو ان کے لیے صدقہ جاریہ بنادے!!!
آمین ثم آمین یا رب العالمین!!!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امی جان نہایت مستقل مزاج اور محنتی اور وقت کی پابند خاتون ہیں۔ وہ تہجد کے وقت بیدار ہوتی ہیں اور نماز تہجد کی ادائیگی ، دعا اور قرآن مجید کی تلاوت کے بعد اپنا تحریری کام شروع کر دیتی ہیں۔ کوئی مضمون، کہانی، واقعہ، یا آرٹیکل وغیرہ تحریر کرنے کا کام زیادہ تروہ صبح نماز فجر سے پہلے شروع کرکے نو دس بجے تک کرتی تھیں۔
دوران سروس، طالبات کے سوالیہ پرچے بنانا اور جوابی کاپیوں (پیپروں) کی چیکنگ کرنے کا کام وہ تہجد کے وقت جلدی بیدار ہو کر کرتی تھیں۔
نمازِ تہجد میری والدہ محترمہ ثریا بتول علوی صاحبہ کی بھی گھٹی میں پڑی ہے۔ وہ بیان کرتی ہیں کہ
” مڈل کے امتحانات کے وقت جب میں نے پیپر کی تیاری کے لیے صبح سویرے دو تین بجے اٹھنا ہوتا تھا تو میں اپنی والدہ کی ہدایت کے مطابق تہجد بھی پڑھا کرتی تھی۔ امتحان کے بعد بھی میں نے اپنی یہ روٹین جاری رکھی اور اس میں تبدیل نہ کی اور پھر ساری زندگی اس پر عمل پیرا رہی۔“
ماشاللہ ، الھم زد فزد۔
میری والدہ نماز تہجد میں تھوڑی اونچی آواز میں قرآنِ مجید پڑھتی ہیں۔ دعا کے بعد قرآن مجید کی تلاوت بھی باآواز بلند کرتی ہیں۔ بچپن میں بلکہ شادی سے پہلے بھی اکثر میری آنکھ امی جان کی آواز سے کھلا کرتی تھی۔ ہمارے کان اس وقت سے قرآن مجید کی آواز سے آشنا ہیں جبکہ ہمیں قرآن مجید کا شعور بھی نہ تھا۔ الحمدللّٰہ!
ایسا پاکیزہ ماحول جس میں قرآن پڑھے جانے کی آواز اہل خانہ کے بیدار ہونے کا سبب بنتی ہو، کس قدر بابرکت اور تربیت کے لیے فائدہ مند ثابت ہوتا ہے!!!
سبحان اللہ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
اپنی ملازمت اور دیگر بے شمار مصروفیات کے باوجود وہ بے حد خدمت گزار بیوی تھیں اور انہوں نے ابو جان کو خوش رکھا تھا۔ دونوں میاں بیوی کی آپس کی انڈرسٹینڈنگ بہت اچھی تھی۔ انہوں نے ساری زندگی دلی خوشی سے ابو جان کی خدمت کی اور ان کی تمام ضروریات کا احسن طریقے سے خیال رکھا۔
ابا جان ان سے راضی خوشی اس دنیا سے گئے ہیں۔ میں نے انہیں کئی دفعہ بڑھاپے میں امی جان کی قابلیت اور خدمات کا اعتراف کرتے سنا تھا۔
ابو جان کی وفات پر انہوں نے بےمثال صبر و تحمل کا رویہ اختیار کیا تھا اور ” صبر جمیل “ کی یاد تازہ کر دی تھی۔ انہوں نے کوئی شکوہ شکایت نہیں کیا تھا بلکہ رب تعالیٰ کے حکم کی تعمیل میں راضی برضا رہی تھیں۔
وہ علم و عمل میں باکمال ہونے کے باوجود سادگی پسند ، عاجز اور منکسر المزاج خاتون ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرے سسر محترم مولانا محمد یوسف میرے والد اور والدہ دونوں کے بڑے قدر دان تھے۔ میرے والد سے وہ بڑی محبت اور انسیت رکھتے تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ میری والدہ کے بارے میں بھی کہتے تھے کہ
