باحجاب مسلمان ماں اور بیٹی

اگرشیر خوار بچوں کو سکھانا والدین کی ذمہ داری ہوتی تو؟

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

نگہت حسین :

آپ میں سے کون ہے جو یہ دعویٰ کر سکتا ہے کہ اس نے اپنے بچے کو گردن سنبھالناinfant neck holding خود سکھائی ؟
بولنا سکھایا ہے ؟
چلنا پھرنا سکھایا ہے؟

ایک نوزائیدہ بچے کو دیکھیں ۔۔۔۔۔ جب اس دنیا میں آیا تو سیکھنے سمجھنے کے سارے گر اللہ رب العزت نے اس کی فطرت میں رکھ دئیے۔ خود بہ خود ہی بچہ سب کچھ سیکھتا چلا جاتا ہے! جسمانی و ذہنی نشوونما کے تمام مراحل

کس وقت جسم بیٹھنے کے قابل ہوتا ہے
کس لمحے بچہ چلنے پھرنے بھاگنے دوڑنے کے
ان تمام مراحل میں قدرت ہر لمحہ بچے کی استاد ہوتی ہے۔

تصور کریں اگر نشوونما کے یہ مراحل سکھانے کی یہ ذمہ داری والدین کے اوپر ہوتی؟
تو ہم کس قدر مشکل میں ہوتے !

کتنی کٹھن ہوجاتی ہماری زندگی ! پھر بھی کمی خامی اور کوتاہی کے سو امکانات ۔
بہت سے بچے جسمانی اعتبار سے قد کاٹھ میں تو عام بچوں کی طرح ہیں لیکن کسی حادثے ، بیماری یا کسی قدرتی ناگہانی کی وجہ سے ان مراحل کو فطری انداز میں مکمل نہیں کر پاتے یا ذہنی و جسمانی نشوونما کے حوالے سے اپنی عمر کے حساب سے پیچھے رہ جاتے ہیں۔

ان بچوں کو چلنا پھرنا سے لے کر کھانا پینا اٹھنا بیٹھنا سب سکھانا پڑتا ہے۔ان کی ذہنی اور جسمانی حرکات کی نشوونما کی رفتار مختلف، سست اور روکاوٹوں کے باعث بالکل منفرد انداز میں ہوتی ہے۔
ان میں سے بعض بچوں کو مشقیں کروائی جاتی ہیں کہ ہاتھ کیسے موڑتے ہیں ،
ٹانگیں کس طرف سیدھی رکھ کر قدم بڑھاتے ہیں،
بولتے کس طرح ہیں ۔

علاج معالجہ کی سہولتوں کے ساتھ بھی زندگی ان کے لیے دشوار ہوتی ہے۔
ایسے میں ان کے سارے کاموں کی انجام دہی ان کی ماؤں پر ہوتی ہے۔
جو ہر ایک کو یہ سمجھانے کی کوشش کرتی ہیں کہ تمام تر کمزوری اور محتاجیوں کے باوجود یہ گوشت پوست کے ویسے ہی انسان ہیں جیسے ہم ۔
ان کی پاس بھی بھوک ، پیاس ، سردی ، گرمی ، خوشی ، غمی محسوس کرنے کی تمام حسیات موجود ہیں ۔

لیکن حقیقت میں جب ہم ان کی طرف نگاہیں اٹھاتے ہیں تو ان میں کرید ، تجسس ، ترحم ، زعم پارسائی ، لاتعداد مشورے ، توبہ استغفار ، اور نہ جانے کیا کیا باتیں شامل ہوتی ہیں۔
بنا کسی تعارف ، تعلق اور محبت کے ۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں