مسجد نبوی ، مدینہ منورہ، سعودی عرب

”کاش ! میں دور نبوی میں پیدا ہوتی“ ایک معصوم بچی کی خواہش کا فکرانگیز سبب

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

نگہت حسین :

ماں نے بچوں سے کہا کہ پیارے بچو! آج ہم سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک واقعہ سنیں گے۔
سب بچے خوش ہوگئے۔ واقعہ شروع ہوا ۔ تمام بچے ہمہ تن گوش تھے ۔ عقیدت و محبت معصوم چہروں سے ظاہر تھی ۔

واقعہ سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے باب میں موجود حضرت رافع عمرو غفاری رضی اللہ تعالی عنہ کے بچپن کا واقعہ سے متعلق تھا جو انصار کے کھجوروں کے درختوں پر پتھر مار کر کھجوریں کھایا کرتے تھے اور اس بات پر دربار رسالت صلی اللہ علیہ وسلم میں پیش کیے گیے تھے ۔

واقعہ ختم ہوا تو ایک بچی نے کسی گہری سوچ میں ڈوبے لہجے میں سوال کیا امی ! کیا ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی کسی بچے کو نہیں ڈانٹا تھا؟
” نہیں “ ماں نے محبت سے جواب دیا
کبھی سختی سے بات بھی نہیں کی تھی؟
” نہیں! “ ماں نے جواباً کہا۔

بچی ننھے صحابہ رضی اللہ تعالہ عنہم کے بہت سے واقعات جانتی تھی .تمام واقعات فلم کی طرح اس کے دماغ میں چل رہے تھے لیکن پھر بھی تصدیق چاہی کہ کسی بچے نے نماز کے دوران سجدے پر جانے والے کے اوپر سواری کی ہو تب بھی ؟
ماں کو واقعہ یا د آگیا ، کہنے لگی :” نہیں “

کوئی بچہ کسی کام سے نکلا ہو اور کام بھول گیا ہو تب بھی ؟
ماں نے کہا : ” ہاں ، تب بھی نہیں ڈانٹا ۔“ بچی کو بہت سے واقعات یاد آگئے تھے ۔

کسی کا پسندیدہ کھلونا ٹوٹ گیا اور وہ بہت رویا ، تب بھی نہیں ڈانٹا ؟
کوئی بچہ مسجد میں آجاتا تھا تو بھی ؟
نماز کے دوران کوئی شور مچاتا تھا یا روتا تھا تو بھی ؟
ماں نے ہر دفعہ ” نہیں “ میں جواب دیا۔

کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم صرف اپنے بچوں کو پیار کرتے تھے؟
ماں نے وضاحت کی:” نہیں ، وہ تو تمام بچوں کو ایک طرح کی محبت و شفقت دیتے تھے “۔

” کاش کہ میں اسی دور میں ہوتی ! “ حسرت بھرے لہجے میں بچی نے اپنی معصوم خواہش کا اظہار کیا جہاں بچوں کو ایسی باتوں پر ڈانٹ اور مار نہیں پڑتی تھی ۔
پھر کسی گہری سوچ میں ڈوبے لہجے میں اتنا ہی کہہ سکی کہ یہ بھی تو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے اس پر کون بڑا عمل کرتا ہے؟

اب باری ماں کی تھی کچھ سوچنے کی ، سمجھنے کی اور تبدیل ہونے کی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ جو سیرت کے واقعات بچوں کی تربیت کے لیے سناتی تھی آج اس کی اپنی تربیت کا بہت بڑا پہلو سامنے آگیا تھا۔

اور یہ ہر اس فرد کے لئے ہے جو بچوں کے ساتھ کسی بھی قسم کا معاملہ رکھتا ہے یا ذمہ دار بنایا گیا ہے۔
سارا دن بچوں کو کھانے پینے ، سونے جاگنے کے سنتوں پر عمل کروانے پر سو جتن کرنے والے بڑے نہ جانے کتنی ہی بار تلخ لہجے ، طزیہ کاٹ دار باتیں اور مار پٹائی سے کام لیتے ہیں ۔ کیا کوئی اپنے رویے پر نظر ثانی کرنے کو تیار ہے؟
صرف اس لیے کہ بچوں سے نرم رویہ اختیار کرنا اور مار پیٹ سے گریز کرنا میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں