ایک غار میں ایک مرد ایک عورت کا پیچھا کررہا ہے

مغربی اور اسلامی معاشرے میں خواتین کا طرزِ زندگی ، ایک تقابلی جائزہ

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

ڈاکٹر خولہ علوی :

مشرقی اور مغربی عورت کے طرز زندگی میں بنیادی فرق ہے۔ مغربی آزاد، دنیا دارانہ اور مفاد پرست تہذیب کی باسی جبکہ مشرقی عورت اسلامی تعلیمات کی پابند ہوتی ہے۔ اسلام، شوہر اور گھر سے وفا شعاری اس کی گٹھی میں پڑی ہوئی ہے۔

8 مارچ ” خواتین کا عالمی دن “ منانے کا دنیا میں مغربی جوان خواتین کو تو شاید فائدہ ہوتا ہو لیکن سوال یہ ہے کہ اسلامی معاشرے کی مسلمان خواتین کو اس سے کیا حاصل وصول ہوتا ہے؟

اولڈ ہوم میں مقیم ایک مغربی بوڑھی عورت بھی اس دن بڑھاپے میں اپنے بچوں سے ملنے اور ان سے باتیں کرنے کو ترس رہی ہوتی ہیں مگر ان کے بیٹے بیٹیاں بھی یہ دن منانے میں مصروف ہوتے ہیں اور ان کے پاس اپنی بوڑھی ماؤں سے ملنے کا وقت نہیں ہوتا۔

مغربی عورت کی زندگی

مغرب میں عورت صرف ” گرل فرینڈ “ ، ” کمفرٹ گرل “ اور ” سپائس گرل “ ہوتی ہے۔ اس کا بچپن ڈے کیئر سنٹر اور پھر مخلوط سکول میں گزرتا ہے۔ ”مخلوط سکول “ میں اس کی تعلیم و تربیت اور اٹھنا بیٹھنا ہوتا ہے، دوستیاں ہوتی ہیں۔ پھر اس کے تعلقات لڑکوں سے ہوتے ہیں اور بعض دس بارہ سال کی بچیاں مائیں بن کر ایک ہاتھ میں اپنا سکول بیگ اور دوسرے ہاتھ میں بچہ اور اس کی ضرورت کی اشیاء کا بیگ پکڑ کر سکول جا رہی ہوتی ہیں۔ وہاں ہر سکول کے ساتھ ایسی نرسریاں لازمی ہوتی ہیں۔ اور نرسریوں کے ساتھ دو تین دایائیں اور ہیلتھ سٹاف بھی موجود ہوتا ہے تاکہ ایمرجنسی میں ہونے والی ڈلیوریز یا اسقاط حمل کے کیسز کو وہاں نبٹایا جا سکے۔

اہل مغرب کی خواتین عملاً تو گھروں سے ” بے گھر“ ہیں۔ جوانی میں ان کا گھر ہوتا ہے، بوائے فرینڈز ہوتے ہیں، زندگی بڑی رنگین، چارمنگ اور مصروف ہوتی ہے۔ وہ مکمل طور پر زندگی کو انجوائے کرہی ہوتی ہے۔ اگر بچے ہوں بھی تو ان کے پاس بچوں کے لیے وقت نہیں ہوتا۔ ” بے چاری “ مغربی عورت نوکری کرنے جاتی ہے تو بچے کئیر سنٹر میں چھوڑ کر جاتی ہے۔ پھر بچے سکول جانے لگتے ہیں اور سکول سے سارا کچھ سیکھتے ہیں اور اسی کہانی کا دہرایا جانا شروع ہو جاتا ہے۔

چھوٹی بچیاں اس لبرل مادر پدر آزاد معاشرے کے آزاد لڑکوں سے جنسی تعلقات قائم کر لیتی ہیں اور ” کنواری مائیں “ بن جاتی ہیں. دس بارہ سال کی بچیوں کا مائیں بن کر سکول جاتے ہوئے دو بیگز (ایک اپنا سکول بیگ، دوسرا بچے کا بیگ) لے کر جانا مقام عبرت ہے!
مگر۔۔۔
اس کے لیے ” دیدہ بینا “ درکار ہے جو وہاں نایاب ہے!

14 فروری کو ویلنٹائن ڈے منانے کے سلسلے نے ناجائز جنسی آزادی اور جنسی تعلقات کو مزید ہوا دی ہے اور چھوٹےچھوٹے بچے بچیاں بھی ویلنٹائن بننے کی عملی کوششوں میں مصروف رہتے ہیں۔ اسقاط حمل کی سہولت بھی ہر جگہ موجود ہوتی ہے اور خواتین اور بچیوں کی کثیر تعداد ان سے استفادہ کرتی نظر آتی ہے. مگر جس روح کا دنیا میں آنا لکھا ہوتا ہے وہ ہزار ” احتیاطوں “ اور ” ابارشن “ کی عام سہولیات کے باوجود دنیا میں آ جاتی ہے۔

ڈنور کی عدالت برائے جرائم اطفال کا جج بین لنڈسے (Ben lendsey) اپنی کتاب "Revolt of modern youth ” میں لکھتا ہے کہ :
” امریکہ میں ہر سال کم از کم پندرہ لاکھ حمل ساقط کیے جاتے ہیں اور ہزارہا بچے پیدا ہوتے ہی قتل کر دیے جاتے ہیں۔“
(Revolt of modern youth, Ben lendsey (بواسطہ ماہنامہ بتول، لاہور 1982))

بعض اوقات ایک پچیس تیس سالہ خاتون نانی یا دادی بن چکی ہوتی ہے. ہے نا حیرت کی بات! مگر ان رشتوں کی کیا اوقات ہے!

یہ پچیس تیس سالہ نانی یا دادی تو خود ابھی اپنی جوانی کی رعنائیوں اور رنگینیوں میں مگن و مست ہوتی ہے، کبھی ایک تو کبھی دوسرے بوائے فرینڈ یا شوہر کے ساتھ زندگی کے چند سال گزار رہی ہوتی ہے۔ وہ اپنا وقت ” پاس “ کر رہی ہوتی ہے اور وقت اسے” پاس “ کر جاتا ہے اور گیا وقت کبھی لوٹ کر نہیں آتا۔

چالیس پینتالیس سال کے بعد اس کی جوانی ڈھلنا شروع ہو جاتی ہے۔ سارے بوائے فرینڈز یا شوہر کنارہ کشی کر جاتے ہیں مگر سب یا کسی نہ کسی ایک کی نشانی بیٹا یا بیٹی اس کے پاس موجود ہوتی ہے۔ اگر شادی کی ہو تو بھی اس کا اپنے شوہر کے ساتھ زیادہ عرصہ گزارا نہیں ہوتا اور عورت اپنے شوہر کو ” طلاق “ دے کر فارغ کر دیتی ہے اور کبھی شوہر اسے طلاق دے دیتا ہے۔ دوسری تیسری شادی کا بھی یہی حال ہوتا ہے۔ اور بوائے فرینڈ کے ساتھ تو طلاق کی بھی نوبت نہیں آتی۔

ادھیڑ عمری میں اس کے پاس ایک دو بچے ہوتے ہیں۔ اب اس نے اپنے لیے بھی کمانا ہے اور اپنے بچے کے لیے بھی۔ اس کی پرورش، تعلیم و تربیت کی ذمہ داری تنہا ماں کے ذمے ہے جو اب سنگل پیرنٹ (single parent) کہلاتی ہے۔

باوجود اس تلخ حقیقت کے، کہ ایک ہی عہدہ یا ملازمت پر مامور ایک عورت اور مرد کی تنخواہوں میں نمایاں فرق ہوتا ہے. جوانی گزر چکی ہے، شوہر اور بوائے فرینڈ اسے چھوڑ چکے ہیں۔ وہ زندگی کے منجدھار میں تنہا کھڑی ہے۔ دکھی دل، دکھی جذبات، اور دکھی حالات کے ساتھ کہ اب ہر طرح کے مسائل کو اس نے فیس کرنا ہے اور ان کا حل کرنا ہے۔
وہ حیران یے کہ اب وہ تنہا کیا کرے اور کیا نہ کرے!

