ڈاکٹر بشریٰ تسنیم :
زندگی کے بہت سے مرحلے ہیں. ہر مرحلہ نئے مسائل، نئے تقاضے لے کر آتا ہے.عقل مند انسان وہ کہلاتا ہے جو آنے والے مرحلے کے مسائل سے نپٹنے اور تقاضے نبھانے کے لئے دوراندیشی کا مظاہرہ کرے . وہ موجودہ وسائل کو منصوبہ بندی سے استعمال کرے تاکہ ان سے اس کا مستقبل محفوظ ہو اور اس کے مرحلے آسانی سے طے ہوسکیں.
” ریٹائرمنٹ “ جس کے عمومی معنی ملازمت کی مدت پوری ہونا ہے یعنی ذمہ داری سے سبک دوش ہو جانا، ہر ملازم کو معلوم ہوتا ہے کہ اس کی ڈیوٹی کیا ہے؟اور اس کا دائرہ اختیار کتنا ہے؟
اور اس کی ڈیوٹی کے اوقات کار کب سے کب تک ہیں اور کتنے سال بعد اس کو سبکدوش کر دیا جائے گا.
مدت ملازمت بحسن و خوبی پوری ہوجانے کی سب طلب ،تمنا اور کوشش کرتے ہیں تاکہ پنشن اور دیگر واجبات کے ساتھ ساتھ حسن کارکردگی کے اضافی ایوارڈ بھی مل سکیں۔ ادارے کے قواعد وضوابط کی مکمل پابندی ان کی کارکردگی پہ اچھا اثر ڈالتی ہے.
کارکردگی کا زمانہ ہی ریٹائرمنٹ کے پرسکون زمانے کا ضامن ہوتا ہے. وہ لوگ بہت خوش قسمت اور عقلمند سمجھے جاتے ہیں جو سبکدوش ہوجانے کے بعد آرام و سکون سے زندگی گزارنے کا انتظام کر لیتے ہیں۔
کسی نےپراپرٹی بنا لی کہ کرایہ وصول ہوتا رہے گا، کسی کاروبار میں رقم لگا دی بغیر ہاتھ پاؤں ہلائےآمدن ہوتی رہے گی.. انشورنس کرالی اور بے فکر ہو گئے.
مدت ملازمت کے دوران مستقبل کی منصوبہ بندی ایک یہ بھی ہے کہ قوم وملت، وطن کی ایسی خدمت کردی جائےکہ سبکدوشی یا ریٹائرمنٹ کے بعد اس کام کی نشوونما، ترقی دیکھ کر دل شاد ہوتا رہے. اور لوگوں میں نیک نامی ہو ،یہ بھی انسان کے لئے زندگی کا سرمایہ ہے.
ڈیوٹی ادا کرنا اگر محض روٹی کمانا مقصد ہو اور کوئی کثیرالمقاصد منصوبہ بندی اور نیت نہ ہو تو یہ ایک چھوٹی ذہنیت کی عکاسی ہے..آج جو بھی جس کام پہ مأمور ہے اسی کام کی حسن کارکردگی اس کے مستقبل کی ضامن ہے.یہ ماموریت کبھی نہ کبھی ختم ہوجائے گی مگر کارکردگی کے اثرات باقی رہ جائیں گے ..وقت کا پہیہ ہر چیز کی ہیئت بدل دیتا ہے..قوی کمزور ہوتے جاتے ہیں.. بچے جوان، جوان بوڑھے اور پھر زندگی موت کی نذر ہو جاتی ہے۔
انسان صرف اپنی ملازمت سے ہی ریٹائر نہیں ہوتا قانون قدرت ہی یہ ہے کہ مختلف مدارج طے کرکے ہر شے نے اپنے اپنے کام سے سبکدوش ہوجاتی ہے. (کل من علیها فان.و یبقی وجه ربک ذوالجلال والاکرام )
ہر ایک کے لئے کارکردگی کا وقت متعین ہے. کائنات ارضی و سماوی اسی اصول پہ کاربند ہے. انسان کے لئے مسخر کی گئی کائنات عظیم الشان ہے تو خود انسان کی کیا شان ہوگی؟ انسان کواپنی کارکردگی دکهانے کے لئے ” احسن تقویم “ میں ڈهالا گیا ہے۔
احسن الخالقین نے اس کو کسی احسن کام کے لیے ہی تخلیق کیا ہوگا. اپنی متعین مدت کارکردگی کے اندر ہی اسے اپنی ریٹائرمنٹ کے زمانے کے لیے کچھ جمع جتھا کرنا ہوگا. انسان کے سب اعضاء، ذہنی، جسمانی صلاحیتیں ، قابلیتیں اپنی اپنی ” ملازمت “ سے آخر کار ریٹائر ہوہی جاتی ہیں۔
انسان کی شخصیت بجائے خود ایک ادارہ ہے . جسم کا جو مربوط نظام ہے آخر کار اپنا ربط کھوبیٹھتا ہے.. آنکھ ، کان ، بصارت و سماعت سے عاری ہوگئے .دل کی شریانیں بند اور بدن کے جوڑ کھل جاتے ہیں تو گویا مدت کارکردگی ختم ہوگئی۔ کوئی بھی اس ریٹائرمنٹ سے مبرا نہیں وہ مومن ہو تو اپنی سب صلاحیتوں سے مستقبل کی شاندار منصوبہ بندی بر وقت کر لیتا ہے۔
پھر اسے بغیر محنت کئے ،آخرت کی آمدن ہوتی رہتی ہے، اس کے کثیرالمقاصد نیکی کے منصوبے پروان چڑهتے رہتے ہیں۔ جب اعضا سلامت اور تنومند تھے جب دولت کمانے کے مواقع تھے تو ” ابدی پراپرٹی “ کا انتظام کر لیا جس کے تقسیم ہونے کی بجائے ضرب در ضرب ہونے کی گارنٹی دی گئی ہے۔ اس وقت اپنے اعمال کی انشورنس اس ذات سے کرالی تھی جو قادر مطلق ہے۔ جوانی میں اعضاء کو بندگی کا عادی بنایا تو اب کمزوری لاغری کے باوجود اسی کارکردگی کے مطابق اجر و ثواب مل رہا ہے. بھلا کوئی بڑهاپے میں یا ریٹائرمنٹ کے زمانے میں نیا کاروبار شروع کرے تو یہ ” مفت “ کے مزے کیسے لوٹ سکتا ہے؟
دنیا میں اپنی ملازمت سے ریٹائر ہونے والے اپنے مستقبل کی فکر کرنے اس کا انتظام کرنے والے یقیناً قابل تعریف ہیں مگر قابل تقلید وہ ہیں جو اپنے اعضاء و جوارح، صلاحیت و قابلیت جوانی اور مال و دولت سے ایک بڑے ” مستقبل “ کی منصوبہ بندی کرتے ہیں۔
ریٹائرمنٹ کے ایک معنی آرام کرنا، یا بے فکری سے ذاتی زندگی گزارنے کا زمانہ بهی ہے۔ سبک دوشی کا لازمی نتیجہ بے فکری ہی ہو سکتا ہے. ذاتی زندگی بھی تبھی شروع ہوتی ہے جب کاندهوں سے ذمہ داریوں کے بوجھ ہٹ جائیں. دفتری، اور گھریلو ذمہ داریوں کی چکی کے دونوں پاٹ کے درمیان پسنے کی مشقت سے آزاد ی مل جائے۔
ریٹائرمنٹ کا یہ تصور بہت خوبصورت ہے مگر ریٹائرڈ لوگ اس پہلو سے کم ہی فائدہ اٹها تے ہیں. بیماری ، کمزوری یا تنہائی کے شاکی لوگوں کو اس حسین ذاتی زندگی کا حقیقی آرام نصیب ہوجائے تو ریٹائرمنٹ ایک نعمت ہے۔