اقبال خورشید :
حضرات، کیا آپ کو یاد ہے؟
وہ بوری بند لاشیں، بھتے کی پرچیاں، 12 مئی اور27 دسمبر؟ اور وہ نعرے ’ہم آرہے ہیں، ہم آگئے‘، ’اس شہر میں رہنا ہے، تو اوقات میں رہنا‘، ’جو قائد کا غدار ہے، وہ موت کا حق دار ہے‘۔
کیا آپ کو یاد ہے؟ لسانی اور فرقہ وارانہ ٹارگٹ کلنگ۔ لیاری گینگ وار، چیل چوک، کٹی پہاڑی۔ کراچی، جو ایک شہر تھا عالم میں انتخاب۔ کراچی، جو شاید کبھی، اپنی راکھ سے پھر جی اٹھے۔
معلومات اور سستی تفریح کی بم باری کے باعث، فیس بک، ٹوئٹر اور بریکنگ نیوز کے باعث ہماری یادداشت سُکڑ سی گئی ہے۔ ہم بہت کچھ، بہت جلدی بھول جاتے ہیں۔ ناول ’ سرسید، سینتالیس اور سیکٹر انچارج ‘ کی پہلی کامیابی تو یہی ہے کہ یہ ناصرف ان باتوں کو محفوظ کر لیتا ہے، جو ہم بھول چکے ہیں، بلکہ انہیں بھی، جو ہم زبردستی بھولنا چاہتے ہیں۔ تو اس اہتمام کے لیے ناول نگار، عثمان جامعی کا شکریہ۔
تحریر جاری ہے
کتاب کا تجزیہ کرنے بیٹھا ہوں، تو میتھیو آرنلڈ میرے سامنے آن کھڑا ہوا۔ آرنلڈ، جو تخلیق کے تجزیے میں 2 طرح کے شکنجوں یا فریب کا ذکر کرتا ہے۔
پہلا فریب
پہلا، ’ تاریخی تخمینے کا فریب ‘ ہے۔ اس کا شکار ہم تب ہوتے ہیں، جب ہم کسی ایسی تخلیق کا تجزیہ کریں، جس نے اس زبان یا اس صنف کی طرح ڈالنے میں کردار ادا کیا ہو، یا تب، جب تخلیق تاریخی اہمیت یا حیثیت کی حامل ہو۔ کیونکہ یہ ناول کراچی کی جدید تاریخ کا احاطہ کرتا ہے، تو سمجھ لیجیے، ہمارے لیے شکنجہ تیار تھا۔
دوسرا فریب
دوسرا فریب ’ ذاتی تخمینے کا فریب ‘ ہے، جس کا شکار ہم تب ہوتے ہیں، جب ہم اپنے ہم عصر فکشن نگار کی تخلیق پر قلم اٹھاتے ہیں کہ ہمارا تجزیہ ذاتی پسند، ناپسند سے آلودہ ہوسکتا ہے۔ تو راقم کا ان دونوں شکنجوں میں پھنسنا عین امکانی تھا، مگر پھر بھی ہم نے یہ جوکھم اٹھانے کا فیصلہ کیا اور اس سلسلے میں اپنے اسی بزرگ، میتھیو آرنلڈ سے مدد چاہی، جو تخلیق کے تجزیے کے لیے ’ حقیقی تخمینہ ‘ کا کلیہ تراشتا ہے۔ یعنی تخلیق میں ہمیں مسرت بخشنے اور تبدیل کرنے کی قوت ہو۔
عثمان جامعی کے ناول میں یہ خوبیاں موجود۔ وہ مسرت بھی بخشتا ہے اور ایک حد تک آپ کو تبدیل بھی کرتا ہے۔ چاہے آپ متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم)، جو اس ناول کا بنیادی موضوع ہے، سے متعلق مثبت رائے رکھتے ہوں یا منفی، دونوں ہی صورتوں میں یہ آپ پر اثر انداز ہوگا۔
میلان کنڈیرا کا اصرار ہے کہ ناول کچھ نیا، بہرحال دریافت کرے۔ ہے تو یہ ایک بڑا چیلنج، البتہ یہ ناول اردو بولنے والے طبقے کے نظریات کی شکست و ریخت اور تذبذب کو دریافت کرنے میں ایک حد تک کامیاب رہا، اور پھر اس کا اختتام قنوطیت پر مبنی نہیں۔
اس کی ایک اہم خوبی، کم از کم میرے نزدیک، غیر جانبداری ہے۔
