منزہ مجید ،عارف والا :
وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ
اسی کے سوز سے ہے زندگی کا ساز دروں !
اللہ رب العزت نے آدم علیہ السلام کو تخلیق فرمایا اور جنّت میں بھیج دیا حضرت آدم علیہ السلام کو جنّت میں ساری نعمتوں کے باوجود کچھ کمی سی محسوس ہوئی تو اللہ رب العزت نے اس کمی کو دور کرنے کے لیے اماں حوا کو پیدا کر دیا ۔ گویا یہ کائنات عورت کے بغیر نا مکمل اور ادھوری ہے۔ کائنات کی ساری خوبصورتی عورت ہی کے دم سے ہے ۔
اسلام نے عورت کو بہت عزت بخشی ہے لیکن اسلام سے پہلے عورت کے ساتھ جانور جیسا سلوک کیا جاتا تھا ۔عورت کو باعث عزت سمجھنے کے بجائے باعث ذلّت اور رسوائی سمجھا جاتا، بیٹی کو زندہ زمیں میں درگور کر دیا جاتا تھا، مشرکین مکّہ اس آدمی کو کسی محفل میں شرکت کی اجازت نہیں دیتے تھے جو بیٹیوں کا باپ ہوتا تھا لیکن جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جاہلیت اور اندھیرے میں ڈوبے ہوئے عرب میں جہاں روشنی بکھیری وہیں عورت کو آعلیٰ مقام و مرتبہ دلایا۔
عورت کی ایسی دگرگوں حالت میں اسلام نے آ کر جب عورت کو ماں بہن بیوی اور بیٹی چاروں حیثیت سے اعلیٰ مقام و مرتبہ اور عزت و احترام عطا کیا، اور پھر پورے عالم اسلام میں مسلمان عورت نے عملاً اور مذہبی طور پر ایک اعلیٰ مقام و مرتبہ حاصل کر لیا آج بھی مسلمان عورت کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے جبکہ غیرمسلم ممالک میں عورت کو اب بھی قابل عزت نہیں سمجھا جاتا یورپ میں عورت کو سانپ سے زیادہ زہریلا کہا جاتا ہے۔
نپولین کا قول ہے: عورت امن کی دشمن ہے
سقراط کا کہنا ہے :عورت فتنہ ہے
افلاطون نے ایک بار کہا :تمام ظالم اور بد اعمال مرد اپنی بد اعمالیوں کے سبب عورت بن جاتے ہیں۔
مغربی تہذیبوں کے برعکس اسلام عورت کو بہت عزت بخشتا ہے اور عورت کے بغیر معاشرے کو ادھورا قرار دیتا ہے ۔ مرد اور عورت کو گاڑی کے دو پہیے قرار دیا جاتا ہے، جس طرح گاڑی پہیوں کے بغیر نہیں چل سکتی اسی طرح مرد اور عورت ایسے ستون ہیں جن کے بغیر عمارت کا کھڑا ہونا نا ممکن ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نیک بیوی دنیا کی بہترین نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ماں کے بارے میں فرمایا : جنّت ماں کے قدموں تلے ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیٹیوں کے متعلق فرمایا : جس شخص کے ہاں بیٹیاں پیدا ہوں ، وہ ان کی بہترین تربیت کرے تو ان والدین کے لئے جنّت ہے۔
گویا اسلام نے یہ وضاحت کر دی کہ عورت معاشرے کا اہم حصہ ہے بلکہ عورت کا وجود سراسر رحمت ہے۔ معاشرے کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے لئے عورت بھی اپنے تئیں نمایاں کردار ادا کر سکتی ہیں لیکن ایک دائرے کے اندر رہتے ہوئے صحابیات نے ہر جنگ کے موقع پر نمایاں کردار ادا کیے اور ایک دائرے کے اندر رہتے ہوئے جنگیں بھی لڑیں اور زخمی بھائیوں کی مدد بھی کی۔
حضرت اسما بنت یزید نے جنگ یرموک میں نو رومی سپاہیوں کو مار کر جہنم رسید کر دیا ۔ حضور ﷺ کی پھوپھی حضرت صفیہ نے غزوہ احزاب میں بنو قریضہ کے ایک کافر کو قتل کر دیا ۔ اسی طرح غزوہ احد میں ام عمارہ نے نمایاں کام کیے ایک شاعر نے انھیں یوں خراج تحسین پیش کیا ہے :
احد میں خدمتیں جن کی بہت ہی آشکارا تھیں
انہی میں ایک بی بی حضرت ام عمارہ تھیں!
نیز اس جہاں کے ذرے ذرے پر عورت کے رنگا رنگ کردار کی رنگینیاں بکھری پڑی ہیں۔ عورت بقا ئے انسانی کی ضامن ہے، کہیں اس نے خون جگر سے اولاد کو پروان چڑھایا تو کبھی شوہر کی دنیا کو جگمگایا ، کبھی بھائیوں پر قربان ہوئی تو کبھی باپ کی عزت کا نگینہ بنی، غرض چشم فلک نے عورتوں نے ہزاروں روپ اور سینکڑوں رنگ دیکھے ہیں مگر انسان آج تک معاشرے میں عورت کا صحیح مقام متعین نہیں کر پایا ۔اسلام نے عورت کو بہت آزادی بخشی ہے مگر ایک حد تک عورت ہر کام کرے لیکن پردے میں رہ کر تا کہ کوئی غلیظ نظر اسے چھو نا سکے ۔
اللہ تعالیٰ نے عورت کو حیا کا زیور دیا تا کہ وہ اپنے آپ کو ڈھانپ سکے ۔ اللہ تعالیٰ نے خانہ کعبہ قرآن پاک اور عورت کو پردے میں پسند کیا مگر دور حاضر میں اہل مغرب نے خواتین آزادی کو ایک منفی رنگ دے دیا ہے۔ انہوں نے Gender equality یعنی مردوں کی برابری کا نعرہ کچھ ایسی شدید آواز سے لگایا ہے کہ ہر عورت ان الفاظ کے سحر میں گرفتار ہو کر ہر وہ کام اپنا فرض سمجھتی ہیں جو اب تک مرد کرتے آ رہے ہیں۔
آج عورتوں کو فیکٹریوں ، ہوٹلوں ، مارکیٹوں ائیر پورٹس اور بنکوں کی زینت بنا دیا گیا ہے، کاروباری افراد انہیں اپنے کاروباری حربے کے طور پر ایک کٹھ پتلی کی طرح استعمال کرتے ہیں لہذا عورت کو سمجھناچاہئے کہ جو مقام و مرتبہ اسے اسلام نے دیا ہے ، وہ مغرب کے طور طریقوں سے بہت بہتر ہے ۔
اسلام کے دیے ہوئے طریقے پر چل کہ عورت کی دنیاوی اور اخروی زندگی دونوں پر سکون ہو سکتی ہیں ۔
اللہ ہمیں اسلام کے بتائے ہویے اصولوں پر چلنے اور مغربی تہذیبوں سے محفوظ رہنے کی توفیق عطا فرمائے (آمین)
ایک تبصرہ برائے “تکریم نسواں”
ماشاءاللہ بہت خوب!!!
عورت کو آزادی اسلام دے چکا ہے اب آزادی کا کہہ کر ہم آزادی نہیں مانگتے بلکہ غلامی کا طوق گلے میں ڈال رہے ہوتے ہے