ربیعہ فاطمہ بخاری :
زندگی کی بےثباتی تو روزِ روشن کی طرح عیاں ہے۔ لیکن بعض حادثات اپنے اطراف میں موجود ہر کس و ناکس، ہر اپنے اور غیر کو ہلا کے رکھ دیتے ہیں۔ آج کُچھ ایسا ہی حادثہ ہمارے خاندان کو جھنجھوڑ کے رکھ گیا۔
میری ساس امّی رشتے میں میری سیکنڈ کزن لگتی ہیں اور سگی تائی بھی، اُن کے فرسٹ کزن اور ہمارے سیکنڈ کزن کی بیوی اپنے پانچویں بچّے کو جنم دیتے ہوئے خالقِ حقیقی سے جا ملی۔ اُس کے اس سے پہلے چار بیٹے تھے۔ اور بیٹی کی شدّید خواہش میں یہ پانچواں بچّہ دُنیا پہ آیا، جو خوش قسمتی سے بیٹی ہی ہے، لیکن ایسی بدنصیب کہ نہ ماں اُس کا چہرہ دیکھ سکی اور نہ ہی بچّی ماں کا لمس پا سکی۔
لیڈی ایچی سن ہسپتال لاہور کی لیڈی ڈاکٹرز کی مبیّنہ غفلت نے اُس جوان جہان ماں سے یہ دُنیا اور پانچ ننھے مُنّے فرشتوں سے اُن کی ماں چھین لی۔ یہ کزن مُجھ سے دو تین سال چھوٹی تھی، جلدی شادی ہو گئی تو اتنی عمر میں پانچ بچّوں کی ماں بھی بن گئی۔ اور آج وہ شفقت بھرا سایہ اُن ننھے بچّوں کے سر سے اُٹھ گیا۔
بچّوں کی دادی جو میری چچی ہیں، بتا رہی تھیں کہ تین دن حنا ہسپتال داخل رہی اور ان تین دنوں میں تین مائیں اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھیں۔ کورونا وائرس کے ڈر سے یا انتظامی غفلت کی بدولت سرجری کے وقت ایک بھی سینئر ڈاکٹر موجود نہیں تھی۔ جتنی بھی ڈاکٹرز تھیں سبھی جونیئر ، اور بغیر کسی سینئر ڈاکٹر کی سُپّر ویژن کے قیمتی جانوں کے ساتھ اس طرح کھلواڑ کیا جا رہا ہے۔
کوئی ہے جس سے اس ظلم کا حساب مانگا جائے۔ ہم اپنے دریدہ دامن کس کے آگے پھیلائیں جہاں سے ہمیں انصاف میسّر آئے۔ اُن ننھے بچّوں کی ساری زندگی کی محرومیوں کا ازالہ ہے کسی کے پاس؟؟ آج کا دن ہمارے پورے خاندان پہ ایک قیامت کی مانند گزرا۔ وہ ایک دن کی بچّی اپنے لئے ماں کی ممتا کس کے دامن میں تلاش کرے گی؟
مُجھے یاد ہے آج سے آٹھ نو سال پہلے تقریباً، میرے دو سال کے بیٹے کا ہرنیا کاآپریشن ہوا تھا میو ہسپتال لاہور سے، پورا ہفتہ میں ہسپتال میں رہی۔ سوائے ٹوائلٹس کی گندگی کے ہمیں کسی قسم کی کوئی شکایت نہیں ہوئی۔ وہ آپریشن جس کیلئے پرائیویٹ ہسپتال پچاس ہزار مانگ رہے تھے، بالکل مُفت میں سینئیر سرجنز کے ہاتھوں ہوا، اور ہمارا سوائے اپنے کھانے پینے کے ایک Calpol سیرپ کا خرچہ ہوا بس۔
کھانا بھی ہم اپنی مرضی سے باہر سے لیتے تھے ورنہ وارڈز میں تین وقت کھانا دیا جاتا تھا۔ اور یہ وقت ” کرپٹ شہباز شریف “ کے دورِ حکومت کا تھا۔ ہر وارڈ میں اے ۔ سی اور چلّرز کی سہولت میسّر تھی۔ روزانہ کی بنیاد پہ صفائی ہوتی تھی۔ اور آج چچی بتا رہی تھیں کہ لیڈی ایچی سن کی وارڈز ایسے تھے جیسے بھینسوں کا باڑا ہو۔
سوئچ بورڈز تک ٹوٹے ہوئے تھے اور بلب عنقا۔ اور مریضوں کی زندگیوں کے ساتھ جو کھلواڑ ہو رہا ہے، وہ میں نے پہلے ذکر کر دیا ہے۔ شاید موجودہ حکومت کیلئے ہی کسی نے کہا تھا کہ اونٹ رے اونٹ تیری کون سی کل سیدھی!!!
شاید مزید دو سال گُزار کے عمران خان حکومت اندازِ حکومت اور حکومتی انتظام و انصرام سیکھ ہی جائے۔ ان معاملات میں کُچھ بہتری آ جائے لیکن ہمیں ہماری جوان بچّی اور اُس کے بچّوں کو اُن کی ماں اب کبھی نہیں مل سکے گی۔