سُکار جاکھرو :
پوشیدہ اشیا جیسا کہ دفینوں، خزینوں یا پھر خفیہ خیالات ، خطوط ( تحریری، منقش مجسم الغرض ہمہ اقسام ) ، امراض، حتیٰ کہ خفیہ اعداد وشمار وغیرہ میں کسے دلچسپی نہیں؟
راقم الحروف کو بھی ہے۔ اگرچہ اپنے خفیہ خیالات، عزائم اور ارادوں کو سرعام اور ببانگ دہل کہنے کی ہمت کسی میں بھی نہیں ہوتی لیکن ہم اردو کی اس ویب سائٹ پر اپنے ایک قطعی ذاتی، گہری اندرونی اور انتہائی پوشیدہ اندرونی تکلیف کی بات کریں گے جس کے کہ ہم شکار تھے۔
ببانگ دہل اور ڈنکے کی چوٹ پر۔ یہ کسی ہلکی پھلکی تکلیف کی بات نہیں۔ یہ شدید جسمانی، روحانی اور جذباتی قسم کی تکلیف تھی۔ بلکہ ایک امریکی دانشور اوگڈین نیش نے تو ایک ہی وقت میں اس تکلیف کو طبعی اور نفسیاتی تشدد تک قرار دیا ہے اور بجا دیا ہے۔ اور یہ تکلیف ہے ” داڑھ کا درد “ فارسی میں بولے تو ” درد دندان “۔
دیکھیے قارئین گرامی قدر ! ہنسیے نہیں، دانت نہیں نکالیے اور نہ ہی کسی عمر رسیدہ شخص کے خالی مسوڑهوں جیسا وہ گھسا پٹا محاورہ ہی دہرایے گا کہ کھودا پہاڑ نکلا چوہا!
اے میرے دندان بردار بھائیو ! یہ وہ درد ہے جو ہوتا تو ہے کسی معمولی سے کیڑے کی وجہ سے لیکن عام طور پر اس کیڑے کے بجائے اس دانت کو ہی نکالنا پڑتا ہے۔ کیڑے کا تو پتہ بھی نہیں چلتا کہ کب اور کہاں نکل گیا کہ وہ تو دانت کھودنے کے بعد بھی نہیں نکلتا!
تو جراثیم و حشرات ! معاف کیجیے گا انگلیاں پھسل گئیں۔ ( زبان اس لیے نہیں کہ یہ مضمون بولا یا لکھا نہیں بلکہ کمپوز کیا جارہا ہے) تو خواتین وحضرات ! درد دنداں کے سلسلے میں ایک امریکی کی گواہی اس لیے بھی زیادہ معتبر ہے کہ امریکیوں کی باتوں پر لوگ فوراً اعتبار کر لیتے ہیں۔
مثال کے طور اگرہم کہیں کہ ہم امریکی ہیں توگمان غالب ہے کہ کوئی بھی ہماری بات کا اعتبار نہ کرے گا ممکن ہے ہمارے پاکستانی ہونے سے ہی انکار کر دیا جائے اور ہمارا شناختی کارڈ ہی ضبط کر لیا جائے لیکن اگر کوئی امریکی کہے کہ وہ امریکی ہے تو اس کی بات پر فوراً آمنا صدقنا کہہ دیا جائے گا۔ اور وہ چاہے تو اسے بخوشی و خوشامد پاکستان کی اعزازی شہریت بھی دے دی جائے گی اور اسے پاکستان کے لیے ہی اعزاز تسلیم کیا جائے گا۔
سو درج ذیل قول انہی امریکی دانشوراوگڈین نیش کا ہے جن کا ذکر سطور بالا میں کیا جا چکا ہے، ہم سمجھتے ہیں کہ موصوف کا یہ قول طلائی یا نقرئی نہیں تو فاسفورسی حروف سے تو لکھنے جیسا ہے ہی، آنجہانی نے فرمایا تھا کہ:
Some tortures are physical And some are mental, But the one that is both Is dental.
مطلب یہ ” کوئی تشدد جسمانی ہوتا ہے کوئی ذہنی لیکن ایک تشدد جو ہردو خواص سے بھرپور ہے وہ ہے درد دندان!“
ہو سکتا ہے کہ دانتوں کی تکلیف کوپوشیدہ قرار دینے پر کچھ لوگوں کو اعتراض ہو لیکن ہم واضح کیے دیتے ہیں کہ یہ داڑھ جس کا ہم ذکر کر رہے ہیں وہ کسی بھی اور کی نہ ہوتے ہماری بالکل ذاتی داڑھ تھی۔ جو اتنی تکلیف اور اس میں ہونے والے ایک گہرے گڑهے کی باوجود ” زمین جبند گل محمد نہ جنبد “ کی طرح اپنی جگہ پر موجود ومحکم اور قائم ودائم تھی۔ اور اس داڑھ کا محل وقوع دانتوں اور داڑھوں کی نچلی صف میں دائیں طرف بالکل گہرائی میں ہے۔
سو اے میرے دانت نکال کر کھلکھلاتے بھائی ! میں تجھ سے دانت پیس کر سوال کرتا ہوں کہ ” یہ داڑھ اور اس کی تکلیف بالکل ذاتی اور پوشیدہ ہوئی یا نہیں؟“
یہاں یہ ذکر بے محل نہ ہوگا کہ اوگڈین صاحب کا نام ہمیں کچھ شناسا اور شنیدہ سا لگتا ہے کہ یہ ہمارے سندھی کےعام سے نام آگیڈنو ( آقا یا آغاداد ) سے ملتا ہےاور فارسی کا ” نیش “ بھی اس کا لاحقہ ہے:
عدوے نیش زن کے گھر سے کب وہ مہ جبیں نکلے
الٰہی برج عقرب سے قمر جلدی کہیں نکلے
یہ شعر اس لیے یاد آ گیا کہ ذوق کا ہے اور یہ کوئی مذاق نہیں کہ دانتوں اور ذائقوں کا بھی کچھ نہ کچھ تعلق تو ہے ہی!
نیش درندوں کے اگلے بڑے دانتوں کو کہتے ہیں اور نیشِ عقرب سے مراد بچھو کا ڈنک ہے۔ سچ پوچھیے تو بچپن میں ہمیں دو بار بچھو نے کاٹا ہے۔ پہلی بار تو کوئی بچہ تھا جس نے کاٹا تو یوں محسوس ہوا تھا کہ کسی نےشرارتا چٹکی کاٹ لی ہے ، لیکن بعد میں جب ایک بچھونے سنجیدگی سے کاٹ لیا تو وہی حال ہوا تھا جو کہ اس داڑھ کے درد یا پھر ہمارے ” نیش اقرب “ کے سبب ہو رہا تھا۔
ہمیں لگتا ہے کہ ہماری طرح نیش صاحب بھی درد دنداں کا شکار ہوئے ہوں گے اور اس کے بعد ہی آپ پر منکشف ہوا ہوگا کہ دانت کا درد کیا ہی ناک میں دم کرنےوالا دردناک درد ہوتا ہے! اور اسی داڑھ کے درد نے ان پر وہ ذہنی اور جسمانی تشدد کیا ہوگا کہ وہ یہ شاندار قول دھاڑنے پر مجبور ہو گئے ہوں گے، جو داڑھ میں درد والوں کا آفاقی ترجمان بن سکتا ہے۔
صاحبو ! وطن عزیز میں درد دل کے بعد اگر کوئی درد جو عام ہے اور جس میں ہر خاص و عام مبتلا ہو سکتا ہے تو وہ دانتوں کا درد ہے۔
دل کا درد تو خاصی شاعرانہ چیز ہے اور تقریباً ہر شاعر وغیر شاعر ہی اس قسم کے درد میں مبتلا ہوتا ہے۔ اور اس شاعرقسم کے حضرات تو دانت کے درد کو عام طور کچھ بھی نہیں گردانتے تا آنکہ وہ اس درد میں مبتلا نہیں ہو جاتے۔ اس بات کا اندازہ ہمیں اس شاعر کی تعلی سے ہوا ، جو فرما رہے تھے کہ
جناب ! اگر دانت میں درد ہو تو فلاں گولی کھا لیجیے لیکن اگر دل میں درد ہو تو کیا کیجیے۔
