ایک ہنستا مسکراتا مسلمان خاندان

مضبوط خاندان ، ہمارے خاندانی مسائل کا بہترین حل

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

ھنادی ایمان :

عورت مارچ کی بجائے عورت کے لیے ایک مضبوط فیملی اور مضبوط خاندان کو اور فیملی کے تصور کو اٹھانے اور اجاگر کرنے کی بات کیجئیے ۔

خاندان ایک ایسا فطری ادارہ ہے جو خالق کائنات نے خود تشکیل دیا، بہت خوبصورتی سے تخلیق کیا ۔
یہ معاشرے کی بنیادی اکائی ہے ، بنیادی یونٹ ہے ۔ جس پر ہمارا پورا معاشرتی نظام اور پوری اسلامی تہذیب قائم ہے ۔ اس کی قدر کیجئیے خود بھی اور اپنے بچوں کو بھی اس کی قدر کرنا سکھائیے ۔

عورت کو فیملی / خاندان سے الگ نکال کے بات نہ کیجیئے۔ یہ سراسر NGO s کے ذریعے درآمد شدہ مغرب کا ایجنڈا ہے کہ عورت کو الگ حقوق دئیے جائیں اور خاندان سے الگ نکال کر کھڑا کر دیا جائے ۔

ہم سبھی جانتے ہیں مغرب میں عورت کے حقوق کی بات اس کو خاندان سے الگ کر کے کی جاتی ہے ۔
جس کے بعد اس کو ایسے حقوق دئیے جاتے ہیں جن کے نتیجے میں وہ خود بے چاری ایسے بوجھ کے نیچے دب جاتی ہے کہ بظاہر برہنہ اور حقیقتاً معاش اور معاشرے کی غلام بن چکی ہے ۔

مغرب میں نوکری اس پر 18 سال کی عمر سے لازم کر دی جاتی ہے اور بالعموم عورت کو 18 سال کی عمر میں والدین کے گھر سے الگ کر کے اپنا الگ گھر خود لینے کو کہا جاتا ہے ۔ اس کے بعد وہ زمانے کے تھپیڑوں اور وقت کے دھارے کی زد میں ٹھوکریں کھاتی کہیں سے کہیں پہنچ جاتی ہے ۔ نہ عزتیں محفوظ رہتی ہیں نہ کوئی حلال تعلق کی بنیاد پڑ سکتی ہے۔ نہ خاندان کا ادارہ وہاں باقی رہا۔۔ آج مغرب کا سب سے المیہ اور مسئلہ
” بغیر باپ کے بچے “ ہیں۔

یہ پود اتنی بڑی تعداد میں وہاں موجود ہے کہ حکومت کا سب سے زیادہ سرمایہ ان بچوں کی کفالت اور پرورش پر لگتا ہے ۔ ان بچوں کے ساتھ دوسرا مسئلہ بن بیاہی ماؤں کا جڑا ہے ۔ ان عورتوں کو طبی ، معاشی ، معاشرتی سہولیات کا شدید فقدان ہے۔ گویا حقوق کا نعرہ لگانے والی اور تنہا حقوق لینے والی آج خود حقوق سے محروم ہے۔ ان عورتوں سے بھول ہوئی جو اپنا اصل حق نہ پہچان سکیں۔ نہ مانگ سکیں ۔

لیکن دوسری طرف کہ ہماری تہزیب میں عورت سمجھدار ہے اس معاشرے میں معاشی مسائل کے با وجود عورت کو خاندان میں رہ کے ہی تحفظ بھی حاصل ہوتا ہے ۔ 30-40 سال تک بھی بلکہ تا حیات اس کے حقوق کی تمام تر ادائیگی اس کے والدین پوری کرتے ہیں۔ اس کے بہن بھائی اس کا ساتھ دیتے ہیں۔ یہاں اس کے بچوں اور شوہر پہ عورت کی ذمہ داری ڈالی جاسکتی ہے ۔

دراصل مغرب ایجنڈے کے تحت اپنے حقوق پہچاننے کی بجائے ہماری عورت اپنی تہذیب کے دائرے میں دیکھے توعورت کی اصل ضرورت ایک مضبوط خاندان ہے ، ایک مضبوط سائبان ، ایک محفوظ ماحول ہے جو اس کو ایک خاندان ہی مہیا کر سکتا ہے ۔

عورت اپنے خاندان کی زینت ہے ، اپنے باپ کے اور بھائی کی طاقت ہے ، اپنے شوہر کی بہترین رفیق حیات اور اپنے اولاد کو ادب سکھانے والی نگران بنائی گئی ہے جس کے پیروں کے نیچے رب نے خود لا کے جنت رکھی ہے ۔

عورت اپنے خاندان کے بغیر تنہا کچھ بھی نہیں کر سکتی ، نہ وہ محفوظ رہ سکتی ہے ، نہ خوش اور پر سکون رہ سکتی ہے ۔ نہ اپنے حقوق کی جنگ تنہا لڑ سکتی ہے ۔
یہی اللہ کے بنائے رشتے اس کے لئیے زندگی کا پیغام ہیں۔ انہی کے ساتھ اس کی زندگی توانا، خوبصورت اور منظم ہے ۔ اس لیے سب سے زیادہ کوشش اور توجہ ادارہ خاندان بچانے اور بنانے پہ ہونی چاہئیے ۔

عورت مارچ کی بجائے آئیے کچھ اپنی تہذیب کو مضبوط کرنے والے نعرے سیکھیے:

میری پہچان ، میرا خاندان۔

میری عزت ، میرا تاج
میرا باپ میرا باپ۔

میرا بھائی میرا مان ۔
میرا بچے میری جان ۔
میرا شوہر میرا مان۔ (غرور)

ہم چاہتی ہیں
محفوظ عورت
مضبوط خاندان
مستحکم معاشرہ
جس میں تمام تر تعلیم و ترقی کے مواقع عورت کے لیے موجود ہوں۔

پیغام آگے پہنچائیے ۔ اللہ اپ کو جزا دے۔ آمین۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں