عظمیٰ پروین :
خاندان کا استحکام ہی تمدن کے استحکام کی علامت ہے۔اسلام نے غلط رسوم ورواج کی زنجیروں سے عورت کو ازاد کردیا تھا لیکن آج جاہلانہ رسوم ورواج عورت کو بنیادی حقوق بھی نہیں دے رہے۔ دوسری طرف جدید تہذیب آندھی اور طوفان کی طرح حیا کا چلن اور آغوش مادرکی ٹھنڈی چھاؤں ہم سے چھین لینے کے درپے ہے۔طلاق کی شرح خوفناک حدتک بڑھتی جارہی ہے۔
شریعت اسلامی کا منشا دراصل یہ ہے کہ جو تعلق مرد اور عورت میں ایک بارقائم ہوگیا ، اسے امکان بھر برقرار رکھنے اور زیادہ سے زیادہ خوشگوار بنانے کے لیے بھرپور کوشش کی جائے ۔ لہذا قرآن کی تعلیم یہ ہے کہ زوجین کے تعلقات جب بگڑتے نظر آئیں تواس سے پہلے کہ معاملہ سنگین صورت اختیار کرے اور جدائی تک نوبت پہنچ جائے دونوں کے بزرگوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ گھر ہی میں اصلاح کی کوشش کریں ۔ اس ضمن میں تفصیلی ہدایات موجود ہیں ۔ (النساء:35)
میاں بیوی کے رشتے کا ٹوٹنا شیطان مردود کو سب سے زیادہ محبوب ہے۔ ہمارے ہاں بدقسمتی سے لڑکی کے سسرال والے رحمان کے راستے کی بجائے شیطانی منہاج پر رواں دواں نظرآ تے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ طلاق کی شرح میں روز بروز اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔
آج ہمارے دشمن ہمارے خاندانی نظام کو توڑنے کے لیےاس قدر ٹھوس بنیادوں پر کام کررہے ہیں کہ ہم کوشش کے باوجود بھی سنبھل نہیں پارہے۔ اب لڑکیاں ذمے داریوں اور پابندیوں سے گھبرانے لگی ہیں ۔ ایسے جاہل لوگ جو دوسروں کی بیٹیوں کو ستا کر ہی لذت محسوس کرتے ہیں، دراصل ہمارے دشمنوں کےہاتھ مضبوط کرکے ہمارے خاندانی نظام کی ٹوٹ پھوٹ میں برابرکے شریک ہیں اورکچھ نہیں کہا جا سکتا کہ اس جرم عظیم میں مبتلا ہو کروہ اپنے آپ پراوراپنے معاشرے پرکتنا ظلم کررہے ہیں ۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول ﷺ نے لوگوں سے پوچھا:
” جانتے ہو قیامت کےروز کون لوگ سب سے پہلے پہنچ کراللہ کے سایہ میں جگہ پائیں گے؟“
لوگوں نے عرض کیا:” اللہ اور اللہ کا رسول ہی زیادہ جانتا ہے“
ارشاد فرمایا:” وہ جن کا حال یہ تھا کہ جب ان کے آگے حق پیش کیا گیا توانھوں نے قبول کرلیا ، جب ان سے حق مانگا گیا انھوں نے حق اداکردیا، اور دوسروں کے معاملہ میں ان کا فیصلہ وہی کچھ تھا جوخوداپنی ذات کے معاملہ میں تھا۔“(مسنداحمد)
گھریلو جھگڑے:
اسلام دین فطرت ہےاس میں جہاں بڑوں کے احترام کی بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے وہیں چھوٹوں سےمحبت کوبھی لازمی قرار دیا گیا ہے۔ اکثر گھروں میں سسرال والوں کے رویے میں بہو کے لیے وقعت وعزت کی کوئی جھلک نظرنہیں آتی تواس کے دل میں احساس محرومی کا ایسا خلا پیدا ہو جاتا ہے جومحض پراگندہ خیالات اور بیمار جذبات ہی سے پرہوتا ہے۔ رات دن وہ انہی میں گھری رہتی ہے جو اس کی زندگی اجیرن کر دیتے ہیں ۔ اس طرح وہ اکثر غصیلی ، بدمزاج ، نافرمان اور زبان دراز بن جاتی ہے۔
جو دوسروں کے لیے جتنی آسانیاں فراہم کرتا ہے اللہ اس کی زندگی کو اسی قدر سہل بنا دیتا ہے۔ ارشاد نبوی ہے:
” اللہ تعالیٰ خود مہربان ہے اور نرمی اور مہربانی کرنا اس کو محبوب بھی ہے، نرمی پروہ اتنادیتا ہے جتنا درشتی اورسختی پر نہیں دیتا اور جتنا نرمی کے سوا کسی چیزپر نہیں دیتا۔“(صحیح مسلم)
اللہ نے انسان کو آزاد پیدا کیا ہے۔ ہرایک کی پسند اور مزاج دوسرے سے مختلف ہے۔اصول ضائع نہیں ہونے چاہیئں لیکن دیگر معاملات میں نرمی برتنا ہی حکمت ودانش کا تقاضا ہے۔ ہر معاملے میں بےجا بےموقع مداخلت اوربات بات پر” کیوں ، کیا ، کیسے، کہاں، کب “ جیسے جملوں کی بھرمارسےاکثر گھرکا ماحول خراب ہوتا ہے۔
خدا کےلیے ایسا رویہ ہرگز اختیار نہ کریں کہ اپ کی بہوئیں آپ کی موت کاانتظار کرنے لگیں۔ آج وطن عزیز میں ایسے بزرگوں کی کمی نہیں جواپنی حماقت وجہالت کے باعث رحمت بننے کی بجائے زحمت بنتے جارہے ہیں ۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے:” زبان ایک درندہ ہے چھوڑدوتوکاٹ کھائے “ بہوآنے والی نسلوں کی ماں ہے، اگراس سے تعلقات درست نہ رہ سکے تو پوتے پوتیوں کی تربیت میں کمی رہ جائے گی اوران کے دلوں میں سچی محبت بھی پیدانہ ہوسکے گی۔ مزیدبراں بیٹے کی صحت پرلازماً برےاثرات مرتب ہوں گے۔
چھپا ہوا ظلم: ہمارے ہاں گھریلو خاتون خواہ کتنا ہی عمدگی سے بہتر سے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرے پھربھی اس کی دل شکنی یہ کہہ کر کی جاتی ہے کہ یہ تو عورت کے فرائض میں داخل ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ انسان کام کی زیادتی سےاتنا نہیں تھکتا جتنا حوصلہ شکنی سے تھکتا ہے۔
صنف نازک ہونے کے باعث عورت اس سے زیادہ متاثر ہوتی ہے اوربعض حالات میں اعصابی اورذہنی مریضہ بن جاتی ہے۔ارشاد نبوی ہے:” جس نے لوگوں کاشکرادا نہیں کیا اس نے اللہ کابھی شکرادانہیں کیا۔“
ہمارے چند بولوں سےکسی بیٹی کادل خوش ہوجائے اوراس کی زندگی میں بہارآ جائے تویہ کس قدر خوش نصیبی ہے۔ بہو کو بیٹی سمجھیں تو بیٹا بھی سکون میں رہے گا اور آئندہ نسل بھی !