محمد شاہد بھٹی :
انسان میں فیصلہ سازی کرنے کا بنیادی یونٹ نیوران ہوتا ہے۔ اگر زیاده نیورانز جڑے ہوں اور مشترکه طور پر فیصلہ سازی کر رہے ہوں تو یہ نیورل نیٹ ورک کہلاتا ہے . اسی طرح اگر بہت سارے نیورانز کے گروہ اور ان کی خفیه تہیں بھی ہوں تو اسے ڈیپ ( گہرا ) نیورل نیٹ ورک کہتے ہیں . ان کی تربیت کے لیے عموماً کافی وقت درکار ہوتا ہے۔
ان نیٹ ورکس کی اگر تربیت ٹھیک طرح سے کر دی جائے تو یه کافی حد تک درست فیصلے کرتے ہیں. ان کی تربیت اس ڈیٹا کے مطابق ہوتی ہے جو ٹریننگ کے وقت مہیا کیا جاتا ہے۔ اور یہ نیٹ ورک انسانی ذہن کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے کافی مماثل ہوتے ہیں. ان کی درست تربیت وہ ہے جو اصل مشاہدے پر ہو رہی ہو نہ کہ من گھڑت ڈیٹا پر۔ اگر آخرالذکر نیٹ ورک کو لاکھوں کی تعداد میں آپس میں جوڑ دیا جائے تو اسے جمہوریت کہا جا سکتا ہے . سیاستدان دراصل وہ نیورو سائنسدان ہیں جنہوں نے یہ انتہائی پیچیده نیٹ ورک کافی محنت سے نسل در نسل ٹرینڈ کر رکھے ہیں.
کچھ لوگ شخصیات سے متاثر ہوتے ہیں ، اپنے ذہنوں کو ان کے زیر اثر کر لیتے ہیں، کچھ ذہنوں کی تربیت مذہبی بنیاد پر ہوئی . دنیا میں جو مرضی ہو جائے ، ان کی اکثریت خاموش رہتی ہے۔ انھیں اٹھانے کے لیے کوئی مذہبی نعره لگانا پڑتا ہے . ان ذہنوں کو جب کسی نعرے کی مدد سے جگایا جاتا ہے تو ان میں سے اکثریت کی آخری آؤٹ پٹ کسی سیاسی اتحاد کی حمایت میں ہی نکلتی ہے . چاہے وہ خود ان کی اپنی زندگی متحرک کردینے والے اس نعرے سے بالکل برعکس ہی کیوں نہ ہو۔ اس طرح کچھ لوگ کسی غداری کے نعرے سے متحرک ہو جاتے ہیں، کچھ لوگ کرپشن کے نعرے پر اٹھ کھڑے ہوتے ہیں . اسی کا سبب یہ ہے کہ ان کا اٹھنا بیٹھنا ، دیکھتا ، سننا اور دلچپسی انہی موضوعات میں ہوتی ہے.
کسی بھی سیاسی پارٹی کو دیکھیں گے اس میں علماء بھی ہوں گے ، فنکار، کھلاڑی ، اینکرز ، فوجی ہر طبقہ سے لوگوں کی نمائندگی ہوگی ۔ ہر ایک اپنے حلقہ احباب کو ان کی دلچسپی کی باتوں کے ساتھ ساتھ اس مخصوص سیاسی جماعت کی حمایت کی تلقین کرتا رہتا ہے . یہ تربیت کا عمل مسلسل چل رہا ہے . وقت کے ساتھ ذہن پخته ہو جاتے ہیں پھر کوئی کھلاڑی ، کوئی جیالا اور کوئی شیر بن جاتا ہے . اور سب کچھ اپنی آنکھوں کے سامنے آنے کے باوجود اس کو غلط سمجھنےکو تیار نہیں ہوتا۔
جب کسی سیاسی اجتماع میں کسی غریب کا لخت جگر مر جائے اور لواحقین کہہ رہے ہوں کہ میرے باقی بچے بھیاس راہ میں مر جائیں ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ یہ ذہن کی پختگی کا وہ معیار ہوتا ہے جس کی مزید ٹریننگ نہیں کی جا سکتی۔
بچوں کا ذہن ایک خالی گراؤنڈ کی طرح ہوتا ہے ، ان کو جو فیڈ کرتے جائیں گے ، ان کے نیورانز کی وائرنگ اسی طرح ہوتی جائے گی. اور بڑے ہو کر یہ چیز اس قدر زیادہ پختہ ہو جاتی ہے کہ بعد میں اسی میں تبدیلی انتہائی ناممكن ہو جاتی ہے ۔
ایسے ماحول میں ضرورت اس امر کی ہے کہ غلط كون ہے اور صحیح كون ہے ، یہ فیصلہ سوچ ، سمجھ کر کریں . انجا نے میں کسی گروہ کے آلہ کار مت بنیں۔