عبیداعوان……….
نمازظہرین مکمل ہوئی، امامت کرانے والے آیت اللہ خامنہ ای زمین پر بیٹھے ہوئے تھے، قطار در قطار بیٹھے نمازی کاغذ کی پرچیوں پر مختلف سوالات لکھ کر خامنہ ای کی طرف بھیج رہے تھے جو ہرسوال کا جواب دے رہے تھے۔ وہ کہہ رہے تھے:
“خواتین صرف عربوں ہی میں نہیں بلکہ تمام معاشروں میں مظلومیت کی زندگی بسر کررہی ہیں،انھیں تعلیم حاصل نہیں کرنے دی جاتی، معاشرے میں کردار ادا کرنے کی اجازت نہیں، انھیں سیاست کے بارے میں شعور حاصل کرنے سے روکاجاتا ہے۔۔۔۔۔۔”
پھر ایک زوردار دھماکہ ہوا۔ خامنہ ای فرش پر گرپڑے،محافظ اول دوڑ کر ان کے پاس پہنچا۔ مسجد چھوٹی سی تھی، محافظ خامنہ ای کو باہر لے جانے لگا، مسجد کے دوسرے امام اس ریڈیو کو دیکھ رہے تھے جو ٹکڑوں میں بکھرا پڑاتھا۔ بم اسی میں نصب تھا۔
خامنہ ای کو فورا ہسپتال منتقل کردیا گیا۔ ان کے لب مسلسل ہل رہے تھے، وہ کچھ الفاظ دہرا رہے تھے، قریب موجود ساتھیوں کا کہنا تھا کہ وہ کلمہ شہادت پڑھ رہے تھے۔
پھرمحافظ نے ان کا پیجر پکڑا، جس کا خفیہ کوڈ تھا” سات کا نگہبان”۔ محافظ نے پیغام لکھا:”سنٹر50-50″، جس کا مطلب تھا کہ خامنہ ای زخمی ہیں۔”
ان کے جسم کے دائیں حصے میں ریڈیو کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے گھسے ہوئے تھے۔ سینے کا ایک حصہ مکمل طور پر جل گیاتھا۔ دایاں ہاتھ سوج چکاتھا اور بالکل حرکت نہیں کررہاتھا۔ سینے اور کندھے کی ہڈی واضح طور پر نظر آرہی تھی۔ اچانک سرجن نے آپریشن سے ہاتھ کھینچ لیا، دوسرے سرجن نے پوچھا:”کیوں ہاتھ روکا؟” وہ بولا:” یہ چلے گئے۔” دراصل خامنہ ای کا بلڈپریشر صفر پر تھا۔ پھر حیرت انگیز طور پر بلڈپریشرآہستہ آہستہ بڑھنے لگا۔ اب ڈاکٹرز پھر اپنی کوشش کرنے لگے۔
جب آپریشن مکمل ہوا، خامنہ ای مصنوعی سسٹم پر سانس لے رہے تھے، بعدمیں جب ہوش میں آئے تو انھیں پہلا احساس ہوا کہ ان کا دایاں بازو کام نہیں کررہاہے۔ وہ بول نہیں سکتے تھے، پھر انھوں نے اپنے بائیں ہاتھ سے کاغذ پر دو سوالات لکھے:
اول: میرا کوئی ساتھی زخمی تو نہیں ہوا؟
انھیں جواب دیاگیا:”نہیں، سب خیریت سے ہیں”
پھر انھوں نے اپنے دائیں ہاتھ کی بابت پوچھا، انھیں بتایاگیا کہ وہ شاید اب کبھی کام نہ کرسکے۔
“ٹھیک ہے، مجھے اس کی ضرورت نہیں، میرا دماغ اور زبان کام کررہی ہے نا، یہی کافی ہے” خامنہ ای بولے۔
تب سے اب تک خامنہ ای بائیں ہاتھ ہی سے کام لیتے ہیں۔
یہ 27جون1981 کا واقعہ ہے۔