قربان انجم :
فرحت اور انجم کی داستان محبت ( پہلی قسط )
فرحت اور انجم کی داستان محبت ( دوسری قسط )
ایک روز فرحت، دیوار پر سے اس کا چہرہ نظر آیا، چند ثانیے بعد غائب ہوگیا۔ میں کسی کام میں مگن تھا، مہینہ سورج کی تمازت کا تھا مگر وہ کسی سائے کے بغیر ہی کھڑی رہی۔ ہمارے گھر سے پانی وغیرہ کے لئے کوئی آرڈر بھی نہیں گیا تھا۔ ہماری ایک ہمسائی بی بی جان سے ملنے کے لئے آئی ہوئی تھی جو کسی کام سے اندر گئی ہوئی تھیں اور یہ ہمسائی ان کا انتظار کررہی تھیں۔ اچانک اس کی نظر فرحت پر پڑی جس کا تمتماتا چہرہ دیکھ کر اسے پریشان کن حیرت ہوئی اور اس نے پوچھا:
”فری بیٹی! کیا مسئلہ ہے؟ اپنے ”بھائی“ انور کا انتظار کررہی ہو؟“
”نہیں، خالہ انور کا نہیں ……“
اور اپنی بات مکمل کئے بغیر وہ نیچے اتر گئی اور اپنے گھر چلی گئی۔ اس واقعہ نے میرے دل پر خاص قسم کے تاثرات مرتب کئے جو الفاظ میں بیان نہیں کرسکتا مگر جلد ہی ہر قسم کی خوش فہمی یا غلط فہمی کافور ہوگئی۔
اس قسم کے ایک اور واقعہ کا ذکر ضروری معلوم ہوتا ہے، جب اباجی کا تبادلہ دوسرے گاؤں ہوگیا اور ہم اپنا سامان اٹھا کر اسی قسم کی ایک اور ہجرت کرنے لگے تو گھر والوں نے فیصلہ کیا کہ چپکے سے نکل جائیں گے۔ گاؤں والوں کو بتانا ضروری نہیں۔
ایک اونٹنی کرائے پر لی جس پر گھر کا سارا سامان لد گیا۔ بی بی جان کے ساتھ انور اور سعادت بھی اونٹنی پر سوار ہوگئے۔ ہم اپنے معاش کی اگلی منزل کی طرف روانہ ہوگئے۔ گاؤں میں دوستوں کو پتہ چلا تو ان میں سے بعض سائیکلوں پر سوار ہوکر ہمارے تعاقب میں آگئے اور گاؤں سے ایک میل دور ہمیں گھیر لیا اور میری صرف ایک رات کے لئے واپسی پر اصرار کرنے لگے۔
ان کی خواہش تھی کہ الوداعی رات، رت جگا منایا جائے، گپیں ماری جائیں، میں خاموش رہا تو یہ لوگ بی بی جان سے منت سماجت کرنے لگے، وہ مان گئیں تو میں ایک رات اور اسی گاؤں میں قیام کے لئے واپس چل پڑا جس کے ساتھ حسین یادیں وابستہ تھیں اور جہاں ایک چوکھٹ پر محبت کے سجدے کی نشانیاں بھی تلاش کی جاسکتی تھیں۔ رت جگے کے لئے میرے ہی ”سابقہ“ گھر کا انتخاب کیا گیا۔ فرحت کی امی کو پتہ چلا تو انھوں نے فوراً نوکر کے ذریعے سے پیغام بھجوایا:
”قربان سے کہو، بہت اچھا ہوا، کم ازکم ایک رات اور ہمارے ہمسائے میں گزارو گے۔ تم آئے تو دوستوں کے اصرار پر ہو مگر کھانا کسی بھی دوست سے نہیں کھانا، اس کا بندوبست ہم کریں گے۔“
خالہ جان (فرحت کی امی) کے ساتھ ہمارے فیملی کے غیر معمولی طور پر گہرے تعلق کا کچھ اندازہ آپ کو سابقہ سطور میں بیان کئے گئے احوال سے ہوگیا ہوگا۔ اس تعلق نے ہم دونوں خاندانوں کے ارکان میں سے بعض کے بعض سے تکلف سے پاک طرزعمل کو جنم دیا تھا۔ میں نے خالہ جان کی پیشکش کے جواب میں نوکر سے کہا:
”انھیں واپس جاکر کہو، یہاں میرے ساتھ 25 شتونگڑے موجود ہیں، ان سب کے خورونوش کے حوالے سے آپ کو زحمت دینا مناسب نہیں سمجھتا۔“ خالہ جان نے پھر نوکر کو بھیجا، جس نے آکر کہا:
”نواب صاحبنی نے فرمایا ہے، میں 40 شتونگڑوں کے لئے بھی انتظام کردوں گی۔ کھانا آپ نے بہرحال ہمارے ہاں ہی کھانا ہے۔ بستروں وغیرہ کا بھی ہم بندوبست کردیں گے۔“
اس خوش آئند حکم کی تعمیل کی سعادت حاصل کئے بغیر چارہ ہی نہیں تھا، لہذا ”حکم حاکم“ پر عمل ہوا۔ میں لڑکپن میں خاصا خوش الحان واقع ہوا تھا۔ شتونگڑوں کی فرمائش پر پوری رات انھیں غزلیں سناتا رہا۔ صبح نوکر ناشتہ لایا تو بتا رہا تھا۔ رات بچے آپ کی ” گائیکی “ سے محظوظ ہوتے رہے یہاں تک کہ فرحت اور اختر نے اپنی چارپائی درمیانی دیوار کے ساتھ ہی بچھالی تھی۔ اس اطلاع پر میرے دل کی دھڑکنیں غیرمتوازن ہوئیں مگر جلد ان کا توازن اعتدال پر آگیا۔
اک نامہ قیامت
ہم دوسرے گاؤں پہنچ گئے۔ میں انٹر کا امتحان دے کر نتیجے کے انتظار میں تھا۔ مجھے کراچی سے اپنے پھوبھی زاد محمد صادق نے خط لکھا:
”آپ نتیجے کے انتظار کو بے کار نہ بنائیں، میرے پاس آجائیں۔ کچھ سیاحت بھی ہوجائے گی۔ اسکول کے زمانے کی بعض یادیں بھی تازہ کرلیں گے۔ میں والدین سے اجازت لے کر صدیق کے پاس پہنچ گیا ۔ چند روز سیروسیاحت میں گزارے ۔ اس دوران نواب فیملی یاد آتی رہی۔ کبھی کبھار فرحت کے حوالے سے دل کی دنیا میں فرقت کا احساس اس طرح جنم لیتا جیسے کوئی دل جلا مغنی دیپک راگ کے سر الاپ رہا ہو مگر بہت جلد میں اپنے آپ کو کوستے ہوئے بحال ہونے کی کوشش میں لگ جاتا۔
صدیق کی شادی طے پا گئی جس کے لئے ہمیں کراچی سے اپنے گاؤں کے بجائے فیصل آباد کے قریب واقع ان کے گھر پہنچنا تھا۔ اس شادی میں دونوں چھوٹے بھائیوں سعادت اور انور کو بھی شریک ہونا تھا۔ لہذا وہ بھی آپ گئے تو انور نے سلام کرنے کے بعد فوراً بے تابانہ انداز میں مجھے کہا:
”آپ سے ایک ضروری بات کرنی ہے۔“
اس کے ساتھ وہ مجھے علیحدگی میں لے گیا اور کہنے لگا:
”چند روز پیشتر میرے نام فرحت آپی کا خط آیا جس میں بڑے بھائی جان کو اپنے شجاع آباد والے باغ میں آم کی فصل کے بارے میں لکھا تھا مگر زیادہ تر باتیں آپ کے بارے میں تھیں جو سمجھ نہیں آئیں۔اس کے ساتھ ہی اس نے خط نکال کر میرے حوالے کردیا۔ میں نے خط پکڑا، دل اور اس کی دھڑکنوں کے جوار بھاٹے پر قابو پانے کی کوشش کے ساتھ ساتھ فرحت بخش خط لے مندرجات دیکھنے لگا۔ لکھا تھا:
”بسم اللہ الرحمن الرحیم
انور بھیا! سدا سلامت رہو
جب سے آپ لوگ گئے ہو دل بہت غمگین ہے۔میرا ہی نہیں، سب گھر والوں کا۔آپ کا پورا خاندان خاموشی سے چلا گیا۔آپ کو اس طرح نہیں جانا چاہئے تھا۔ سب کچھ پہلے بتادیا ہوتا تو شاید اتنی زیادہ پریشانی نہ ہوتی۔سچ بتاؤں، میرے آنسو تو مسلسل بہہ رہے ہیں۔ چچا جان کی شفقت اپنی جگہ،بی بی جان سے تو ہمیں عقیدت سی ہوگئی تھی۔
جس روز چھوٹی بہن اختر فوت ہوئی۔ بی بی جان نے مجھے گلے لگایا، میرے آنسو پونچھتی رہیں مگر کچھ دیر کے بعد ان کی اپنی آنکھوں سے آنسوؤں کا سیلاب بہہ نکلا۔ پورا دن اور رات میرے ساتھ رہیں۔ میٹھی میٹھی باتوں سے میرا غم دور کرتی رہیں۔ اس روز انھوں نے بتایا:
”فری بیٹی! جب میری بیٹی بتول شہید ہوئی تو اس کی عمر صرف دو ڈھائی سال تھی۔اگر آج زندہ ہوتی تو تم سے بڑی ہونے کے باعث وہ بھی میرے اور تمہارے آنسو روکنے میں مدد دیتی۔ اس کے ” نقش نین “ تمھارے جیسے تھے۔ تمھاری طرح خوبصورت تھی۔ اسے دیکھتے تو لگتا چاند کا ٹکڑا زمین پر اتر آیا ہے۔تمہارے اندر بتول کی روح آئی ہوئی ہے، اسی لئے مجھے تم میں بیٹیوں کا پیار دکھائی دے رہا ہے۔ تم بھی میری آنکھوں میں اپنے لئے ممتا کا پیار دیکھو۔ اپنے اور میرے غم کو ایک ہی سمجھو۔
بھائی، سعادت اور باقی لوگ بہت یاد آرہے ہیں۔ آپ کے گھر کے صحن میں ان سب کی نشانیاں دکھائی دے رہی ہیں مگر افسوس ان میں سے کوئی ایک بھی یہاں نہیں۔ تم ہی بتاؤ، میں بیڈمنٹن کس کے ساتھ کھیلوں؟ جھولا کسے جھلاؤں اور مجھے کون جھلائے؟
انور! میں نے تمھیں، تمھارے بھائی جان قربان کے متعلق ایک روز کہا تھا تم ان کی باتوں کو محسوس نہ کیا کرو۔ وہ جو بھی کہتے تھے تمھارے فائدے ہی کے لئے کہتے رہے ہیں۔ مجھے آج کل اس بات کا بہت پچھتاوا لگا ہوا ہے کہ میں نے انھیں کیوں ”روح افزا“ والی بات کہی۔ انھوں نے تو اپنی طرف سے سمجھایا ہی تھا، تم بھی بلاوجہ اداس ہوگئے اور تمھاری اداسی دیکھ کر میں نے غلط طریقے سے انھیں سنادیں۔
اب سوچ رہی ہوں کہ وہ اپنے دل میں کیا سوچ رہے ہوں گے۔ آپ لوگوں کی یادوں میں یہ یاد سب سے زیادہ پریشانی کی وجہ بنی ہوئی ہے۔ ان سے معافی مانگنے کی بھی کوئی صورت نظر نہیں آرہی۔ ایک تجویز ذہن میں آتی ہے کہ انھیں خط لکھ دوں تو میرے پاس پتہ نہیں ہے۔اس کے علاوہ میں بہت زیادہ جھجھک بھی محسوس کرتی ہوں۔ آپ لوگ جب یہاں رہتے تھے تو میں نے کئی بار ان کے ساتھ بات کرنے کا فیصلہ کیا مگر حوصلہ نہیں ہوسکا۔ اب اپنے دل کا حال بیان کرنے کی خواہش بہت زیادہ بڑھ گئی ہے۔
آج میرا جی چاہتا ہے تمھارے ساتھ باتیں کرتی ہی رہوں۔ جس روز آپ چلے آئے تو تمھارے بھائی جان کے دوست ان کے پیچھے بھاگ کھڑے ہوئے اور راستے میں سے واپس لے آئے اور انھوں نے آپ کی بیٹھک میں ساری رات محفل لگائی۔ باتیں کرتے رہے۔ گیت اور نعتیں گاتے رہے تو میں بھی اس محفل میں دیوار کے ساتھ دوسری جانب سے شریک ہوگئی۔
یہ رات گزر گئی اور اگلے روز مستقل جدائی شروع ہوگئی۔ مگر میری یہ خواہش ہے کہ تم کسی طرح مجھے ملتے رہا کرنا۔ بڑے بھائی جان کا شجاع آباد والا ایڈریس بھی بھیج دیں تاکہ باغ کے معاملے میں مستقل خط وغیرہ لکھنے میں آسانی رہے۔ دوسرا خط انھیں دے دینا۔ یہ خط کسی کو نہ دکھانا۔ اب اجازت۔
تمھاری غمگین آپی
ضروری نوٹ: آئندہ مجھے اس پتے پر خط لکھیں، یہ ذاتی پتہ ہے، میری بہت پیاری دوست نائلہ کا ہے۔ جواب جلدی۔
( جاری ہے )
ایک تبصرہ برائے “فرحت اور انجم کی داستان محبت ( تیسری قسط )”
Is ki next episode jaldi upload Karen
Plzzzz