دیکھیے صاحب ! دل کے درد کو دور کر دینے کے لیے بھی موجودہ دور میں بہت سی دوائیں ہیں۔ اور گولیاں بھی۔ لیکن علاج اس درد کی نوعیت پر ہے۔ اگر یہ درد عاشقانہ یا شاعرانہ ہے تو بعض اوقات اس میں گالیوں سے ہی افاقہ ہو جاتا ہے ورنہ بعض سر پھروں کا علاج گولیوں سے بھی کیا گیا ہے جو کہ اعشاریہ ایک سات دو انچ سے صفر اعشاریہ پانچ ایک صفر انچ ( چار ملی میٹر سے 12 اعشاریہ 7 ملی میٹر) تک ہوتی ہیں اور آتشی ہتھیاروں میں ڈال کر استعمال کی جاتی ہیں۔
مزید یہ بھی فرمایا کہ دانت کا ایک علاج یہ بھی ہے کہ اس کو نکال دیجیے لیکن دل میں درد ہو تو اس کا کیا کریں؟
اب ان کو کون سمجھائے کہ جناب ! دل کے درد کا بھی یہی علاج ہے کہ گوشت کے اس دھڑکتے پھڑکتے لوتھڑے کو سینے نکال پھینکیں۔ نکال پھینکنے کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ اسے نکال کر کتوں کی آگے ڈال دیں ۔ نہیں جناب دل نکالیے اور وجہ درد کے قدموں میں ڈال دیجیے:
برگ دل است تحفہ درویش
گر قبول افتد زہے عز وشرف
اب وجہ درد اسے قبول فرما لے
کہہ دے کہ ” نہ دیں گے ہم دل اگر پڑا پایا “
تو یہی آپ کا علاج ہے اور اگر ناکر دے تو بہتر یہی ہے کہ اپنے اس گرے پڑے دل کو کسی چیل کوے کے اٹھانے سے خود ہی اٹھا لیجیے اور وحید مرادانہ انداز میں کسی اور کے قدموں میں رکھ کر ” دل نذرانہ قبول کرلو“ گاتے رہیں تاآنکہ شرف قبولیت نہ حاصل ہو جائے!
اور یہ کسی ایرے غیرے کا نہیں جناب ابن انشا صاحب کا فارمولا ہے کہ چین میں کسی حسینہ کو دیکھ کر دل مچلا تو فرماتے ہیں:” صاحبو ہمارے پاس دلوں کی پوٹلی سی تھی سو ایک دل ادھر بھی پھینک دیا۔“
یقیناً آپ نے کسی بھی دل پھینک انسان کو کبھی درد دل میں مبتلا نہ دیکھا ہوگا۔
اور اگر یہ درد طبی اور طبیعی ہے تو پھر ماہرامراض قلب سے رابطہ فرمائیے۔
البتہ یہ یقیناً دانت کے درد کے ساتھ ناانصافی ہے کہ اسے دل کے درد سے کمتر سمجھا جائے۔ ہم نہیں سمجھتے کہ کوئی بھی صاحب دل شخص ایک بار اس درد میں مبتلا ہونے اور حتی کہ ٹھیک ہونے یا اس کے نکل جانے کے بعد بھی اس درد کو درد دل سے کمتر نہ سمجھے گا۔ یقیناً جب جب وہ درد دنداں کو یاد کرے گا تو دانت کے درد کی ٹیسوں کو یاد کر کےسینے میں ٹیس سی اٹھے گی:
درد ہو دانت میں تو دوا کیجے
اور جو دانت ہی نہ ہو تو کیا کیجے
سید ابو الاعلیٰ مودودی جو کہ مشہور عالم دین اور مفسر قرآن اور جماعت اسلامی کے بانی ہیں ۔ بیسوی صدی کے موثر ترین اسلامی مفکرین میں سے ایک تھے۔ ان کی فکر، سوچ اور ان کی تصانیف نے پوری دنیا کی اسلامی تحریکات کے ارتقا میں گہرا اثر ڈالا اور خاص طور پر جن کی قرآن کریم کی آسان ترین تفسیر ” تفہیم القرآن “ دنیا کی مشہور اور مقبول ترین تفاسیر میں سے ایک ہے، جس کا کہ دنیا بھر کی کتنی ہی زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے اور وہ خودبیسویں صدی کے اہم علما میں سے ہیں۔
مودودی وہ دوسرے شخص تھے جن کی غائبانہ نماز جنازہ کعبہ میں ادا کی گئی، پہلے نجاشی تھے۔ کہتے ہیں کہ سید مودودی کی اور جوش صاحب کی آپس میں اچھی خاصی دوستی تھی، جب مولانا مودودی صاحب کو گردے میں پتھری ہوئی اور وہ کچھ عرصے تک ان سے نہ مل پائے لیکن جب ملاقات ہوئی تو دریافت کرنے پر مولانا نے جوش صاحب کو بتایا کہ ایک گردے میں پتھری ہوئی تھی آپریشن کروا کر نکلوا لی تو پتہ چلا کہ اب دوسرے گردے میں بھی ہو گئی ہے۔ جوش صاحب نے سنا تو مسکرا کر بولے ،” مولانا اللہ تعالیٰ آپ کو اندر سے سنگسار کر رہا ہے۔ “
سو دیکھا جائے تو آپ کہہ سکتے ہیں کہ ہماری داڑھ مولانا صاحب کی پتھری طرح اندر ہی اندر سے ہمیں ہی بھنبھوڑ رہی تھی۔
ہمارا یہ درد شاید داڑھ کی تکلیف کے باعث ہونے والی سوجن کے سبب لوگوں سے پوشیدہ نہ رہ پاتا لیکن چونکہ داڑھوں کے ساتھ ہم داڑھی بھی رکھتے ہیں اس لیے یہ درد اور سوجن پوشیدہ ہی رہ گئے سو اس لیے ہم اپنے اَسرار و اِصرار پر قائم ہیں کہ یہ درد ایک پوشیدہ قسم کا مرض تھا جو کہ ہم کو لاحق ہوا یا جس سے کہ ہمیں سابقہ پڑا۔ اور اب ہمارے انکشاف کرنے پر ہی قارئین کو پتہ چلا کہ ہم کسی مرض کے شکار تھے بصورت دیگر یہ ایک قطعی پوشیدہ مرض تھا۔
اور اس پوشیدہ مرض نے ہمارا دل دہلا دیا تھا اور ہمارے وجود کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ بلکہ یوں کہیں کہ کسی دیوار میں لگنے والی کیل سے بھی کم ناپ کی اور کم ذات کی داڑھ خود تو قطعی نہیں ہل رہی تھی لیکن راقم الحروف کے پورے وجود کو یوں ہلا رہی تھی جیسے کہ وہ جوانگریزی میں کہتے ہیں نا” دم کتے کو ہلائے دے رہی ہے!“
اور ہم بے اختیار یہ سوچنے لگے کے یا خدا یہ عذاب آخر کون سی خطا کے سبب ہماری داڑھ کو کیڑا بن کے چمٹ گیا ہے؟ سچ پوچھیے تو ہم کو تو اپنی خطائوں کی طویل فہرست میں سے کوئی ایک بھی یاد نہیں۔۔۔ لیکن ہماری تمام صغیرہ ، کبیرہ اور درمیانی خطائیں ہمارے سامنے آ کر کھڑی ہو گئیں، جن میں چھوٹے سے چھوٹی بھی کہیے تو ہمالیہ پہاڑ جتنی تو ہوگی ہی اور ان میں سے ہر ایک دانت نکال کر کھی کھی کرتے ٹھمک ٹھمک کر بولنے لگی:” میرے کارن ۔۔۔ میرے کارن ۔“
ان بدتمیز خطائوں کو ” دانتنے“ کے لیے اور دندان شکن جواب دینے کے لیے زبان کو ہلانا چاہا لیکن کوئی حرف نہیں نکلا کہ زبان سوجے مسوڑهے اور دانتوں کے درمیان پھنسی ہوئی تھی۔
دوائوں اور دعائوں سے آخرکار یہ درد ختم ہوا اور جیسے کہ ہم نے نیا جنم لیا ! لیکن اے دندان بردار دوستو جب تلک منہ میں دانت باقی ہیں اور دنیا میں انسان کی ذات باقی ہیں تب تلک مستقل قرار ناممکن ہے دانتوں کے درد سے فرار ناممکن ہے۔
اور ستم ظریفی تو یہ کہ دانت اکھاڑنے والے کو یہاں دندان ساز کہتے ہیں۔
اور اس سے بھی تلخ بات کہ کچھ دندان ساز بجائے دندان چیں کہ چینی بھی کہلاتے ہیں!
اورہم چوں بھی نہیں کر سکتے۔