ڈاکٹر خولہ علوی :
نکاح بالغ انسان کی ایک اہم فطری ضرورت ہے۔ یہ عزت وعصمت کی حفاظت کے ساتھ ساتھ نسل انسانی کی بقا وتحفظ کے لیے بھی بڑا اہم اور ناگزیر معاملہ ہے!
زندگی کا قرار و سکون میاں بیوی کے محنت و محبت سے تعمیر کردہ خوشگوار گھر میں پنہاں ہے!
ایک عمدہ خاندان بہترین معاشرے کے قیام میں بنیادی اکائی (unit) کی اہمیت کا حامل ہوتا ہے!
اچھا خاندان ایسا سائبان ہوتا ہے جس کے سائے تلے نسلوں کی تربیت کرکے انہیں ملک و ملت کا مستقبل اور امت مسلمہ کےلیے نافع بنایا جاتا ہے!
اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی بنائی ہوئی یہ خوبصورت کائنات مرد و زن دونوں کے وجود سے عبارت ہے۔
مرد اور عورت ایک دوسرے کے جسمانی و قلبی سکون کے لیے بنائے گئے ہیں۔
دونوں کے جسمانی نظام ایک دوسرے سے مختلف ہیں اور اسی وجہ سے ان کی صلاحیتیں، کیمسٹری، سائیکالوجی، اور جسمانی وذہنی استعداد بھی مختلف ہیں لیکن دونوں ایک دوسرے کے لیے ناگزیر ہیں۔
عورت کا مرد کے بغیر گزارہ نہیں اور نہ مرد کا عورت کے بغیر گزارہ ہے۔ اس لیے اسلام ان دونوں کو نکاح کے بندھن میں باندھتا ہے تاکہ وہ میاں بیوی کی حیثیت سے اکٹھے رہ کر اپنا گھر آباد کرسکیں۔ اور پرسکون اور مفید معاشرہ پروان چڑھ سکے۔ نکاح کرنا اور شادی شدہ زندگی گزارنا انبیاء کی سنت ہے اور اس سنت پر عمل پیرا ہونے میں سوسائٹی میں رحمت و برکت اور محبت و مودت کی خصوصیات بدرجہ اتم نظر آتی ہیں۔
سورہ النور میں زندگی کی نہایت اہم خصوصیت اور معاملہ ” عفت و عصمت کی حفاظت “ تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔ صرف انفرادی طور پر ہی نہیں بلکہ اجتماعی طور پر بھی۔ اور پورا اسلامی معاشرہ اس بنیاد پر تشکیل دیا گیا ہے۔
ایک مامون و محفوظ اسلامی معاشرے کے قیام کے لیے نوجوان لڑکے، لڑکیوں کے علاوہ بیواؤں، مطلقات (طلاق یافتہ) خواتین اور رنڈوے مردوں (جن کی بیویاں فوت ہو گئی ہوں) کے نکاح بھی جلد کرنے کی ترغیب دلائی گئی ہے۔ اور سماج میں کسی بھی طبقہ کے فرد کے نکاح کے بغیر زندگی بسر کرنے کو ناپسندیدہ سمجھا گیا ہے۔
نکاح کی استطاعت نہ ہونے کی صورت میں نوجوانوں کو روزے رکھنے کی ترغیب دلائی گئی ہے۔
آزاد اشرافیہ خواتین کے علاوہ لونڈیوں وغیرہ کے لیے بھی بے راہ روی اور زنا کے پیشوں کی بھرپور مذمت بیان کی گئی ہے اور انہیں بھی عزت و آبرو کی حفاظت کے احکامات دیے گئے ہیں۔
خاتم النبیین ﷺ نے نکاح کو اپنی سنت قرار دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:
” النکاح من سنّتی “ (سنن ابنِ ماجہ: 134)
ترجمہ: ” نکاح کرنا میری سنت ہے۔“
نبی کریم ﷺ نے نکاح کو نصف ایمان بھی قرار دیا ہے۔
ترجمہ: ” جو کوئی نکاح کرتاہے تو وہ آدھا ایمان مکمل کرلیتاہے اور باقی آدھے دین میں اللہ سے ڈرتا رہے۔“
(السنن الكبرى، للبيهقي، بحوالہ السلسلۃ الصحیحہ للالبانی: 625)
نکاح دیگر تمام انبیاء کرام کی بھی سنت رہی ہے۔ ارشاد ربانی ہے
ترجمہ: اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم!) بلاشبہ ہم نے آپ سے پہلے رسول بھیجے اور انہیں بیویوں اور اولاد سے بھی نوازا۔“ (سورۃ الرعد 13 : 38)
رسول مکرم ﷺ نے نوجوانوں کو نکاح کی طرف توجہ اور رغبت دلاتے ہوئے فرمایا:
ترجمہ: ” اے نوجوانوں کی جماعت! جو فرد تم میں سے استطاعت رکھتا ہو، وہ نکاح کرلے کیونکہ اس سے نگاہ نیچی اور شرمگاہ محفوظ ہو جاتی ہے۔“ (صحیح بخارى: 5065)
آپ ﷺ نے مزید فرمایا کہ
ترجمہ: ” اور جو نکاح کی ذمہ داریوں کو اٹھانے کی طاقت نہیں رکھتا، اسے چاہیے کہ شہوت کا زور توڑنے کے لیے وقتاً فوقتاً روزے رکھے۔“ (صحیح بخارى: 5065)
دینی احکامات کے مطابق عقد نکاح میاں بیوی کے درمیان ایک پختہ معاہدے کا نام ہے۔ اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے کہ:
ترجمہ: اور ان عورتوں نے تم سے مضبوط (نکاح کا) عہدو پیمان لے رکھا ہے۔ (سورة النساء 4: 21)
نکاح کا مقصد شوہر اور بیوی کے درمیان محبت و سکون پیدا کرنا ہے تاکہ دونوں کے دل ایک دوسرے سے لطف اندوز ہوں اور راحت و شادمانی اور نفسانی اطمینان وسکون حاصل کر سکیں۔ ارشاد ربانی ہے:
ترجمہ: ” اور اس کی نشانیوں میں سے ہے کہ تمھاری جنس سے بیویاں پیدا کیں تاکہ تم ان سے آرام پاؤ اور اس نے تمہارے درمیان محبت و الفت پیدا کر دی۔“ (سورةالروم 30 : 22)
قرآن وسنت کے احکامات سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ انسان کے نکاح کرنے کے لیے اس کا مال دار ہونا ضروری نہیں۔ بلکہ اللہ تعالٰی نے انسان کو نکاح کے سبب غنی کرنے کا وعدہ کیا ہے۔
چنانچہ اللہ تعالٰی نے نکاح کی تلقین کرتے ہوئے ارشاد فرمایا
ترجمہ: ” اگر وہ مفلس بھی ہوں گے تو اللہ انھیں اپنے فضل سے امیر بنادے گا۔“ (سورة النور 24 :32)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہےکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
ترجمہ: ” عورت سے چار چیزوں کے پیش نظر نکاح کیا جاتا ہے۔(1) اس کے مال (2) خاندان (3) جمال (4) اور دین کی وجہ سے۔ لیکن تم اس کے دین کو دیکھ کر نکاح کرکے کامیاب ہو۔ تیرے دونوں ہاتھ خاک آلود ہوں۔“ (صحیح بخاری : 5090)
(آخری فقرہ بطور تعجب استعمال ہوتا ہے)
رسول اللہ ﷺ نے نکاح کے لیے عورت کے انتخاب میں دین داری اختیار کرنے کا حکم دیا اور اس کے علاوہ کسی اور چیز کو معیار بنانے سے منع فرمایا ہے۔
امام غزالی رحمة اللہ علیہ نے اپنی معروف کتاب ” احیاء العلوم “ میں نکاح کے فوائد بیان کرتے ہوئے ان میں شیطان سے حفاظت اور پاکدامنی کو سرفہرست بیان کیا ہے۔
چناچہ آپ رقم طراز ہیں کہ
” التحصن من الشیطان وکسر التوقان ودفع غوائل الشھوة وغص البصر وحفظ الفرج.“
ترجمہ: ” (نکاح کے فوائد میں سے) شیطان سے بچاؤ، شہوت کا توڑ اوراس کے خطرے کا دور ہونا، نگاہوں کا پست ہونا اورشرم گاہ کی حفاظت (کا باعث) ہے۔“ (امام غزالی، احیاء العلوم)
مرد و عورت دونوں ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔ جبکہ مغرب کی ملحد سوسائٹی (godless society) اور کھلا ڈلا ماحول عورت اور مرد کو ایک دوسرے سے متصادم قرار دیتے ہیں، جہاں مرد غاصب ہے اور عورت کے حقوق کی پامالی کر رہا ہے۔ عورت مجبور ہے اور مرد اس کی مجبوری کا استحصال کر رہا ہے۔
وہاں نکاح کے بغیر جنسی تعلقات پر کوئی قدغن نہیں ہے بشرطیکہ وہ دونوں اس بات پر باہم راضی ہوں۔ آزاد خیالی و روشن خیالی کے نام سے وہاں ہر جائز و ناجائز کام اور چیز کو قانونی حیثیت حاصل ہے اور چرچ بھی اسکو سپورٹ کرتا ہے.
مشرق و مغرب کی اقدارو روایات ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ یہ بات ضروری نہیں کہ جو معاملہ اور کام مغرب میں درست تصور کیا جاتا ہو اور وہاں نافذ العمل ہو، وہ مشرق میں بھی قابلِ عمل اور قابلِ نفاذ ہو، بلکہ وہ الٹا نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے۔
لہٰذا کسی بھی معاملے میں مشرق کے معروضی حالات کو مد نظر رکھنا انتہائی ضروری ہے۔ خواتین کا عالمی دن منانے کے سلسلے میں بھی یہ بڑی اہم بات اور قابلِ غور معاملہ ہے۔ مشرق اور مغرب کی خواتین نہ صرف دین میں بلکہ دنیا کے لحاظ سے بھی ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ معاشرت، ثقافت، تہذیب و تمدن، اخلاق و کردار وغیرہ کے معاملے میں یہی صورت حال درپیش ہے۔
اہلِ مغرب اور مغرب زدہ لوگوں نے شادی بیاہ کو سماج میں کھیل تماشا بناکر رکھا ہوا ہے۔ وہاں نکاح اور بیوی ناپسندیدہ اور زنا اور گرل فرینڈ پسندیدہ ہیں۔ نکاح مشکل اور زنا آسان بنا دیا گیا ہے۔اور اب اسلامی معاشرے میں بھی یہی دجالی تہذیب نافذ کرنا ان کا مشن اور پروپیگنڈا ہے۔
اسلامی معاشرے میں عورت کا مقام ومرتبہ (status) مغربی معاشرے میں عورت کے مقام ومرتبے سے بالکل مختلف اور منفرد ہے۔ مغرب میں خواتین کے حقوق کا تحفظ ” اخلاقیات “ سے نہیں بلکہ اس کی ” افادیت “ (utility) سے کیا جاتا ہے۔ مثلاً مغربی معاشرے میں اگر کوئی شوہر اپنی بیوی سےحقوق زوجیت کی ادائیگی کا خواہش مند ہے تو مغرب میں وہ بیوی کی مرضی کے بغیر قانونی لحاظ سے وہ ایسا نہیں کرسکتا۔ مغربی ریاست اور قانون اس کے خلاف بیوی پر جنسی تشدد کے الزام میں تادیبی کاروائی کرسکتے ہیں۔
