ڈاکٹر خولہ علوی :
آج میں قرآن مجید کی ایک آیت پر سوچ بچار کرتی رہی اور فکر و تدبر کے نئے در وا ہوتے چلے گئے۔ اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے۔
(لا تنسوا الفضل بینکم۔) (سورۃ البقرہ 2: 237 )
ترجمہ: ” تم باہمی معاملات میں فیاضی کرنا مت بھولو۔“
مذکورہ بالا آیت طلاق کے شرعی احکام ومسائل بیان کرنے کے بعد اللہ رب العزت نے میاں بیوی اور ان دونوں کے اہل خانہ کو مخاطب کرتے ہوئے ارشاد فرمائی ہے۔
میں حیران و ششدر رہ جاتی ہوں قرآن مجید کے اسلوب پر!
کتنی بڑی بات ہے! سونے کے پانی سے لکھنے کے قابل ہے!
تلقین بلکہ حکم ہے کہ طلاق ہوگئی لیکن سابقہ میاں بیوی اور ان کے اہل خانہ ایک دوسرے کے ساتھ حسن سلوک اور فضل وکرم سے پیش آئیں! سبحان اللہ!
قرآن مجید اپنے پڑھنے اور عمل کرنے والوں کو کتنا وسیع الظرف بنا دیتا ہے!
اگر اس حکم پر فریقین عمل پیرا ہوں تو یہ کتنے مسائل کا حل ہے!
اس میں کتنی آسانیاں ہیں!
دونوں خاندانوں کی بہتری ہے!
آگے مزید رشتے ناتے ہونے کی امید ہے!
معاشرے کے صبر و شکر کی جھلک ہے!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
طلاق کے حوالے سے سسرالی خاندانی کا ایک سبق آموز واقعہ پیش خدمت ہے۔
میرے ایک جیٹھ نے اپنی اہلیہ کو چند مسائل کی وجہ سے طلاق دے دی۔ اولاد نہیں تھی۔ طلاق کے بعد لڑکی کے اہل خانہ سامان اٹھانے کے لیے آگئے۔ میرے سسر نے اچھے طریقے سے ان سے ڈیلنگ کی، ان کی مہمان نوازی کی، سامان وغیرہ اٹھوانے میں ان کے ساتھ تعاون کیا، ان کا تمام سامان انہیں واپس کردیا، اپنی طرف کا بھی کوئی سامان نہ رکھا اورنہ واپس لیا۔
ہم نے ان دونوں میاں بیوی کی آپس کی صلح صفائی کے لیے بہت کوشش کی۔ لیکن تقدیر میں علیحدگی لکھی ہوئی تھی۔
” میرے بیٹے سے یا ہم سب سے طلاق کے معاملے میں جو بھی کمی کوتاہی ہوئی ہے، میں ان کے لیے آپ سے معذرت کرتا ہوں۔“ میرے سسر آنکھوں میں نمی لیے لڑکی کے والد سے کہنے لگے۔
” نہیں، نہیں۔ بلکہ میری بیٹی سے جو کمی کوتاہی ہوئی ہے، میں اس کے لیے آپ سب سے معذرت کرتا ہوں۔“ لڑکی کے والد بھی آبدیدہ ہوکر کہنے لگے۔
” ہماری بہن سے جو کمی کوتاہی ہوئی ہے، ہم اس کے لیے آپ سے معذرت کرتے ہیں۔“ لڑکی کے بھائی بھی افسردہ لہجے میں کہنے لگے۔
پھر میرے سسر نے لڑکی سے بھی بار بار معذرت کی اور معافی طلب کی۔ اور لڑکی نے بھی ان سے دلی معذرت کی اور معافی تلافی کی۔
بعد میں بھی دونوں خاندانوں نے ایک دوسرے کے لیے کسی قسم کے مسائل نہ بنائے اور نہ ہی ایک دوسرے سے کوئی خار رکھا۔
” ولا تنسوا الفضل بینکم “ کے حکم پر عمل درآمد کے ظاہری و باطنی فوائد بے شمار ہیں!
بلاشبہ باہمی معاملات میں فیاضی کرنا خیر و بھلائی کا باعث اور مسائل کے حل کا سبب ہوتا ہے!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عصر حاضر میں طلاق کے کیسز بڑھنے کی مختلف وجوہات ہیں مثلاً میاں بیوی میں انڈر سٹینڈنگ نہ ہونا،
قوت برداشت، صبر و تحمل، ایثار و قربانی کی کمی، سسرال والوں کو برداشت نہ کرنا، اپنی ذات، اپنی بات اور اپنے خاندان کو اہم سمجھنا اور دوسرے فرد یا اس کے اہل خانہ کی تذلیل کرنا وغیرہ بنیادی مسائل (factors) ہیں۔
اس کے علاوہ ایک اہم سبب جوانوں کی تاخیر سے شادی ہونا بھی ہے کہ اس صورت میں کمپرومائز اور مصالحت کے بجائے اپنی ذات اور پختہ عادات کو ترجیح دی جاتی ہے!
ایام گزشتہ میں ارد گرد سے طلاق کے واقعات یکے بعد دیگرے سننے میں آرہے تھے۔ ایک عزیز کی طلاق کا کٹھن اور پیچیدہ مرحلہ درپیش ہوا۔ دونوں اطراف کے لوگوں نے معاملے میں مکمل طور پر شریک رکھا۔ ہر فریق اور ان کے اہل خانہ اپنے آپ کو حق بجانب اور دوسرے کو غلط سمجھتے تھے۔
اور طلاق کے بعد وہ ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے میں کوئی کمی نہیں کررہے تھے۔ اب زندگی بھر ایک دوسرے کی دشمنی میں دونوں اپنے آپ کو سچا گردان رہے تھے۔
یہ صرف ایک واقعہ نہیں ہے!
بہت افسوس ناک اور تکلیف دہ بات ہے کہ عوام کی اکثریت کی یہی صورتحال ہے!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
” طلاق، طلاق، طلاق۔ میں نے تمہیں تین طلاقیں دیں۔“ ہمارے معاشرے میں عموماً لوگوں کا اپنی بیوی کو طلاق دینے کا طریقہ یہ ہوتا ہے۔
” میرا تم سے گزارہ نہیں ہو سکتا۔ تم نے میری زندگی عذاب بنا دی ہے۔ تم اپنے ماں باپ کے گھر چلی جاؤ۔ میں نے تمہیں آزاد کر دیا ہے۔“ شوہر بیوی کو طلاق دیتے ہوئے عام طور پر اس قسم کے الفاظ استعمال کرتے ہیں۔
” آپ لوگ اپنی بیٹی یا بہن کو آکر لےجائیں۔ میں نے اسے نہیں رکھنا۔“ کبھی شوہر بیوی کے باپ یا بھائی کو اچانک فون کرکے ان کے سروں پر بم پھوڑ دیتے ہیں۔
” میرا یہاں گزارا نہیں ہے۔ آپ لوگ مجھے آکر لے جائیں۔“ کبھی بیوی اپنے باپ بھائی کو فون کرکے کہہ دیتی ہے۔
تقریباً نوے فیصد گھرانوں میں علیحدگی کے بعد فریقین ایک دوسرے پر یہی الزامات لگاتے ہیں۔
اگر لڑکے نے طلاق دی ہو تو اس کے گھر والوں کے خیال میں ساری غلطیاں لڑکی کی ہوتی ہیں۔
اسی طرح اگر بیٹی کو طلاق ہوئی ہے تو اہل خانہ کے خیال کے مطابق ساری غلطیاں لڑکے کی تھیں۔
اس کے علاوہ سسرال والے بھی ” وجہ فساد “ سمجھے جاتے اور پھر زیر عتاب ہوتے ہیں
دونوں طرف سے شخصی، ذہنی و نفسیاتی، جسمانی، اخلاقی اور کردار وغیرہ کے عیوب اور غلطیاں نکالی جاتی ہیں۔
اس کے بعد دونوں خاندان ایک دوسرے کے دائمی مخالف بلکہ دشمن بن جاتے ہیں اور نسلوں تک دشمنی کا یہ سلسلہ منتقل کرتے رہتے ہیں۔
حالانکہ طلاق کا مطلب یہ ہے کہ میاں بیوی کا آپس میں گزارہ نہیں ہو سکا تھا تو وہ ایک دوسرے سے علیحدہ ہو گئے۔ لیکن اس کا یہ معنی ہرگز ہرگز نہیں ہے کہ اب دونوں خاندان نسلوں اور صدیوں تک ایک دوسرے کے دشمن کا کردار ادا کرتے رہیں۔
” لا تنسوا الفضل بینکم “ کا حکم اور تلقین تو کہیں پیچھے رہ جاتے ہیں!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اول تو طلاق اللّٰہ کے نزدیک حلال مگر ناپسندیدہ عمل ہے۔ اگر زوجین کا آپس میں گزارہ ممکن نہ ہو اور وہ ایک دوسرے کے حقوق وفرائض ادا نہ کر رہے ہوں یا ان کی ادائیگی میں کوتاہی کے مرتکب ہوں تو پھر مرد کو بیوی کو طلاق دینے کی اجازت دی گئی ہے۔ اور بیوی کو خلع کا حق دیا گیا ہے۔
لیکن شرعی طریقے سے مرد کے لیےطلاق دینا ضروری ہے جس میں اللّٰہ تعالٰی عدت کے دوران بیوی سے رجوع کرنے کے مواقع عطا فرماتا ہے جبکہ غیر شرعی طریقے میں سیدھی علیحدگی (cut off) اختیار کرلی جاتی ہے۔ جس سے رجو ع کا راستہ بند ہو جاتا ہے۔ اور پھر مسئلے کا حل کرنے کے لیے نکاح ثانی کی خاطر حلالہ کا راستہ کھول لیا جاتا ہے جو گناہ کبیرہ اور سختی سے حرام ہے۔
قرآن وسنت کی رو سے طلاق دینےکا اختیار شوہر کو حاصل ہوتا ہے۔ اگر شوہر کسی اور فرد کو اپنی طرف سے طلاق کا اختیار دے دے تو وہ بھی مختار بن جاتا ہے۔ طلاق دینا پسندیدہ کام نہیں ہے۔ لیکن بعض مواقع پر اس کے بغیر چارہ نہیں ہوتا۔ لہٰذا شریعت نے بحالت مجبوری طلاق دینے کی اجازت دی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اللہ تعالٰی کا حکم یہ ہے کہ جب تم مرد اپنی بیویوں کو طلاق دو اور وہ اپنی عدت مکمل کرنے والی ہوں تو اب اگر تم رجوع کرنا چاہو تو انہیں اچھی طرح بساؤ اور رجوع کے بعدان سے اچھا سلوک رکھو یا بھلائی کے ساتھ انہیں الگ کر دو۔ (سورۃ البقرہ2 : 229)
بھلائی کے ساتھ رخصت کرنے کا مطلب یہ ہے کہ تم ان کا حق مہر نہ روکو، نہ ہی انہیں برا بھلا کہو، نہ ان کی کردار کشی کرتے ہوئے ان پر الزام و بہتان لگاؤ وغیرہ۔
اگر شوہر کا رجوع کرنے کا ارادہ ہے تو وہ اچھائی کے ارادے سے بیوی سے رجوع کرے۔ یعنی گھر بسانے کی نیت ہو نہ کہ تنگ اور پریشان کرنے کی۔ (البقرہ2 : 231)
جیسے زمانہ جاہلیت میں شوہر اپنی بیوی کو بار بار طلاق دیتا اور بار بار رجوع کرتا رہتا تھا۔ اس طرح نہ اسے بساتا تھا اور نہ اسے آزاد کرتا تھا۔
اگر شوہر نے بیوی کو چھوڑ دینا ہو تو جو کچھ اس کو پہلے دے دیا تھا، تو اس میں سے کچھ بھی واپس لینا مرد کے لیے حلال نہیں ہے۔ (سورۃ البقرہ 2 : 229)