کبھی تو سنگین ترین صورتحال میں اسے دارالامان میں پناہ مل جاتی ہے (جی ہاں! مغرب میں بھی دارالامان موجود ہیں) اور کبھی اسی طرح کے حالات میں مر مر کے جینا اس کا مقدر ہوتا ہے اور کبھی وہ حالات سے فرار کا راستہ اختیار کرکے خودکشی کر کے موت کو گلے لگا لیتی ہے۔
عورت کے لیے زندگی میں ملازمتوں کے حال وہی ہیں جس کے لیے ہر سال 8 مارچ منایا جاتا ہے۔ وہ ملازمت کرکے اپنی اور اپنے بچوں کی گزران کا بندوبست کرتی ہے۔

اب بھی وہ مالی کمی اور مشکلات سے دوچار ہوتی ہے، جیسے وہ جوانی میں ہوتی تھی۔ مگر تب اس کے پاس بچے نہیں تھے اور اس کی اپنے بوائے فرینڈ یا شوہر کے ساتھ زندگی بڑی حسین اور مصروف تھی (مگر اب وہ اسے چھوڑ چکے ہیں)۔ وہ نسوانیت زن اور تقدیسِ نسواں کے اس سے زیادہ محافظ نہیں بن سکتے۔

جوانی میں تو اس کے بوائے فرینڈ یا شوہر اس پر کچھ نہ کچھ خرچ، تحائف کی صورت میں بہر حال کر دیتے تھے۔ وہ ” شمع محفل “ اور ” بکاؤ مال “ تو تھی لیکن وہ ” احترام انسانیت “ کے درجوں کی حقدار نہ تھی۔ مگر وہ اب سب کچھ اس کی اپنی ذمہ داری ہے۔

پہلے اس کی کمائی کا اکثر حصہ میک اپ، ڈریسنگ اور جیولری پر خرچ ہوتا تھا، اپنی ٹیپ ٹاپ کے لیے بڑی محنت کرنا پڑتی تھی، پیسہ خرچ کرنا پڑتا تھا اور اپنا آپ ” مین ٹین “ (maintaine) رکھنا پڑتا تھا. اب اپنے بچوں کے لیے اسے محنت سے کمائی کر کے ان پر خرچ کرنا ہوتا ہے۔ زندگی اس کے لیے پر خار، کٹھن اور پر مشقت بن چکی ہے۔ اپنے حقوق کی بحالی اور وقار کی جنگ جیتنے کے بجا ئے وہ زندگی کی تگ و دو سے نبرد آزما ہو رہی ہوتی ہے۔

اپنی معاشی ضروریات پوری کرنے کے لیے وہ غیر اخلاقی پیشے اختیار کرنے پر بھی مجبور ہو جاتی ہیں۔ اور کانٹوں پر ننگے پاؤں جلتے، آبلہ پا ہوتے ہوئے اس کی زندگی اس پر حقیقتوں کے بھید کھول رہی ہوتی ہے۔ تب وہ معاشرے سے گھر تک واپسی کی خواہش کرنے لگتی ہے.

کچھ وقت مزید گزر جاتا ہے اور اس کا بڑھاپا شروع ہو جاتا ہے. اس کے بچے اب بالغ ہو کر معاشرے کی سرگرمیوں میں بھرپور حصہ لے کر اس تباہی کے دہانے کی طرف جا رہے ہو تے ہیں جن سے ان کے آباؤ اجداد دو چار ہو چکے ہوتے ہیں، ان کے ماں باپ دو چار ہیں، وہ خود دو چار ہونے جا رہے ہیں مگر انہیں ابھی اس کا ادراک نہیں ہوتا۔ بزرگ نوجوانوں کو روک ٹوک نہیں کر سکتے کہ وہ قانوناً اس کے مختار نہیں ہوتے اور ان کی ” اپنی“ اولاد پابندیوں اور ڈانٹ ڈپٹ کوبرداشت کرنے کی روادار بھی نہیں ہوتی.

عظیم بوسنین مفکر عالیجاہ عزت بیگت اپنی شہرہ آفاق کتاب میں لکھتے ہیں کہ :
” سوسائٹی میں بچوں کے” ڈے کیئر سینٹر“ (Day care centers) اور بوڑھوں کے اولڈ ہومز (old homes) دراصل ایک ہی تصویر کے دو رخ ہیں۔ دونوں کی خصوصیت یہ ہے کہ ان میں والدین کا تعلق غائب ہوتا ہے۔ ڈے کیئر سنٹرز میں بچے والدین کے بغیر رہتے ہیں اور اولڈ ہومز میں والدین کو بچے میسر نہیں ہوتے۔“
(علیجاہ عزت بیچو وچ، اسلام مشرقی اور مغرب کے درمیان (Islam between East and west)، ص87 )

بوڑھی ماں یا ماں باپ دونوں اب اولڈ ہوم میں پہنچ جاتے ہیں جہاں موت تک وقت گزارنا اب ان کا مقدر ہوتا ہے۔ اس دور میں ان کی سب سے بڑی خوشی و مسرت کا وہ وقت ہوتا ہے کہ جب ان کی اولاد ان کے پاس سالوں بعد کبھی گھڑی دو گھڑی کے لیے ملنے آتی ہے۔ پھول، کارڈ اور گفٹ لے کر کبھی ” مدد ڈے “ ، کبھی ” فادر ڈے “ تو کبھی ” خواتین کا علمی دن “ منانے کے لیے۔ بعض بوڑھوں کی اولاد تو اتنی مصروف ہوتی ہے کہ انہیں ساری زندگی اپنے بوڑھے والدین سے ملنے کے لیے وقت ملتا ہی نہیں۔ وہ صرف کارڈ بھجوا دیتے ہیں یا اس کی بھی تکلیف کرنا گوارا نہیں کرتے۔ اور ان کے ماں باپ ان کا انتظار کرتے کرتے اس دنیا سے آنکھیں موند لیتے ہیں۔
سنگ دلی کی انتہا ہے یہ تو!
مگر ٹھہریے! کیا یہ مکافات عمل نہیں ہے؟

کیا ان بوڑھوں نے اپنی جوانی میں اپنے بچوں کو اتنا وقت دیا تھا، جتنا ان کو اپنے بچپن میں اپنے ماں باپ سے درکار تھا؟
کیا انہوں نے بچوں کو بلوغت کے بعد خود گھر سے نہیں نکالا تھا کہ وہ خود کمائیں خود کھائیں؟ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنی ہے تو خود کما کر تعلیم حاصل کریں. اپنے لیے خود رشتے ڈھونڈیں، خود شادیاں کریں، وہ آزاد ہیں؟

کیا انہوں نے اپنی اولاد کو یہ نہیں سکھایا تھا کہ انہیں اپنی زندگی خود جینی ہے، اپنی دنیا خود بنانی ہے، خود کمانی ہے؟ انہیں اس معاشرے میں سروائیو (survive) کرنا ہے تو اس معاشرے کے طور طریقوں کو سیکھنا ہے اور اس پر چلنا ہے؟

جب جوان اولاد نے وہ سارے طور طریقے اپنا لیے تو پھر ان کے والدین کے حصے میں وہی کچھ آ گیا جو اس معاشرے میں بزرگوں کے لیے ہوتا ہے یعنی ” اولڈ ہومز“ میں قیام اور اپنی اولاد سے ملنے کے لیے ترسنا. خواہ حکومت اپنے بزرگوں (والدین وغیرہ) کو اولڈ ہاؤسز کے بجائے اپنے گھروں میں رکھنے کی وجہ سے ان کو ٹیکس میں چھوٹ دیتی رہے۔
(سید ابو الاعلیٰ مودودی، پردہ، ص112)

یہ مغربی عورت کی زندگی ہے!
یہ مغربی مرد کا طرزِ حیات ہے!
یہ مغربی والدین کے رہن سہن کے طور طریقے ہیں!
یہ مغربی اولاد کا لائف سٹائل ہے!

مشہور فلسفی اور ادیب خلیل جبران نے ماڈرن عورت کے بارے میں یہ ناقابلِ تردید حقیقت بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ :
” ماڈرن عورت :ماڈرن تہذیب نے عورت کو کچھ چالاک تو بنا دیا ہے لیکن مرد کی ہوس کی وجہ سے اس تہذیب نے عورت کی الجھنوں میں اضافہ کیا ہے۔ ماضی کی عورت ایک خوشحال بیوی تھی لیکن آج کی عورت تکلیفوں میں گھری” ناجائز جنسی پارٹنر “ ہے. ماضی میں عورت آنکھیں بند کر کے اجالوں میں چلی لیکن آج عورت آنکھیں تو کھول کر چلتی ہے لیکن تاریکیوں میں۔ کل کی عورت بے خبری میں بھی حسین، اپنی سادگی کے باوجود پاک دامن اور اپنی کمزوری میں بھی مضبوط کردار والی تھی۔ آج کی عورت ذہانت رکھتے ہوئے بھی بری ہو چکی ہے۔ باخبر ہوتے ہوئے بھی سطحی اور بے رحم بن گئی ہے۔“
( مولاناعاصم عمر، برمودا تکون اور دجال، ص183)

مسلمان عورت کی زندگی

ایک مسلمان بیٹی اور بہن اپنے والدین اور بہن بھائیوں کی مکمل محبت اور توجہ کی حق دار ہوتی ہے۔ تین بلکہ دو بیٹیوں کی پرورش اور تعلیم و تربیت کرنے والے باپ کے لیے جنت کی خوش خبری ہے۔ ایک بیوی اپنے شوہر کے لیے بہترین ” متاعِ حیات “ قرار دی گئی ہے۔

ایک ماں کے قدموں تلے جنت رکھ دی گئی ہے۔ عورت ماں، بہن، بیوی، بیٹی ہے اور ایک مسلمان مرد ان سب رشتوں میں عورت کو عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور تقدیسِ نسواں کا نگہبان ہوتا ہے۔

مسلمانوں کا معاملہ مغربی معاشرے سے مختلف ہے۔ اسلامی معاشرے میں ہر روز بیٹے، بیٹیاں، نواسے، نواسیاں،پوتے، پوتیاں (جس جس کےلیے ممکن ہو) اپنے بزرگوں کی قدم بوسی کے لیے حاضر ہوتے ہیں۔ ان کے وجود کو اپنے لیے خیرو برکت سمجھتے اور ان سے دعائیں کرواتے ہیں۔ ماں باپ، دادا دادی اور نانا نانی،اپنی اولاد اور ان کی اولاد کے لیے جھولیاں پھیلائے رب تعالیٰ سے دعائیں اور مناجات کرتے ہیں اور کامیابیاں اولاد کا مقدر بن جاتی ہیں۔ ماں باپ فوت ہو جائیں تو پیچھے اولاد ان کے لیے دعائیں کرتی ہیں، ثواب کے لئے صدقہ جاریہ کے مختلف کام حسب ضرورت سر انجام دیتی ہے۔

یہ ایک مسلمان عورت کی زندگی ہے!
یہ مسلمان مرد کا طرزِ حیات ہے!
یہ مسلمان والدین کے رہںن سہن کے طور طریقے ہیں!
یہ مسلمان اولاد کا لائف سٹائل ہے!

مغرب میں جب اولاد اپنے بزرگوں سے ملنے اولڈ ہومز میں نہیں آتی اور ان کے بوڑھے عزیز ان کی ایک ” جھلک “ دیکھنے کے لیے تڑپتے، بلکتے اور سسکتے ہیں،ان کی ایک ٹیلیفون کال کے لیے بے قرار اور منتظر رہتے ہیں تو پھر حکومتیں اور یو این او کبھی ماؤں کا عالمی دن، کبھی باپ کا عالمی دن، تو کبھی خواتین کا عالمی دن منا منا کر جوانوں کو متوجہ کرتے ہیں کہ آج کے اہم اور مقدس دن وہ اپنے ماں باپ کے پاس جائیں، ان سے ملیں، ان کو تحائف دیں، ان کو راضی اور خوش کریں مگر یہ دن منانے کے باوجود حالات وہی ” ڈھاک کے تین پات “ رہتے ہیں۔

اور مغرب میں جوان اولاد اپنے والدین کی فکر، ان کی خدمت اور ان کی دعائیں لینے سے غافل رہتی ہے۔ جو اولاد زندگی میں اپنے والدین کی خدمت کرنا تو کجا ان کی شکل دیکھنا گوارہ نہیں کرتی، وہ ان کے مرنے کے بعد کیا ان کے ایصال ثواب کیلئے کچھ کرنا پسند کرے گی؟ یقیناً نہیں۔ جب انہوں نے زندہ والدین کی قدر نہیں کی تو مردہ والدین سے تعلق تو بالکل ختم ہو جاتا ہے۔ مغربی انسان کے لیے اس کے مرنے کے بعد اس کے لیے دعا کرنے کے لیے کسی کے ہاتھ نہیں اٹھتے۔
(یاد رہے کہ اہلِ کتاب یعنی یہودو نصاریٰ میں آخرت کا تصور موجود ہے)

ایسے انسانوں کو اپنے ماں باپ سے ہرگز ہرگز وہ محبت نہیں جس کا الفاظ علامہ اقبال نے اپنی والدہ کے متعلق اپنی شاعری میں کیا ہے کہ:

عمر بھر تیری محبت میری خدمت گر رہی
میں تیری خدمت کے قابل جب ہوا تو، تو چل بسی
خاک مرقد پہ تیری، لےکریہ فریاد آؤں گا
اب دعائے نیم شب میں، کس کو میں یاد آؤں گا

مشہور و معروف نو مسلم برطانوی صحافی خاتون ایوان ریڈلے نے طالبان کی قید سے رہائی کے بعد ان کے حسنِ سلوک سے متاثر ہو کر اسلام قبول کر لیا تھا اس نے پاکستانی روز نامہ ” جناح “ کو انٹرویو دیتے ہوئے مغربی تہزیب کو رد کرتے ہوئے کہا کہ :
” مجھے حیرانی ہوتی ہے کہ مسلمان مغربی اقدار کے پیچھے کیوں دوڑ رہے ہیں؟
یہ لوگ مغربی رسموں اور رہن سہن کو کیوں پسند کرتے ہیں؟
یہ ان چیزوں کے کیوں دلدادہ ہیں؟
میں مسلمانوں کے طور طریقے دیکھ کر پریشان ہو جاتی ہوں کہ مسلمان اتنی اچھی تہذیب کو چھوڑ کر غفلت میں کیوں پڑے ہیں؟
دنیا کے پیچھے کیوں بھاگ رہے ہیں؟ یہ آئیڈیل مذہب کی تعلیمات پر عمل کیوں نہیں کرتے؟ “
(Daily Jang, "An interview with Ewan Reedley, 5 Nov. 2015)

آج مسلمان عورت کا مضبوط خاندانی ادارہ گونا گوں مصائب کا شکار ہے۔ این جی اوز اور حقوق نسواں کی نام نہاد خواتین اس کے لیے مسائل و مشکلات کھڑی کرتی جا رہی ہیں۔ الیکٹرانک، پرنٹ اور سوشل میڈیا آزادی و خودمختاری کے خواب اس کی آنکھوں میں سجانے کی پوری کوششوں میں مصروف ہیں۔

لیکن عورت کا خود اور اپنے اہل و عیال کو اسلامی تہذیب اور معاشرت سے جوڑے رکھنا، اپنی ذمہ داریوں کو کماحقہ ادا کرنا اور اللہ تعالٰی سے اجر و ثواب کی بہترین امید رکھنا اصل کارزارِ حیات ہے۔

اسلامی تہذیب اور معاشرت مسلمان اور مشرقی عورت کے لیے باعث تحفظ اور قابل فخر ہے جس میں وہ ہر لحاظ سے محفوظ و مامون اور قابل تکریم ہے۔ ماں، بیٹی، بیوی، بہن کی حیثیت میں وہ زندگی کی رونق، گھر کا اجالا اور مرد کی عزت بن کر کائنات کی رنگ و بو ہے۔ جس کے بغیر زندگی، گھر اور مرد ادھورے اور نامکمل ہیں!


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں

4 پر “مغربی اور اسلامی معاشرے میں خواتین کا طرزِ زندگی ، ایک تقابلی جائزہ” جوابات

  1. طلحہ Avatar
    طلحہ

    ماشاء اللہ بہت اعلیٰ

  2. طلحہ Avatar
    طلحہ

    اسلام نے عورت کو کتنی عزت و احترام عطا کی ہے جبکہ مغرب نے عورت کی کتنی تذلیل کی ہے. ہمارےلیے بہت اہم سبق ہے.

  3. احمد Avatar
    احمد

    بہت عمدہ اور معلوماتی نکات ہیں.

  4. احمد Avatar
    احمد

    اسلامی اور مغربی تہذیب کے موازنہ میں اسلامی تہذیب ہمیشہ غالب رہی ہے اور اب بھی ہمیں اسے غالب رکھنا ہے. ان شاء اللہ.