سوز قلم / زرافشاں فرحین
ان کی آنکھوں میں آنسو تھے ۔ بڑی آزردگی سے بولیں: ماشاءاللہ 8 اولادیں ہیں ان کی ، دوشادیاں کیں ، دونوں بیویاں حیات ہیں۔ نوجوانی میں بڑے شوق کے ساتھ انگلینڈ گئے اور پھر وہیں کے ہورہے۔ پلٹ کر کب آتے ہیں جانے والے۔
” باجی پھر وہیں تدفین کردیتے بھلا
یوں چار دن بعد پاکستان بھیجنے کی کیا ضرورت تھی…“ مجھ سے رہا نہ گیا تو پوچھ ہی لیا۔
ان کی وصیت تھی بہن ! کہ تدفین اپنے وطن میں ہو ، یہاں بزرگوں کی قبریں ہیں ، ساتھ دفن ہوں گے۔
” آخری وقت میں تو اولادوں نے بڑی خدمت کی ہوگی….“ مجھے پھر تجسس ہوا۔
وہ دکھ سے مسکرادیں۔
” وہ اولڈ ہوم میں تھے ، بیٹی کو یاد کرتے رہے۔ بیٹے کافی دن پہلے ملنے گئے تھے بڑا سا کیک لے کر ان کی 74 ویں سالگرہ کا بس ۔ جب ہی ملے تھے سب سے آخری دن تو اولڈ ہوم میں ہی گزارے ، بہت دولت کمائی کئی گھر ہیں ان کے پاکستان میں… “
مجھے تاسف نے آگھیرا ” یہ اولڈ ہوم کی زندگی کیسی ہوتی ہوگی بھلا “
وہ بولیں:” نہ پوچھو ، وہ اولڈ ہومز اتنے خوبصورت سرسبز جیسے جنت کا ٹکڑا ہوں مگر تنہائی… اپنوں سے دوری… رشتوں کی محرومی….. بس اپنی آوازیں اپنی ہی سماعت میں گونجتی ہیں ، اپنے آنسو اپنے ہی دل کی
دیواروں سے سر ٹکراتے ہیں اور بس پھر ایک دن زندگی کی شام ہوجاتی ہے۔ “
ہم مل کر رونے لگے اور سوچنے لگے، آج آسان لگتا ہے رشتے توڑنا بھی ، گھر چھوڑنا بھی……
خاندان بکھرتے ہیں راکھ بن جاتے ہیں….
سارے خوشی غمی کے لمحے خواب ہوجاتے ہیں،
وہ پل کیسے ہوتے ہوں گے جب آہیں رہ جاتی ہیں ،
زندگی کی سانسیں رشتوں سے ، خاندان سے محروم ہوکر کیسے اپنا مسکن چھوڑتی ہوں گی کہ وصیت ہوتی ہے
” مجھے اپنوں میں دفن کرنا “