دعا عظیمی :
اس کی ہنسی میں جلترنگ تھا، دل کھول کے ہنستی تھی ایک بے فکر اور آزاد قہقہہ ، الہڑ اور بے باک جو سننے والے کا دل موہ لے۔
میں ” کچھ “ سوچنے پہ مجبور ہو گیا۔
” کیا نام ہو گا اس کا؟ میں نے اسے ایک مشاعرے میں دیکھا تھا۔ اس کا نام کیا تھا، نہیں معلوم تھا۔
میری شعری حس نے ایک نام چنا۔
” جہاں زاد “
میں نے جہاں زاد سے دوستی کر لی۔
وہ ہنستی تو ساری کائنات ہنستی محسوس ہوتی تھی، اگر وہ اداس ہو جاتی تو پریم نگر کی گلیوں میں شام ہو جاتی۔ گھڑے اٹھائے ناریاں منظر کے دھند لکے میں کھو جاتیں اور میرے سامنے ایک ڈگر رہ جاتی ، خالی خولی ڈگر جو پنگھٹ کو جانے کی بجائے راستے میں بل کھا جاتی۔
جیسے خزاں کی ہوا زرد پتوں کو اڑائے رکھتی ، جھانجر بجتے بجتے رک جاتی ۔ نبض گویا تھم جاتی ۔ پھرلمحہ بیت جاتا اور بارشوں کے موسم میں بھیگی اداسی کی چڑیا پھر کر کے اڑ جاتی ۔ یہاں کب وقت ایک سا رہتا ہے، ہر آن بدلتا ہے ہر پل تغیر کی ہونی کا رس چوستا ہے۔
آج اس سے دوسری ملاقات تھی۔ اسے چھانگا مانگا کے جنگل میں ہوا کی سرسراہٹ کو سننا تھا۔ وہ اس معاملے میں بہت سنجیدہ تھی۔
” لوگ متفکر کیوں ہیں“ ؟ شاید وہ خود کلامی کر رہی تھی یا مجھ سے سوال پوچھ رہی تھی ، زیرلب بولی
وہ رنگین لکڑی کے بنچ پہ عین میرے سامنے بیٹھی تھی۔
میرے جواب دینے سے پہلے بولی:
” ان کے ماتھوں پہ تفکر کی سنپولیاں میرے دل کو ڈسنے لگتی ہیں۔ میرا جی چاہتا ہے سب کھلکھلاتے رہیں مگر ایسا ممکن نہیں ۔“
انوکھا لاڈلا کھیلن کو ما نگے چاند رے
وہ دھیرے دھیرے گنگنانے لگی۔ ٹانگ پہ ٹانگ چڑھائے ملکوتی تبسم سجائے میرے دل کے آنگن میں رنگوں، کرنوں اور لہروں کا سنگم ہونے لگا۔
اس نے فرمائش کی:
” اپنی آنکھیں موندو اورمجھے بتاؤ بھلا میرے دل میں کیا ہے؟ “
تم سیلانی ہو، سراغ لگاتے ہو نا انجان منزلوں کا، اور اجنبی راستوں کا!
مجھے بتاؤ ان راستوں میں کسی کو پیچھے چھوڑ آئے ہو کیا؟
بتاؤ نا سردیوں کی شاموں میں کیوں اداس پھرتے ہو؟
میں نے کہا:
” ایسا تو کچھ نہیں۔ میں اداس نہیں ہوں جب سے تمہیں دیکھا ہے۔“
ہاں، پہلے کی بات اور تھی ”میں بے چین تھا کیونکہ میں ایک تخلیق کار ہوں۔ ہر نئی تخلیق سے پہلے کرب سہتا ہوں۔
”مجھے اپنے پاس رہنے دو“
”یہاں چاندنی کی نرم پھوار ہے۔ خوشبو ہے۔ رات کی رانی کی مہکار ہے اور اپنے پن کا حصار ہے۔“
”مجھے یہیں رہنا ہے۔“
وہ میری بات سن کر دھیرے سے مسکرائی اور بولی:
ذرا گہری نظر سے دیکھو، یہاں فقط خوشی نہیں ہے، ہاں طمانیت اپنی جگہ ہے مگر
یہاں پھسلن ہے، بہکاوا ہے، لوبھ ہے، فریب ہے۔ چکر ہے۔
وہ ادا سے بولی۔
” مگر تمہاری آزاد اور بے باک جلترنگ بجاتی ہنسی مجھے دیوانہ بنا دے گی۔“
میں بے خود تھا۔
”غور سے جھانکو، کہیں دور کہیں نچلی تہہ میں کوئی درد بھی محسوس ہو گا جیسے ریتلی سطح میں نمی“
تب میں نے محسوس کیا۔
اس ہنسی کے پہلو میں سوز کی نمی بھی تھی، کہیں کچھ کمی بھی تھی۔ ہنسی اور خوشی اور غم ہمیشہ ایک ہی دل میں قیام کرتے ہیں۔ کسی نے سرگوشی کی۔
” نہ اکیلا غم رہے نہ خوشی ان دونوں کا ازلی پیار ہے۔ یہ ایک دوجے سے جدا نہیں ہوتے، بس ! ان سے ڈرنا نہیں ہے ،ان سے دوستی کر لو “۔
ہممم ۔۔۔ میں خاموشی سے اسے سنتا رہا۔ وہ اپنی رو میں بولتی گئی۔
”یہ چھوٹے چھوٹے کیفیات کے دائرے ہیں کبھی ہم ان کے گرد گھومتے ہیں کبھی یہ ہمارے گرد مگر حالت ایک نہیں رہتی ۔ “ وہ سانس لینے کے لیے رکی اور دل کی باتیں کرتی گئی یہاں تک کہ شام کا سورج نارنجی ہالے میں افق کے اس پار سے خدا حافظ کہنے لگا۔ وہ وقت سے بے نیاز بیٹھی رہی۔
” مجھے تو یہ جوائے لینڈ کے جھولے جیسے لگتے ہیں جب میں خوش ہوتی ہوں وجد میں، نشاط میں، سرور میں تو ایسے لگتا ہے جیسے آسمانی جھولے کے چکر میں اوپر سے نیچے دیکھتی ہوں اور کبھی اداسی یا، غم میں ہوں تو چکر کے نیچے والے ہنڈولے میں خود کو محسوس کرتی ہوں جتنی خوشی کی رفتار تیز ہوتی ہے دائرہ اتنی تیزی سے گھوم کر اداسی کے حصے میں لے آتا ہے مگر اب سب بے معنی سا لگتا ہے۔“
” جب ہم مانوس ہو جاتے ہیں تو ڈرتے نہیں ہیں اور جب ڈرتے نہیں ہیں تو سکون خود آ جاتا ہے۔“
” جب ڈر نہ رہے تو ہم قفل نہیں لگاتے۔ “
کیا تم کچھ چھپاتی ہو؟
کیا تمہیں کوئی درد ہے، دکھ ہے
میں نے کریدا۔
گلی کی نکڑ سے لے کر بند گلیوں اور بند گلیوں سے محل کی دیواروں تک دکھ ہی دکھ تو ہے۔ ایک وقت آتا ہے جب ذاتی دکھ آفاقی دکھ کے پہلو میں پناہ ڈھونڈ لیتا ہے۔ صبر سا آنے لگتا ہے مگر صبر اس سمے آتا ہے جب کوشش پوری ہو اور جاری ہو، اس چکر سے نکلنے کی کوشش یا درد کے مداوے اور حل کی کوشش؟
میں نے سوال پوچھا۔
اررے حل کی کوشش۔۔۔ جو دعا سے شروع ہوتی ہے اور عمل کی ہر شکل میں موجود ہوتی ہے۔
پھر یہ ہنسی چہ معنی دارد؟ یہ ہنسی تو راز ہی ہے۔
” ہمارے ایک بابا جی ہیں۔ “
” وہ کہتے ہیں ہنس کے جیو“
”اور اگر ہنسی نہ آتی ہو تو خوشی کی شکل بنا لو سوانگ رچا لو“
” واہ یہ تو بڑے اچھے ہیں تمہارے بابا جی“
”کہاں رہتے ہیں تمہارے بابا ؟“
یہ جو میرے دل میں مٹی کی چھوٹی چھوٹی ڈھیریاں ہیں یہ آرزؤں کی قبریں ہیں، یہاں سورج نہیں نکلتا جیسے ایمازون کے جنگلوں کے وسط میں سورج کی شکل نظر نہیں آتی، درختوں کے ذخیرے نے گہری سبز چھاؤں کر دی ہے۔
” اسی گھپ گھنیری چھاؤں میں میرے بابا کی قبر ہے جس پر حوصلے کا علم ہے اور صبر کا چراغ۔“
”یہاں پرندوں کی تیس ہزار نسلیں ہیں ، یہ پرندے دن رات فطرت کی مدح سرائی کرتے ہیں۔“
مجھے تو اس کی باتوں کی سمجھ نہیں آتی تھی۔
جہاں زاد ’کسی بیماری کے اثر میں تو نہیں۔ اس کا کہنا تھا کہ وہ سب بھول جاتی ہے۔ لمحوں میں ربط نہیں رہتا۔
ایک دم مجھے شبہ ہوا۔
تب ہی اس نے مجھے مخاطب کیا اور بولی: ” شاہ ریز میرا جی چاہتا ہے کہ ہم استغنا کی اس منزل کو چھو لیں جہاں خوشی خوشی نہ رہے اور غم غم نہ رہے، بس دل کے ساگر پہ ایک ٹھنڈی سی ہوا چلے۔ نہ پورے چاند کی رات اترے نہ مدوجزر ابھریں نہ تلاطم خیز موجیں ہوں سب ایک سا رہے، کیا یہ ممکن ہے؟
میری نظر اس کی کالی سینڈل کی باریک سٹریپس سے ہوتے ہوئے اس کے پاؤں کی انگلیوں پہ پڑی ، ناخن ایک سے انداز میں کٹے تھے۔
مطلب پاگل نہیں ہے۔ میں نے لمبی سانس بھری۔
اور ہو بھی تو! خیال آیا
اس کے ساتھ نشست عیاشی تھی۔
اس کی باتوں سے پروائی بہنے لگتی خوشبو مچلتی،
میں سورج مکھی کی طرح اس کا معمول بنتا گیا۔ کیا یہ لمحاتی واردات تھی، یا دائمی مرض محبت۔
کچھ باتوں اور جذبوں کے کنارے نہیں ہوتے۔
ہم ایک ایسی جھیل کے کنارے تھے جو موسموں کے تغیر سے سوکھ چکی تھی۔