محمود الحسن :
1992 کے ورلڈ کپ کی فاتح ٹیم کے کھلاڑیوں سے عمران خان کی عظمت کے گیت سن سن کر میرے تو کان پک گئے ہیں۔ مجھے کرکٹ کی تاریخ سے تھوڑی بہت دلچسپی ہے اس لیے اذیت بھی زیادہ ہوتی ہے۔ ان کھلاڑیوں نے ورلڈ کپ کے بعد اپنے کپتان کے ساتھ جو سلوک کیا اس کی یہ کہانی ذرا آپ بھی پڑھ لیں جس کے مرکزی راوی عمران خان ہیں۔
۔۔۔۔۔۔
1992 کے ورلڈ کپ کے بعد عمران خان ریٹائر نہیں ہونا چاہتے تھے لیکن حالات کے جبر نے انہیں کرکٹ کو خیرباد کہنے پر مجبور کر دیا۔
عام طور پر یہی بات مشہور ہے کہ انہوں نے کیریئر کے عروج پر خوشی خوشی ریٹائرمنٹ لی، مگر حقائق اس بات کی تصدیق نہیں کرتے۔
ورلڈ کپ کے بعد پاکستانی ٹیم نے انگلینڈ کا دورہ کرنا تھا۔ عمران خان بھی اس دورے پر ٹیم کے ساتھ جانا چاہتے تھے کیونکہ وہاں سے انہیں شوکت خانم میموریل کینسر ہسپتال کے لیے خاطر خواہ فنڈز ملنے کی توقع تھی۔ ان کی یہ خواہش اس لیے پوری نہ ہو سکی کہ ٹیم کے سینیئر اور جونیئر کھلاڑیوں نے ان کے خلاف بغاوت کر دی تھی جو اگرچہ کھلی بغاوت تو نہ تھی لیکن اس کا اثر یہ ہوا کہ عمران خان کا دل کھلاڑیوں کی طرف سے میلا ہو گیا اور انہوں نے بھاری دل کے ساتھ کرکٹ چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا۔
ایسے میں ذہن میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ آخر کیا وجہ ہوئی کہ ورلڈ کپ کی فاتح ٹیم اپنے کپتان سے چند دنوں میں ہی بدگمان ہو گئی؟ اس سوال کا جواب ہے ’ پیسہ ‘۔
مشتاق احمد نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ عمران خان کے خلاف جو کچھ ہو رہا تھا وہ اس پر اندر سے خوش نہیں تھے۔
ورلڈ کپ جیتنے کے بعد کھلاڑیوں پر انعام و اکرام کی بارش ہونے لگی، جس کا ایک حصہ شوکت خانم ہسپتال کے لیے مختص کیے جانے پر کھلاڑی خوش نہ تھے۔ اس بات پر کپتان کے خلاف باتیں ہونے لگیں۔ اس مہم میں دو سینیئر کھلاڑی جاوید میانداد اور سلیم ملک پیش پیش تھے۔
دونوں دل کی بات زبان پر بھی لا رہے تھے۔ باقی کھلاڑی بھی اندر سے ان کے ساتھ تھے۔ ٹیسٹ کرکٹر مشتاق احمد نے اس سارے واقعے کی کہانی اپنی آپ بیتی ’ ٹی 20 ورژن مائی لائف اینڈ انسپائریشن ‘ میں بیان کی ہے۔
مشتاق احمد کے مطابق عمران خان نے ٹیم میٹنگ میں کہا کہ ٹیم کو جو انعامی رقم ملے اس میں سے آدھی رقم شوکت خانم ہسپتال کے لیے مختص ہو اور باقی آدھی کھلاڑیوں میں تقسیم ہو جائے۔ مشتاق احمد نے لکھا ہے کہ عمران خان کے اس خیال کو سینیئر کھلاڑیوں خاص طور پر جاوید میانداد نے بالکل پسند نہیں کیا۔
آسٹریلیا سے واپسی پر ٹیم سنگاپور میں رکی تو وہاں سینیئر کھلاڑیوں نے الگ سے میٹنگ کی جس میں طے پایا کہ ٹیم عمران خان کے بغیر ڈنرز کا اہتمام کرے گی اور ان سے جو پیسے اکٹھے ہوں گے ان پر صرف کھلاڑیوں کا حق ہو گا۔
مشتاق احمد نے کتاب میں بتایا ہے کہ عمران خان کے خلاف جو کچھ ہو رہا تھا وہ اس پر اندر سے خوش نہیں تھے لیکن انہوں نے اکثریت کا ساتھ دیا۔
عمران خان کھلاڑیوں کے بدلے ہوئے تیور دیکھ رہے تھے لیکن انہیں مکمل طور پر اندازہ نہیں تھا کہ ان کے خلاف کیا کھچڑی پک رہی ہے، لیکن جلد ہی وہ موقع آ گیا کہ ساری بات کھل گئی۔
سوال اٹھتا ہے کہ آخر کیا وجہ ہوئی کہ ورلڈ کپ کی فاتح ٹیم اپنے کپتان سے چند دنوں میں ہی بدگمان ہو گئی؟
مشتاق احمد کے مطابق شالا مار باغ میں لاہور کے نمایاں کاروباری افراد نے ایک تقریب کا اہتمام کیا تھا جس میں وہ شوکت خانم ہسپتال کے لیے چندہ دینا چاہتے تھے۔ اس تقریب سے ایک دن پہلے باغی کھلاڑیوں نے طے کیا کہ اب سرعام احتجاج ریکارڈ کرانے کا وقت آن پہنچا ہے۔ سب باغی کھلاڑی اگلے روز تقریب میں گئے اور طے شدہ منصوبے کے تحت عین وقت پر وہاں سے کھسک گئے، جس کا عمران خان کو بہت رنج ہوا۔
وسیم اکرم نے اپنی آپ بیتی ’ وسیم: آٹو بائیو گرافی آف وسیم اکرم ‘ میں اس سارے معاملے کے بارے میں بتایا ہے کہ سنگاپور میں چیرٹی ڈنر میں اکٹھی ہونے والی ساری رقم جب ہسپتال فنڈ میں گئی تو کھلاڑیوں نے فیصلہ کیا کہ اب وہ شوکت خانم ہسپتال کے لیے مزید کسی چیرٹی مہم کا حصہ نہیں بنیں گے، اسی فیصلے کے نتیجے میں شالا مار باغ لاہور میں منعقدہ تقریب کا بائیکاٹ کیا گیا۔
عمران خان کرکٹ چھوڑنے کے معاملے پر تذبذب کا شکار تھے، کندھے کا درد بھی پریشان کر رہا تھا، ہسپتال کے لیے مصروفیات الگ تھیں، لیکن عمران خان کے بقول، شالا مار باغ کے واقعے نے ان کی مشکل آسان کر دی اور انہیں ریٹائرمنٹ لینے کا فیصلہ کرنے میں مدد دی۔
عمران خان نے ٹیم میٹنگ میں کہا کہ ٹیم کو جو انعامی رقم ملے، اس میں سے آدھی رقم شوکت خانم ہسپتال کے لیے مختص ہو اور باقی آدھی کھلاڑیوں میں تقسیم ہو جائے۔
اس واقعے کی تلخ یاد عمران خان کے ذہن سے کبھی محو نہ ہوئی، 2011 میں ان کی کتاب ’ میں اور میرا پاکستان ‘ شائع ہوئی تو اس میں انہوں نے لکھا کہ
’’ ایک عجیب صورت حال نے جنم لیا، ٹیم کے اکثر کھلاڑی کہتے تھے کہ اس تاریخی کامیابی کے بعد قوم کی دولت ہسپتال کے لیے مجھ پر برسے گی۔ میں اب تک حیران ہوں کہ وہ اس انداز سے کیوں سوچنے لگے۔
آسٹریلیا سے وطن واپس آتے ہوئے جب سنگاپور میں ہم رکے تو پاکستانی سفیر نے شوکت خانم ہسپتال کے لیے مجھے چیک دیا۔ میرا خیال ہے کہ تب کھلاڑیوں کو یہ احساس ہونے لگا کہ انعام تو دراصل انہیں ملنا چاہیے تھا۔ پھر ہم لاہور پہنچے جہاں شہر کے تاجروں نے سترہویں صدی کے مغل بادشاہ شاہ جہاں کے تعمیر کردہ شالا مار باغ میں ہمارے اعزاز میں استقبالیے کا اہتمام کیا تھا۔ انہوں نے اعلان کیا کہ ہسپتال کے لیے کچھ رقم انہوں نے اکٹھی کر رکھی ہے۔
میں اس وقت ششدر رہ گیا جب ٹیم اس تقریب سے احتجاجاً اٹھ کر چلی گئی۔ زندگی میں کتنے ہی حادثات مجھ پر گزرے ہیں۔ میری ماں کی موت، اشرف الحق کی زبانی مشرقی پاکستان کے قتل عام کی تفصیل، کھیل کے زمانہ عروج میں ٹانگ ٹوٹ جانا لیکن ایسی اذیت مجھے پہلے کبھی نہ پہنچی تھی۔ یہ وہ کھلاڑی تھے، جن کے انتخاب اور تربیت میں میرا حصہ تھا۔ میں بری طرح مایوس ہوا، حالانکہ انعامات ہمیشہ برابر تقسیم کیے جاتے۔
اگر کوئی ’ مین آف دی میچ ‘ ہو تب بھی کھلاڑیوں کو حصہ دیا جاتا تھا۔ قریباً دس گیارہ برس سے میں ’ مین آف دی سیریز‘ چلا آ رہا تھا۔ ہر بار ہر انعام میں نے کھلاڑیوں میں تقسیم کیا۔ اکثر کھلاڑیوں نے بعد میں معافی مانگی۔
بعض کھلاڑیوں نے کہا کہ دوسروں نے انہیں گمراہ کیا۔ میرا نقطہ نظر یہ ہے کہ 1992 کی فتح کے بعد ٹیم میں لالچ کے بیج بوئے گئے۔ ہر کھلاڑی کو 90 ہزار پاؤنڈز ملے تھے۔ کبھی کسی کھلاڑی نے اتنی دولت نہ کمائی تھی۔‘‘