قائد اعظم ، تقریر، 23 مارچ 1940

نظریہ پاکستان اور ہم

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

نبیلہ شہزاد / لاہور :

ہر کام کا آغاز ایک خیال، ایک تصور سے ہوتا ہے جو کام کرنے والے کے ذہن میں موجود ہوتا ہے۔ اسی خیال کو اس کام کا نظریہ کہتے ہیں۔اس طرح پاکستان کے وجود میں آنے کے پیچھے بھی ایک نظریہ ہے۔ یعنی وہ تصور جو برصغیر کے مسلمانوں کے ذہنوں میں ابھرا اور ان میں یہ لگن پیدا کی کہ وہ پاکستان کے قیام کے لئے ہر ممکن کوشش کریں۔ الگ وطن کا یہ تصور ذہنوں میں یونہی نہیں ابھرا۔ اس کا ایک سبب نہیں بلکہ بہت سے اسباب تھے۔

برصغیر میں مسلمان تقریباً ایک ہزار سال حکمرانی اور سو سال غلامی کے گزار چکے تھے۔ انہیں اس حقیقت کی سمجھ آ چکی تھی کہ انگریزوں کے جانے کے بعد ہندوؤں کے ساتھ ایک مشترکہ ملک میں رہنا ان کے لئے دشوار گزار عمل ہے۔ کیونکہ ہندوؤں اور مسلمانوں کی تہذیب وثقافت، معاشرت، رسم و رواج، حتیٰ کہ لباس و خوراک تک مختلف ہے۔ یہ دو قومیں مذہبی لحاظ میں بھی ایک دوسری کا تضاد ہیں۔ان کا ایک جگہ پر پرامن رہنا اب ممکن نہیں۔

برصغیر میں انگریزوں کی حکمرانی آنے کے بعد ہندوؤں کو بھی مسلمانوں پر اپنی اجارہ داری قائم کرنے کا موقع مل گیا۔ مسلمان سیاسی طور پر کمزور تھے۔ ان کے حقوق کے تحفظ کی کوئی ضمانت نہ تھی۔انہیں تمسخر سے ” مسلے“ کہہ کر پکارا جاتا۔ انہیں پلید اور ملیچھ سمجھا جاتا۔ یہاں تک کہ جس برتن کو کسی مسلمان کا ہاتھ لگ جاتا وہ برتن تک پلید سمجھ لیا جاتا۔

جب البیرونی ہندوستان آیا تو اس نے اپنی معرکۃ الآراء کتاب ” کتاب الہند “ میں لکھا :
” ہندو مسلمانوں کو ملیچھ سمجھتے ہیں۔ نہ اکٹھے بیٹھ کر کھا سکتے ہیں نہ پی سکتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اگر اکٹھے بیٹھ کر کھا یا پی لیں تو ہم پلید یا ناپاک ہوجائیں گے۔ جب وہ اکٹھے بیٹھ کر کھا یا پی نہ سکیں تو وہ ایک قوم کیوں کر بن سکتی ہے ۔“

مسلمانوں نے اپنے سینکڑوں سال کے دور حکومت میں تمام دوسرے مذاہب کے لوگوں کا پورا پورا خیال رکھا۔انہیں مذہبی آزادی دی۔ ان کے ساتھ عدل و انصاف کا معاملہ رکھا لیکن جب 1857ء کی جنگ آزادی کے بعد مسلمانوں پر محکومی کا دور آیا تو ہندوؤں نے مسلمانوں کو ٹھیک طرح سے اپنی اوقات دکھائی۔ جنگ آزادی کے صرف 10 سال بعد ہی 1867ء میں بنارس کے ہندوؤں نے لسانی تحریک شروع کردی۔ جس کا مقصد اردو کی جگہ ہندی کو سرکاری اور عدالتی زبان کے طور پر رائج کرنا تھا۔عربی رسم الخط کی جگہ دیوناگری رسم الخط کو اپنانا تھا۔

سکولوں میں مسلمان بچوں کو زبردستی بندے ماترم کا ترانہ پڑھنے پر مجبور کیا جانے لگا۔ انہیں مورتی کے سامنے جھکنے کی تعلیم دی جانے لگی۔ مسلمانوں کے ساتھ ہر طرح کی معاشرتی ناانصافی کی جانے لگی۔باشعور مسلمانوں نےمحسوس کر لیا کہ اگر انگریزوں کی غلامی سے آزادی مل بھی گئی تو وہ ہندوؤں کے چنگل میں پھنس جائیں گے۔ لہذا کوئی ایسی صورتحال ہونی چاہیے کہ وہ اپنے مذہبی قواعد و ضوابط کے مطابق زندگی گزار سکیں۔

اس کا حل علامہ اقبال نے خطبہ الہ آباد میں تصور پاکستان کی صورت میں دیا۔ دو قومی نظریہ کی بنیاد پر علامہ اقبال نے مسلمانوں کے لیے الگ وطن کا مطالبہ کرتے ہوئے فرمایا:
” ہندوستان ایسے افراد کا براعظم ہے جو مختلف زبانوں اور مذاہب سے تعلق رکھتے ہیں۔ ایک ہم جنس ہندوستان کے تصور کی بنیاد پر ایک آئین تشکیل دینا، اس کو خانہ جنگی کے لیے تیار کرنے کے مترادف ہے۔اس لئے ہندوستان کے مسلمانوں کے بہترین مفاد میں، ایک مسلم ریاست کے قیام کا مطالبہ کرتا ہوں۔ ثقافتی اقدار اور مذہبی رجحانات کے باعث مسلمان ایک الگ قوم ہیں۔ وہ اپنی پسند کا نظام اپنانا چاہتے ہیں۔ اس لئے الگ مذہبی اور ثقافتی تشخص کے پیش نظر ان کو ایسے نظام کے تحت زندگی گزارنے کی اجازت دی جانی چاہیے.“

