ڈاکٹر بشری تسنیم :
قرآن پاک میں صلوٰة کا ذکر کم و بیش سات سو بار آیا ہے اور صریحاً حکم اسی بار موجود ہے۔ غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ
ہماری زندگی کا ہر اہم پہلو” صلوٰة “ سے وابستہ ہے جسے ہم ” نماز پڑھنا “ کہتے ہیں یعنی خوشی ہو یا غمی اللہ تعالی کی طرف رجوع کرنا سکھایا گیا ہے جیسے بچہ ہر حال میں اپنی ماں کی طرف ہی لپکتا ہے۔
ہمیں بھی ہر حال میں صبر اور صلوٰة کے ذریعے اللہ سے استعانت طلب کرنا سکھایا گیا ہے ۔ دن میں پانچ بار رابطہ کرنا فرض عین ہے، اس کے علاوہ شکرانے کے نفل ،صلوٰة الحاجت، صلوٰة التوبہ ، صلوٰة استخارہ ، صلوٰة الاستسقاء ، صلوٰة خسوف کسوف ، عیدین جمعہ ، تہجد اور مرنے کے بعد صلوٰة الجنازہ گویا کہ مومن کا ہر مرحلے پہ اپنے رب سے رابطہ کا نام ” صلوٰة “ ہے۔
آج ہم نماز کے درست نام ” الصلوٰة “ پہ غور کریں گے۔ ان شاء اللہ
مولانا شمس الدین عظیمی کی تحقیق کے مطابق
” فارس کے لوگ آتش پرست تھے ،ان کی عبادت آگ کے سامنے مناجات پڑھنا ہوتی تھی وہ اس عبادت کو ” نماز خواندن “ کہتے تھے یعنی” نماز پڑھنا “ ۔ عربی کتب کا ترجمہ فارسی زبان میں ہوا تو صلوٰة کا ترجمہ ” نماز خواندن “ ہی کر دیا گیا اور وہیں سے اردو میں نماز پڑھنا ہو گیا اور ہم نماز پڑھتے ہی ہیں ۔ جیسے سبق پڑھا جاتا ہے یا یاد کیا ہوا سبق سنایا جاتا ہے۔
” اقیموا الصلوة “ یعنی صلوٰة قائم کرنے کے تقاضے پورے نہیں ہو پا تے ، اصل حکم پہ عمل ہی نہیں ہو پاتا۔۔ صلوٰة کے دراصل معنی ہیں دو ہستیوں کا باہم رابطہ کرنا اور رابطہ قائم رہنا ، اردو میں متصل، اتصال ،وصل میں بھی انہی معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔
عرب امارات کی ٹیلی کمیونیکیشن کمپنی کا نام ” اتصالات “ ہے ۔ یعنی دو افراد کے درمیان رابطہ کرنے کا ذریعہ ۔ صلوٰة بھی دراصل اللہ سبحانہ و تعالی اور بندے کے درمیان رابطہ کا ذریعہ ہے۔ اذان میں بھی حی علی الصلوة کی ندا ہوتی ہے۔ اسے اللہ تعالی سے تعلق، رابطہ، ملاقات کی پکار یا دعوت بھی کہہ سکتے ہیں۔
دین کی بنیاد بھی صلوة ہے یعنی اللہ سے تعلق اور رابطہ دین کی بنیاد ہے (الصلوۃ عماد الدین)اور کسی بھی مومن کے لئے خوشی کی معراج یہی ہے کہ اس کا اپنے رب سے رابطہ و ملاقات ہوجائے۔ الصلوة معراج المومنین۔
عبادات میں سب سے پہلے صلوة کا حساب ہوگا۔ یہ وہ لازمی پرچہ ہے جس میں کامیاب ہوئے بغیر باقی پرچوں کی کامیابی قابل قبول نہیں ہوگی یعنی ہرعبادت اور نیکی کی قبولیت صلوة یا رب سے رابطے کے پیمانے سے مشروط ہے۔
ہم غور کریں تو احساس ہوتا ہے کہ
نماز کہنے سے وہ تصور نہیں بیٹھتا جو صلوة کہنے میں ہے ۔ صلوة کے ایک معنی کسی کی طرف سے اچھے کام کے جواب میں تحسین و تبریک و تمجید ۔ ( شاباش دینا ، مبارک دینا ، خوش ہوکر دعا دینا ، حوصلہ بڑھانے ) کے بھی ہیں جیسے ” سورہ التوبہ “ میں فرمایا گیا ہے۔
خذ من اموالھم صدقۃ تطھرھم و تزکیھم بھا و صل علیھم ان صلاتک سکن لھم واللہ سمیع علیم ﴿103﴾
’ آپ ان کے مالوں میں سے صدقہ لے لیجیے، جس کے ذریعہ سے آپ ان کو پاک صاف کردیں اور جواباً ان کے لیے تحسین و دعا کیجیے، بلاشبہ آپ کی طرف سے تحسین اور دعا ان کے لیے موجب اطمینان ہوگی ۔ اور بے شک اللہ تعالیٰ خوب سنتا ہے ، خوب جانتا ہے۔‘
اپنے رب سے رابطہ کرکے لازماً ہم جواباً شاباش اور حوصلہ افزائی محبت اور پیار کے حق دار بن جائیں گے ۔ جب بندہ شاکر ہوتا ہے تو اللہ سبحانہ و تعالی بندے کے لئے الشکور ہوجاتا ہے۔ بندہ توبہ کرتا ہے تو اللہ رب العزت التواب ہوجاتا ہے جیسے ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ فاذکرونی اذکرکم ۔ اللہ اور بندے کے درمیان یہی رابطہ صلوة ہے۔
” آئیے ! ہم نماز پڑھنے کے لفظ کو ” صلوة ادا کرنا “ یا ” صلوة قائم کرنا “ میں تبدیل کر لیں اور اس کو بولنے میں استعمال کرنے کی عادت ڈالیں۔ ” حی علی الصلوة “ کی ندا سن کر محض سبق سنانے کی تیاری نہ ہو بلکہ رابطے تعلق ، ملاقات کی خوشی اور سرور کا احساس دل میں مٹھاس پیدا کرے ۔
لفظوں کی بھی زندگی ہوتی ہے اور لفظوں کے بھی اثرات قائم ہوتے ہیں ۔ یقیناً ہم اس طرح اپنے محبوب حقیقی سے بہتر تعلق اور رابطہ کر کے جواباً شاباش اور تحسین کی نظر پا سکیں گے۔
رب اجعلنی مقیم الصلوۃ ومن ذریتی ربنا وتقبل دعاء ربنا اغفرلی ولوالدی و للمومنین یوم یقوم الحساب ۔ آمین