PTI JUI

کیا کہتے ہیں پی ٹی آئی اور جے یو آئی کے کارکنان بیچ اس مسئلہ کے؟؟؟

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

عبید اللہ عابد :

خبر ہے کہ
تحریک انصاف اور جمعیت علمائے اسلام فضل الرحمن گروپ کا لاڑکانہ میں انتخابی اتحاد ہوگیا ہے، اتحاد کا مقصد پیپلزپارٹی کا مقابلہ کرنا ہے۔

واضح رہے کہ
یہ وہی تحریک انصاف ہے جس کے سربراہ کو مولانا فضل الرحمن ” یہودی ایجنٹ “ اور ملک کے لئے ” سیکورٹی رسک “ کہتے رہتے ہیں
اور
یہ وہی جمعیت علمائے اسلام ہے جس کے سربراہ کو عمران خان ” ڈیزل“ کہتے ہیں اور انھیں ” مولانا “ نہیں مانتے۔ ” ڈیزل “ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ عمران خان سمجھتے ہیں، مولانا فضل الرحمن نے ڈیزل پرمٹ لے کر کرپشن کی تھی۔ اور قارئین جانتے ہی ہیں کہ عمران خان کی ساری جنگ ہی کرپشن کے خلاف ہے۔

اب تحریک انصاف کے کارکنان کیا کہیں گے اس اتحاد کی بابت؟
اور جمعیت علمائے اسلام کے کے کارکنان کیا جواز بیان کریں گے لاڑکانہ میں اتحاد کا؟
ہے کوئی جواب ان کے پاس؟ رہنے دیں، جواب دینے کی کوشش نہ کریں۔ صرف یہ سمجھ لیں کہ پاکستان میں جیسا طرز سیاست چل رہا ہے، یہاں کسی کو بھی کسی کے ساتھ اتحاد، ایڈجسٹمنٹ کرنا پڑسکتی ہے۔ ماضی میں ایسی درجنوں مثالیں قائم ہوئیں۔

” پنجاب کے سب سے بڑے ڈٍاکو “ کو عمران خان نے اپنی حکومت میں شامل کیا ، کچھ ہی عرصہ پہلے وزیراعظم عمران خان ” پنجاب کے سب سے بڑے ڈاکو “ کے گھر گئے اور سینیٹ انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے لئے ان سے مدد طلب کرتے پائے گئے۔ پھر جس شخص کو عمران خان اپنا چپڑاسی بھی نہ رکھنے کا دعویٰ کرتے تھے، اسی کو پہلے وزیر ریلوے بنایا ، پھر وزیرداخلہ۔ سب جانتے ہیں کہ وزیرداخلہ وزیراعظم کے بعد سب سے طاقتور عہدہ ہوتا ہے۔

آپ کو یاد ہوگا کہ چودھری ظہور الٰہی وہ شخص تھے جنھوں نے جنرل ضیا الحق سے وہ قلم بھاری معاوضہ دے کر خریدا تھا جس سے جنرل صاحب نے ذوالفقارعلی بھٹو کی پھانسی کے حکم نامے پر دستخط کیے تھے۔ پھر چودھری ظہور الٰہی کو پیپلزپارٹی کے دہشت گرد ونگ نے بم دھماکے میں ہلاک کردیا تھا۔ پھر اسی خاندان کے چودھری پرویز الٰہی کو پیپلزپارٹی نے نائب وزارت عظمیٰ دیے رکھی۔

اس لئے تحریک انصاف اور جمعیت علمائے اسلام سمیت کسی بھی پارٹی کے کارکنان کو زیب نہیں دیتا کہ وہ کسی جماعت کو کسی دوسری جماعت سے اتحاد پر طعنہ دیں۔ دراصل پاکستانی سیاست میں نظریاتی سیاست نہیں ہورہی، مفاداتی سیاست ہورہی ہے، ایک سیاست دان اپنے مفاد کو پیش نظر رکھتے ہوئے ایک جماعت سے دوسری جماعت میں چھلانگ لگا دیتا ہے۔ اسی طرح سیاسی جماعتوں کو بھی اپنا سیاسی مفاد دیکھنا ہوتا ہے۔ یہ سیاسی مفاد ہی ہے جس نے لاڑکانہ میں پی ٹی آئی اور جے یو آئی کو متحد ہونے پر مجبور کردیا۔

سیاسی کارکنان تو پوائنٹ سکورنگ کرتے ہی ہیں لیکن حیرت ہوتی ہے جب اچھے بھلے دانش ور اس باب میں کسی ایک جماعت کے کسی دوسری جماعت کی حمایت پر غصے سے لال پیلے ہوتے رہتے ہیں۔ ہاں ! سیاسی پوائنٹ سکورنگ کرنے والے کارکنان کو بھی اپنی حدود میں رہنا چاہیے۔ لاڑکانہ میں ‌ہونے والے اتحاد کے ضمن میں مخالف سیاسی کارکنان تحریک انصاف اور جے یو آئی کے خلاف پروپیگنڈا ضرور کریں، انھیں روکنا آسان نہیں تاہم انھیں اس قدر آگے تک نہیں جانا چاہیے کہ کل ان کے اپنے ہاں آگ اور پانی کا ملاپ ہوجائے تو وہ اس کا دفاع کرنے کی پوزیشن میں نہ ہوں ۔

حقیقت پسند بنیں۔ حقیقت یہی ہے کہ پاکستان میں کوئی بھی جماعت کسی بھی دوسری جماعت سے اتحاد قائم کرسکتی ہے ، سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرسکتی ہے۔ پاکستان کے موجودہ سیاسی کلچر میں کسی بھی پارٹی کی قسم نہیں دی جاسکتی۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں