قربان انجم :
”بادبان“ میں دوصحافی بھائیوں قربان انجم اور انورجاوید ڈوگر کی یاد داشتیں سلسلہ وار شائع کی جارہی ہیں۔ جن میں ایک اور سلسلہ شامل کیا جارہا ہے جو دونوں بھائیوں کے مشترکہ کردار و عمل کی عظیم الشان روئیداد ہے۔
یہ دو خاندانوں میں بے مثال بندھن کی ایسی کہانی ہے جو نوجوان نسل کے لئے پندو نصیحت کا بھی سامان فراہم کرتی ہے۔ یکساں دھڑکن کے حامل دو دلوں کی ایسی روداد ہے جو ہر پڑھنے والے کو یہ حقیقت تسلیم کرا دے گی کہ
کہتے ہیں جس کو عشق ”عمل “ ہے دماغ کا
نہ کہ ” خلل “ ہے دماغ کا
انور جاوید نے صحافت کے میدان میں تو جھنڈے گاڑے ہی تھے، معاشرتی بلکہ خاندانی زندگی میں بھی گرانقدر خدمات انجام دیں، دوخاندانوں میں یادگار محبت کا سا بندھن باندھا، اپنے بھائی انجم اور اپنی منہ بولی بہن فرحت میں تعلق خاطر کا وسیلہ بنا جو محبت کا روپ دھار گیا۔ انجم صاحب اس کی تفصیل بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں:
”مولانا حسرت موہانی کا ایک شعر ہے
مجازی عشق بھی اک شے ہے لیکن
ہم اس نعمت کے منکر ہیں نہ عادی
میرا ذاتی تجربہ اس حوالے سے نعمت ہی کا ہے مگر یہ نعمت سراسر ذات باری تعالیٰ کی رہین منت رہی ہے،اس لئے میری ” ناکامی “ جو سراسر مشیت ایزدی کی زندہ علامت تھی، ایک عظیم الشان کامیابی کا مظہر بن گئی۔ ہمارے درمیان تعلق خاطر قائم ہوا مگر شادی نہیں کی، ہو نہیں سکتی تھی۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کی مشیت اور نصرت کے صدقے ہم دونوں کے حواس قابو میں رہے۔
جب پہلی نظر میں کیوپڈ کا تیر چلا تو اگلے ہی لمحے دونوں کی نظریں جھک گئیں۔ بعد میں ایسے مواقع آتے رہے کہ ایک دوسرے کو دیکھا مگر نہیں کہا جاسکتا کہ دیکھتے تھے یا غض بصر سے کام لے رہے تھے تاہم یہ استفہامیہ مصرع ہر بار شدید سے شدید تر ہو کر ذہن میں ابھرا
ایں چیست کہ چوں شبنم برسینہ ما ریزی
اظہار میں بھی تین چار سال کا عرصہ لگا کہ دونوں ” سکت “ نہیں رکھتے تھے۔ بالآخر فریق ثانی کی ایک دوست نے یہ جرات کرڈالی کہ اس کے نام سے ایک خط لکھا اور مجھے ارسال کردیا۔ اصل یہ ہے کہ اس دل پذیر اور عظیم الشان کہانی کا تمام تر سہرا برادر عزیز محمد انور کے سر بندھتا ہے جو بعد میں میدان صحافت میں اترے تو انور جاوید اور آخر میں انور جاوید ڈوگر بن گئے۔ فرحت انور کی منہ بولی بہن اور بی بی جان کی منہ بولی بیٹی تھیں۔ اب اس کہانی کو ترتیب کے ساتھ بیان کرتے ہیں:
وہ ” ٹھنڈی میٹھی رت “ کی ایک ”سجری سویر“ تھی۔ خوشی محمد ناظر نے اسی سویر کو دیکھ کر کہا:
کل صبح کے مطلع تاباں سے جب عالم بقعہ نور ہوا
اسی سویر کو سجانے اور لبھانے والے حسن قدرت پر عاصی کرنالی نے کہا:
کبھی چاند سے ابھر کر کبھی چاندنی میں ڈھل کر
تیرا حسن چھیڑتا ہے مجھے رخ بدل بدل کر
اچانک دل میں اتر جانے والی ایک نسوانی آواز سنائی دی:” خالہ جی! دودھ لے لو“۔ دیکھا تو ہمسائے سے ایک لڑکی دودھ کا ڈول تھامے دیوار پر سے بی بی جان کو آواز دے رہی تھی۔ دلآویز آواز سے زیادہ خوبصورت چہرے نے ماحول میں دنیا بھر کی رعنائیاں گھول دیں۔ یہ فرحت تھی۔ پہلی نظر ہی میں محسوس ہوا، یہ دنیا بے حد حسین ہے۔
مزید منظرکشی کسی قدر موخر کرتے ہوئے پس منظر کی طرف آرہا ہوں۔ میرے والد محکمہ انہار میں ملازم تھے۔ ہر تین چار سال کے بعد ان کا تبادلہ کسی دوسرے گاؤں میں ہوجاتا۔ 60ء کے عشرے میں تبادلہ ہوا تو ہم ساہیوال کے قریب ایک گاؤں میں آگئے اور ہمارا اگلی مختصر میعاد کے لئے بسیرا ایک صاحب ثروت خاندان (جس کے آباؤ اجداد میں سے ایک ریاست کرنال کے نواب تھے) کے پڑوس میں ہوا۔
فرحت اسی نواب فیملی کی بیٹی تھی جس کے ماموں فیصل آباد میں رہتے تھے۔ چونکہ گاؤں میں تعلیم کا موزوں بندوبست ممکن نہ تھا لہذا وہ ماموں کے گھر رہتی اور وہیں ایک معیاری سکول میں زیرتعلیم تھی۔ جب ہم ان کے گاؤں آئے تو وہ چھٹیوں پر اپنے والدین کے پاس آئی ہوئی تھی۔ اس کی امی نے میرے خاندان کی آمد کے فوراً بعد اسے کہا:
” فرحت! فوراً ہمسائیوں کے پاس پہنچو، انھیں کہو کہ چونکہ وہ دن ڈھلے یہاں پہنچے ہیں، کھانا وغیرہ تیار نہ کریں، ہم اپنے گھر سے بھجوا دیں گے اور بھی کسی چیز کی ضرورت ہو تو بلا تکلف بتادیں۔ اس گھر میں تو کوئی نلکا بھی نہیں۔ ان سے پہلے جو لوگ یہاں رہتے تھے، پینے کا پانی حاصل کرنے کے لئے انھوں نے مستقل ماشکی لگوایا ہوا تھا۔ ان لوگوں کو ضرورت کا پانی دودھ وغیرہ بھی یہاں سے فراہم کرو۔“
فرحت کا کوئی بھائی نہیں تھا، ایک چھوٹی بہن اختر تھی اور امی اور ابا۔ اس نے اپنی بہن کو ساتھ لیا اور بی بی جان کے پاس آگئیں۔ اپنی امی کی خواہش سے آگاہ کیا۔ چند لمحوں میں بی بی جان سے اتنی گھل مل گئیں جیسے برسوں سے ایک دوسرے کے قریب رہتے ہوں۔ اس وقت میں گھر سے باہر تھا، جب گھر پہنچا تو بی بی جان نواب فیملی کی تعریفیں کرنے لگیں۔ وہ کہہ رہی تھیں:
” ہمسائے ماں پیو جائے “ سنا تو تھا مگر اس فیملی کی بچیوں کی والہانہ اپنائیت دیکھ کر پنجابی کی یہ کہاوت حقیقت میں ڈھلی دیکھ لی۔ اتنی پیاری بچیاں تھیں ……!“
ہمارے یہ دو ہمسایہ خاندان بہت جلد شیروشکر ہوگئے حالانکہ دونوں میں معاشی اور معاشرتی حوالے سے زمین آسمان کا فرق تھا۔ نواب فیملی کے بارے میں بتایا گیا، ان کی 25 مربعے زرعی اراضی پنجاب کے مختلف اضلاع میں پھیلی ہوئی تھی ۔ آموں کے باغ ہیں ۔ دنیا جہان کی آسائشیں میسر ہیں مگر وہ سادہ زندگی گزارتے تھے۔ ہم خط غربت سے کچھ نیچے ہی زندگی گزار رہے تھے۔
اباجی اور بڑے بھائی چودھری غلام رسول ملازم تھے۔ دونوں کی مجموعی تنخواہ ایک ہزار روپے ماہوار سے کم تھی۔ (یہ 1961ء کی بات ہے) ، ہم چار بھائی زیرتعلیم تھے۔ انتہائی بنیادی نوعیت کے اخراجات کی کفالت بھی نہ ہو پاتی۔ قرضے تلے ہی دبے رہتے تھے۔ معیار زندگی کا آپ اندازہ لگاسکتے ہیں، کچی اینٹوں اور گارے کے بنے مکان میں رہائش ملی۔ پینے کے پانی کے لئے ماشکی کی خدمات حاصل کی گئیں۔ دو مشکیں صبح اور دو شام ہمیں پانی فراہم ہوتا۔ باقی دن پڑوسیوں سے چھوٹے بڑے برتنوں میں پانی لاکر گزر اوقات کیا کرتے۔
نواب فیملی نے پانی کے ساتھ ساتھ بھینس کے دودھ، لسی کی ضرورت کے مطابق مستقل فراہمی کی ذمہ داری کچھ اس انداز میں لے لی، بی بی جان اور ہم سب بھائیوں کو کبھی احساس نہ ہونے دیا کہ کسی ”غیر“ کی طرف سے اعانت دی جارہی ہے۔ میں بیان نہیں کرسکتا کہ انھوں نے اپنائیت کو تعلق میں کس طرح گھول رکھا تھا کہ ان کا احسان کوئی بوجھ نہیں، ان کی بنیادی ذمہ داری اور ہمارا ”حق“ محسوس ہونے لگا۔
فرحت اور اختر (جن کا کوئی بھائی نہیں تھا) میرے دو چھوٹے بھائیوں سعادت اور انور کی بہنیں بن گئیں۔ یہ چاروں لوگ پڑھتے اور کھیلتے بھی اکٹھے تھے۔ چھٹیاں ختم ہونے پر جب فرحت فیصل آباد چلی جاتی تو ان کا مشترکہ بیڈمنٹن گراؤنڈ جو فرحت نے اپنے گھر میں بنایا ہوا تھا بھائیں بھائیں کرتا اور باقی تینوں بہن بھائی اگرچہ بیڈمنٹن کھیلتے رہتے مگر انھیں فرحت کی فرقت کے لمحات بہت ستایا کرتے۔ وہ نیم کے درخت پر پڑا جھولا جھولتے تو تھے مگر افسردہ رہتے تھے اور جب فرحت چھٹیوں پر آتی تو پھر چند روز کے لئے ان کی معصوم خوشیاں لوٹ آتیں جن سے دونوں گھرانوں کے بڑے بھی بے حد محظوظ ہوا کرتے۔
انور پانچویں جماعت میں تھا فرحت نویں میں۔ چھٹیوں کے دوران میں کھیل کود کے ساتھ ساتھ فرحت انور کو پڑھایا بھی کرتی۔ ایک طرح سے وہ (رضاکارانہ طور پر) ٹیوٹر کی ذمہ داریاں انجام دیا کرتی۔ اتنے بھلے لگتے تھے یہ دونوں بہن بھائی کہ الفاظ میں بیان کرنا محال ہے۔ ہم پانچ بھائی تھے۔ ہماری اکلوتی بہن بتول بھارت سے پاکستان سے ہجرت کے دوران میں شہید ہوگئی۔
زندہ رہتی توفرحت کی عمر میں ہوتی، انور کی ہم شکل تھی، اسی کی طرح بے حد خوبصورت۔ بی بی جان عمر بھر اس کی جدائی میں نڈھال رہیں۔ اپنا غم غلط کرنے کی ایک سبیل کے طور پر فرحت کو بتول کا درجہ دے کر اپنی بیٹی بناکر، ایک ایسا بندھن باندھا کہ خود دنیا سے رخصت ہوچکی ہیں مگر فرحت آج بھی اس بندھن کا لمس محسوس کرتی رہتی ہے۔ نادیدہ بہن بتول سے (خواب و خیال میں) اور انور سے (عمل کی دنیا میں) بہن اور بھائی کا رشتہ قائم کرلیا تھا۔منہ بولے بہن بھائیوں کے اس رشتے کی شاید ہی کوئی مثال پیش کی جاسکے گی۔ ( جاری ہے)