قربان انجم :
فرحت اور انجم کی داستان محبت ( پہلی قسط )
فرحت اور انجم کی داستان محبت ( دوسری قسط )
فرحت اور انجم کی داستان محبت ( تیسری قسط )
میں یہ خط دیکھ کر جذبات و احساسات سے مغلوب دیر تک سوچتا رہا کہ کیا کروں، بالآخر سوچا، براہ راست خط لکھتا ہوں، تاکہ اس خدشے کا ازالہ کیا جاسکے کہ خام ذہن کے دونوں بہن بھائی آئیندہ رابطوں میں غیر محتاط نہ ہوجائیں، اور احوال دل کے اظہار میں توازن اور اعتدال کی پٹڑی سے نہ اتر جائیں۔ کئی روز کی سوچ بچار کے بعد میں نے ”غمگین آپی“ کو براہ راست اس کے ذاتی پتے پر درج ذیل خط ارسال کرنے کی جرات کر ہی ڈالی۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
فرحت!
السلام علیکم
انور کے نام تمھارا خط پڑھا، تمھارے منع کرنے کے باوجود اس نے مجھے دکھا دیا تھا۔ شاید اس کی سمجھ میں اس کے سوا کچھ نہ آسکا۔ ایک بار نہیں، بار بار پڑھا۔ دل کی دھڑکنیں بے قابو ہوتی رہیں۔ اندازہ ہوچکا تھا تم حساس ہو مگر اتنی زیادہ حساس کہ مجھ سے معافی مانگنے کی ضرورت محسوس کرنے لگو، یہ اندازہ ہرگز نہیں تھا۔
ہمارے دونوں خاندانوں کے تمام افراد میں جو مخلصانہ اور پائیدار رشتہ قائم ہوچکا ہے۔ خاص طور پرمیں اور تم ایک دوسرے کے دلوں کے قریب جتنے آچکے ہیں، اس کیفیت میں معافی وغیرہ کی ضرورت سرے سے باقی ہی نہیں رہتی۔ انور کے لیے تمھاری آب رسانی میں ” روح افزا “ والی جو بات میں نے کی اور اس پر جو ردعمل تمھاری طرف سے آیا، وہ میری خوشگوار یادوں کا ایک روح افزا اور فرحت بخش حصہ بن چکا ہے۔ اس پر معافی کیسی؟
ہم لوگ بھی آپ سے جدائی کے غم میں مبتلا ہیں۔ کوئی کم کوئی زیادہ تمھیں یاد کرتا رہتا ہے۔ شاید سب سے زیادہ میں یاد کرتا ہوں مگر کسی سے ذکر نہیں کرتا یا یوں کہہ لو، کر نہیں سکتا۔ تم انور سے اور(غالباً ) نائلہ سے تو دکھ سکھ بیان کرنے کا تبادلہ کرسکتی ہو، میرے پاس فی الحال اس قسم کا بھی کوئی رازداں نہیں۔ تم نے لکھا، بات کرنے میں جھجھک محسوس کرتی رہی ہو، اس خط کے جواب میں (میرے ذاتی پتے پر، جو ارسال کررہا ہوں) تم نے وہ سب کچھ کہہ دینا ہے جو جھجھک کے باعث نہیں کہہ سکی۔ بے تابی کے ساتھ منتظر رہوں گا۔
والسلام
قربان انجم
اس خط کے جواب میں فرحت نے سب کچھ کہہ ڈالنے کی جو دلفریب کوشش کی، وہ بھی ملاحظہ فرمالیجیے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
جان سے پیارے قربان!
سلام فرحت قبول فرمائیں۔
آپ نے مجھے خود خط لکھ کر بہت اچھا کیا۔ میں اب کسی جھجھک کے بغیر آپ سے باتیں کرسکوں گی جو گاؤں میں ہمسائے میں رہتے ہوئے نہیں کرسکی۔ جب آپ چلے گئے، مجھے محسوس ہوا میری دنیا اجڑ گئی ہے۔ چند دنوں کے بعد چھٹیاں ختم ہوگئیں۔ شہر آگئی، ہر وقت غمگین رہتی۔ گھر میں اور سکول میں دل ہر وقت اچاٹ رہتا۔ میری سب سے مخلص فرینڈ نائلہ نے ایک دن پوچھا:
”تمھیں کیا ہوگیا ہے؟ تمھاری آنکھوں میں اتنی ویرانی کیوں ہے؟ تم تو بہت شرارتی ہوا کرتی تھیں۔“
میں پہلے تو ٹالتی رہی مگر ایک دن سکول ہی میں الگ بیٹھ کر میں نے آپ کے بارے میں نائلہ کو بتایا کہ میرے ہمسائے میں ایک لڑکا مجھے بہت اچھا لگتا تھا۔ میں اس کے ساتھ کوئی بات بھی نہ کرسکی۔اسے دل کا حال بیان نہیں کرسکی کہ ایک روز اس کے والد اپنی ملازمت کی مدت پوری کرکے وہاں سے کسی دوسرے گاؤں تبدیل ہوگئے اور اب ان کی یاد ہر وقت ستاتی ہے۔
زیادہ پریشانی یہ ہے کہ انھیں میرے حال کی کوئی خبر ہی نہیں ہے اور رابطہ بھی نہیں کیا جاسکتا۔ نائلہ کے پوچھنے پر بتایا ان کے بڑے بھائی جان ہماری زمینوں کے مختار عام ہیں، انھیں اور چھوٹے بھائی انور کو خط لکھا جاسکتا ہے۔ اس نے مجھے انور کو خط لکھنے کا مشورہ دیا۔ پہلے سوچا کیا لکھوں، کس طرح بیان کروں۔ ایک ان جانا خوف تھا کہ آپ کو نفرت نہ ہوجائے مگر نائلہ نے خود ہی خط لکھ کر مجھے دے دیا اور کہا:
” اسے پڑھو اور ڈاک میں ڈال دو۔ “
میں نے کانپتے کانپتے نائلہ کی بات مان لی مگر جب تک آپ کا خط نہیں آیا، اس وقت تک دل کانپتا ہی رہا ہے۔ اب سکون ملا ہے پھر بھی یہ ڈر ضرور موجود ہے کہ میری باتیں آپ کو اچھی نہ لگیں اور آپ نے مجھے ایسی لڑکی سمجھ لیا جو آپ کے خیال میں اچھی نہ ہو تو……!
آپ مجھے پہلی نظر ہی اچھے لگے۔ دل میں عجیب سی لہر اٹھی۔ جس میں خوشی بھی تھی مگر انجانے وسوسے بھی۔ دل کی دھڑکن تیز ہوگئی۔ سارا دن دل قابو میں نہیں رہا۔ یہ اس دن کی بات ہے جب میں نے بی بی جان کو آواز دی کہ دودھ لے لیں۔ آپ نے کتاب پر سے نظر اٹھائی اور میری طرف دیکھا مگر جلد ہی دوبارہ پڑھنے لگے۔
بلاوجہ میرا جی چاہنے لگا کہ آپ پھر دیکھیں مگر خود نظر میں چرا رہی تھی۔ واپس مڑی، دن بھر پڑھائی میں جی نہیں لگا۔ انور بھیا کو پڑھانے کے لئے بلوا تو لیا مگر اس کی طرف بھی پوری توجہ نہ دے سکی۔ اس رات مجھے نیند بھی ٹھیک طرح سے نہیں آئی۔ اگلے روز ہر صبح سویرے دودھ / لسی وغیرہ لے کر دیوار پر جا چڑھی، سچی بات کرتی ہوں بی بی جان سے زیادہ آپ کو دیکھنے کے لئے، مگر آپ گھر میں نہیں تھے۔
دن میں یہ انتظار کرتی رہی کہ انور یا سعادت پانی منگوائیں گے تو آپ نظر آجائیں گے۔ ایک موقع پر آپ نظر آگئے۔ دل کی دھڑکنوں میں پھر اونچ نیچ ہوئی۔ خاموشی سے کچھ دیر آپ کو دیکھتی رہی مگر آپ نے دیکھا تو میری نظریں زمین میں گڑ گئیں۔
یہ صورت حال اگلے کئی روز تک جاری رہی۔ اس دوران دل میں منصوبے بناتی رہی کہ کسی طرح آپ کے ساتھ کوئی بات ہوجائے مگر جب کبھی موقع آیا تو ہمت نہیں پڑی۔ جس روز ” روح افزا “ والی بات ہوئی، اس روز بھی میں نے انور کی Favour میں جو بات کی، اس میں بھی میری اصل سوچ یہ تھی کہ آپ کوئی مزید بات کریں گے جس کے جواب میں مجھے موقع مل جائے گا کہ میں بات کروں اور کسی نہ کسی طرح اپنے دل کا احوال عرض کردوں مگر آپ نے خاموشی اختیار کرلی۔
ایک دن تو اتنی زیادہ بے چین ہوگئی کہ دل میں ٹھان کر دیوار پر آئی کہ جب تک کوئی بات نہیں ہوگی، واپس نہیں آؤں گی اور دیر تک دیوار پر چڑھی جون کے تپتے سورج کی گرمی برداشت کرتی رہی۔ کبھی نیچے ہوجاتی، کبھی پھر سر نکال کر دیکھ لیتی۔ یہ واقعہ جب بھی بعد میں یاد آیا تو دل کو کوسنے دیتی رہی ہوں کہ اس روز میں نے بچپنے والی حد ہی کردی تھی۔ آپ کے پاس نیم کے درخت کے سائے میں ایک بزرگ ہمسائی بھی بیٹھی تھی جنھوں نے باقاعدہ مجھ سے پوچھا:
” فری! تم اب تک یہاں کھڑی ہو؟ “
کاش! میں اپنے دل کا حال کسی کو بتاسکتی۔ اس روز کی ناکامی آج بھی یاد آتی ہے تو دل پریشان ہوجاتا ہے۔
جب اختر(چھوٹی بہن جو خون کے سرطان میں مبتلا تھی) کی حالت زیادہ خراب ہوئی تو میں گاؤں آئی۔ آپ کو یاد دلاتی ہوں۔ میں گاڑی یا ڈرائیور بروقت نہ ملنے کے باعث تانگے ہی میں سوار ہوکر گاؤں کو چل پڑی۔ آپ اور گاؤں کے دولڑکے اپنی سائیکلوں پر کالج سے گھر جا رہے تھے۔ آپ نے تانگے میں سوار میری طرف دیکھا۔ تھوڑی دیر کے بعد پھر دیکھا۔
میں اختر کی وجہ سے بے حد پریشان تھی۔ آپ کے چہرے کے تاثرات واضح تھے کہ آپ بھی میری پریشانی پر پریشان ہیں مگر آج تک ہم دونوں ہم کلام نہ ہوئے تھے، لہذا اس سفر کے دوران میں بھی خاموشی سے ایک دوسرے کو چند لمحات کے لئے بار بار دیکھتے رہے اور بس! جب گھر پہنچی اور رات کو اختر فوت ہوگئی تو وہ رات اور اس سے اگلا دن بے حد غمگین ہونے کے باوجود اس بنا پر اچھا لگا کہ بی بی جان، سعادت، انور مجھے مسلسل دلاسہ دیتے رہے، میرے ساتھ آنسو بہاتے رہے۔
بی بی جان بار بار سینے سے لگالیتیں تو مجھے محسوس ہوتا، زخموں پر مرہم رکھا جارہا ہے۔ اس دوران میں آپ نے کئی بار دیکھا، میں نے محسوس کیا، آپ مجھ سے بات کرنا چاہتے ہیں، میرے غم میں شریک ہونا چاہتے ہیں مگر کچھ کہہ نہیں پارہے تھے۔ جو جھجھک میرے اندر تھی، آپ کے لئے بھی وہی رکاوٹ بنی رہی۔ اسی جھجھک میں چار سال گزر گئے کہ مستقل جدائی کا لمحہ آپہنچا…… اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ اب کبھی ایک دوسرے کی صورت دیکھ بھی سکیں گے یا نہیں؟
آپ کے خط کا خط کا بے تابی سے انتطار کروں گی۔
آپ کی
فرحت
اس خط کے جواب میں، میں نے جو خط لکھا، اس میں فرحت کے دل آویز جذبات کا احترام واضح تھا۔ مدھم مدھم انداز میں یہ بھی عرض کردیا گیا کہ دونوں طرف ہے آگ برابر لگی ہوئی۔ فرحت کا ایک اور خط آگیا اور اس کے بعد ہمارے درمیان خط کتابت کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ میں نے فرحت کی دل شکنی کے امکانات کم سے کم کرتے ہوئے اسے یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ معروف معنوں میں ہمارا ملاپ ممکن نہیں ہے۔
ہمارے خاندانوں کی معاشی، سماجی اور روایتی زندگیوں میں بہت فرق تھا۔ اس خلیج کو پاٹنا ممکن نہیں تھا۔ ہماری ذات ڈوگر، اس کی پٹھان۔ ہمارے معاشرے کے بعض گھرانوں میں ذات برادری کی ہم آہنگی بھی ضروری خیال کی جاتی ہے اور فرحت کے اباجان اس پر سختی سے عملدرآمد کرنے والے لوگوں میں شامل تھے۔ معاشی حیثیت میں زمین آسمان کا فرق تھا۔
مجید امجد کا شعر ہم دونوں پر صد فی صد صادق آتا تھا
ترے فرق ناز پہ تاج ہے مرے دوش غم پہ گلیم ہے
تری داستاں بھی عظیم ہے مری داستاں بھی عظیم ہے
اس کے علاوہ میری ماں نے باقاعدہ نسبت طے کیے بغیر ہی مجھے اپنی بھانجی سے بچپن میں منسوب کردیا تھا ( اگرچہ بعد میں حالات ایسے رونما ہوئے کہ متوقع سسر صاحب نے میری غربت دیکھ کر نسبت ختم کردی۔)
میں اپنی سوجھ بوجھ کے مطابق اگرچہ انتہائی محتاط انداز میں فرحت کو سمجھاتا رہا کہ ہم معروف انداز میں ایک دوسرے کے نہیں ہوسکتے، وہ احترام آمیز محبت کے تابع میری بات مان لیتی مگر میری معروضات اس کے دل میں جاگزیں نہیں ہورہی تھیں جس کا وہ علانیہ اظہار کرنے سے گریز کرتی مگر دل کی کیفیات چھپانے میں پوری طرح کامیاب نہیں ہورہی تھی۔
اس کے خط کے مندرجات نہ کہنے کے باوجود زبان حال سے پکار اٹھتے کہ ” میں تمھارے بغیر رہ نہیں سکتی۔“ میں پھر سمجھانے بجھانے میں نئے جوش و جذبہ کے ساتھ اپنی صلاحیتیں بروئے کار لاتا مگر اس کے جواب میں میری کوشش ناکام ہوتی نظر آتیں۔
میری طبعیت میں مزاح کا عنصر خاصی ”مقدار“ میں موجود ہے۔ ایک بار میں نے فرحت کو خط لکھا۔ ہم ایک دوسرے سے مل نہیں سکتے، بات نہیں کرسکتے مگر کئی بار میرے دل میں ایک خواہش ابھرتی ہے جس کا میں آپ سے اظہار کرنا چاہتا ہوں۔ اگر آپ اپنی تصویر بھجوا دیں تو ممنون ہوں گا۔ وہ ان دنوں دسویں جماعت میں تھی۔ مجھے تصویر ارسال کردی اور ساتھ ہی یہ کیپشن لکھ بھیجا:
”یہ تازہ تصویر نہیں ہے۔ میرے لئے بنوانا مشکل ہے۔ فی الحال یہی بھیج رہی ہوں۔ یہ اس وقت کی تصویر ہے جب میں پانچویں میں تھی۔“
میں نے ازراہ تفنن جواباً لکھا:
”تو کیا میں اسے دو سے ضرب دے لوں؟“
خیال تھا فرحت محظوظ ہوگی مگر اس کے بجائے وہ ناراض ہوگئی۔ ناراضی کے اظہار میں بھی اگرچہ طویل عرصہ صرف ہوا مگر مجھے پتہ چلا تو اپنے کیے پر بہت افسوس ہوا۔ میں اصل میں اس خوش فہمی میں تھا کہ وہ بالغ ہونے کے ساتھ ساتھ بالغ نظر ہوچکی ہے مگر میرا یہ خیال خام ثابت ہوا۔ اس کا معصوم بچپنا اس وقت تک بدرجہ اتم موجود تھا۔
میں باہمی ملاپ محال ہونے کے حوالے سے قائل کرنے کی جو کوششیں کررہا تھا، وہ مذکورہ مزاح کے نتیجے میں بالکل بے کار ہوکر رہ گئیں اور اس کے اگلے خط میں بے پناہ غم و غصہ دیکھنے میں آیا۔ قدرتی طور پر مجھے اس پر بے حد پریشانی ہوئی۔ پریشانی کے ساتھ ساتھ پچھتاوا بھی کہ مزاح اور تفریح کی حس کو تسکین بخشنے کی کوشش نہ کرتا تو اچھا تھا۔ بہرحال میں نے جواب میں کفارہ ادا کرنے کی بھرپور کوشش جاری رکھی۔ فرحت نے دل رکھنے کی خاطر اپنی طبعیت کی بحالی کا تاثر دیا۔ مجھے کسی قدر تسلی ہوئی۔
میں نے پھر اپنی بساط کے مطابق اسے سمجھانا شروع کردیا مگر اس دوران میں اس کا ایک خط آیا جس میں اس کا کہنا تھا:
”آپ مجھے تسلیاں دے رہے ہو مگر جھوٹی دلجوئی کی خاطر۔ اصل یہ ہے کہ آپ نے دل سے مجھے کبھی چاہا ہی نہیں۔“
اس کے جواب میں، میں نے اسے لکھا:
بسم اللہ الرحمن الرحیم
فرحت !
السلام علیکم
میں مجبور ہوگیا ہوں کہ اپنی کمزوری کا کھل کر اظہار کروں۔ میں نے جب تمھیں پہلی نظر دیکھا، اگرچہ نظروں سے تو نظریں نہیں ملیں مگر تمھاری جانب سے چلنے والا کوئی تیر میرے دل میں کھب گیا۔ تم مجھے اتنی خوبصورت لگی جیسے دنیا میں تمھارے جیسی خوبصورت کوئی دوسری لڑکی ہے ہی نہیں۔ میں مزید اعلان کرتا ہوں کہ اب تک مجھے دنیا میں تم سے زیادہ حسین لڑکی نظر نہیں آئی۔ روز اول سے لے کر آج تک میرے دل کی ہر دھڑکن اس دلی تمنا کی صدا فضا ئے بسیط میں بکھیر رہی ہے کہ کاش! ہم دونوں رائج زبان اور روایتی مفہوم میں ”ایک دوسرے کے لئے بنے ہوتے۔“
ہماری روح ایک ہے مگر جسم ایک نہیں ہوسکتے۔ محبت ایک بہت بڑی حقیقت ہے اور حقیقت یہ ہے کہ ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں اور ایک دوسرے سے بڑھ کر کرتے ہیں مگر اس اٹل حقیقت کو آج نہیں تو کل تسلیم کرنا پڑے گا کہ ہماری عملی اور عائلی زندگی کی راہیں ایک دوسرے سے جدا ہیں۔
میرا نقطہ نظر یہ ہے (اور یہ بھی ایک حقیقت ہے) کہ راہیں جدا ہونے کے باوجود ہماری پوری زندگی ہماری محبت ہی کی رہین منت رہے گی۔
والسلام
تمہارا اپنا
قربان انجم
اس کے جواب میں فرحت کا جو خط موصول ہوا، وہ بھی تمام تر ” احتیاط محبت “ کے باوجود میٹھے میٹھے گلے شکوے سے معمور تھا۔ مجھے سمجھا رہی تھی:
”آپ کبھی سمجھ ہی نہیں پائیں گے کہ لڑکیاں لڑکوں کے مقابلے میں زیادہ مجبور ہوجاتی ہیں۔آپ کو اپنی اس حالت سے آگاہ میرے لئے ممکن نہیں کہ کس طرح آپ کے خیالوں میں گم رہتی ہوں۔( جاری ہے)