ایک نوجوان خاتون خط لکھ رہی ہے

فرحت اور انجم کی داستان محبت ( پانچویں قسط )

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

قربان انجم :

پہلے یہ پڑھیے

فرحت اور انجم کی داستان محبت ( پہلی قسط )

فرحت اور انجم کی داستان محبت ( دوسری قسط )

فرحت اور انجم کی داستان محبت ( تیسری قسط )

فرحت اور انجم کی داستان محبت ( چوتھی قسط )

کل اسی طرح گم سم تھی کہ خالہ آوازیں دیتی رہیں، میں نے سنی ہی نہیں حتیٰ کہ انھوں نے مجھے میرے پاس آکر کہا:
”فرحت! اب جاگ جاؤ۔ میں کئی دن سے تمھیں دیکھ رہی ہوں، تم سوئی رہتی ہو۔“
خواب آور گولیاں تو میڈیکل سٹور سے مل جائیں گی مگر بیداری کے لئے کہاں سے علاج کرواؤں۔ میرے جاگنے اور میری بحالی کا سامان تو آپ ہی کرسکتے ہیں۔ آپ کے سوا کوئی نہیں کرسکتا۔“

اس کے جواب میں، میں نے ”سامان بیداری“ کے بیان میں پھر وہ حقائق بیان کرنا شروع کردیے مگر منت سماجت کے انداز میں، مگر فرحت میری اس مشق کو میرے خلوص کے منافی سمجھتی رہی۔ میں اس کے باوجود اسے اپنے خیال سے ہم آہنگ کرنے ہی میں لگا رہا، اس کے سوا کچھ نہیں کرسکتا تھا۔ یہ سلسلہ طویل عرصے تک جاری رہا۔ کبھی امید بندھ جاتی مگر نوامیدی کا پلڑا ہمیشہ بھاری ہی رہا۔اور ایک روز فرحت کا یہ خط موصول ہوا۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم
جان سے پیارے قربان!
سلام فرحت
پہلے بھی عرض کرچکی ہوں کہ تم نے پہلے دن ہی سے میری محبت کا جواب محبت میں نہیں دیا اور محبت کسی پر تھوپی نہیں جاسکتی۔ میں تو چار سال سے اپنے اندر پکنے والے لاوے کو باہر لانے کے خلاف تھی مگر برا ہو نائلہ کا، میری حالت دیکھ کر نہ رہ سکی اور تمھیں خود ہی خط لکھ ڈالا۔

اور جب میں اپنی کالج ٹیم کے ساتھ بیڈمنٹن کا میچ کھیلنے تمھارے شہر آرہی تھی تو اس نے پوچھے بغیر تمھیں ٹیلی گرام دے دیا کہ میں فلاں تاریخ کو فلاں ٹرین میں آرہی ہوں۔ اس نے مجھے بعد میں مطلع کیا مگر آپ اسٹیشن پر آئے ہی نہیں۔ رہا سہا امکان بھی ختم ہوگیا۔ مزید کچھ نہیں لکھوں گی۔ اللہ تمھیں تمھارے تمام اہل خانہ اور احباب کے ساتھ ہمیشہ خوش و خرم رکھے۔
تمھاری اپنی
فرحت

فرحت نے پہلی بار مجھے ” آپ “ کے بجائے ” تم “ سے خطاب کیا جو قربت اور اپنائیت کی علامت ہے مگر ساتھ ہی اس کے بے پناہ برہمی۔

یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ مجھے کوئی ٹیلی گرام نہیں ملا تھا، ملتا تو میں بھی جذبات سے مغلوب ہوکر ضرور ملاقات کے لئے چلا جاتا مگر کارکنان قضا و قدر نے روز اول سے ہمارے ملاپ سے زیادہ فرقت پر توجہ مبذول کیے رکھی اور آج جب قریباً نصف صدی پر محیط داستان بیان کررہا ہوں تو شرح دل سے سمجھ رہا ہوں کہ کارکنان قضاوقدر کا مجھ پر احسان ہے۔ مجھ پر بھی اور فرحت پر بھی ورنہ نہیں کہا جاسکتا کہ ہم گوشت پوست کے دو انسان اپنی اور اپنے متعلقین کی رسوائی اور تباہی کا کیا کیا سامان کرچکے ہوتے!

چند روز کے بعد مجھے نائلہ نے براہ راست یہ خط لکھا:

بسم اللہ الرحمن الرحیم
بھائی جان قربان صاحب!
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

فرحت کے جذبات آپ تک پہنچ چکے ہیں۔ میں کچھ عرض کروں گی تو سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہوگا۔بہرحال یہ ضرور عرض کروں گی کہ فرحت کو مایوسی سے باہر نکالنا ضروری ہے۔ آج کل اس کی نفسیاتی حالت ایسی ہے کہ اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے، اطمینان دلانے کی ضرورت ہے۔

بھائی جان! میری بات کا برا نہ ماننا۔ اڑتی ہوئی چڑیا کو دیکھ کر اس کی طرف لپکنے سے پہلے ہاتھ میں آئی ہوئی چڑیا کو چھوڑ دینا اچھا نہیں ہے۔
فقط
والسلام
آپ کی بہن نائلہ

اس کے جواب میں نائلہ کو بھی حقیقت حال سمجھانے کے لئے الگ سے خط لکھا مگر چند روز کے بعد فرحت کو مخاطب کرتے ہوئے پھر لکھا کہ ہمیں حقائق سے، چاہے وہ تلخ ہی کیوں نہ ہوں، اغماض نہیں برتنا چاہئیے۔ اس کے جواب میں ان دونوں کے جو خط آئے وہ کسی قدر حوصلہ افزا تھے مگر ان میں ناراضی اور مایوسی کے عناصر بھی واضح طور پر جھلک رہے تھے۔

انور اور فرحت کے رابطے
اس دوران میں فرحت نے انور کے ساتھ خط کتابت اور پیغام رسانی کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔ دونوں کا شعور رفتہ رفتہ فروغ پاچکا تھا۔
فرحت نے میرے ساتھ اپنے ”تعلق“ کو انور سے زیادہ تر خفیہ رکھا۔ میں نے بھی۔۔۔۔۔ تاہم بعض معاملات ہم تینوں ایک دوسرے سے shareکرلیتے تھے۔ مثلاً ایک بار انور کے نام ایک محبت و شفقت بھرے خط میں فرحت نے خواہش ظاہر کی کہ اسے گاؤں آکر ملے۔ وہ ان دنوں چھٹیوں پر آئی ہوئی تھی۔

انور اس زمانے میں میرے پاس رحیم یار خان میں تھا جہاں میں روزنامہ ”وفاق“ میں خدمات سرانجام دے رہا تھا۔ مجھ سے اجازت لینے کے بعد گاؤں آگیا۔ چند گھنٹے فرحت اور اس کی فیملی کے ساتھ گزارے۔ ایک دوسرے سے ہر قسم کے دکھ سکھ کے تبادلے ہوئے۔ انور نے واپس آکر جو تفصیلات مجھے بتائیں، ان میں قابل ذکر بات یہ تھی کہ انور نے مجھے کہا:
”فرحت آپی بات بات میں آپ کا ذکر لے آتی تھی۔“

اس کے بعد فرحت نے کئی بار انور کو بالمشافہ ملاقاتوں اور تبادلہ خیالات بلکہ تبادلہ جذبات کے لئے اپنے پاس بلایا۔ایک بار فرحت نے انور کو خط لکھا:

”تم فلاں تاریخ کو فلاں وقت فیصل آباد ریلوے اسٹیشن پہنچ جانا۔ وہاں سے ساہیوال تک ہم اکٹھے سفر کریں گے۔اس دوران جی بھر کے باتیں کریں گے۔ جب انور پہنچا تو فرحت نے ایک کوپا ریزور کا رکھا تھا۔ دونوں ہم سفر ہوئے۔ اس کے بعد انور جب مجھے ملا تو کہنے لگا:

”بھائی جان! اب مجھے یہ بات خفیہ نہیں رکھنی چاہئے کہ آپی اب اپنے آپ میں نہیں رہی ہے، وہ کسی کی محبت میں گرفتار ہوچکی ہے۔“(انور اب میرے ساتھ بہت زیادہ بے تکلف ہوچکا تھا)، میں نے پوچھا:
”کس کی محبت میں؟“
بولا: ”آپ مجھ سے بہتر جانتے ہیں۔“

اس وقت تو ہم دونوں نے مسکراہٹوں کے تبادلے پر ہی بات ختم کردی تھی، تاہم بعد میں ایک دوسرے سے (اپنی اپنی حدود میں رہتے ہوئے) اس موضوع پر کبھی کبھار ہی بات کرلیا کرتے تھے۔

اس کے بعد میرے اور فرحت کے درمیان خط کتابت میں خاصے لمبے وقفے آنے لگے۔ ایک خط میں اس نے تقاضا کیا:

”اگر آپ محسوس نہ فرمائیں تو میرے تمام خط ضائع کردیں بلکہ بہتر ہوگا کہ مجھے ارسال کردیں۔ کسی بھی وقت ان پر کسی کی بھی نظر پڑسکتی ہے۔ میں تو چاہتی ہوں انور کو بھی ان کے مندرجات کا پتہ نہ چلے کہ بعض باتیں جو دل سے نکلتی ہیں اور دل پر اثر کرتی ہیں تو ان میں ہماری کمزوریاں بھی بیان ہوجاتی ہیں۔ یہیں سے رسوائی کی حد شروع ہوجاتی ہے۔ ہمارے گاؤں، ہمارے خاندان اور آپ کے حلقہ احباب میں کسی کو اگر آپ نے اپنا ہم راز بنالیا ہو تو اس کا نام مجھے بتادیں تاکہ میں بھی اس سے سامنا نہ کروں۔“

میں نے فرحت کو اس کے تمام خط واپس کردیے اور یہ بھی لکھ بھیجا کہ ”اس قسم کا میرا کوئی رازداں نہیں ہے جس کا سامنا کرنے سے تمھیں گریز کرنا پڑے۔“

اس کے بعد ہمارے مابین خط کتابت کا سلسلہ بند ہوگیا۔ انور اور فرحت ایک دوسرے کو خط لکھتے رہے اور ملاقاتیں بھی کرتے رہے مگر ان میں بھی طویل وقفے آتے رہے۔ ایک روز مجھے پتہ چلا کہ فرحت کے اباجان کو ہارٹ اٹیک ہوا۔ اس وقت کوئی نوکر بھی گھر میں نہیں تھا۔ فرحت ننگے پاؤں ہمسائیوں کی مدد حاصل کرنے بھاگ کر گئی۔وہ اسپتال پہنچا دیے گئے جہاں بمشکل تمام جانبر ہوئے۔

میں اور انور بیمار پرسی کے لئے ان کے ہاں گئے۔ فرحت نے دسویں جماعت میں پہنچ کر پردہ کرنا شروع کردیا تھا جس پر سختی سے پابند تھی۔ میرے سامنے نہیں آئی۔ انور نے جب اندر جاکر بتایا کہ میں بھی اس کے ساتھ آیا ہوں تو بقول انور ” وہ بے خود ہوکر دروازے کے ایک سوراخ میں سے ڈرائینگ روم کی طرف جھانکنے کے لئے بھاگ کھڑی ہوئی۔ اس وقت اسے یہ بھی ہوش نہ رہا کہ جس کنگھی سے بال سنوار رہی تھی، اسے ڈریسنگ ٹیبل پر رکھ دے۔“

انور کا کہنا ہے:
” یہ بوکھلاہٹ میں نے اس بے پناہ مہذب اور متین لڑکی میں پہلے کبھی نہ دیکھی تھی۔“
انور اور فرحت نے دوتین گھنٹے اکٹھے گزارے بقول انور، اس دوران میں فرحت نے مجھ سے ایک عجیب سوال کیا:
”بی بی جان نے تمھارے بھائی جان کے لئے کوئی لڑکی تلاش کی ہے یا نہیں؟“
جس کے شرارت آمیز جواب میں انور نے کہا:
”آپی! آپ جیسی کوئی لڑکی مل جائے تو بات بن جائے۔“

اس پر انور کو ”گوشمالی“ کا سامنا کرنا پڑا۔ فرحت نے انور سے کہا:
” فلاں تاریخ کو میری سالگرہ ہے تم آسکتے ہو؟
اس نے جواب دیا:
” آپی آپ بہتر جانتی ہیں میں سپریم اتھارٹی سے پوچھ کر ہی ……“
فرحت نے قطع کلامی کرتے ہوئے کہا:
” وہ اتھارٹی تمھیں منع نہیں کرسکے گی۔“

انور، فرحت کی سالگرہ پر پہنچا تو پتہ چلا سالگرہ میں بلانے کا مقصد کچھ اور تھا۔ فرحت انور کو اپنے کمرے میں لے گئی اور رازدارانہ انداز میں بتایا:
” میری منگنی ہوگئی ہے، امی میری گریجویشن ہی کی منتظر تھیں۔ شادی چند میں ہورہی ہے۔ تمھیں اس میں ضرور آنا ہے “۔

اس کے بعد فرحت نے انور کو ان تفصیلات سے آگاہ کیا جو اب تک اسے نہیں بتائی تھیں۔ یہ تفصیلات جان کر، جو میں نے بھی انور کونہیں بتائی تھیں، انور کو پریشانی ہوئی اور اپنی آپی پر پہلی بار غصہ آیا اور آپے سے باہر ہوگیا اور کہنے لگا:

” آپی آپ نے میرے سیدھے سادے اور شریف بھائی جان کو دھوکہ دیا ہے۔ یہ ظلم ہے۔ “

فرحت صوفے سے کھڑی ہوگئی۔اپنی ایک الماری کی طرف جھپٹی۔ اتنی غیرمتوازن تھی کہ اٹھتے وقت ایک بار گرپڑی، پھر اٹھی اور الماری میں سے ایک بڑا سا رجسٹر اٹھا لائی اور انور سے مخاطب ہوکر کہنے لگی:

” اس کمرے میں کوئی آ بھی سکتا ہے۔پچھلے کمرے میں چلتے ہیں جہاں مکمل تنہائی ہوگی۔تمھارے ساتھ ضروری باتیں کرنی ہیں۔ “

انور کا کہنا ہے: ” اس دوران میں ہلکی ہلکی بارش شروع ہوگئی۔ ہم پچھلے کمرے کی طرف چل پڑے۔ فرحت نے یہ بھی پروا نہ کی کہ بارش میں اس کا رجسٹر بھیگ رہا ہے۔ یہاں تک کہ اس میں درج بعض تحریروں پر چھینٹے پڑ رہے ہیں۔ بہرحال ہم کمرے میں پہنچے۔ آپی نے رجسٹر کھول کر میرے سامنے رکھ دیا۔ اس میں آپ کے لکھے ہوئے تمام خطوط اپنے قلم سے نقل کرکے محفوظ کیے گیے تھے۔ ان خطوط کے خط کشیدہ حصے مجھے پڑھوائے۔ میں نے پڑھ لیے تو کہنے لگیں:

” اب بتاؤ! ظلم میں نے کیا ہے یا تمھارے بھائی جان نے؟ “

انور واپس آگیا۔ آتے ہی کپڑے وغیرہ بھی تبدیل نہیں کیے، مجھے الگ لے جاکر غصے کے عالم میں کہنے لگا:
”بھائی جان! آپ نے آپی فرحت کے ساتھ ظلم کیا ہے۔“

میں نے اس کے ساتھ دو یا شاید تین روز تک مختلف اقساط میں طویل نشستیں کیں اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ ظالم میں ہوں نہ فرحت۔ جو کچھ ہم پر ہوا، یہ ظلم نہیں ہے۔ اس کا پتہ آپ کو کچھ عرصے کے بعد خود ہی چل جائے گا۔ ہمارے ساتھ جو کچھ بھی کیا وہ ذات باری تعالیٰ نے کیا اور بالکل ٹھیک کیا کہ ہم کامیاب ہو ہی نہیں سکتے تھے۔ دیگر عوامل کے علاوہ ہم دونوں بے حد حساس تھے(مجھے پروفیسر احمد رفیق اختر نے ایک بار کہا تھا ”زندگی میں آپ جیسا حساس شخص میں نے کوئی نہیں دیکھا)۔

انور نے تین چار روز کے بعد مجھے بتایا:
”آپی کی منگنی ہوگئی ہے۔“
مجھے اندازہ تھا کہ اس قسم کی اطلاع مجھے دکھی کرے گی۔ مگر اس حد تک کہ میں غم میں ڈوب جاؤں گا، اس کا اندازہ نہیں تھا۔ غم، اذیت اور اضطراب کی کیفیت سے باہر نکلنے میں مجھے کئی دن لگ گئے، پھر اطلاع ملی کہ فرحت کی شادی ہوگئی اور وہ پیا گھر سدھار گئی۔ انور شادی میں شریک ہونے کا پختہ ارادہ رکھتا تھا مگر ایک ایمرجنسی کے باعث شامل نہ ہوسکا جس کا بعد میں فرحت کو یقین دلا دیا گیا تھا۔ اس کے بعد ہم دونوں بھائیوں نے باہمی مشاورت سے طے کرلیا کہ اب فرحت کے ساتھ کوئی رابطہ نہیں رکھیں گے۔ ادھر فرحت بھی اپنے طور پر یہی فیصلہ کرچکی تھی۔

25سال بعد

ربع صدی گزر گئی۔ ایک روز پرانے کاغذات دیکھ رہا تھا کہ انور کے نام فرحت کا کئی سال پہلے کا لکھا ہوا خط نظر پڑا۔26مئی1980ء کو فرحت نے انور کے نام یہ خط لکھا، خط کا متن یہ تھا:

پیارے بھیا !
پرخلوص دعائیں
تمھارا خط ملا، جہاں تمھاری تحریر دیکھ کر خوشی ہوئی، وہاں بے حد دکھ بھی ہوا۔ چچا جان اور سعادت بھائی دونوں کی وفات کی بیک وقت اطلاع بے حد تکلیف دہ تھی لیکن بھیا! ہم بھی کیا کرسکتے ہیں، میں تمھیں تسلی نہیں دے سکتی۔ دنیا کے المناک حادثات سے ہم بھی دوچار ہیں، قدرت نے ہمیں آزمائش کے لئے چن لیا ہے، سوائے صبر کے کچھ نہیں کرسکتے۔ صبر بھی کیا جب انسان مجبور ہوتا ہے تو صبر کا نام لے لیتا ہے۔

اب ہمیں ہی دیکھ لو، جینے کا حوصلہ بھی نہیں، اپنا دکھ ہی کسی کو بتانے کا حوصلہ نہیں۔ اپنے عزیزوں کے چلے جانے سے ہم پر کیاگزری، ایک ایک لمحہ کس اذیت سے گزارا۔ بس یہی کہہ دینا کافی ہے کہ سخت جان ہیں زندہ ہیں۔ بہن بھائیوں، ماں باپ کا صدمہ دیکھ کر نئی زندگی میں قدم رکھا تھا جہاں ہر طرح کا سکون ملا۔ بہن بھائی ماں باپ کی محبت ملی لیکن جلد ہی یہ سکون ختم ہونے لگا۔ میری ننھی سی بیٹی داغ مفارقت دے گئی۔ اس کے چند روز ہی بعد ابوجان (سسر) بھی ایک سال پہلے ماں کی محبت سے محروم ہوگئے جس کے چند ماہ بعد خالہ جن کے پاس بہت عرصہ گزارا تھا، اللہ سے جاملیں، اس کے کچھ عرصے بعد میرا بیٹا کاشف بھی انتقال کرگیا۔

انور بھیا! اللہ کے بعد پیارے ماموں کا سہارا تھا جو ان پہاڑ جیسے دکھوں پر مرہم رکھ دیتے تھے، وہ ماموں جنھیں دیکھ کر جینے کی امنگ پیدا ہوتی، وہ ماموں جن کے سینے سے لگ کر ایسا محسوس ہوتا تھا کہ تپتے صحرا سے نکل کر گھنے درختوں کی چھاؤں میں آجاتی۔

بھیا! ہم سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ یہ آخری پناہ گاہ بھی ہم سے چھن جائے گی۔ کبھی یہ سوچا بھی نہ تھا کہ ہم ان سے ایک لمحہ بھی دور ہوں گے۔ آہ ! آج وہ بھی اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔ کاش! ماموں جان سے پہلے ہمیں موت آجاتی۔ ہم سب کو ماں باپ کی محبت دیتے دیتے اپنے بچوں کو بھی باپ کی شفقت سے محروم کر گئے۔ ان معصوم بچوں کو دیکھتے ہی دل تڑپ جاتا ہے۔ آہ! ہم بالکل برباد ہوگئے، اندھے ہوگئے۔ ہمارے گھر میں کوئی آدمی نہیں رہا سوائے ماموں کے دو ننھے بیٹوں کے۔میرے ننھیال دودھیال دونوں ختم ہوگئے۔

اب تم خود ہی سوچو میں تمھیں، بی بی جان، قربان بھائی، غلام رسول بھائی کو کس طرح تسلی دے سکتی ہوں۔ میرے پاس الفاظ نہیں جو میں تمھیں یقین دلادوں کہ میں بھی تمھارے غم میں برابر کی شریک ہوں۔ سعادت بھائی کو یاد کرکے مجھے ایسے احساس ہورہا ہے کہ کبھی جو ایک بہن کو اس کے بھائی کے انتقال کی خبر سننے کے بعد دکھ ہوتا ہے۔

میں نے تم لوگوں کو ہمیشہ بھائیوں کی طرح ہی سمجھا۔ اللہ پاک میرے بھائی کو جنت الفردوس میں جگہ دے، قبر کے عذاب سے بچائے (آمین)۔ اللہ بی بی جان کو طویل زندگی عطا کرے تاکہ تم سب لوگوں سے جو باپ جیسی شفیق ہستی سے محروم ہوگئے ہو، بی بی جان کے دم سے جینے کا سہارا مل جائے۔

غلام رسول بھائی کے کتنے بچے ہیں، قربان بھائی کی شادی کہاں کی ہے؟ کتنے بچے ہیں؟ بچوں کو بہت بہت پیار کرنا، بھابھی کو بھی سلام کہنا۔ اللہ پاک ان بچوں کے سر پر ان کے ابا کا سایہ ہمیشہ سلامت رکھے۔ بچے تو پھول ہوتے ہیں یہ محرومی سے مرجھا جاتے ہیں۔ قربان بھائی کا کسی اچھے ڈاکٹر سے علاج کروائیں، میں انھیں اتنا بزدل نہیں سمجھتی تھی کہ حادثات سے گھبرا کر اپنی صحت سے بے پروا ہوگئے اور کچھ نہیں تو بی بی جان اور اپنی بیوی بچوں کا خیال کرکے صحت کا خیال رکھیں۔ بیوی بچوں کے لئے تو آدمی بہت کچھ کرتا ہے۔

انور بھیا! خط بہت طویل ہوگیا ہے اور مجھ میں اتنی ہمت نہیں کہ میں بی بی کو تسلی دے سکوں۔ تم ان سے کہنا کہ آپی کا آپ کے نام ہی خط آیا ہے۔ ان کا بہت خیال رکھا کرو۔ بزرگ بہت بڑی نعمت ہیں۔ میں بچوں کی تصویریں ضرور بھیجوں گی۔ میرا بڑا بیٹا وقاص احمد ٹیپو کلاس تھرڈ سیکرڈ چارٹ میں پڑھتا ہے۔ ہمیشہ اپنی کلاس میں فرسٹ پوزیشن لیتا تھا لیکن ماموں جان کے سانحہ نے اسے متاثر کیا ہے، روتا رہتا تھا۔ اس سال پوزیشن بھی نہ لے سکا۔ میں بھی توجہ نہ دے سکی۔

ٹیپو کے بعد عاطف اور وجیہہ ہیں۔ یہ جڑواں ہیں۔ دونوں کلاس 1میں پڑھتے ہیں۔ ویسے عاطف ذہین ہے، نمبر ہمیشہ وجیہہ لے جاتی ہے۔ان کے بعد کاشف تھا جس کا انتقال ہوگیا۔ سب سے چھوٹے حماد رضا ہیں جن کی عمر 2 سال ہے۔ تم سرگودھا آؤ تو ضرور آنا۔ سب کو سلام کہنا، بچے بھی ماموں کو سلام کہتے ہیں۔
ضروری نوٹ: ہمت کرکے بی بی جان کو الگ خط لکھ دیا ہے، انھیں دے دیں۔
تمھاری آپی
فرحت

بسم اللہ الرحمن الرحیم
پیاری بی بی جان
السلام علیکم!

خدا آپ کو طویل زندگی مع صحت و سلامتی عطا کرے۔آپ کا شفقت نامہ ملا لیکن بی بی، چچا جان اور سعادت بھائی کا جوانی میں انتقال کا پڑھ کر بے حد صدمہ ہوا۔ ایک دم سہاگ اور پھر جوان اولاد کا غم ناقابل برداشت ہوتا ہے۔ بی بی جان! اب ان لوگوں کو بھولنے کی کوشش کریں اور اپنے بچوں کو دیکھ کر جینے کی امنگ پیدا کریں۔ ان بچوں کو آپ کی بہت ضرورت ہے۔ اگر آپ غم لگا بیٹھیں تو آپ کی صحت متاثر ہوگی۔

بی بی، غلام رسول بھائی اور قربان کے بچوں کو بھی آپ کی شفقت چاہئے اور ابھی تو آپ نے اشرف اور انور کے گھر بھی آباد کرنے ہیں۔ حوصلہ پیدا کریں۔ اپنی بیٹی کو دیکھ لیں جو اپنے صرف بچوں، شوہر اور سسرال والوں کے لئے زندہ ہے۔ میں آپ کو اپنا غم سنا کر پریشان نہیں کرنا چاہتی۔ بس! میرے لئے دعا کرتی رہا کریں تاکہ ہمت اور حوصلے سے زندگی گزار سکوں۔

آپ نے قربان بھائی کی بیٹی کا نام فرحت رکھ لیا۔ اچھا کیا۔ اللہ کرے اس کی زندگی مجھ سے بالکل مختلف ہو۔ ماں باپ اور دادی کے زیرسایہ پروان چڑھے، غموں سے دور رہے۔ میری طرف سے بھی بہت پیار کرنا۔ وقاص، عاطف، وجیہہ اور حماد بھی اپنی نانی اماں اور ماموں کو سلام کہتے ہیں۔ بڑے بھائی کے بچے کتنے ہیں اور چھوٹے بھائی کے کتنے بچے ہیں۔ میری طرف سے دونوں بھائیوں کو سلام کہہ دیں، سب بھتیجوں اور بھتیجوں کو ان کی پھوپھو کی طرف سے بہت بہت پیار۔ اشرف کے لئے بہت سی دعائیں۔ میں آپ سے ملنے کی کوشش ضرور کروں گی۔ آپ تفصیل سے لکھیے گا کہ کون سے گاؤں میں مقیم ہیں اور راستہ کیا ہے؟ اب اجازت دیں۔ غلام رسول بھائی، قربان بھائی کو سلام کہہ دیں۔ دونوں بھائیوں کو بھی سلام کہیں۔ انور اور اشرف کے لئے پرخلوص دعائیں۔

فقط والسلام
آپ کی بیٹی
فرحت

یہ خط دیکھ کر پرانی یادیں تازہ ہوگئیں۔ زخم ہرے ہوگئے۔ ایک تو یہ پتہ چلا کہ فرحت اور انور کے درمیان خط کتابت جاری رہی ہے۔ یقین کے ساتھ نہیں کہا جاسکتا کہ انور کے پاس یہ خط پہنچا بھی یا نہیں۔ اس نے جواب بھی دیا ہوگا یا نہیں۔

میں نے یہ فرحت کے انور اور بی بی جان کے نام خط دیکھے تو اس بنا پر میری اضطراب انگیز پریشانی میں اضافہ ہوا کہ اب تو نہ بی بی جان اس دنیا میں ہیں اور نہ ہی انور۔ یہ امکان بھی ہے کہ بی بی جان اور انور بھی فرحت کے خط نہیں دیکھ سکے ہوں گے کیونکہ مجھے بی بی جان نے تو بہرحال بتا ہی دینا تھا۔ (جاری ہے)


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں