ڈاکٹر شائستہ جبیں :
[email protected]
’ توکل ‘ کہتے ہیں ’ بھروسہ کرنے کو‘ اور توکل علی اللہ، اللہ رب العزت پر بھروسہ ہے جو کہ انبیاء کرام کا خصوصی شعار رہا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے خود توکل کرنے کا حکم دیا ہے. قرآن مجید میں سات مرتبہ اہلِ ایمان کو صرف اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرنے کی تاکید کی گئی ہے. یہ آیت مبارکہ سات مختلف مقامات پر وارد ہوئی ہے. وعلی اللہ فلیتوکل المؤمنون (التوبہ :51) یعنی اہل ایمان کو صرف اللہ پر ہی بھروسہ کرنا چاہیے.
توکل کے لفظی معنی کسی معاملے میں کسی ذات پر اعتماد کرنے کے ہیں. یعنی اپنی عاجزی کا اظہار اور دوسرے پر مکمل بھروسہ اور اعتماد کرنا توکل ہے. شرعی اصطلاح میں توکل یہ ہے کہ ” اس یقین کے ساتھ اسباب اختیار کیے جائیں کہ دنیاوی و اخروی ہر معاملے میں نفع نقصان کا مالک صرف اور صرف اللہ تعالیٰ ہے، اس کے حکم کے بغیر ایک پتے کی جنبش بھی محال ہے. ہر وجود خواہ وہ چھوٹا ہو یا بڑا….. اپنی بقا کے لئے اللہ کے امر کا محتاج ہے. یعنی خالقِ کائنات کی ذات پر مکمل اعتماد کر کے دنیاوی اسباب اختیار کرنا توکل کے خلاف نہیں بلکہ نظام الٰہی کے عین مطابق ہے کہ بندہ دنیاوی اسباب اختیار کرے، اپنی پوری کوشش کرے اور پھر کام کی انجام دہی کے لیے اللہ تعالیٰ کی ذات پر پورا بھروسہ کرے.
قرآن مجید کی متعدد آیات توکل کی اہمیت اور فضیلت کو بیان کرتی ہیں. ارشاد ہوتا ہے:
ترجمہ : جو شخص اللہ پر توکل کرے گا، اللہ اس کے لیے کافی ہو گا. (الطلاق :3)
نیز اللہ رب العزت نے فرمایا :
ترجمہ : اگر تم اللہ پر ایمان رکھتے ہو تو اسی پر توکل کرو، اگر تم مسلمان ہو. (یونس :84)
ایک اور مقام پر ارشاد ہوتا ہے :ترجمہ :تم اگر مومن ہو تو تمہیں اللہ تعالیٰ پر ہی بھروسہ رکھنا چاہیے (المائدہ :23)
فاذا عزمت فتوکل علی اللہ (آل عمران :159)
ان تمام آیات میں اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو اپنی ذات پر توکل کا نہ صرف حکم دیا ہے، بلکہ اس کی انتہائی ترغیب دی ہے.
نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ و سلم نے بھی متعدد مقامات پر اللہ پر بھروسہ کرنے کی تعلیم و ترغیب دی ہے. روایات میں آتا ہے کہ جب کفار مکہ اُحد کی جنگ سے واپس ہو گئے تو راستے میں انہیں پچھتاوا ہوا کہ ہم جنگ میں غالب آ جانے کے باوجود خواہ مخواہ واپس آ گئے، اگر ہم کچھ اور زور لگاتے تو تمام مسلمانوں کا خاتمہ ہو سکتا تھا. اس خیال کی وجہ سے انہوں نے مدینہ منورہ کی طرف لوٹنے کا ارادہ کیا.
دوسری طرف حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ و سلم نے اُن کے ارادہ سے باخبر ہو کر اُحد کے نقصانات کی تلافی کے لیے اگلے دن صبح سویرے صحابہ میں اعلان فرمایا کہ ہم دشمن کے تعاقب میں جائیں گے، اور جو لوگ جنگ احد میں شریک تھے، صرف وہ ہمارے ساتھ چلیں. صحابہ کرام زخمی اور تھکے ہوئے تھے، لیکن انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ والہ و سلم کے فرمان پر لبیک کہا.
حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ و سلم اپنے صحابہ کرام کے ساتھ حمراءالاسد کے مقام پر پہنچے تو قبیلہ بنی خزاعہ کے ایک شخص نے مسلمانوں کے حوصلے کا مشاہدہ کر کے اس کے متعلق ابو سفیان کو اطلاع دی اور اسے واپس جانے کا مشورہ دیا. اس سے کفار پر رعب طاری ہوا اور وہ واپس مکہ لوٹ گئے، مگر ابوسفیان نے ایک شخص کے ذریعے مسلمانوں پر حملہ آور ہونے والا ہے. اس پر صحابہ کرام بجائے ڈرنے کے بے ساختہ بول اُٹھے:ہم نے اللہ پر بھروسہ کیا اور وہ بہترین کارساز ہے. ( آل عمران :173)
حضرت عمران بن حصین رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ و سلم نے فرمایا : میری امت کے ستر ہزار آدمی بلا حساب کتاب جنت میں داخل ہوں گے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول ! وہ کون لوگ ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ والہ و سلم نے ارشاد فرمایا : یہ وہ لوگ ہوں گے جو جھاڑ پھونک نہیں کرواتے، بدفالی نہیں لیتے، آگ سے نہیں دغواتے اور رب پر توکل کرتے ہیں . (صحیح مسلم)
امیرالمومنین عمر فاروق رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ و سلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ والہ و سلم نے فرمایا :” اگر تم لوگ اللہ تعالیٰ پر ایسا توکل کرو جیسا کہ اس کا حق ہے تو تمہیں اسی طرح رزق ملے، جیسے ایک پرندے کو رزق ملتا ہے، صبح خالی پیٹ نکلتا ہے اور شام کو پیٹ بھر کر واپس آتا ہے.“ ( جامع ترمذی)
مولانا وحید الدین خان اس حدیث مبارکہ کی توضیح بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ حدیث میں توکل کے ساتھ ” حق توکلہ “ کا اضافہ ہے. حق توکل سے مراد توکل کی شرائط ہیں. اس کی وضاحت پرندے کی مثال سے ہوتی ہے. پرندہ ایسا نہیں کرتا کہ وہ بھروسہ کرتے ہوئے اپنے گھونسلے میں بیٹھا رہے، بلکہ وہ سوچتا ہے، منصوبہ بناتا ہے، اپنی آنکھ سے دیکھتا ہے اور پروں سے اُڑتا ہے، تب وہ اُس مقام پر پہنچتا ہے جہاں فطری طور پر اس کا رزق موجود ہے.
اس کا مطلب یہ ہے کہ جب پرندہ اپنی صلاحیتوں کو پوری طرح استعمال کرتا ہے، اپنی عقل اور سمجھ سے بھرپور طور پر کام لیتے ہوئے مبنی بر فطرت منصوبہ بناتا ہے اور اس کے لیے اپنی حاصل شدہ توانائی خرچ کرتا ہے، تو اس کے بعد ہی ممکن ہوتا ہے کہ دنیا سے اس کو وہ رزق ملے جو خالق نے اس کے لیے مقدر کیا ہے.
یہی توکل علی اللہ کا حقیقی مفہوم ہے. حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ و سلم سے پوچھا ” کیا اونٹنی کو باندھ کر توکل کروں یا بغیر باندھے؟ آپ صلی اللہ علیہ والہ و سلم نے فرمایا : باندھو اور پھر اللہ پر بھروسہ کرو.“(جامع ترمذی)
جو بھی اسباب مہیا ہوں انہیں اس یقین کے ساتھ اختیار کرنا چاہئے کہ کام کرنے والی ذات صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی ہے. حضرت ایوب علیہ السلام نے جب اپنی طویل بیماری کے بعد اللہ تعالیٰ سے شفا یابی کے لئے دُعا فرمائی تو اللہ تعالیٰ نے انہیں زمین پر پاؤں مارنے کا حکم دیا. حکمت کی بات ہے کہ کیا محض زمین پر پیر مارنے سے بیس سالہ طویل بیماری کا علاج ممکن تھا؟ لیکن انہوں نے بغیر کسی تشکیک کے حکم الٰہی کی تعمیل کی اور سبب کو اختیار فرمایا. نتیجتاً ان کے پیر مارنے سے زمین سے چشمہ پھوٹا، جس کے پانی سے غسل کرنے سے حضرت ایوب علیہ السلام کی بیماری دور ہو گئی.
اس واقعہ سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ چاہتے تو اپنے ارادہ سے بھی حضرت ایوب علیہ السلام کو شفا دے سکتے تھے، لیکن چونکہ دنیا دارالاسباب ہے تو اس لیے انہیں حکم ہوا کہ چاہے وہ زمین پر پاؤں مارنے جتنی ہی سہی، لیکن حرکت ضرور کریں، اور یہ بھی علم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی قدرت اور حکم سے کمزور اسباب کے باوجود کسی بڑی سے بڑی چیز کا بھی وجود ہو سکتا ہے.
یعنی اسباب تو ہمیں اختیار کرنے چاہئیں لیکن ہمارا بھروسہ اللہ کی ذات پر ہونا چاہیے کہ وہ اسباب کے بغیر بھی چیز کو وجود میں لا سکتا ہے اور اسباب کی موجودگی کے باوجود اس کے حکم کے بغیر بھی کوئی چیز وجود میں نہیں آ سکتی.
حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جلتی ہوئی آگ میں ڈالا گیا، جلانے کے سارے اسباب موجود تھے مگر حکم خداوندی ہوا کہ آگ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لیے سلامتی بن جائے تو آگ نے انہیں کچھ بھی نقصان نہیں پہنچایا، بلکہ وہ آگ جو دوسروں کو جلا دیتی ہے، حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لیے ٹھنڈی اور سلامتی کا سبب بن گئی.
