نگہت حسین :
ایک ہی تو یادگار دن ہوتا ہے ۔۔۔۔۔ بس ! اس ایک سوچ نے مروا دیا ہے ۔۔۔۔۔۔ ایک ہی تو دن ہوتا ہے دلہن تیار ہوتی ہے ۔۔۔۔ ایک ہی تو دن ہوتا کہ اسٹیج سجتا ہے ۔۔۔۔۔۔ ایک ہی تو دن ہوتا ہے خوشی کا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر بات ایک ماڈل لڑکی کی تلاش سے سازوسامان کی مالیت تک پہنچتی ہے ۔۔۔ لاکھوں کے لباس سے کروڑوں تک کے خرچے ہوجاتے ہیں صرف چند گھنٹوں کے لئے کہ ایک ہی تو دن ہے ۔
یہ جو ارمان، خواہشات ، حسرتیں پالتی ایک نسل تیار کی ہے اس کے لئے شادی ذمہ داری ، احساس اور ساتھ نبھانے کی کوشش سے زیادہ ایک ایونٹ ہوگئی ہے ۔۔۔۔۔۔ پھر احساس ، مروت ، محبت اور قربانیاں کہاں ۔۔۔۔۔ پھر جھکنا ، پیچھے ہٹ جانا ، خاموش ہوجانا،اطاعت کہاں ؟ یہ تو ایک مقابلہ ہے،
موازنہ ۔۔۔۔ حسرت ۔۔۔۔۔ خواہشات کی جنگ ہے،
جس میں محبت گم ہوجاتی ہے،
احساس مر جاتا ہے ،
خوشیوں کے رنگ پھیکے پڑ جاتے ہیں۔
کیا یہ رشتہ مقابلے کا تھا ؟
کیا یہ رشتہ ایک دوسرے کو گرانے کا تھا ؟
کیا یہ موازنے کا تھا ؟
مرد کہاں گم ہیں؟
نہ آپ قوام بننے کی اہل بنے اور نہ ہی آپ نے گھر میں اپنا کردار ادا کیا ۔
آپ کے سامنے رشتے کی تلاش میں سو سو لڑکیاں ریجیکٹ ہوتی رہیں ۔۔۔۔۔۔ آپ نے معمول جانا کہ آپ کے اپنے دماغ میں بھی دلہن کا یہی سراپا ہے۔
آپ کے سامنے جہیز کے مطالبے ہوتے رہے آپ کو پتہ ہی نہ لگا ۔۔۔۔۔
آپ کو کمرہ سیٹ ہوکرمل جاتا ہے آپ کو کیا پرواہ جو پوچھیں یہ کس کا مال ہے ؟
آپ کی شادی تھی اور سارے معاملے سے آپ ہی لاعلم رہے ۔۔۔۔۔۔۔ آپ شرمیلے جو ٹھہرے ۔۔ قرآن و سنت کا علم نہ آپ کو تھا نہ گھر والوں کو ۔۔۔۔۔
یہ لاعلمی فرماں برادری نہیں ۔۔۔۔۔ جہالت ہے
یہ غفلت ۔۔۔۔۔۔ ذمہ داریوں سے دستبرادری ہے
آج اپنے معاملات میں انجان بننے سے کیا ہوا ؟
جس رشتے کو قرآن لباس قرار دیتا ہے سب نےاسی کو تار تار کردیا ۔۔۔۔۔۔۔۔ اور آپ نے بھی اس کو لباس سمجھا ہی کب ؟
دونوں زوج کو یہ بھی معلوم نہ تھا کہ ہمیں ہمارا رب لباس سے تشبیہہ دیتا ہے ۔ زوج بھی لاعلم ۔۔۔۔ ان کے بڑے بھی غفلت کا شکار ۔۔۔۔ مرد ساری ذمہ داری غفلت عورت پر ڈال کر دستبردار ۔۔۔۔۔
پھر بڑوں کا حال ۔۔۔ دیکھیں
نئی امنگوں اور خواہشات کے ساتھ ایک جوش جذبے سے شادی کے بندھن میں بندھنے والے جوڑے کے دلوں کو شیطان کیا خراب کرے گا جو کام گھروں کے بڑے اپنے رویوں سے کردیتے ہیں ۔۔۔ ساری زندگی اپنی مرضی ۔۔۔۔ آزادی خود مختاری اور تتلی کی طرح گھومنے کی خواہش لمحوں میں دم توڑ جاتی ہے جب
تمھاری بیوی ہماری ۔۔۔۔۔ بات کہا ں مانتی ہے ؟
پھر وہ شریعت لے کر آتی ہے کہ میرے اوپر تو صرف میاں کی بات ماننے کا حکم ہے ؟
لڑکیوں کو ہفتوں گھر سے کہیں آنے جانے کی اجازت کے لئے ساس امی کی رضامندی کے انتظار میں دیکھا ۔۔۔۔۔۔۔
پتہ نہیں ہمارے گھروں میں میاں بیوی کو گھر سے باہر ایک دوسرے کے ساتھ نکلنے کے لئے بھی اماں ابا سے اجازت لینے کی اس قدر ضرورت کیوں ہوتی ہے کہ اس بات پر گھروں میں فساد پڑتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہاں کسی کا بیٹا بیٹی دوستیوں کے نام پر ملاقاتیں کرے اور گھومے پھرے تو ہمیں اس کی کانوں کان خبر نہیں ہوتی ۔۔۔۔۔۔۔۔
نکاح کے اولین ایام ہوتے ہیں ۔۔۔۔۔ اور ہم محبت روکنے کے سارے گر آزماتے ہیں ۔۔۔۔۔۔
رشتوں کے ذریعے بلیک میلنگ کرکے ۔۔۔۔۔
ذمہ داریوں کا بوجھ ڈال کر ۔۔۔۔۔۔۔
پھر خوش رہنے ساتھ رہنے کی مسرت خواب حسرت بن جاتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وقت گزر جاتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔ دلچسیاں بدل جاتی ہیں ۔۔۔۔۔۔ نٹ کھٹ پن کی جگہ سنجیدگی لے لیتی ہے ۔۔۔۔
قدرت ذمہ داریوں سے نواز دیتی ہے اپنے سے زیادہ اولاد کی فکر غالب ہوجاتی ہے ۔۔۔۔۔ پھر مشین جیسے میاں بیوی کو دیکھ کر راوی چین ہی چین لکھتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔
مرد زن مریدی کے طعنے سے بچنے کے لئے قوام سے زیادہ فرمان بردار بننے کی کوشش کرتا ہے اور عورت اچھی بننے کے چکر میں لگی رہتی ہے۔
کسی نے کہا دس سال بعد الگ ہوئے تو سکون ملا کہ آج آزادی سے سونے اور جاگنے کا لطف لیا ۔۔۔۔۔۔۔۔ اپنی مرضی اور سہولت سے کام کرنے کا مزہ پایا۔
آج یہ سننے کونہیں ملا کہ تم سالن بہت کھاتی ہو۔۔۔۔۔
آج اپنی مرضی کا مزہ پایا ۔۔۔۔
یعنی اپنی مرضی کے استعمال کی کوشش تو ایسا حرام کام ہے کہ ہر طرف تھو تھو ہوجائے گی ۔۔۔۔
پھر اپنے الگ گھر کی خواہش کس کی نہ ہوگی ؟
جب ہم نے یہ تسلیم ہی نہ کیا کہ وہ جو بہو بن کر آئی ہے وہ ہماری سبارڈینیٹ نہیں ۔۔۔ بلکہ برابر کی حصہ دار ہے ۔۔۔۔۔۔ شادی کے ساتھ ہی اس کی گرہستی اور خود مختار زندگی کا آغاز ہوگیا ہے وہ اپنے فیصلوں میں آزاد ہیں ۔۔۔۔ اور
اس نئی گرہستی کے آغاز میں ہمارا کردار اس کو مدد فراہم کر کے خود مختار ہی کرنے کا ہے ۔۔۔۔۔ نہیں جی ۔۔۔۔۔ہمارے دلوں میں اتنی وسعت کہاں ۔۔۔۔ یہ تو میرا کچن ہے ۔۔۔۔۔۔ تم چیزیں اس طرح استعمال کرتی ہو ۔۔۔۔ ہمارے گھر ایسے نہیں ہوتی ۔۔۔۔۔۔۔ آلو کاٹ کر دھوتی ہو اور ہم دھو کر کاٹتے ہیں ۔۔۔۔۔
یہ ہماری لڑائی کے موضوعات ہیں ۔۔۔۔۔
افسوس کبھی مل بیٹھیے یہ نہ بتائیے کہ ہم صبح سات بجے اٹھ کر کیا کیا کام کرتے تھے ۔۔۔۔۔۔ صرف آسانی اور سہولت کی بات کیجیے ۔۔۔۔۔۔۔۔ اپنی زندگی کی مشکلات دہرانے کے بجائے رستے کو ہموار کردیجیے ۔۔۔۔۔
بیٹا ماں کے سامنے اپنے بچے کی ناک صاف کرنے سے جھجھکتا ہے کہ ہمارے زمانے میں عورتیں مردوں سے ایسے کام نہیں کرواتی تھیں۔۔۔۔۔ یہ زمانہ جہالت کا احساس تفاخر نکال پھینکیں اور سنتوں کو زندہ کرکے زندگی آسان کردیجیے کہ وقت کا نبی تو آٹا بھی گوندھ کر جاتا ہے اور وہ بھی اکثر بکری کھا جاتی ہے۔ ہم نے کیا سیکھا اور کیا کیا؟
پھر یہ جملے کہ
شادی دو لوگوں میں نہیں دو خاندانوں میں ہوتی ہے ۔۔۔۔۔۔ بس دو لوگ دو خاندانوں کو نبھاتے نبھاتے کھپ جاتے ہیں ۔۔۔۔۔ اور یہ غم و غصہ نسلوں تک جاتا ہے ۔۔۔۔۔۔ جہاں موقع ملتا ہے ہم بلیڈ کرتے ہیں ۔۔۔۔
وہ بہو کو کہتی ہے کہ ہم نے زندگی مشکلوں میں گزاری تم کو بھی گزارنی چاہیے ۔۔۔۔۔ لیکن بیٹی کی شادی کے وقت دعا دیتی ہے کہ اللہ میری طرح کی مشکل زندگی میری بیٹی کو نہ دے ۔۔۔۔۔۔
ہمیں سوچنا چاہیے کہ یہ رشتہ بنانے سنوارنے اور نبھانے میں ہمارا کردار زیادہ ہے کہ اس کو تباہ کرنے میں ۔۔۔۔۔
یہ نسل۔۔۔۔۔۔۔ باغی ہی نہیں ۔۔۔۔۔۔ ردعمل کا شکار ہے ۔۔۔۔۔۔ انتہائی خطرناک ردعمل ۔۔۔۔۔۔ بزرگوں سے بغاوت کا ۔۔۔۔ ان سے بیزاریت کا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس سے اپنی آنکھوں سے اپنے بڑوں کو پستے دیکھا ہے ۔۔۔۔ بیزار ہے اب ۔۔۔۔ نبھانے کی ان مشقوں سے ۔۔۔۔اور ہم ہیں کہ مرد کو چاند سی دلہن کے سپنے میں پروان چڑھاتے ہیں لڑکی کو شادی کے جوڑے اور میک اپ کے فسوں میں مبتلا رکھتے ہیں ۔۔۔۔۔ خود اپنے ماضی کو دہرا کر اسی ظلم میں ظالم کا کردار ادا کرنے کی تیاری ۔۔۔۔۔۔
خاندان کا استحکام ۔۔۔۔۔۔۔ مرد کی حیثیت خاندان کے لیڈر کے طور پر کردار ادا کرنے میں ہے
خاندان کا استحکام ۔۔۔۔۔۔ عورت کو اپنی طاقت و قوت کے مثبت استعمال میں ہے
خاندان کا استحکام ۔۔۔۔ ایک دوسرے کی حثیت تسلیم کر کے ہاتھ بٹانے میں ہے ۔
خاندان کا استحکام ۔۔۔ بزرگوں کا محبتوں کا استعارہ بننے میں ہے ۔
خدارا ایک دن کو یادگار بنانے کے بجائے زندگی کو یادگار بنادیجئے