بزرگ اور دیکھ بھال

لمس کے فاصلے

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

سائرہ نعیم :

اکیس گھنٹے کی طویل مسافت ، نیند کی کمی اور تھکن کی زیادتی نے تابش رضا کے جوڑ جوڑ ہلا مارے تھے۔ کینیڈا سے پاکستان کے لئے کنیکٹنگ فلائیٹ ہی چلائی جارہی تھیں۔ کووِڈ نائنٹین کے زیر اثر دنیا ہر چیز کو ذاتی مفاد تلے رکھنے پر مجبور تھی۔

وہ مجبوری کے اس جال سے بچنے کی کوشش میں تھا لیکن والدین، گھر والے، احباب اور وطن سے دوری کا عرصہ طوالت ہی اختیار کیے جارہا تھا۔ واٹر لو کی پرسرور اور بھرپور تیز رفتار زندگی میں جذباتی سوچ کم ہی غالب آتی تاہم بڑے بھیا کی زبانی ابو کی گرتی صحت اسے پشیمان کر جاتی۔ ڈیمنشیا کا علاج ناممکن نہیں لیکن مشکل ضرور تھا۔

لاؤنج میں بیٹھے لیپ ٹاپ پر ٹکٹ کی تفصیلات طے کرتے تابش رضا نے امتل کو کہتے سنا
” دو ہفتے پلک جھپکتے گزر جائیں گے“۔
” چھٹیاں اتنی ہی باقی ہیں “۔
نظریں اسکرین پر رکھے وہ بولا
” ورنہ میری چھٹی !“ نگاہیں امتل کی جانب کرکے اس نے کندھے اچکائے ۔

” ڈیڈی ! مجھے بھی آپ کے پیرنٹس سے ملنا ہے“۔ پانچ سالہ زر تاش پلے اسٹیشن پاز ( روک ) کرکے اس کے پاس آ بیٹھا۔ اس نے لیپ ٹاپ پیچھے کرکے اسے گود میں بٹھالیا۔
” شیور ڈئیر ! نیکسٹ ائیر ان شاءاللہ۔ “
” پرامس ڈیڈی؟ “ زرتاش نے ہائی فائیو کے انداز میں ہاتھ بلند کیا
” ڈن! “ تابش رضا نے ہنستے ہوئے وعدے پر مہر لگالی۔

علامہ اقبال انٹرنیشنل ائرپورٹ سے باہر نکلتے اس نے کثیف خنک ہوا اپنے پھیپھڑوں میں اتاری اور بڑے بھیا سے بغل گیر ہوگیا۔ لاہور کی فضاؤں میں گرم نان، پائے، سرسوں کے ساگ، مکئی کی روٹی پر دھرا، پگھلتا سفید مکھن اور گوشت کے مہکتے پلاؤ کی رچی خوشبو ہر آلودگی پر حاوی تھی۔

گاڑی میں بیٹھتے باتیں کرتے تھکن اس کے وجود کا احاطہ کرنے لگی۔ شہر کا جائزہ لینے کے بعد سیٹ کی پشت سے ٹیک لگا کر اس نے آنکھیں موند لیں ۔ فارس رضا نے پیار بھری نظریں بھائی پر ڈال کر اسپیڈ بڑھا دی۔

ممی کے نحیف وجود کے لمس نے اسے ہر بوجھ سے گویا آزاد کردیا تھا۔ ابا بھی بہت گرم جوشی سے ملے کتنی دیر اسے گلے لگائے پیار کرتے رہے ، پھر اپنے پاس بٹھاتے بولے:

” بڑے دنوں بعد چکر لگایا امداد حسین!“۔
تابش رضا نے چونک کر بڑے بھیا اور پھر ممی کی طرف دیکھا۔
پچھلے سال ابو کے دوست امداد حسین کا انتقال ہوچکا تھا، ابو جنازے میں بھی گئے تھے لیکن بھول گئے شاید دل سے قبول نہ کر سکے ہوں۔
ممی اور بھابھی کھانا لگانے میں مصروف ہوگئے۔ بڑے بھیا ساتھ بیٹھے تھے بولے:
” ابو ! یہ تابش ہے، آپ کو لینے آیا ہے! “ ۔ رضا آفندی بہت دیر تک سوچتے رہے پھر تابش نے سرگوشی کے انداز میں ان کو کہتے سنا۔
” میں اپنی جگہ چھوڑ کر جانا نہیں چاہتا یار! اور یہ مجھے ہر وقت تابش کے پاس بھیجنے کی بات کرتا ہے۔“

تابش کی آنکھیں نم ہوگئیں اس کا باپ اپنا دوست سمجھ کر اسے اپنے محسوسات بتا رہا تھا۔ ” چھوڑیں ابو! آپ وہ کریں جو آپ کا دل چاہے!“ تابش رضا نے باپ کا کمزور سرد ہاتھ اپنے گداز ہاتھوں میں لے کر حرارت پہنچائی۔
” ابو؟ “ وہ تابش کی طرف حیران نظروں سے دیکھتے زیر لب بولے۔

کھانے کے بعد ” امداد حسین “ کو آرام کی تاکید کرتے وہ اپنے کمرے میں چلے گئے۔ بڑے بھیا خوشگوار موڈ میں کہنے لگے ” باہر سے آنے والوں کو پاکستان پیراڈائز لگتی ہے اور یہاں والے اس پیراڈائز سے بیزار بھاگنے کے چکر میں رہتے ہیں“۔

” ہر جگہ کے اپنے مسائل اور وسائل ہوتے ہیں بڑے بھیا “۔ تابش حسب عادت صوفے کا کشن گود میں لئے بیٹھا تھا۔ زیست کی سڑک شفاف کب ہوتی ہے؟ جا بہ جا گڑھے اور گہری کھائیاں ہوتی ہیں، انسان ہمہ وقت نبرد آزما رہتا ہے ان سے ۔ ذاتی زندگی کی مشکلات کا ذکر کرنا وہ لاحاصل سمجھتا تھا۔

” لیکن یہاں کی زندگی زیادہ کٹھن ہے“، بھابھی چائے کے کپ سمیٹتی بولیں۔
”اب ابو کو ہی دیکھ لو، سمجھ سے بالاتر ہوگئے ہیں “۔ فارس رضا بے تاثر چہرہ لئے خاموش رہے۔ ملک کے حالات تو ابتر تھے ہی اب تو عوام کی قلبی و ذہنی سطح بھی ابتری کی جانب مائل تھی، تابش کو کڑواہٹ کا احساس ہوا۔

” اس کا مطلب ہے ہماری سمجھ کا معیار کچھ کم ہوگیا ہے“۔ تابش سے بولے بغیر رہا نہیں گیا۔
” ہاہاہا۔۔۔ ہاں شاید! “ بھابھی کی تحقیر آمیز ہنسی اور بڑے بھیا کی خاموشی کم ظرفی کا ایک عکس دکھا گئی۔

گزرتے دنوں میں اس نے فارس رضا مع اہل و عیال کی بیزاری و اکتاہٹ محسوس کرلی تھی ۔ گو کہ گھر کے الگ پورشن میں رہائش پذیر ہونے کے باعث ممی اور ابو سے براہ راست متعلق بھی نہیں تھے لیکن یہ کمزور و ناتواں نفوس بار گراں لگتا تھا۔

رضا آفندی کا لاہور کے اچھے علاقے میں یہ ذاتی مکان اپنے وقت کا بہترین شاہکار تھا۔اب کوئی چوکھٹ ہل رہی تھی ، کوئی کواڑ لرز رہا تھا اور روغن اپنی آب وتاب سے بے گانہ ہوچکا تھا۔ رنگا رنگ گلاب، رات کی رانی اور بیلے سے مہکتی کیاریاں خشک ٹنڈ منڈ درخت اور خود رو پودوں کو سمیٹے خاموش سراپا لیے موجود تھیں۔

” اب ہمارا باغیچہ بھی گھر کی طرح ویران ہوگیا ہے“۔
” امداد حسین “ سے باتیں کرتے رضا آفندی کہہ رہے تھے۔
تابش نے سر ہلا کر ان کی تائید کی۔ شاید مکان بھی اپنے مالکوں سمیت بڑھاپے کی جانب مائل ہوجاتے ہیں، انہیں بھی ہاتھ تھامنے والا چاہیے ہوتا ہے۔

” ممی ! بس آپ لوگ اب میرے ساتھ رہیں، وہاں پر بوڑھوں کے لئے بہت سہولتیں ہیں“۔
تابش ممی کے پاس بیٹھا انہیں کب سے کینیڈا جانے کے لئے قائل کرنے کی کوشش کررہا تھا اور وہ ٹالے جارہی تھیں۔

” بیٹا ! ابو نئی جگہ ایڈجسٹ نہیں کرسکتے، ذہنی صحت تو دیکھ ہی لی تم نے ان کی “۔
ممی مشرقی خاتون تھیں مشکل وقت میں شوہر کے ساتھ خوش رہنا ان کی فطرت بن چکی تھی۔

” بس تم ہمارے لئے دعا کیا کرو کہ ہم کسی کے محتاج نہ بنیں“۔
ممی اس کے بالوں میں ہاتھ پھیرتی ہوئی مسکرائیں۔
” اتنی مشکل میں رہنے پرخوش ہیں؟ اور ساری زندگی ہمیں آسانی فراہم کرتے رہے آپ لوگ! “
ممی کی گود میں سر رکھے تابش کی آنکھیں نم ہوگئیں ۔

” پتہ نہیں بڑے بھیا کیسے اتنے بےحس بن گئے ہیں؟ اپنے اعمال بنانے کے بجائے۔۔۔۔“۔
” اپنا اپنا ظرف ہے بیٹا “، انہوں نے تابش کی بات کاٹی۔
” لیکن آپ کی تربیت؟ “ تابش بے چین تھا۔

” کمزور انسان کی تربیت صحبت پر غالب آجاتی ہے “۔ ممی کا لہجہ دُکھی تھا لیکن ہونٹ مسکرا رہے تھے۔

دو ہفتے میں تابش نے ممی سے اگلے وزٹ پر ساتھ جانے کا وعدہ لے لیا ۔ ابو کو منانے کا کام دعا پر چھوڑدیا ۔ بڑے بھیا کے امیگریشن کے کاغذات مراحل میں تھے۔ اگلے دن رات گئے کی فلائیٹ کے لئے پیکنگ کرتے امتل اور زرتاش سے وڈیو کال پر شاپنگ لسٹ کا جائزہ لے کر فون اس نے ممی کی طرف بڑھا دیا اور ابو کے ساتھ کینو کھانے بیٹھ گیا۔ وہ بیج نکال کر پھانکیں ان کو دے رہا تھا ۔

” تم بھی کھاؤ تابش میاں! “۔ اس کے ہاتھ جم گئے، چونک کر نظریں باپ کی جانب اٹھ گئیں۔
امداد حسین سے تابش رضا تک کا سفر آخری لمحات میں ہی سہی لیکن طے ہو گیا تھا۔ چہرے پر مسکراہٹ لئے ابو اس کی طرف کینو کی پھانک بڑھاتے بولے تھے۔
ذرا سی محبت اور اپنائیت کا احساس ہی تو تھا جو بیٹے کے وجود سے ان کے وجود میں منتقل ہوا تھا ۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں