ڈاکٹر شائستہ جبیں
[email protected]
فرح نے ملک کی ایک مشہور یونیورسٹی سے امتیازی نمبروں میں ایم. فل کیا ہے. وہ خوبصورت، سلیقہ مند اور سمجھ دار لڑکی ہے. گھر والے، دوست احباب، ساتھی اس کی صلاحیتوں کے معترف اور قدردان رہے ہیں. اس کی شادی ایک ایسے شخص سے ہوئی جو کہ محض میٹرک تک تعلیم رکھتا ہے اور بہت کم عمری سے ایک عرب ملک میں مختلف کام کر کے ڈھیروں روپیہ اپنے گھر والوں کو بھجواتا ہے.
اس شخص نے شادی کی ایک تقریب میں فرح کو پسند کیا اور بہت ضد اور منتیں کر کے اس سے شادی کی. دلچسپ امر یہ ہے کہ یہ پسندیدگی فرح کی طرف سے بھی تھی. اس نے تعلیم کو معیار ترجیح نہیں بنایا، بلکہ معاشرے کے رائج نظام کے تحت اُس کی معاشی خوشحالی کو بنیاد بناتے ہوئے اپنی آمادگی اور پسندیدگی ظاہر کی ، اس کے والدین کو اس رشتے پر لڑکے کے کم تعلیم یافتہ ہونے کے حوالے سے اعتراضات تھے اور وہ اس رشتے کو قبول کرنے میں ہچکچاہٹ کا شکار تھے لیکن بیٹی کی طرف سے مثبت جواب پا کر وہ اسے قبول کرنے پر مجبور ہو گئے .
لڑکے کے گھر والے بھی اتنی تعلیم یافتہ اور خوبصورت و سلیقہ مند لڑکی کو بہو بنانے سے متامل تھے، کیونکہ انہیں ڈر تھا کہ وہ ان کے بیٹے کو قابو کر کے ان کی کمائی کا ایک بہت بڑا ذریعہ ختم کر دے گی، انہوں نے بھی ہر ممکن طریقے سے بیٹے کو اس رشتے سے بددل کرنے کی کوشش کی، لیکن بیٹے کے سر پر محبت کا جادو سر چڑھ کر بول رہا تھا، اس لیے دونوں طرف سے اہل خانہ کی بھرپور مخالفت کے باوجود ان کی شادی ہوگئی.
شادی کے بعد بھی لڑکے کے گھر والوں کے رویے میں کوئی تبدیلی نہ آئی اور انہوں نے بہو سے علی الاعلان ناپسندیدگی اور ناگواری کا رویہ رکھا، بیٹا جو کہ شادی کے کچھ ہی وقت بعد واپس بیرون ملک چلا گیا تھا. اس کے بھی باقاعدگی سے بیوی کے خلاف کان بھرے جاتے اور بیوی کو لالچی قرار دے کر اسے اپنی کمائی نہ دینے کی وقتاً فوقتاً نصیحتیں کی جاتیں.
بیوی کے مجبور کرنے پر اس نے اسے پاس بلوایا اور یہاں سے فرح کو اپنی شادی شدہ زندگی کی اصلیت کا علم ہوا. محبت کا دعویدار شوہر اس کے والدین، بہن بھائیوں کو برملا گالیاں دیتا تھا، اس سے فون لے لیا گیا تا کہ وہ اپنے گھر والوں سے رابطہ نہ کر سکے.
بہت منتوں کے بعد فون واپس بھی کیا تو اس شرط پر کہ وہ اپنے گھر والوں سے صرف شوہر کی موجودگی میں بات کیا کرے گی. دوسری طرف اپنے گھر فون کر کے ایک ایک شخص سے زبردستی فرح کی بات کرواتا اور اسے مجبور کرتا کہ چاہے اس کے گھر والے جیسا مرضی رویہ رکھیں، اسے انہیں خوش رکھنا ہے اور ان کی عزت کرنی ہے. بات بے بات اسے یونیورسٹی میں مخلوط تعلیم میں پڑھنے کے طعنے دیے جاتے اور اس کے والدین کو صلواتیں سنائی جاتیں کہ جنہوں نے اپنی بیٹی کو اعلیٰ تعلیم دلا کر ایک خودسر عورت بنا دیا ہے .
ان حالات نے فرح کو جو نہ صرف بہت اچھی طالبہ تھی، بلکہ بہت اچھی شاعرہ اور ادیبہ تھی، کے اندر کی حساس روح کو مردہ کر دیا اور وہ اس رشتے کو کسی ان چاہے بوجھ کی طرح ڈھو رہی ہے. حیرت کی بات یہ ہے کہ تمام تر ناقدری اور ذلت کے باوجود اس نے کبھی شوہر سے علیحدگی کا نہیں سوچا، کیونکہ وہ دو بیٹوں کی ماں ہے اور اب وہ بیوی بن کر نہیں، بلکہ ماں بن کر سوچتی ہے. اپنے ارمانوں کا خون کر کے بھی وہ اس رشتے کو سینچ رہی ہے کہ کہیں اس کے ماں باپ کی تعلیم و تربیت پر حرف نہ آ جائے.
آمنہ ایک سائنسی مضمون میں پی ایچ ڈی ہونے کے ساتھ ساتھ ایک سرکاری ادارے میں اعلیٰ عہدے پر کام کر رہی ہے. اس نے اپنے کچھ مسائل کی بناء پر ایک ایسے آدمی سے شادی کی ہامی بھری جو کہ تعلیم، ملازمت، معاشی حالات سب میں اس سے بہت کم تر تھا، لیکن اسے یقین دلا رہا تھا کہ وہ اس سے محبت کرتا ہے اور اس کی بہت قدر کرے گا اور خوش رکھے گا.
بہت سمجھدار اور میچور ہونے کے باوجود وہ بھی ہر عورت کی طرح محبت کے جھانسے میں آ گئی اور گھر والوں کی شدید مخالفت کے باوجود اس شخص سے رشتہ ازدواج میں منسلک ہو گئی. شادی کے بعد اس پر اس شخص کی محبت کی قلعی کھل گئی کہ محبت تو اسے واقعی تھی، لیکن آمنہ سے نہیں، اسے ہر ماہ ملنے والی اس تگڑی تنخواہ سے جو پوری کی پوری شوہر کے حوالے نہ کرنے پر وہ مارپیٹ اور گالم گلوچ کرتا ہے، ذرا ذرا سی بات پر ہاتھ اٹھانا، اس کی تعلیم اور ملازمت کے طعنے دینا، شوہر اور سسرال والوں کا روزانہ کا معمول ہے. وہ مار بھی کھاتی ہے، گھر اور بچہ بھی سنبھالتی ہے اور ملازمت کر کے تنخواہ بھی شوہر کے حوالے کرتی ہے،
اگر کسی مہینے ذاتی ضروریات کے لئے وہ کچھ روپے اپنے پاس رکھ لے، تو شوہر کی زبان دانی کے جوہر اور مارکٹائی کی آوازیں سارا محلہ سنتا ہے. روزانہ کی بنیاد پر ہونے والی اس تذلیل کے باوجود وہ اپنی پسند سے اختیار کئے گئے اس رشتے کو نبھا رہی ہے، کیونکہ وہ خود پر طلاق یافتہ کا لیبل لگوا کر معاشرے کے طنز و تضحیک کا نشانہ بننے سے خوفزدہ ہے .
یہ دونوں کہانیاں اس لیے یاد آئیں کہ پچھلے دنوں سماجی رابطے کی ایک ویب سائٹ پر ایک تحریر دیکھی۔ لکھنے والے نے لکھا تھا کہ مرد جتنا بھی تعلیم یافتہ ہو، وہ کم تعلیم یافتہ عورت سے شادی کر لیتا ہے، جبکہ عورت زیادہ تعلیم حاصل کر لے تو وہ اپنے سے کم تعلیم والے مرد سے شادی کرنے کو تیار نہیں ہوتی.
مرد حضرات کی ایک بڑی تعداد نے اس تحریر پر تعریف و تائید کے ڈونگرے برسائے اور مرد کی عظمت، وسعت قلبی اور عورت کی تنگ نظری پر کھلے عام من چاہے الفاظ کا استعمال کیا. حالانکہ مذہبی یا معاشرتی جس رُو سے بھی دیکھا جائے، یہ رشتہ برابری کی بنیاد پر استوار ہوتا ہے اور برابری کی بنیاد پر ہی کامیاب رہتا ہے.
خاندان، تعلیم، عمر، شکل و صورت ان سب میں مطابقت کی بناء پر اس رشتے کی بنیاد ہوتی ہے، لیکن اگر فریقین میں سے کوئی بھی ایک، دو یا ساری مطابقت کی شرائط کو نظر انداز کر کے رشتہ استوار کرتا ہے تو دوسرے فریق کو اس کی قربانی یا اعلیٰ ظرفی کا نہ صرف احساس ہونا چاہیے بلکہ قدردان ہونا چاہیے.
غیر جانبداری سے دیکھا جائے تو لڑکی کو اگر خود سے زیادہ تعلیم یافتہ اور معاشی لحاظ سے مستحکم مرد کا ساتھ ملے، تو وہ نہ صرف اس پر فخر کرتی ہے، بلکہ وہ اس کی فرماں بردار اور قدردان بھی ہوتی ہے، یہ یاد رہے کہ یہاں تمام خواتین کی نہیں، بلکہ اکثر کی بات ہو رہی ہے، چند ایک سب کچھ پا کر بھی ناشکری کا معاملہ کرتی ہیں اور ان کے اس غیر اخلاقی فعل کی کوئی تعریف نہیں جا سکتی .
مردوں کی اکثریت اعلیٰ تعلیم یافتہ اور ملازمت پیشہ کی خواہاں ہے اور پھر اسے پا کر احسا س کمتری کا شکار بھی، عورت جتنی مرضی کوشش کر لے، اُس کی اعلیٰ تعلیم اُس کے اور سسرال والوں کے بیچ میں ناقابل عبور دشوار راستہ بن کر ایستادہ رہتی ہے.
نہ معلوم ہمارے معاشرے کی سوچ کب بدلے گی اور کب ہم بہوؤں کے حوالے سے وسیع القلب اور کشادہ نظر ہوں گے. اپنی بیٹی کو اعلیٰ تعلیم دلائی تو وہ آپ کا فخر ہے، اور دوسرے کی اعلیٰ تعلیم یافتہ بیٹی گھر لاتے ہوئے آپ کے ذہن میں یہ سوچ ہوتی ہے کہ یہ تو اتنی اعلیٰ تعلیم یافتہ اور ذہین ہے، ہمیں تو کچھ سمجھے گی ہی نہیں، اتنی منفی سوچ کے ساتھ جو رشتہ آپ استوار کرتے ہیں اور لڑکی کی نئے ماحول ، نئے گھر اور نئے رشتوں کے ساتھ ایڈجسٹمنٹ کی کوشش میں ہلکان ہونے کے ساتھ ساتھ، آپ اس کے ہر معمولی سے معمولی عمل پر بھی طنز کی نگاہ رکھ کے بیٹھے ہوتے ہیں اور ذرا سی غلطی پر اسے انسان ہونے کا بھی مارجن نہ دیتے ہوئے فوراً سے پیشتر اس کی اعلیٰ تعلیم کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں، تو کیا ایسے رویوں کے بعد کوئی بیٹیوں کو اعلیٰ تعلیم دلانے کی ہمت کرے گا؟
اور وہ شخص جس کے ساتھ ایک مضبوط تعلق کی ڈور میں بندھ کر وہ اپنے سب رشتے ناتے چھوڑ چلی آئی ہے، وہ بجائے بیوی کا نئے ماحول میں مضبوط سہارا بننے کے، گھر والوں کے متوقع طعنوں کے ڈر سے کہ اس پر آتے ہی جادو کر دیا ہے یا اتنی قابل بیوی کے نیچے تو لگنا ہی تھا… قسم کے جملوں سے بچنے کے لیے خاموش تماشائی بن کر ایک طرف بیٹھ کر خاموش تماشائی بن کر ایک طرف بیٹھ کر تماشا دیکھتا ہے اور لڑکی نئی زندگی کے اس چیلنج سے قطعی نابلد شروع میں ہی اپنا اعتماد کھو بیٹھتی ہے.
اس کی تعلیم، سلیقہ، ہنر مندی جس کے شادی سے پہلے سب قائل تھے، سسرال والوں کے طعنوں کا نشانہ بن کر رہ جاتی ہے، اس کی تمام خوبیاں، خامیاں قرار پاتی ہیں، وجہ صرف اور صرف احساس کمتری ہوتا ہے کہ اپنے سے زیادہ صلاحیتوں اور استعداد کی مالک ایک عورت اس معاشرے کے لئے قابل قبول نہیں ہے.
ہم حقیقت کا سامنا کب کریں گے کہ ہمارے ملک میں خواتین کی تعداد، مردوں کی نسبت زیادہ ہے. اور یہ بھی حقیقت ہے کہ خواتین زیادہ محنتی اور لگن رکھنے والی ہونے کی وجہ سے تعلیم، ہنر اور صلاحیت میں مردوں کو پیچھے چھوڑ رہی ہیں، اور یہ بھی حقیقت ہے کہ ہمارے معاشرے میں آج بھی مرد کی تعلیم، شکل نہیں صرف کمائی دیکھ کر رشتہ طے کیا جاتا ہے. اگر کوئی لڑکی اعلیٰ تعلیم یافتہ، سلیقہ مند اور باصلاحیت ہے، لیکن وہ حقیقت پسندی سے کام لیتے ہوئے اپنے سے کم تعلیم یافتہ، کم آمدنی والے شخص کے ساتھ رشتہ قائم کر رہی ہے، تو آپ اسے اس کا کریڈٹ تو دیں. اس کے تعاون کرنے، شکرگزار ہونے کا رویہ اپنا کر تو دیکھیں، اس کی تعلیم اور صلاحیتوں کو طعنہ بنانے کی بجائے تعریف کا ذریعہ تو بنائیں،
پھر دیکھیں عورتوں کے اندر سے ناقدری کا خوف کس طرح ختم ہوتا ہے اور معاشرے میں شادی نہ ہو سکنے والی اعلیٰ تعلیم یافتہ عورتوں کی تعداد میں کتنی کمی ہوتی ہے، تھوڑا دل بڑا کر کے صنفی تفریق سے باہر نکلیں، تعلیم، قابلیت، ہنر کسی صنف کا حق اور امتیاز نہیں بلکہ جو بھی محنتی اور ذہین ہو گا، اُسی کا مقدر ہوگا. ناقدری، لالچی لوگ، تذلیل کرنے والے لوگوں کے ہاتھوں زندہ درگور ہونے کا خوف ایک باصلاحیت لڑکی کو شادی جیسے رشتے سے خوفزدہ کر رہا ہے، خدارا اپنی سوچ کو بدلیں . محض باتیں کرنے سے مسئلے حل نہیں ہوا کرتے، مسئلے اس وقت حل ہوتے ہیں، جب انھیں حل کرنے کے لیے منطقی دلائل سے کام لے کر عمل کرتے ہیں.
شادی کر کے گھر لے آئیں آپ ایک ملازمت پیشہ، پی ایچ ڈی لڑکی کو اور پھر اس سے امید رکھیں کہ وہ کما بھی لائے، ساری تنخواہ آپ اور آپ کے اہل خانہ پر نچھاور کرے، سب کی خدمتیں بھی کرے، جو آپ کہیں بلا چوں وچراں اس پر سر تسلیم خم کرے تو جناب آپ کو ماسی سکینہ کی دس جماعتیں پاس سولہ سالہ شبو سے شادی کرنی چاہیے تھی، وہی سر جھکا کے اپنا تن من دھن آپ پر اور آپ کے گھر والوں پر وار سکتی تھی.
ایک باشعور عورت جسے اپنے حقوق و فرائض کا بخوبی علم ہے اور وہ حتی الامکان ان کی ادائیگی کے لیے بھی کوشاں ہے، وہ آپ کے حضور اللہ میاں کی گائے بن کر کیسے رہے گی، کہ آپ صبح کہیں تو مان لے اور آپ رات ہونے کا اعلان کریں تو وہ ایمان لے آئے. پڑھی لکھی عورتوں کو سمجھوتے کے رشتوں سے آپ کے رویوں نے متنفر کیا ہے، ان کی تعلیم نے نہیں .
کیا اب بھی وقت نہیں آیا کہ ہم بیٹوں کی تربیت اس نہج پر کریں کہ ذہانت، صلاحیت اور قابلیت خداداد نعمتیں ہیں، جو کہ خواتین کو بھی عطا ہو سکتی ہیں. اگر آپ کی قسمت میں کوئی ایسی خاتون آئی ہے تو اس کی صلاحیتوں کی حوصلہ افزائی اور قدر دانی کرنا اپنی ذمہ داری سمجھیں. ناقدری کر کے اس دمکتے ہیرے کو مٹی میں مت ملائیں.
2 پر “ناقدری تو مت کریں” جوابات
What a beautiful column indeed… Its a big reality of our so called respect able nd intelligent society
Very beautiful.. it’s a harsh reality of our society..Dr shiba kamal kr dia..amazing