ڈاکٹر شائستہ جبیں :
[email protected]
کراچی یونیورسٹی کی ایک خاتون پی ایچ ڈی اسکالر کی خودکشی کا معاملہ کافی دن سوشل اور الیکٹرانک میڈیا پر موضوع بحث رہا. اطلاعات کے مطابق خاتون نے اپنے نگران استاد کے رویے سے دل برداشتہ ہو کر اپنی جان لینے کا فیصلہ کیا، یہ اطلاعات بھی سامنے آئیں کہ خودکشی کرنے والی خاتون کی ذہنی حالت خراب تھی، اس وجہ سے انہوں نے ایسا کیا. کسی نے خاتون کو قصور وار ٹھہرایا تو کسی نے استاد کو، کسی نے سسٹم کی خرابی پر بات کی، تو بعض اہل علم نے استاد اور نظام دونوں کا دفاع کیا.
جن دنوں یہ معاملہ زیرِ بحث تھا، میرے ذہن میں بار بار وہ تمام واقعات آتے رہے جو دوران تعلیم اپنی یونیورسٹی سے مختلف سائنسی مضامین میں پی ایچ ڈی کرنے والی دوستوں اور ہوسٹل فیلوز سے سنتی رہتی تھی، میرے تجربے کی حد تک سائنس سبجیکٹس کی طالبات اس حوالے سے بہت تلخ تجربات سے گزرتی تھیں.
بیرون شہر سے تعلق ہونے کی وجہ سے ایک طویل عرصہ یونیورسٹی کے ہوسٹل میں قیام رہا اور اسی وجہ سے ساتھی طالبات سے دوستی اور اپنائیت کے تاحیات رشتے استوار ہوئے. عموماً شام کو سب طالبات ( خصوصاً پی ایچ ڈی اسکالرز) کچھ وقت ضرور ساتھ گزارتی تھیں اور اپنے اپنے دن کی روداد اور مشکلات کا باہم تبادلہ کرتی تھیں.
میری یونیورسٹی کی حد تک میرا تجزیہ یہ ہے کہ وہاں مردوں کی نسبت، خواتین کی تعداد پی ایچ ڈی سطح پر بھی زیادہ تھی. سائنسی مضامین میں یہ تعداد خصوصیت سے زیادہ ہوتی تھی. سائنسی مضامین میں لیبارٹری کے کام کی وجہ سے روزانہ حاضری کی پابندی ہوتی ہے،
یہی وجہ ہے کہ خواتین زیادہ تعداد میں داخلہ لیتی تھیں، کیونکہ وہ ملازمت اور گھریلو معاشی ذمہ داری نہ ہونے کی وجہ سے فل ٹائم حاضر رہ سکتی تھیں، جبکہ مرد حضرات معاشی کفالت کی ذمہ داریوں کی بناء پر کم ہی ریگولر پی ایچ ڈی پروگرام میں داخلہ لیتے ہیں. آرٹس کے مضامین میں چونکہ ایسی کوئی پابندی نہیں تھی تو ان مضامین میں مرد طلباء، خواتین سے زیادہ ہوتے تھے.
سائنسی مضامین میں پی ایچ ڈی کرنے والی میری ہاسٹل فیلوز روزانہ صبح آٹھ بجے سے شام پانچ بجے تک ہفتے کے پانچ دن باقاعدگی سے ڈپارٹمنٹ جایا کرتی تھیں. کوئی تجرباتی کام یا لیب ورک چل رہا ہوتا تو اوقات شام سات آٹھ بجے تک اور ویک اینڈ یعنی ہفتہ اتوار کو بھی جایا جاتا تھا.
دو، دو مہینے بعد صرف چند روز کے لیے گھروں کا چکر لگتا تھا، ان کی زندگی ہوسٹل سے ڈپارٹمنٹ اور ڈپارٹمنٹ سے ہوسٹل تک محدود رہتی تھی. اس قدر وقت، توجہ اور محنت کے باوجود کسی کی ڈگری عرصہ سات سال سے پہلے مکمل ہونے کو نہیں آتی تھی.
زندگی تو ہر فرد کی قیمتی ہے، لیکن ایک لڑکی کی زندگی کے یہ سال کس قدر بیش قیمت ہیں، ہمارے معاشرے سے بڑھ کر کون جان سکتا ہے،جس کا معیار ہی کم عمر اور حسین لڑکی پر ختم ہو جاتا ہے. کام کا بوجھ، اساتذہ کے دل شکن رویے، تجرباتی کاموں میں پیش آنے والی رکاوٹیں، ہوسٹل کا کھانا……. یہ سب عوامل ذہنی صحت کو کس طرح تباہ کر رہے ہیں،
ان کا ہمارے معاشرے کو اندازہ تک نہیں ہے اور خواتین سے متعلق ہر معاملے کو تو ذہنی مریض قرار دے کر تمسخر و طنز کا نشانہ بنانے تک محدود ہے. ہمارا معاشرہ اس حد تک سنگدل ہے کہ عورت کی اعلیٰ تعلیم کی خواہش کو بھی طعنہ بنا لیتا ہے اور ہر طرح سے ممکن کوشش کر کے اس کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کی کوشش کرتا ہے،
بجائے خواتین کی اعلیٰ تعلیم کی خواہش اور کوشش میں معاونت کے ان پر طرح طرح کے فتاویٰ لاگو کیے جاتے ہیں. اگر ہم نے عورت مرد کی تخصیص سے بالاتر ہو کر اپنے معاشرے میں اعلی تعلیم خاص طور پر ڈاکٹریٹ سطح تک کی تعلیم کو عام کرنا ہے تو ملکی جامعات میں ان تکلیف دہ رویوں کو ختم کرنے کے لیے سنجیدگی سے قدم اٹھانا ہو گا،
بصورت دیگر ہم اعلیٰ تعلیم یافتہ ذہنی مریض تیار کر کے معاشرے کی پسماندگی میں اضافہ ہوتا دیکھ رہے ہوں گے. آپ کے سائنسی شعبہ جات کسی ٹارچر سیل سے بڑھ کر اپنے طلباء کو ذہنی و جسمانی اذیت میں مبتلا کر رہے ہیں، اس صورت میں آپ کیسے یہ توقع رکھ سکتے ہیں کہ آپ کی جامعات کے پی ایچ ڈیز سائنس و تحقیق کی دنیا میں تہلکہ مچا دیں گے؟
جہاں ہر نگران استاد خود پر گزرنے والی وارداتوں کا بدلہ پر طالب علم سے لینا اپنا فرض اولین سمجھے، ایم. فل اور پی ایچ ڈی کے طلباء کو ذاتی ملازم گردانتے ہوئے ان سے ہر طرح کی خدمت لینا اپنا حق سمجھے، اپنی پیشہ وارانہ ذمہ داریاں تک ان سے ادا کروائے، ذرا ذرا سی غلطی اور خامی کو نظر انداز کرنے کی بجائے سرعام تذلیل و تضحیک کا نشانہ بنائے،
ایک ریسرچ پیپر لکھوانے پر دو، دو سال کا عرصہ لگوائے، بے فائدہ اور بے مقصد تحقیق کی ایسی تاریک سرنگ میں آپ کو سات سال کے لئے قید کر دے جس کا ایک سرا قدرتی طور پر بند ہو اور دوسرے پر نگران مقالہ خود براجمان ہو کر آپ تک پہنچنے والی روشنی اور ہوا کی آمدورفت تک بند کر کے بیٹھا ہو، جو اس بات سے خوفزدہ ہو کہ کہیں آپ جلدی پی ایچ ڈی نہ کر لیں، کہیں آپ کے ریسرچ آرٹیکلز اچھے امپیکٹ فیکٹر والے جرائد میں نہ طبع ہو جائیں اور کہیں استادِ محترم سے بڑھ کر آپ کو کامیابی حاصل نہ ہو جائے.
جناب یہ کسی تخیلاتی یا تصوراتی دنیا کے واقعات آپ کے سامنے بیان نہیں کیے جا رہے، بلکہ یہ سب تن بیتیاں ہیں، جو کہ نجانے کتنوں پر بیت چکی ہیں، بیت رہی ہیں اور بیتیتی رہیں گی. اتنے واقعات ہیں جو لکھنے بیٹھوں تو شاید ہمارا معاشرہ ہمیشہ کی طرح بیٹی کو ہی قصور وار قرار دے کر پی ایچ ڈی کرانے کی ہمت ہی نہ کرے.
اس حوالے سے ایک بہت افسوسناک پہلو یہ بھی ہے کہ خواتین نگران اساتذہ کا رویہ مرد اساتذہ کے رویے سے بھی کہیں خطرناک ہے. مرد اساتذہ عموماً خواتین طالبات پر مہربان رہتے ہیں ، یہ الگ بات ہے کہ ان مہربانیوں کے پیچھے کارفرما عوامل بیان کرنے کے لیے بھی بہت جرات اور ہمت درکار ہے. خواتین اساتذہ بغیر کسی تخصیص کے مرد و خواتین طلباء کے ساتھ برابر کا ذہنی تشدد روا رکھتی ہیں. غیر ضروری تنقید، بے مقصد تحقیق اور بے فائدہ بھاگ دوڑ کے ذریعے پر ممکن طریقے سے کام کو لٹکانے کے لیے تمام توانائی صرف کرتی ہیں،
ستم بالائے ستم یہ ہوتا ہے کہ ایک یونیورسٹی کے کسی بھی شعبے میں ایسی حرکتیں کرنے میں اور طلباء کے وقت کا ضیاع کرنے میں نامور ہونے کے باوجود ایسے مہربان اساتذہ سے نہ تو یونیورسٹی انتظامیہ، نہ ہائر ایجوکیشن کمیشن اور نہ ہی کوئی اور ذمہ دار کسی بھی سطح پر یہ پوچھنے کی زحمت کرتا ہے کہ بی بی ساری دنیا کے نالائق اور نااہل طلباء آپ کے ہی حصے میں آتے ہیں، جن میں سے کوئی بھی وقت مقررہ میں کام کرنے کا اہل نہیں ہوتا یا اللہ نے آپ کو لوگوں کے راستے میں روڑے اٹکانے اور ان کی زندگیوں کے قیمتی ماہ و سال ضائع کرنے کا فریضہ دے کر نازل کیا ہے.
دنیا بھر میں پی ایچ ڈی سطح کے تعلیم یافتہ افراد کو معاشرے کا قابلِ قدر سرمایہ سمجھا جاتا ہے، جبکہ ہمارے ہاں اس ڈگری کو طنز و تضحیک کے لیے استعمال کیا جاتا ہے. پی ایچ ڈی کرنے کا جرم کرنے والے کو انسان ہونے کا بھی مارجن نہیں دیا جاتا اور اس کی بشری خامی یا کوتاہی بھی اس کی پی ایچ ڈی کے کھاتے میں ڈال کر یہ سبق سکھایا جاتا ہے کہ اس ڈگری کے حصول کے لیے جو وقت، محنت اور تکالیف برداشت کیں، وہ اپنی جگہ………. اس ڈگری کا خراج آپ نے تاعمر ادا کرنا ہے.
ایسی صورت حال اور ایسے رویوں کے ساتھ لوگوں نے راہ فرار ہی اختیار کرنی ہے. جب تک ہمارا معاشرہ کھلے ذہن اور دل سے اپنے باصلاحیت افراد کی قابلیت کو تسلیم نہیں کرے گا، اسی طرح خود کشیاں بہترین دماغوں کا مقدر بنتی رہی گی.
5 پر “زندگی ….. پی ایچ ڈی سے قیمتی ہے” جوابات
بہت اچھی تحریر ھے۔۔۔نہ جانے کب یہ سارا سسٹم بدلے گا۔
Buhhttt achaaa likha..Allah bless u..❤️
Bhtttt achi tehreer likhi ap ny…
Ma Sha Allah 🌸🌸
بہت اچھی تحریر لکھی استاذہ آپ نے
آج کے دور میں واقعی میں ایسا ہو رہا ہے استاد کو چاہیے کہ طالب علم کے ساتھ اچھا رویہ رکھے ناکہ طنز و تضحیک کا نشانہ بنایا جائے کہ وہ اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے کہیں پہ اساتذہ سے غلطی ہو جاتی ہے تو کہیں پہ طلباء/طالبات غلط ہو تے ہیں
اللہ تعالیٰ ایسے اساتذہ اور طلباء/طالبات کو ہدایت دے اور امت مسلمہ کو خود کشی سے بچائے۔آمین
زندگی واقعی قیمتی ہے۔
Best writing…MashAllah