مولانا عبدالحق بلوچ

مولانا عبدالحق بلوچ ۔۔۔۔۔۔۔۔ مرد کہستانی ایسے ہوتے ہیں

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

پری گل :

صبح اٹھے تو صحن میں خوشبو تھی۔ جو تار پہ ڈالے ہوئے دھلے کپڑوں سے آرہی تھی۔ والد صاحب ناشتہ کی چائے بناکے داش سے روٹیاں وغیرہ لاکر دفتر جاچکے تھے۔ میں اور میرے ایک بھائی کے علاوہ امی سمیت پورے گھر میں بچوں بڑوں کو ملیریا ہوگیا تھا ۔ میری بڑی بہن کے دونوں بچے بار بار الٹیاں کر رہےتھے۔ میں نے زندگی میں پہلی مرتبہ امی کو اتنا بیمار دیکھا تھا۔

امی بتا رہی تھیں ابو نے صبح سویرے واشنگ مشین لگا کر کپڑے دھوئے ہیں اور مشین میں عطر کی شیشی ڈالی ہے اسی کی خوشبو ہے۔ اس دوران وہ دفتر سے بھی جلدی آجاتے تھے۔ امی بتاتی ہیں ۔ ہمارے علاقے میں پہلا تندور میرے ابو نے بنایا تھا اور روٹیاں لگانی سکھائیں۔ اپنے ہاتھوں سے ” پش “ کی چٹائیاں رسیاں اور ” بزبانی “ بناتے تھے۔

وہ کہتے تھے، ہنر انسان کو خود کفیل بناتا ہے۔ مشکل سے مشکل حالات میں بھی اگر آپ کو فطرت کے ساتھ رہنے کا طریقہ آگیا تو فطرت آپ کا ساتھ دیتی ہے۔ وہ ایک اچھے شکاری تھے۔ کھال سے ” مشک “ بناناجانوروں کے بال سے ” گدان “ بنانا۔ ان کا دودھ دوھنا اور دودھ سے پنیر اور دیگر اشیا بنانا ، وہ ہر اس ہنر سے واقف تھے جو ایک انسان بغیر سامان اور بغیر کسی کی مدد کے کہیں زندہ رہنے کے لیے آزما سکتا ہے وہ واقعی مرد کوہستانی تھے۔

گائوں میں کبھی جب بھری محفل میں میں ان کو دیکھتے ہی ان کی گود میں جاکر بیٹھ جاتی تو میری نانی ابا سے کہتی تھیں:” لڑکی بھی بھلا گود میں بٹھاتے ہیں۔“ ابو مجھے اپنے دونوں بازئوں میں سمیٹ کر کہتے تھے:” میری پری پیکر کو کچھ نہ کہیں۔“ جب میں تھوڑی بڑی ہونے لگی تو مجھے اندازہ ہوا میں اپنی رشتہ دار خواتین کے معیار حسن کے مطابق نہیں ۔ مجھے اپنی موٹی ناک اور باہر نکلے ہوئے دانت ” جک “ پریشان کرنے لگے ۔ میں جانتی تھی ، میں پری پیکر نہیں ہوں ۔

جب میری شکل و صورت پہ تبصرہ ہوتا تھا تو میں پریشان ہوجاتی تھی۔ ابا مرد تھے لیکن وہ جانتے تھی لڑکی پہ ان تبصروں کا اثر ہورہا ہے ۔ وہ اکثر میری موٹی ناک دبا کر اس کی تعریف کیا کرتے تھے ۔ انہوں نے بہت سے ایسے لوگوں کے سامنے مجھے نام سے پکارا جو میرا نام نہیں جانتے تھے تو مجھے پتا چلا ، عورت کا نام کسی کو معلوم ہونا کوئی بری بات نہیں ہے۔

مجھے اپنے شاہ پدر ایک ایسے استاد کی صورت میں نظر آتے ہیں جنہوں نے باتوں باتوں میں ہمیں خود اعتمادی دی ۔ ہمیں طعنوں کے اثرات سے بچایا اور خواتین ہی کی پیدا کردہ ان خرافات سے بچانے کوشش میں لگے رہتے تھے جن کو پدرشاہی کی پیداوار کہا جاتا ہے۔

مولانا عبدالحق بلوچ جماعت اسلامی کے ملا احمد دشتی کے مکتبہ میں مولانا مودودی کا لٹریچر پڑھنے جاتے تھے ، وہیں وہ جماعت اسلامی کی محبت میں گرفتار ہوئے ، آخری وقت میں جماعت اسلامی ہی کے کارکنوں نے انہیں لحد میں اتارا۔ کوئٹہ میں جماعت اسلامی کے دفتر مدینہ ہاوس میں ان کا دفتر تنگ سیڑھیوں سے گزر کر اوپر کے حصے میں ایک ہال نما کمرہ تھا جس میں فرشی نشتیں تھیں۔ گائو تکیے رکھے تھے کرسیوں پہ بیٹھنے والے مدینہ ہائوس آکر زمین پہ بیٹھتے تھے۔

جماعت اسلامی کی مرکزی قیادت کسی ہوٹل وغیرہ میں نہیں ٹھرتی تھی۔ متحدہ مجلس عمل کے زمانے میں جب جماعت اسلامی کا گیسٹ ہائوس الفلاح ہائوس جب مہمانوں سے بھر جاتا تو قاضی حسین احمد ، سید منور حسن ، لیاقت بلوچ اور جماعت کے ذمہ داران مولانا عبدالحق بلوچ کے گھر ٹھرتے تھے۔

2001 میں افغانستان پر حملے کے خلاف احتجاج کرنے پر مولانا عبدالحق نے وقتا فوقتا جیل کاٹی،” پرائے“ افغانستان کی وجہ سے ان پر بغاوت کا مقدمہ درج ہوا ۔ اس موقع پر دیکھا جاسکتا تھا ’ لاشرقیہ لا غربیہ اسلامیہ ‘ صرف نعرہ نہیں ہے، ایک سبق بھی ہے کہ اپنے علاوہ کسی کے لیے کیسے بات کی جاتی ہے کسی کے لیے کیسےلڑا جاتا ہے۔ آمر کے سامنے کلمہ حق بلند کرنا کسے کہتے ہیں ۔ کسی کا درد کیسے محسوس کیا جاتا ہے۔

آیا صوفیا میں نماز پر پابندی لگنے پر حافظ ابراہیم کا ایک مرثیہ پڑھنے لگے تو ان کی آنکھیں نم ہوگئیں ، اس کے علاوہ وہ مسلمانوں کی حالت اور اسلام پہ اکثر ایک عربی نظم پڑھا کرتے اور کہتے تھے۔ مولانا عبدالحق بلوچ قوم پرست رہنمائوں میں بھی وہ خاصے مقبول تھے اکبر بگٹی ،عطاءاللہ مینگل ، محمود خان اچکزئی سمیت قوم پرست ان کا بہت احترام کرتے تھے۔

جان محمد دشتی، صبا دشتیاری، صورت خان مری، ڈاکٹر مالک ،واجہ رحمدل ، واجہ شکراللہ سمیت مختلف پارٹیز کے لوگ مولانا سے اکثر شام کے وقت ملنے آتے تھے۔ کبھی کبھی آپس میں مخالف پارٹیز کے لوگ ان کی محفل میں آمنے سامنے ہوجاتے۔

بلوچ کامریڈوں کو وہ اپنے انداز میں ہی سمجھاتے تھے۔ کہتے ہیں ایک مرتبہ کسی مجلس میں نماز کا وقت آیا مولانا صاحب نماز کے لیے کھڑے ہوئے تو ایک کامریڈ کہنے لگے: مولانا ! آگے پتا نہیں کچھ ہے بھی یا نہیں خواہ مخواہ اپنا وقت اور توانائی کیوں خرچ کرتے ہیں؟ تو مولانا نے جواب دیا: آگے کچھ نہ ہوا تو کوئی مسئلہ نہیں، ہم دونوں فنا ہو جائیں گے لیکن اگر آگے کچھ ہوا تب تمھارا کیا بنے گا؟

مشرف دور میں میں ایک سیمینار میں تقریر کے بعد مولانا عبدالحق طلبا میں خاصے مشہور ہوگئے۔ آخری ایام میں سنگت ثنا ، زاہد کرد اور ذاکر مجید سمیت کئی بلوچ طالب علم ان سے رہنمائی حاصل کرنے آتے تھے۔ بلوچ مزاحمت کے حوالے سے ان کی رائے کافی دو ٹوک تھی۔ وہ کہتے تھے اسلام کے مطابق آپ کسی مسلمان کوبے جا ہراساں نہیں کر سکتے ، اپنے مفادات کے لیے کسی کی مرضی کے بغیر اس کی املاک کوئی ہاتھ نہیں لگا سکتا۔ آخری ایام میں انہوں نے ریکوڈک کے لیے عدالت میں مقدمہ بھی درج کیا۔ انہوں نے احادیث کی رو سے مسلمان کا اپنی جان مال اور آبرو کی حفاظت کے لیے لڑنے کی حمایت کی۔

حنفی، سلفی ،شیعہ یا سنی ، مولانا عبدالحق بلوچ کے دروازے سبھی کے لیے کھلے تھے۔ مشترکات کی بنیاد پر وہ کسی سے بھی گھل مل جاتے اور بہت لطیف انداز میں تنقید بھی کر لیتے تھے۔ اللہ تعالی ان کی مغفرت کرے اور انہیں ان کے بہترین اخلاق کا بہترین اجر دے۔ آمین


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں

2 پر “مولانا عبدالحق بلوچ ۔۔۔۔۔۔۔۔ مرد کہستانی ایسے ہوتے ہیں” جوابات

  1. ھنادی ایمان Avatar
    ھنادی ایمان

    Molana ki barsi. Unki yaad taaza kr di.. allah karwat karwat jannat naseeb kry.. 💕

  2. محمد عمر ابراھیم Avatar
    محمد عمر ابراھیم

    اللہ کریم آپکو اپنی اعلیٰ جنتوں کا مکین بنائے آمین یا ربّ 🤲