اسی طرح حضرت اسماعیل علیہ السلام کی گردن پر طاقت کے ساتھ تیز چھری چلائی گئی مگر چھری بھی کاٹنے میں اللہ کے حکم کی محتاج ہے، اللہ نے اُس چھری کو حضرت اسماعیل علیہ السلام کی گردن کو نہ کاٹنے کا حکم دے دیا تھا، لہٰذا باوجود اسباب کے چھری ان کی گردن کو نہیں کاٹ سکی.
اسباب و ذرائع و وسائل کا استعمال کرنا منشائے شریعت اور حکم الٰہی کے عین مطابق ہے. نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ و سلم نے اسباب و وسائل کو خود بھی اختیار فرمایا اور اس کا حکم بھی دیا. لڑائی ہو یا کاروبار، خانگی معاملات ہوں یا حکومتی، ہر کام میں حسبِ استطاعت اسباب کا اختیار کرنا لازم ہے. جائز و حلال طریقہ پر اسباب و وسائل کو اختیار کرنا، پھر اللہ کی ذات پر کامل یقین کرنا توکل علی اللہ کی حقیقی روح ہے.
اگر توکل علی اللہ کا یہ مطلب ہوتا کہ صرف اللہ کی مدد و نصرت پر یقین کر کے بیٹھ رہیں تو سب سے پہلے نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ والہ و سلم اس پر عمل پیرا ہوتے، لیکن جب آپ صلی اللہ علیہ والہ و سلم نے ایسا نہیں کیا اور نہ اللہ تعالیٰ نے ایسا کوئی حکم دیا، بلکہ اللہ نے تو دشمنوں کے مقابلے کے لئے پہلے سے پوری تیاری کرنے کی تاکید فرمائی ہے.
لہذا معلوم ہوا کہ توکل ایک عظیم اور معنی خیز اصطلاح ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ پر توکل کرنے والا شخص اللہ تعالیٰ کو اپنے معاملات سنوارنے کے لیے ایسے سونپتا ہے جیسے کسی بہت اپنے کو ذمہ داری دے کر انسان بے فکر ہو جاتا ہے، اسی طرح متوکل بندے کو اللہ تعالیٰ بغیر کسی تکلف اور مشقت کے کافی ہو جاتا ہے.
توکل کرنے والا شخص اللہ تعالیٰ سے ہر طرح سے پرامید ہوتا ہے کہ جو چیز اس کے مقدر میں لکھ دی گئی ہے، وہ اس سے چوک نہیں سکتی، کیونکہ اللہ تعالیٰ کے فیصلوں میں تغیر و تبدل نہیں. توکل کرنے والا شخص سچے دل کے ساتھ تمام امور کو چلانے کی نسبت اللہ رب العزت کی جانب کرتا ہے. مشکل کشائی اور حاجت روائی صرف اللہ تعالیٰ کے اختیار میں سمجھتا ہے، اللہ تعالیٰ کے وعدوں پر مکمل یقین رکھتا ہے کہ تمام معاملات اللہ کے سپرد کرنے سے اہداف بھی پورے ہوں گے اور نقصان بھی نہیں ہو گا.
متوکل شخص اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرتے ہوئے معاملات اللہ تعالیٰ کے سپرد کر کے غیر اللہ سے یکسر منقطع کر دیتا ہے. متوکل شخص نفع حاصل کرنے کی قوت اور نقصانات سے بچنے کی ہمت صرف اللہ تعالیٰ سے مانگتا ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ ہی تخلیق و تدبیر، نفع و نقصان، عنایت اور محروم کرنے کا اختیار رکھتا ہے، وہ جو چاہتا ہے وہ ہو جاتا ہے اور جو نہیں چاہتا، وہ نہیں ہوتا.
لہذا جو اپنے امور اللہ تعالیٰ کے سپرد کر دے ، اپنے خالق پر توکل اس حالت میں کرے کہ وہ توحید پرست، انابت کرنے والا، گڑگڑانے والا، توبہ کرنے والا، حکم کی تعمیل کرنے والا اور اطاعت گزار ہو تو اللہ تعالیٰ اس کی تمام پریشانیوں کو ختم اور سب تنگیوں سے نکلنے کا راستہ بنا دیتا ہے، اسے وہاں سے رزق دیتا ہے، جہاں سے اسے گمان بھی نہیں ہوتا، اسے ڈھیروں خیر و بھلائی میسر آتی ہے، اسے ہر قسم کے ضرر اور شر سے محفوظ کر دیا جاتا ہے، اور اس کا انجام فلاح، کامیابی اور یقینی نصرت سے ہمکنار ہوتا ہے. اور جس کا انجام بخیر ہو، فلاح کے راستے پر ہو، وہ دنیا و آخرت کی تمام کامیابیاں اور کامرانیاں پا جاتا ہے.
ایک تبصرہ برائے “توکل علی اللہ کے حیرت انگیز نتائج کیسے حاصل ہوسکتے ہیں؟”
Umdaaa tehreer…