اچھا، اس لفظ غیر جانبداری پر ہمارے ترقی پسند دوست ناراض ہوجاتے ہیں۔ ان کا اصرار ہے کہ سچ اور جھوٹ میں، حق اور باطل میں آپ غیر جانبدار ہو ہی نہیں سکتے۔ دست بست عرض، یہ اعتراض اپنی اساس میں درست نہیں۔ یہ حق اور باطل کی بحث نہیں۔ بے شک آپ کو ہر مرحلے پر سچائی کا ساتھ دینا چاہیے، مگر یہ بھی یاد رکھیں، آج کے اس دور میں سچائی کوئی منجمد شے نہیں، یہ ایک حد تک سیال ہے، پھر sujbective ہے۔
جی، اور ادب میں غیر جانبداری سے مراد ’تخلیقی عمل میں اپنی ذاتی پسند ناپسند اور تعصب سے ماورا ہونا ہے، یا ماورا ہونے کی منصفانہ کوشش‘ کرنا ہے۔ بس، اتنا ہی۔ ہاں، اگر آپ فن پارہ تخلیق کرنے کا ہنر جانتے ہیں، تو اس میں پروپیگنڈا بھی کسی حد تک کھپ سکتا ہے۔ کیا ہم چند عظیم روسی ناولز میں ایسا ہی کچھ نہیں دیکھ چکے؟ مگر بہرحال، وہ پیس آف آرٹ تو ہیں ناں۔
تو جامعی صاحب نے اس ناول میں غیر جانبداری برتی۔ ایم کیو ایم کے مختلف دھڑے ضرور اس کنفیوژن کا شکار ہوں گے کہ کتاب کی حمایت کریں یا مخالفت۔ ویسے اگر یہ کتاب ایک عشرے قبل شائع ہوتی، جب حالات کٹھن اور لہجے کڑک تھے، تو پریس کلب کی سڑک پر چند نفیس احباب اسے نذرِ آتش کرکے اس کی مقبولیت میں چار چاند لگا سکتے تھے۔
اب مختصراً ناول کے معروضی پہلوؤں کا جائزہ لے لیا جائے۔
Setting یا زمان و مکاں
ناول بنیادی طور پر سندھ کے مختلف شہروں کا احاطہ کرتا ہے۔ بالخصوص میرپور خاص، کراچی اور حیدرآباد۔ کراچی کا بیان زیادہ ہے۔ زمانی اعتبار سے کہانی 1986ء سے 2018ء تک پھیلی ہے۔
کردار
ناول کا دوسرا اہم ترین عنصر اس کے کردار ہوتے ہیں۔ یوں تو اس ناول میں کئی کردار چلتے پھرتے ہیں، مگر سب سے اہم مرکزی کردار، نوشابہ ہے۔ ہم تمام کرداروں سے نوشابہ کے ذریعے (یا اس کی ڈائری کے ذریعے) ملتے ہیں۔ جیسے نوشابہ کی ٹیچر، اہلِ خانہ، شوہر، بیٹا، وہ لوگ جن سے وہ محبت کرتی ہے، اور وہ جن کی بابت وہ پریشان رہتی ہے۔ یہ کردار جہاں اپنی ذات کا کھل کا اظہار کرتا ہے، وہیں کہانی کا اکلوتا narrator ہونے کی وجہ سے محدود بھی محسوس ہوتا ہے۔
ناول کا پلاٹ
ناول کے پلاٹ بات کی جائے، تو Exposition میں ہم نوشابہ کو ایک طالبہ کے طور پر دیکھتے ہیں، جو میرپورخاص میں مقیم ہے۔ یہ ضیا دور ہے۔ یہ وہ زمانہ ہے، جب سندھ بدل رہا ہے۔ کراچی میں ایک نئی جماعت ابھر رہی ہے۔
سیٹنگ اور کرداروں سے متعارف ہونے کے بعد Rising action کا مرحلہ آتا ہے۔ یہ وہ مقام ہے، جہاں نوشابہ کے اہلِ خانہ خدشات کے باعث، امیدیں لیے، میرپور خاص چھوڑ کر کراچی کا رخ کرتے ہیں۔
’ کلائمکس ‘ کہانی کا وہ مقام ہوتا ہے، جہاں سے کرداروں کا آغاز کی سمت پلٹنا (ویسے ہوجانا، جیسے وہ تھے) مزید ممکن نہیں رہتا۔ نوشابہ کے شوہر کی ایک سیاسی جماعت کے عسکری ونگ سے وابستگی ایسا ہی ایک لمحہ تھا۔ اب وہ ذیشان نہیں، شانی بلٹ ہے۔ یہاں سے کہانی falling action اور resolution کی سمت جاتی ہے، جس کا اس تبصرے میں خفیہ رہنا ہی مناسب ہے۔
تکنیک کا جائزہ
پلاٹ کے تجزیے کے بعد اب تکنیک پر نظر ڈالتے ہیں۔ ناول صیغہ واحد متکلم میں لکھا گیا ہے۔ ہمارا کہانی کار نوشابہ کی ڈائری کے ذریعے ہم سے مخاطب ہوتا ہے اور ہم فقط وہی باتیں جان سکتے ہیں، جو اس ڈائری کے ذریعے ہم تک پہنچیں۔
ہاں، کہیں کہیں لگتا ہے کہ ڈائری ہمیں ضرورت سے زیادہ تفصیلات فراہم کر رہی ہے، ایسی تفصیلات، جن کی ڈائری سے توقع نہیں کی جاسکتی۔ البتہ ایسے ہونے کو مکمل طور پر رد بھی نہیں کیا جاسکتا۔
یہ linear narrative ہے، یعنی وقت ایک لکیر کی صورت آگے بڑھتا ہے، مگر ڈائری کی مختلف ’انٹریز‘ میں وقت کی جست بھی ملتی ہے۔ Tone بظاہر سادہ ہے، مگر کہیں کہیں الفاظ کے درمیان طنز بھی کارفرما ہے۔
احساسات کی اتھل پتھل
یہ ناول بنیادی طور پر انسان کے ارفع خیالات کو منظر کرتا ہے۔ اس میں امید، یاسیت، محبت، ممتا اور اندیشوں سے ملاقات ہوتی ہے، اور بیشتر معاملات میں یہ شدید ہونے کے باوجود معتدل محسوس ہوتے ہیں۔ کیونکہ ناول صیغہ واحد متکلم میں ہے، تو منفی جذبات (جو جیون اور کہانی، دونوں کا لازمی جزو) مثلاً نفرت، غصہ، حسد، کینہ، براہِ راست ظاہر نہیں ہوتے، مگر ان کی موجودی کا ہمیں ہمیشہ احساس رہتا ہے۔
زبان کی تکنیک اور احساسات سے جڑت
ناول کی زبان سادہ، رواں، ستھری نکھری ہے۔ ایک قاری کی حیثیت سے مجھے وہ زبان پسند ہے، جو پرپیچ ہو، مزے دار، کاٹ دار ہو۔ جو آپ کو چنوتی دے۔ جملے آپ کی ذہنی ترتیب کو توڑ ڈالیں۔ یادگار ابتدائیوں کا تو میں دل دادہ۔ جیسے مارکیز ’ تنہائی کے سو سال‘ کا آغاز کرتا ہے:
’ فائرنگ اسکوڈ کے سامنے کھڑے کرنل ارلیانو بوائند کے ذہن میں وہ بھولی بسری سہ پہر تھی، جب اس کا باپ اسے پہلی بار برف دکھانے لے گیا ‘۔ یا اورحان پامک کا اپنے ناول ’ مائی نیم از ریڈ ‘ کو ’ میں ایک لاش ہوں ‘، جیسی سطر سے شروع کرنا۔
آغاز میں اس ناول کی سیدھی سادہ زبان نے مجھے کچھ مضطرب رکھا، مگر صاحب، پھر اس ناول کی تکنیک نے مجھے ایسا کرارا جواب دیا کہ میری بولتی بند ہوگئی۔ یہ ناول روزنامچوں پر مشتمل ہے، جو اکثر طویل وقفوں کے بعد لکھے گئے ہیں۔ یعنی یہ خود سے مکالمہ ہے، کوئی تقریر نہیں۔ تو پرپیچ، کاٹ دار، چٹخارے دار زبان کا امکان ہی نہیں تھا۔ ہوتی، تو مصنوعی لگتی۔
اب احساسات کی سمت آئیں۔ واقعات وقفے وقفے سے قلم بند ہوتے ہیں۔ یہ تکنیک ’ ورڈز ورتھ ‘ کی اس خواہش کو پورا کرتی ہے کہ ’تخلیق کار، تب ہی لکھے، جب وہ جذباتی کیفیت سے نکل چکا ہو، کیونکہ صرف تب ہی وہ اپنے احساسات کو حقیقی معنوں میں سمجھ سکتا ہے‘۔
گویا تکنیک کے بغیر ہم عثمان کے اس ناول کا تجزیہ نہیں کرسکتے۔ نہ تو ہم اس کی زبان کے برتاؤ کو سمجھ سکتے ہیں، نہ ہی یہ جان سکتے ہیں کہ کا کردار، protagonist سانحات، واقعات پر ویسا چیختا چنگھاڑتا ردِعمل کیوں ظاہر نہیں کرتا، جس کی ہم توقع کر رہے ہوتے ہیں۔ (ظاہر سی بات ہے، یہ ڈائری میں درج الفاظ ہیں، جنازے پر کیا جانے والا اعلان نہیں )
خیر، میری خواہش ہے کہ مستقبل میں ہم اردو فکشن میں تکنیک اور اسٹائل کو زیادہ اہمیت دیں ۔ گو اس کے بغیر بھی آپ بڑی کہانی لکھ سکتے ہیں، مگر وہ شاید ان تقاضوں کو پورا نہ کرسکے، جس کا 2021ء متقاضی ہے۔
آخری تخمینہ اور ٹی ایس ایلیٹ
میں اپنے آخری تخمینہ میں اس ناول کو ایک قابلِ مطالعہ کتاب تصور کرتا ہوں۔ مصنف نے غیر جانبدار رہتے ہوئے، توجہ اور تحقیق کے ساتھ، دلیری کے ساتھ، شستہ زبان میں کراچی کی لہو رنگ داستان کو بیان کیا۔ اس ناول کا مطالعہ کراچی واسیوں پر لازم ہے، تاکہ وہ سنی سنائی تاریخ کے ساتھ ایک متوازی تاریخ میں بھی جھانک سکیں۔
ٹی ایس ایلیٹ ادب میں تاریخی شعور کو اہم گردانتا تھا۔ تاریخی شعور سے مراد ہے ماضی کی ’ ماضیت ‘ اور حال سے ’ واقفیت ‘۔ یہ دو طرفہ عمل ہے۔ یعنی ادب میں جہاں ہماری حال کی تخلیقات ماضی کے ادبی تسلسل سے متاثر ہوتی ہیں، وہیں یہ حالیہ تخلیقات ماضی پر بھی اثر انداز پر ہوتی ہیں کہ اشاعت کے بعد ہمارا یہ حالیہ ادب، ہماری ادبی روایت کا حصہ بن جاتا ہے۔
ایسے میں موزوں تو یہی کہ حال میں ایسا ادب تخلیق کیا جائے، جو ہماری ادبی روایت میں مثبت اضافہ ثابت ہو۔ تو عثمان جامعی کا یہ ناول قابلِ ذکر ہے کہ یہ ناصرف ہمارے ماضی کی ’ماضیت’ (Pastness) کا احاطہ کرتا ہے بلکہ حال میں منصہ شہود پر آکر ہماری ادبی روایت کا بھی حصہ بن جاتا ہے۔
کہانی کا اختتام
کراچی کی حالیہ تاریخ ، موت کی تاریخ ہے۔
اس کی سڑکیں خون سے سنی ہیں، دیواریں کرب میں رچی ہیں ، اس کے بیل بوٹے دہشتگردی کی شدت سے بد ہیبت ہوئے۔ اسی باعث میں یہ یقین کیے بیٹھا تھا کہ کراچی کی ہر کہانی سے خون کی باس آئے گی۔ البتہ عثمان جامعی نے ماہرانہ ڈھب پر یہ کام کیا۔ اس کے باوجود کہ اس میں موت کا تذکرہ ہے، قتل و غارت ہے، بوری بند لاشیں ہیں، فضا میں گولیاں تھرتھراتی ہیں۔ اس کے باوجود کہ یہ داستان لہو رنگ ہے۔ اسے نچوڑیں تو خون نہیں ٹپکتا، آنسو ٹپکتے ہیں، اور یہ عثمان جامعی کی کامیابی ہے۔
آخر میں یہ خواہش کہ مجھ سمیت کراچی کے سب کہانی کار ماجروں سے بھرے اس شہر میں غوطہ لگائیں اور اس کی تہ سے، عثمان جامعی کی طرح ایک موتی کھوج لائیں۔ عثمان نے یہ ناول لکھ کر کئی خوابیدہ کہانیوں کو جگا دیا ہے۔
( قیمت: 480 روپے ، ملنے کا پتا : فضلی سنز، ویلکم اور فرید پبلشرز، اردوبازار کراچی اور اشرف بک ایجنسی راولپنڈی ۔ اٹلانٹس پبلی کیشنز۔ 03002472238
، 021 32581720
)