قائداعظم نے دو قومی نظریہ کی وضاحت ان الفاظ میں کی:
” نہ ہندوستان ایک ملک ہے اور نہ ہی اس کے باشندے ایک قوم، یہ ایک برصغیر ہے جس میں ہندو اور مسلمان، دو بڑی قومیں ہیں۔ میں واشگاف الفاظ میں کہتا ہوں کہ وہ دو مختلف تہذیبوں سے تعلق رکھتی ہیں اور ان تہذیبوں کی بنیاد ایسے تصورات اور حقائق پر رکھی گئی ہے جو ایک دوسرے کی ضد ہیں۔“

مسلمانوں کے اندر دو قومی نظریہ کی پہچان، اہمیت و ضرورت اجاگر کرنے کے لیے تمام مسلم رہنماؤں نے بھرپور کردار ادا کیا۔ پھر اسی نظریے کی بنا پر 23 مارچ 1940ء کو شیر بنگال مولوی فضل الحق نے منٹو پارک لاہور میں تاریخی قرارداد پیش کی جسے قرارداد لاہور کہا جاتا ہے۔ جو آگے چل کر قیام پاکستان کی بنیاد قرار پائی۔ پھر اس جہاں نے دیکھا کہ برصغیر کے مسلمانوں نے جان و مال، زمین و جائیداد، ہر طرح کی قربانیاں دے کر پاکستان کے تصور کو عملی جامہ پہنایا۔

انگریزوں اور ہندوؤں کی بھرپور مخالفت کے باوجود الگ وطن کا قیام اتنا آسان کام نہ تھا۔ لیکن جب جذبے سچے ہوں اور آپس میں اتحاد ہو تو اللہ کی مدد کا وعدہ ہے۔

ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کاشغر
(علامہ محمد اقبال)

الحمدللہ: اب ہم اللہ تعالی کی مدد اور اپنے بزرگوں کی قربانیوں کی بدولت الگ، آزاد، دنیا کی سب سے زیادہ اہمیت کی حامل اسلامی ریاست میں، اسلامی شعائر کے مطابق زندگی گزارنے کے قابل ہیں۔اب ہماری ذمہ داری ہے کہ جس نظریہ کی بنا پر یہ ملک حاصل کیا گیا۔ نہ صرف اس نظریہ کی حفاظت کریں بلکہ اپنی نسل نو کو اس کی اہمیت کا احساس بھی دلائیں۔

افسوس اس بات کا ہے کہ ہم نے اپنی ثقافت میں ابھی بھی ہندوانہ رسوم کو پیوند کر رکھا ہے جس کا تمسخر سونیا گاندھی نے بھی یہ کہہ کر اڑایا کہ
” ہم نے پاکستان کو ثقافتی محاذ پر شکست دے دی ہے“ ۔ ذرا ان ممالک کی طرف دیکھیں جہاں مسلمان اقلیت کی صورت میں رہ رہے ہیں۔ان کے بچے سکولوں میں اسلامی لباس نہیں پہن سکتے۔ وہ کھانے پینے کی اشیاء میں حلال حرام کے چکروں میں رہتے ہیں۔ خواتین آزادی سے نقاب و حجاب نہیں کر سکتیں۔ان کے کان اذان کی آواز سننے کو ترس جاتے ہیں۔ سری لنکا، برما، چین، بھارت، جہاں مسلمانوں پر تشدد، جان و املاک کا نقصان، بستیوں کو نذر آتش کر دینا عام بات ہے۔ چین میں روزے کی حالت میں،پولیس کا گھروں میں گھس کر زبردستی کھلانا اور برما میں سور کا گوشت مسلمانوں کو کھلانے کے واقعات منظر عام پر آئے ہیں۔

یہ بیچارے مجبور و مقہور مسلمان نظریاتی آزادی کے لئے تڑپ رہے ہیں۔ یاد رکھیں!ہم پاکستانی ایک نظریاتی قوم ہیں۔ ہم پر لازم ہے کہ ہم اپنے جداگانہ تشخص کو قائم رکھنے کی خاطر ایک ایسا سیاسی و معاشرتی نظام قائم کریں جس میں شعریت، قومیت کے ہر پہلو پر نمایاں ہو۔

یہی وعدہ ہم نے اس مملکت کے حصول کے لئے اللہ تعالی سے کیا تھا۔ حصول پاکستان کے لیے دی گئی لاکھوں لوگوں کی قربانیاں ہمارے اوپر قرض ہیں۔ اگر ہم پاکستان میں حاکمیت الہی اور اسلامی نظام نافذ کرنے کی سر توڑ کوشش نہیں کرتے تو ذرا سوچیے! ہم روز قیامت ان شہدا کا سامنا کیسے کریں گے؟


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں