ڈاکٹر بشریٰ تسنیم :
انسانی یاد داشت ایک ایسی سائنس ہےجس کو سمجھنا سمجھانا مشکل ہے۔
اللہ رب العزت کے عجائبات میں سے ایک عجوبہ ۔
اور پھر یادیں کتنی عجیب شے ہوتی ہیں۔
یہی اداس کرتی ہیں ، خوش کرتی ہیں ، شرمندہ کرتی ہیں ،
فخرو غرور کا احساس دلاتی ہیں ،
شکر کے جزبات پیدا کرتی ہیں ،
فکر کی جولان گاہ میں لے جاکر کبھی مضمحل و بے کار کر دیتی ہیں ،
کبھی عمل پہ ابھارتی ہیں، قرب کا باعث بنتی ہیں کبھی دوری کا احساس دلاتی ہیں۔
یادیں ظالم بھی ہیں مہربان بھی
کانٹے بھی ہیں ، پھول بھی ، تلخ بھی ہیں ، شیریں بھی ۔
ایک انسان ہے اور اس کی یادیں لا متناہی ، زندگی کا رخ بدلتا جاتا ہے تو یادوں کا رخ بھی بدلتا جاتا ہے۔ ایک ہی مقام پہ بیٹھا انسان کبھی صحرا میں ہے تو کبھی نخلستان میں ، کبھی اندھیرے میں تو کبھی اجالے میں۔
یادوں کا سفر ایسا ہے جیسے اونٹوں کی لمبی قطار جن کو ایک دوسرے کے ساتھ باندھ دیا گیا ہے۔
ہر اونٹ پر یادوں کا سامان لدا ہے۔ کہیں حسرتوں کے تھیلے لٹک رہے ہیں، کہیں خوشیوں کی پوٹلیاں ۔
لگتا ہے اونٹ کے کجاوے پہ دونوں طرف حسرتوں ، پشیمانیوں اور خوشیوں کے تھیلے توازن کے ساتھ رکھ دیے گئے ہیں۔ اللہ رب العزت نے دکھ اور سکھ کی برابر میزان کے ساتھ انسانی زندگی کووقت کے کجاوے میں ڈال دیا ہے۔
پھول کے ساتھ کانٹا ہے کہ اس کی حفاظت کرتا رہے ، سکھ کے ساتھ دکھ ہے کہ سکھ کی پہچان قائم رہے۔
دنیا کے الم بھی خوشیوں کی حقیقت کو سمجھنے کے لئے وضع کیے گئے ہیں ۔ رات نہ ہوتی تو دن کا اجالا کس کو اہم لگتا ؟ دن کی مشقت نہ ہوتی تو رات کا آرام وسکون کس کو نعمت لگتا ؟ بیماری میں صحت کی قدر کا احساس نہ جاگتا۔
زندگی بھی کبھی دن ہے کبھی رات۔ کبھی دھوپ ہے کبھی چھائوں۔
انسان ہر لمحہ کسی نہ کسی سوچ فکر یاد میں مبتلا رہتا ہےانسان گویا یادوں کے سہارے جیتا ہے،
اپنے گزرے وقت کی غلطیوں کو یاد کرکے اصلاح کرتا ہے،منصوبہ بندی کرتا ہے اگے بڑھتا ہے۔
ماضی کی یادیں اصلاح کرتی ہیں ، مستقبل کے اندیشے خیالات منصوبہ بندی کرتے ہیں۔
گزرے وقت کی یادیں انسان کو خوش کرتی ہیں یا اداس۔ خوشحالی صحت کامیابیاں یاد آتی ہیں تو روح خوشی محسوس کرتی ہیں، بد حالی بیماری ناکامیاں یاد آتی ہیں تو روح افسردہ ہو جاتی ہے۔
کوتاہیاں غلطیاں لاپرواہیاں غفلت یاد آتی ہے توانسان کی روح پژمردگی اور اضطراب محسوس کرتی ہے جو وقت گزر گیا وہ اپنے نقوش یادوں کی شکل میں قائم و دائم رہتا ہے۔
صحت جوانی مال اولاد وقت کے ساتھ ساتھ اپنی دسترس سے نکلتا جاتا ہے۔ ساری جاہ وحشمت ، دولت ، آسائشوں کے سرو سامان بے وقعت ہوتے جاتے ہیں بس ان کی یادیں رہ جاتی ہیں۔
جیسے تتلیوں کے رنگ مٹھی میں رہ جائیں۔ انواع و اقسام کے کھانوں کے ذائقے یاد ہیں مگر اب ان پہ
کھانے کا حق ختم ہو گیا ہے۔ یہ دنیا اور اس کے سب سروسامان موت سے پہلے ہی ہاتھوں سے نکل جاتے ہیں، اب یادیں ہیں اور ایک بستر کا مالک یادیں بھی اس صورت میں اگر یاد داشت بھی وفا کرے تو
۔۔۔۔۔ قبر وہ مقام ہے جہاں یادیں ہی یادیں ہوں گی
قیامت تک اس کو اپنے اچھے یا برے اعمال یاد اتے رہیں گے
دکھائی دیتے رہیں گے اور وہ ان گزرے اعمال ولمحات کی مناسبت سے اپنی روح کو شاد کام کرتا رہے گا یا پھر روح کی ناخوشی کا عذاب سہتا رہے گا۔
ایک وہ وقت بھی آئے گا جب اپنے رب کے حضور کھڑا ہوگا اور اپنے ہر عمل کی یاد
سرخ رو کر رہی ہو گی یا پھر ندامت کے پسینے میں ڈبکیاں کھاتے ہوئے دنیا میں واپس جانے کی خواہش
مچل رہی ہوگی، تاکہ وہ ان بری یادوں کو ختم کرکے کوئی اچھی ، دل خوش کن ، رب کو راضی کرنے والے اعمال کی یادوں کا ذخیرہ لا سکے۔
اب یاد کرے گا سب گزرا وقت مگر اب یاد کرنے کا کیا فائدہ ہوگا؟