خاتون کا ہاتھ میں‌ ہاتھ ، ہمدردی

ابن مریم ہوا کرے کوئی

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

نگہت حسین :

کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ خود کشی کرنے والا انسان جسمانی سے پہلے ہی ذہنی خودکشی کر چکا ہوتا ہے؟ جسمانی خود کشی صرف اس کا مادی اظہار ہے۔ ذہنی خود کشی کی آخری حد۔
انسان جذبات و احساسات اور ذہنی کیفیات کا ہی تو نام ہے۔ سچ ہے کہ خوشی اور اطمینان کے دھارے اس من سے پھوٹتے ہیں جو کہ اندر سے شانت ہو۔

یہ ذہن جن حالات کو قبول کرنے سے انکاری ہو اس کا لمحہ لمحہ زندگی کی ابتری کا سبب بنتا جاتا ہے۔
ہوسکتا ہے خوشی اور کامیابی کا جو تصور میں نے باندھا ہے وہ ہی کسی کے لیے بہت کرب ناک ہو۔
تعریف و ستائش کے ہجوم میں گھرا انسان بھی کبھی بہت تنہا ہوسکتا ہے۔
دوسروں کے آنسو پوچھنے والا بھی دل میں دکھوں کا سمندر چھپائے مل سکتا ہے۔
اطمینان قلب کی تلقین کرنے والا بھی خود اس سے یکسر محروم ہوسکتا ہے۔ سمجھ داری کی باتیں کرنے والا بھی بہت سے معاملات میں نا سمجھ ہو سکتا ہے۔
تھامنے والے کو بھی سہارے کی ضرورت ہوسکتی ہے جو باہر کامیاب ہے وہ اندر سے شکست خوردہ ہو سکتا ہے۔
تیراکی کا ماہر بھی کبھی ڈوب سکتا ہے۔ کسی کا مجلسی تبسم اس کی جھوٹی ترجمانی کرتا ہو۔

مجھے مدد چاہیے کا ڈھکے چھپے الفاظ میں اظہار کردینے والے بڑے بہادر ہوتے ہیں جو کبھی نہ کبھی اس اندرونی خلفشار کو شکست دینے کے لیے اس غوطے کھانے والے کی مانند مدد کے لیے پکارتے ہیں جو کہ بس چند لمحوں کی کہانی بننے والا ہوتا ہے۔

کیا وجہ ہے کہ اینٹوں کے بھٹے میں کام کرنے والی سخت کوش عورت زندگی سے خوش ہے اور جدید ماڈل کی گاڑی ،پرآسائش رہائش جیسی سہولیات سے پر زندگی گزارنے والی کے لیے یہ عذاب بن جاتی ہے۔
میں نے بہت قریب سے لوگوں کا مشاہدہ کیا ہے۔

وہ ایک ٹاپ کلاس کے سائیکالوجسٹ سے سیشن کروارہی تھی لیکن سنھبلنے کا نام نہ لیتی تھی۔اس کی زندگی کا روگ ہی اس کی عزیز از جان ہستی ماں کا اس کو ٹھکرا دیا جانا تھا۔ ساری زندگی کی خوشیاں اسی کرب کو جھیلتے ختم ہوگی۔

وہ بھی تھی جو ہزاروں روپے لگانے کے باوجود کہتی تھی کہ مجھے کسی پیڈ سیشن سے سکون نہیں مل سکتا کیوں کہ مجھے جن سے بات کر کے سکون ملتا ہے وہی مجھے سننے کو تیار نہیں۔ یہ محرومی ہی اس کی ذہنی اذیت تھی۔

وہ جو ساری زندگی ہر رشتے میں محبت تلاش کرتا رہا اور اس کمی کو دور کرنے کے لیے دوستوں میں خوش رہتا تھا دوست بھی ایسے کہ جان چھڑکنے والے لیکن جب مشکل میں دوست بھی ساتھ چھوڑ گئے تو زندگی اس کے لیے دشوار گزار ہوگئی، اس کو پناہ ملی تو مایوسی کے گہرے غار میں ۔

وہ جو ہر وقت دوستوں کے لیے اپنی حماقتوں کی وجہ سے تفریح کا ذریعہ بنا رہتا تھا باہر برا مانے بغیر مسکراتا تھا ، اندر سے اپنے آپ سے نفرت کرنا سیکھ رہا تھا۔ یہ نفرت کا سبب ہی دوست تھے عزیز از جان۔

اور وہ بھی تھی جو ساری زندگی محبتوں کا لطف اٹھا کر بھی ناخوش تھی تو اس کو خوشی سے آشنا کرنے کے لیے کسی اجنبی نے رستہ دکھا دیا۔

ہر اک کی کہانی جدا ہے ہر ایک کے لیے کرب و اذیت اور خوشی کا ملنا علیحدہ ہے۔
ذہنی کرب سے گزرتا ہر انسان اپنے آپ کو شکست دے چکا ہوتا ہے یا دے رہا ہوتا ہے۔

یہ کیفیات دین ایمان کا مسئلہ نہیں۔ یہ اس بے رحمی کا مسئلہ ہےجو انسان کی انسان کے ساتھ ہے۔اللہ سے تعلق کا رستہ دکھانے کے لیے بھی تھامنے والے انسانی ہاتھوں کی ضرورت ہوتی ہے۔

’ مضبوطی ، ٹوٹ جانے کے بعد ملتی ہے ‘ کا تجربہ خوش گوار بنانے کے لیے کسی کو کسی کی ضرورت ہوتی ہے۔ وگرنہ ٹوٹ کر بکھرنے میں دیر نہیں لگتی۔ ۔ ابن مریم ہوا کرے کوئی ، میرے درد کی دوا کرے کوئی کے لیے ماہر نفسیات ہونا ضروری نہیں۔

وہ کوئی ماں بھی ہوسکتی ہے جو ناکامی کا بار اٹھائے اشک بار بچے کو تنہائی میں چھپنے کا موقع تلاش کرنے کے بجائے اپنی گود میں چھپا لے ، وہ کوئی دوست بھی بن سکتا ہے کہ جو پریشانی میں گھرے کسی فرد کو امید دلا دے اور وہ کوئی اجنبی ہو سکتا ہے جو بظاہر کامیاب و خوش نظر آنے والے فرد کے دل کو خوشی و اطمینان کا پر مسرت دائمی حل بتا دے۔ محسوس کرنے والا حساس دل اور سننے والے کان چاہئیں۔

ہر دور میں انسانوں کو رب سے جوڑنے کے لیے انسان ہی پیغمبر بنا کر بھیجے گیے جو تھامنے والے اور سننے والے تھے۔ انسانی دکھوں اور زخمی دلوں پر مرہم رکھ کر رگ جان سے قریب ذات کی طرف محبت و ہمدردی سے متوجہ کرنے والے۔
عارضی ناکامی اور دکھوں کا متبادل دائمی حل پیش کرنے والے انسان!
سچ ہے کہ تنہا چھوڑ جانے والوں کا مقبول جملہ یہی ہوتا ہے کہ مومن کبھی ڈیپریس نہیں ہوسکتا!
محض ایک جملہ جو نہ جانے کتنے ہی لوگوں کو بے یارو مدد گار چھوڑ جاتا ہے۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں