گلناز :
ابھی چند سال پہلے کی بات ہے جب خونی رشتوں میں مروت اور رواداری تھی، جب ایک ٹی وی پر پورا محلہ رشتہ داروں سمیت بیٹھا کرتا تھا اور کسی میں بھی تفریق نہیں کی جاتی تھی بلکہ کشادہ دلی اتنی تھی کہ روز آنے والے لوگوں کو آگے جگہ دی جاتی تھی اور گھر کے لوگ پیچھے بیٹھا کرتے تھے کہ مہمان ہیں اور مہمان کا اکرام تو ہماری اسلامی روایت کا حصہ ہے۔
گھروں میں عورتیں باقاعدگی سے بڑوں کے آنے پر سر پر دوپٹہ اوڑھتی تھیں اور بڑے بزرگ بھی ایسے کہ گھر تو کیا باہر آس پڑوس والے بھی عزت کیا کرتے تھے۔ ان کی شرافت اور نیک نامی اور فہم و فراست کی وجہ سے باقاعدہ ان کی اٹھنے بیٹھنے کی نشست کو صاف ستھرا رکھا جاتا تھا کہ ذکر و اذکار کے لئے جگہ کو پاک ، صاف اورستھرا رہنا چاہیے۔
گھروں میں نانیوں دادیوں کا راج تھا ، ان کی مرضی کے بغیر کوئی فیصلہ ممکن نہ تھا گو کہ ان بزرگوں نے کالجز سے تعلیم حاصل نہیں کی تھی لیکن وہ جہاندیدہ ، عقل و فہم میں پختہ اور اعلیٰ اخلاق و حیا کے پیکر تھے۔ پھر لوگوں نے دنیاوی تعلیم حاصل کر لی اور اصل تعلیم سے منہ موڑ لیا اور ڈگریاں حاصل کرنے لگ گئے ، لوگ ڈا کٹر بن گئے ، انجینئر اور بڑے بڑے آفیسر بنتے چلے گئے۔
مادیت نے ترقی کی تو ساتھ ہی خاندانی نظام کے لئے باد ناموافق چل پڑی ۔ اپنے سگے رشتوں کا خاندان ہی کمزور ہوتا چلا گیا ، گھرانے تقسیم ہو گئے ، فوجی کو الگ گھر مل گیا ، انجینئر اور ڈا کٹر کو الگ گھر مل گئے۔ آدھا معاشرہ خود مختار اور آدھا مشترکہ خاندانی نظام میں بہ امر مجبوری جڑا رہ گیا۔ اب جو بہو انڈیپنڈنٹ ہو گئی اس نے اپنے بچوں کو خودمختار بنا دیا اور وہ بچے اپنی زندگی کے ساتھ ساتھ ان روایات کے معاملے میں بھی آزاد ہوگئے جو باہم لوگوں کو جوڑ کر رکھتی تھیں ۔
بقیہ جن خاندانوں میں مروت تھی ، انھوں نے بزرگوں کی اطاعت کی لیکن جو اس نظام سے باغی ہوئے تو انھوں نے نہ خود بڑوں کی عزت کی اور نہ بچوں سے کروائی، یوں ہمارے خاندانی نظام میں دراڑیں پڑنا شروع ہو گئیں ۔ آج ہمارے معاشرے کا المیہ ہے کہ نہ تو بزرگوں میں سمجھ داری اور فہم و فراست رہی اور نہ بچوں میں تحمل و برداشت رہا۔
آج کی نانی تو بہت زیادہ پڑھی لکھی ہے بہ نسبت ہمارے زمانے کے لحاظ سے لیکن میں سمجھتی ہوں بزرگوں نے جو فصل بوئی ہے وہ کاٹنی تو پڑے گی ، بچوں نے جو دیکھا ہے وہ اتنا نہیں تو اس سے زیادہ ہی کریں گے۔ آج اس میڈیا وار میں آپ کو نانی دادی کا خوبصورت کردار کہیں بھی نظر نہیں آ رہا ، کچھ تو اس کردار میں اخلاقی کمی اور بہت زیادہ آزادی کی طلب نے معاشرے کو اس ڈگر پر ڈال دیا۔
اب ہر بندے کو ایسی آزادی چاہیے کہ کوئی اصلاح کرنے والا نہ ہو ، کوئی نصیحت کرنے والا نہ ہو۔ گو کہ کچھ خاندان ایسے بھی ہیں جہاں خاندانی استحکام ہے اور افراد خانہ پرانی روایات کے احترام کے ساتھ جی رہے ہیں لیکن یہ بہت کم ہے اور یہی فکر انگیز بات ہے۔ ورنہ ایک اسلامی معاشرے میں بوڑھے والدین جنت کا ٹکٹ ہوا کرتے ہیں نہ کہ ایسا بوجھ جنہیں سنبھالنے کے لئے اولڈ ہومز بنائے جائیں۔
یہ اولڈ ہومز دراصل ہمارے معاشرے کی اخلاقی گراوٹ ، دین سے دوری اور خدا خوفی کی کمی کا منہ بولتا ثبوت ہیں ، ورنہ کون اپنی جنت کو خود سے دور کر کے بد بختی مول لے گا۔ بلاشبہ ہمارا دین ہی افراد کی بہترین تربیت و تزکیہ کرتا ہے لیکن کوئی رجوع تو کرے ، ہم تو اس کو مدرسوں اور مولویوں کا ٹھیکہ سمجھ کر کنارہ کش ہو گئے اور اندھیرے ہمارا مقدر ہوئے۔ یہ سب میرا مشاہدہ ہے اور میری رائے ہے۔ آپ اس سے اختلاف کا حق رکھتے ہیں۔