لیکن اسلامی معاشرے میں شوہر بیوی کی طرف سے انکار کی صورت میں (بغیر کسی شرعی عذر کے) شرعی حساب سے اس پر سختی کر سکتا ہے۔ اسی طرح بیوی کا بھی معاملہ ہے۔ کیونکہ عزت و عصمت کی حفاظت کے لیے یہ ان دونوں کا شرعی و قانونی حق ہے۔ بیوی شوہر کی اور شوہر بیوی کی جنسی خواہشات پوری کرنے کے پابند ہیں۔
یاد رہے کہ یہ شادی شدہ زندگی کا ایک پہلو ہے۔ محبت صرف ازدواجی تعلقات کا نام نہیں بلکہ محبت و مؤدت کا تقاضا یہ ہے کہ میاں بیوی ایک دوسرے کے حقوق و فرائض پورے کرنے والے ہوں اور ایک دوسرے کے لیے اس طرح لازم و ملزوم بن جائیں کہ دونوں کا ایک دوسرے کے بغیر گزارہ ممکن نہ ہو۔ اور دونوں ایک دوسرے کی عزت کے محافظ ہوں۔
عفت و آبرو کے تحفظ کے لیے قرآن وسنت کی ہدایات کومشعل راہ بنانا چاہیے اور ہمیشہ اللہ تعالٰی سے پاکدامنی اور عزت وعصمت کی دعا کرنی چاہیے۔
اللّٰم انا نسئلک الہدیٰ والتقی والعفاف والغنیٰ۔ (سنن ابنِ ماجہ: 3832)
ترجمہ: ” اے اللہ! ہم آپ سے سوال کرتے ہیں، ہدایت، تقویٰ اور پاکدامنی اورلوگوں سے بے پروائی مانگتا ہوں۔“
نکاح کا پاکیزہ اور لازوال رشتہ زوجین کے دلوں میں باہمی الفت ومحبت پیدا کرنے کا سب سے اہم اور نازک ذریعہ ہے!
نکاح کی وجہ سے انسان حیوانی زندگی سے بلند ہو کر اعلیٰ انسانی زندگی کی سطح پر آجاتا ہے!
مرد کے لیے اس کی نیک و صالح بیوی دنیا جہاں کی بہترین متاع بے!
اسی طرح بیوی بھی شوہر کے گھر کی مالکہ ہے!
وہ دونوں ایک دوسرے سے سب سے زیادہ استفادہ کر سکتے ہیں!
دونوں ایک دوسرے کے لیے انمول اور قیمتی تحفہ ہیں!
عزت وعصمت کے محافظ و نگہبان ہیں!
ایک دوسرے کے ایمان اور ذات کی تکمیل کا باعث ہیں!
زندگی کی رعنائی اور دلکشی کا سبب ہیں!
دکھ سکھ کے ساتھی ہیں!
آنکھوں کی ٹھنڈک ہیں!
دل کا سکون و سرور ہیں!
زوجین کو ایک دوسرے کے ابدی ساتھ اور سکون و قرار والی زندگی کے لیے کثرت سے یہ قرآنی دعا مانگنی چاہیے۔
ربنا ھب لنا من ازواجنا وذریتنا قرۃ اعین واجعلنا للمتقین اماما۔ (سورۃالفرقان 25 : 74)
” اے ہمارے رب! ہمیں ہمارے شوہروں اور اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما اور ہمیں پرہیزگاروں کا سردار و امام بنا دے۔“
2 پر “زندگی میں قرار و سکون کیسے حاصل کریں؟” جوابات
زبردست تحریر ہے.
پڑھ کر بہت اچھا لگا اورمعلومات حاصل ہوئیں.
بلاشبہ گھر کے سکون کے لیے میاں بیوی دونوں کے خوشگوار معاملات بہت اہمیت کے حامل ہوتے ہیں.