طاہرہ بلال :
یہ تقریباً پچیس سال پہلے کا واقعہ ہے ۔ اتنے سال گزرنے کے بعد بھی وہ منظر میں بھول نہیں پائی۔ ہمارے بالکل ساتھ والا دو منزلہ گھر میرے چچا کا تھا۔ نیچے چچا اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ رہتے تھے اور اوپر کرایہ دار۔
گھر پرانی طرز کا بنا تھا۔ اطراف میں کمرے اور درمیان میں صحن۔ صحن کھلا تھا۔ پہلی منزل پر چونکہ مکمل گھر بنا تھا تو منڈیر بھی تھی۔ دوسری منزل کھلی چھت تھی۔ وہاں کوئی منڈیر نہ تھی۔ چچا کے گھر والے کبھی چھت پر نہ گئے اس لئے شائد کبھی منڈیر کی ضرورت نہ پڑی۔ صحن کھلا تھا ، ہوا اور دھوپ نیچے ہی آ جاتے۔ صحن میں ہی کچھ تاریں کپڑے سکھانے کی غرض سے باندھی ہوئی تھیں۔
یہ اوائل گرمیوں کے دن تھے۔اور شام کا وقت تھا۔ میں چچا کے ہی گھر ان کے برآمدے میں بیٹھی اپنی چچا زاد بہن جو بہن کم اور دوست زیادہ تھی اس کے ساتھ گپ شب میں مصروف تھی۔ چچی شاید کچن میں مصروف تھیں۔
اچانک ایک ذوردار دھپ کی آواز آئی۔ اور جو ایک لمحہ میں میں نے دیکھا کہ کپڑوں کو سکھانے کے لئے جو تار باندھی ہوئی تھی اسے کوئی چیز توڑتی ہوئی نیچے آ گری۔ اور یک دم شور مچ گیا۔ دوسرا منظر جو میری یاداشت میں محفوظ ہے وہ صحن میں بہتا ہوا بہت سا خون اور خون میں لت پت عابد۔
عابد ایک نو یا دس سال کا بچہ تھا جو دو گھر چھوڑ کو سامنے ایک گھر میں رہتا تھا۔ ایک دم بہت سے لوگ اکھٹے ہو گئے اور کوئی اسے اٹھا کر باہر کی جانب بھاگا۔
اور پھر چھت پر موجود بچوں نے بتایا کہ ایک کٹی پتنگ کے پیچھے عابد بھاگ رہا تھا کہ اچانک سے نیچے گر گیا۔ چھت سے چھت جڑے ہوئے تھے۔ گلی کے سب بچے ایک چھت سے دوسری چھت پر بھاگتے رہتے۔ اور پھر یہ واقعہ رونما ہو گیا۔
تین ماہ تک عابد ہسپتال میں زیرِ علاج رہا۔ اس حوالے سے آخری منظر جو میرے ذہن میں محفوظ ہے اور سب سے دردناک جب تین ماہ بعد وہ بچہ ہسپتال سے واپس آیا۔ اس کی شکل ہی بدل چکی تھی۔ وہ اپنے گھر کے دروازے کے پاس کھڑا تھا۔ پہلی نظر میں تو میں اسے پہچان ہی نہ پائی۔ ایک آنکھ کا سفید حصہ ابھی تک سرخ تھا ۔ چہرے کی ہیئت تبدیل ہو چکی تھی نہ جانے سوجن تھی یا ٹانکے لگے۔ بہرحال اس کے چہرے کو دیکھ کر خوف آتا تھا۔
مجھے بہت اچھی طرح یاد ہے۔ وہ لوگ 5 بہن بھائی تھے۔ اور عابد سب سے چھوٹا تھا۔ اور وہ لوگ وہاں کرائے پر رہتے تھے۔ میں چچی کے ساتھ کبھی کبھار ان کے گھر جایا کرتے تھی۔ عابد کی بڑی بہن اور والدہ مل کر اخبار کے چھوٹے بڑے لفافے بنایا کرتی تھیں۔ اور والد سائیکل پر وہ لفافے ایک ایک دکان پر جا کر فروخت کرتے تھے۔
آج سوچتی ہوں ان پر وہ وقت کتنا مشکل ہو گا۔ ایک طرف یہ ناگہانی آفت اور پھر جو وہ تین ماہ ہسپتال میں رہا ہو گا اس کا خرچ کیسے برداشت کیا ہو گا والدین نے۔
آج جب میرا بیٹا ڈور اور پتنگ کے پیچھے بھاگتا ہے تو دل دہل جاتا ہے۔ ایک دم آنکھوں کے سامنے وہ مناظر آ جاتے ہیں۔ اور میں اسے یہی سمجھاتی ہوں کہ یہ ایک خونی کھیل ہے۔ نہ جانے روزانہ کتنے عابد ایسے حادثات کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اور پھر والدین دہرے کرب سے گزرتے ہیں۔
حکومت کو چاہیے کہ وہ سختی سے اس پر پابندی عائد کرے۔ اور لڑکوں میں اس چیز کا شعور پیدا کیا جائے کہ یہ ایک خونی کھیل ہے۔