نگہت حسین :
صحت مند مشاغل اور ان سے سیکھنے سکھانے کا سلسلہ دم توڑتا جارہا ہے ۔ افسوس کہ ہمارے بچے مشغلے اختیار کرنے کی لذت سے ناواقف ہوتے جارہے ہیں ۔ اسکول سے کالج تک گدھوں کی طرح تعلیمی گھن چکر، نہم دھم کی سائنس کی عجیب و غریب امتحانی گھن چکر کی پڑھائی ۔ اس کے بعد پروفیشنل لائف کی مہارتیں ، اچھی جاب ،
بندہ کرے تو کیا کرے ، یہ بھی ضرورت ہے۔
لیکن ہم اپنے ماضی کی دریچوں میں جھانکیں تو یہ مشاغل ، مختلف تخلیقی ذوق و شوق ، انسان کے بڑے اچھے ساتھی ہوتے ہیں ۔۔۔۔ ان سے انسان زندگی بھر لطف اندوز ہوتا ہے ۔ تخلیق سے جڑی ہر چیز اپنی علیحدہ لذت رکھتی ہے ۔
اچھی صحت مند تخلیقی مصروفیت انسان کو انسان ہونے کا احساس بخشتی ہیں ۔ ذہن تازہ اور دل خوش ہوجاتا ہے۔ بوریت کا جو مسئلہ ہمارے بچوں کو درپیش ہے وہ کیوں دن بدن اتنا سنگین ہوتا جارہا ہے ؟
آج کا بچہ دیکھیے، گھنٹوں اسکرین کے سامنے بیٹھتا ہے، کتنے ہی ڈسپلن کے قائدے قوانین بنا لیں بچہ بڑی مشکلوں سے بے دلی کے ساتھ اسکرین چھوڑ کر ہٹتا ہے ۔ اس کے بعد دیر تک موڈ خراب، چڑچڑاہٹ اور عجیب و غریب قسم کا جارحانہ انداز ۔ اسکرین کی تیز رنگ روشنی اور بدلتے مناظر دماغ کو سکون بخشنے کے بجائے ذہنی انتشار کا باعث بنتے ہیں ۔
روزانہ فائیو منٹ کرافٹ دیکھنے کے نشے میں مبتلا بھی شاید ہی کوئی کرافٹ کر پاتے ہوں گے کہ دیکھنے میں ہی اتنا وقت لگ جاتا ہے۔
عملی زندگی میں بھی یہی دیکھا کہ گھر اور بچوں کے ساتھ ساتھ دوسرے تمام رشتے کسی فزکس ، کیمسٹری اور اکنامکس کی ڈگری سے زیادہ آپ کے شخصی اوصاف ، اخلاق ، گھریلو کاموں کی ذہانت و مہارت اور کام کرنے کی پھرتی سے بخوبی نبھتے ہیں ۔
اب ہمارے تعلیمی ادارے سولہ سترہ سال اسکول سے کالج تک پاگلوں کی طرح بچوں کو پڑھانے کے بعد کیا سکھا کر نکالتے ہیں؟
کوئی ایک ڈھنگ کا مشغلہ اور ہنر تک اپنانے کے قابل نہیں چھوڑتے ۔
میں کیوں کہ ایک خاتون ہوں تو اسی کا تجزیہ کروں گی کہ
ایک لڑکی کو اپنی ڈگری سے اپنی عملی زندگی میں معاملات اور رشتے نبھانے کا کیا علم حاصل ہوپاتا ہے ؟
صرف اچھی جاب کے حصول کے علاوہ زندگی گزارنے کی اسکلز سے نابلد ۔
مجھے تو لگتا ہے کہ ہم خود شناسی تک سے ناواقف ہوتے ہیں ۔
جب ہی ایک بچہ گود میں ہو اور خیر سے آپ ماسٹرز ہوں تو سارا زمانہ آپ کی صلاحیتوں میں زنگ لگنے کے غم میں مبتلا ہو جائے گا ، کیوں گھریلو کاموں کی ذہانت پر کوئی تعریف و توصیف نہیں بلکہ صلاحیت کا ضیاع سمجھ کر افسوس کیا جاتا ہے ۔ ایک اچھا خوش و خرم ماحول رکھنے والا صاف ستھرا سلجھا ہوا گھرانہ کسی ذہین عورت کے فن کی عکاسی نہیں کرتا کیا ؟
کیا یہ ذہانت کسی ڈگری کی محتاج تھی ۔۔۔۔۔۔؟
یہ تو خود بہ خود منتقل ہوتی تھی گھر کے انداز و اطوار سے طریقے سلیقے سے
لیکن اب ہمارے بچے اپنے گھروں کے طور طریقوں سے بھی ناواقف ہوتے جارہے ہیں۔
سیکھنے سکھانے کے ہمارے بنیادی ادارے پہلے گھر تھے جہاں ماں کی گود سے شروع ہونے والی تربیت انسان کے تعارف سے لے کر انسان سازی تک کے اسباق پر مشتمل ہوتی تھی۔ اعلیٰ اخلاق ، خوداری بردباری ، سب ہی چیزیں گھر سے سکھائی جاتی تھیں ۔ اب ہر چیز کی ذمہ داری تعلیمی اداروں پر ڈال دی گئی ہے۔
والدین لاکھوں روپے فیس کی مد میں ادا کرکے سچ بولنے کی عادت سے لے کر اپنی پاکیزگی برقرار رکھنے تک کی صفت کو ان ڈگری بیچنے والوں کے سپرد کر کے مطمئن رہتے ہیں ۔
ڈیڑھ سال کے بچے کا ایڈمیشن نہ ہو تو وہ اوور ایج ہوجاتا ہے اور ماں باپ پریشان کہ اب یہ کیسے پڑھے گا ۔ در حقیقت یہ عملی زندگی سے کٹی ہوئی پڑھائی اور اس کے مسائل کی ایک جھلک ہی ہے جس کو زندگی سے جوڑنے کے لئے سب سے پہلے بچے کو اپنے انسان ہونے کا یقین دلانا ضروری ہے۔
اس کے لئے کون تیار ہے ؟
والدین ، اساتذہ ، یا اسکول انتظامیہ ؟