” معاشرے میں آپ کی والدہ جیسی صاحب ایمان اور قابل خواتین بہت کم ہوتی ہیں جو مختلف پلیٹ فارم پر اپنی ذمہ داریاں اتنے احسن طریقے سے ادا کررہی ہوں۔“
میرے شوہر ڈاکٹر عبید الرحمن محسن صاحب بھی میرے والدین کے بڑے قدردان ہیں۔ وہ میری والدہ کے بارے میں کہتے ہیں کہ
” میں نے اپنی زندگی میں امی جان جیسی عظیم ، باحیا، پابند شریعت اور سادہ مزاج خاتون نہیں دیکھی جو خواتین کی روایتی سوچ و عمل کے بجائے مردانہ طرز کے عملی فکر و نظر کی حامل ہیں اور اس کے مطابق زندگی بسر کرکے دوسروں کے لیے روشن مثال ہیں۔“
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج کل امی جان اپنے روزمرہ کاموں میں مصروف رہتی ہیں۔ صحت کے لحاظ سے بہت کمزور ہو گئی ہیں۔ جھک کر چلتی ہیں۔ کمر اور گردن کے مہرے ہلنے کی وجہ سے ان کے لیے بہت مشکل ہو گئی ہے لیکن معمولات اور معاملات زندگی جاری وساری ہیں۔
پڑھنے اور پڑھانے کا عمل جاری وساری ہے!!! مہمان داری کا سلسلہ بھی گھر میں برقرار رہتا ہے!!!
لکھنے لکھانے کا کام بھی قدرے سست رفتاری سے لیکن جاری ہے!!!
دو تین ماہ قبل انہوں نے اپنی کئی کتابوں کے نئے ایڈیشن شائع کروائے تھے۔ اب آج کل ایک نئی کتاب تکمیل کے بعد اشاعت کے مراحل طے کر رہی ہے۔
دیگر کئی کتب کے مسودے تکمیل کے لیے نظر ثانی کے منتظر ہیں!!!
امی جان کی بامقصد، پاکیزہ اور لہو ولعب سے مبرا زندگی ہمارے لیے مشعل راہ اور یاد دہانی ہے کہ
ہمارا خصوصاً ہم خواتین کا مقصد حیات کیا ہونا چاہئیے؟؟؟
ایک عورت زندگی کے اتنے محاذوں پر کس طرح نبرد آزما ہوسکتی ہے؟؟؟
ماں کی تعلیم و تربیت اولاد کو کس طرح زندگی کے اتنے کٹھن امتحانات میں کامیابی کی راہوں پر گامزن کرسکتی ہے؟؟؟
حقیقت تو یہ ہے کہ امی جان ایک رہنما خاتون ہیں ۔
دراصل امی جان ایک رہنما خاتون ہیں جنہوں نے صرف تقریر و تحریر میں ہی نہیں بلکہ کارزارِ حیات میں بھی نہ صرف شوہر اور بچوں کی گھریلو ذمہ داریاں عملی طور پر بہترین انداز میں سر انجام دیں بلکہ کالج کی تدریسی ملازمت کی ذمہ داریوں کو بھی احسن طریقے سے ادا کرکے معاشرے میں زریں مثال قائم کی۔
اللہ تعالیٰ ہماری والدہ محترمہ کو صحت و تندرستی عطا فرمائے!!!
اور اس شجر سایہ دار کا سایہ شفقت و محبت ہمارے سروں پر دراز رکھے!!!
اور ہمیں ان کی احسن انداز میں خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے!!!
آمین ثم آمین یارب العالمین!
6 پر “اور امی جان کو اک نئی زندگی مل گئی” جوابات
ماشاء اللہ. بارک اللہ.
❤️❤️❤️
بہت شاندار اور عمدہ انداز میں لکھی گئی بہت پیاری تحریر ہے.
ایسی عظیم خواتین ہمارے لیے رول ماڈل اور روشن مثال ہیں.
اللہ تعالیٰ انہیں صحت کاملہ و عاجلہ عطا فرمائے. آمین ثم آمین یا رب العالمین
ماشاء اللہ.
بہت اچھی تحریر ہے.
ہمارے معاشرے کو ایسی عظیم خواتین کی بہت ضرورت ہے.
اللہ تعالیٰ ان کو ایمان و صحت والی لمبی زندگی عطا فرمائے آمین
ماشاءاللہ ماشاءاللہ بہت عمدہ اندازِ بیاں ہے