یعنی حق مہر اور تحائف، نقد رقم، زیورات، موبائل، زمین، گھر وغیرہ واپس لے لینا یا چھین لینا وغیرہ ناجائز ہے۔
قانون شریعت کے مطابق طلاق کے مسائل حل ہونے چاہییں۔ ان کو مذاق بنانا یا ہنسی کھیل سمجھنا سخت گناہ ہے۔ بعض لوگ مذاق میں، طنز سے یا کھیل کھیل میں بیوی کو طلاق دے دیتے ہیں لیکن اس کی سخت ممانعت ہے۔
کیونکہ نکاح وطلاق کے معاملات ہنسی مذاق نہیں ہوتے۔ اسلامی شریعت کے مطابق ہنسی مذاق میں بھی طلاق دینے سے طلاق واقع ہو جائے گی۔
ہمارے معاشرے میں مرد شرعی احکامات سے ناواقفیت کی وجہ سے طلاق دینے کا غلط طریقہ اختیار کرتے ہیں، پھر دوبارہ گھر بسانے کے لیے حلالہ کا راستہ نکالتے ہیں۔
حلالہ یہ ہوتا ہے کہ عورت یہ نیت رکھے کہ وہ وقتی طور پر کسی دوسرے شخص سے نکاح کرے گی اور پھر ازدواجی تعلقات کے بعد ایک دو دن بعد طلاق لے لے گی تاکہ وہ پھر سابقہ شوہر سے شادی کر سکے۔ یہ حرام اور گناہ کبیرہ ہے۔
اب اگر عورت گھر بسانے کی نیت سے دوسرے شخص سے شادی کرتی ہے لیکن اسے اتفاقی طور پر کچھ عرصے بعد طلاق ہو جاتی ھے یا اس کا دوسرا شوہر فوت ہو جاتا ہے تو عدت گزارنے کے بعد اب وہ اپنے پہلے شوہر سےدوبارہ نکاح کر سکتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اللہ تعالٰی نے شوہر کو ” قوام “ (یعنی نگہبان، منتظم) بنایا ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ اپنے گھر والوں کے سامنے بیوی یا اس کے والدین کو باتیں سنائیں، گالیاں دیں، انسلٹ کریں۔ یا اسے مار پیٹ کریں۔ یا شوہر اور سسرال والے مل کر اسے ذلیل کریں۔ اور اسے پریشان کریں۔
بعض اوقات تو شوہر بغیر کسی وجہ کے خوامخواہ عورتوں کی طرح لڑائی جھگڑا شروع کر دیتے ہیں۔ اور جب تک اگلی پچھلی باتیں بیوی کو سنا نہ لیں، انہیں چین نہیں آتا۔
لوگوں کی اکثریت طلاق ثلاثہ، یعنی ” طلاق، طلاق، طلاق “ کے علاوہ کچھ نہیں جانتی۔ وہ طلاق کے شرعی مسائل سے لاعلم ہوتے ہیں اور طلاق دیتے وقت کسی عالم سے مشورہ لینے کی بجائے بس غصے میں آکر بیوی کو طلاق دے کر اس کے ماں باپ کے گھر بھیج دیتے ہیں۔
پھر طلاق کے کچھ عرصے بعد انہیں ہوش آتا ہے کہ یہ میں نے کیا کر دیا؟ اب بچوں کا کیا بنے گا؟ گھر کا انتظام کیسے چلے گا؟
پھر شوہر صلح کرنا چاہتے ہیں لیکن اتنی ذلت اٹھانے کے بعد بیوی کے باپ بھائی صلح کا پیغام سننےکو تیار نہیں ہوتے۔
کئی مطلقہ (طلاق یافتہ) خواتین بتاتی ہیں کہ طلاق کے بعد ہمارے گھر والوں نے ہمارا ساتھ دیا، اور ہمیں سنبھال لیا۔ ہمیں بوجھ نہیں سمجھا۔ اب اگر ہم نے اپنے گھر والوں کی مرضی کے بغیر شوہر سے رجوع کر لیا (صلح کر لی) تو پھر اگر دوبارہ کوئی مسئلہ پیدا ہوا تو گھر والے ہمارا ساتھ نہیں دیں گے۔ پھر ہمارا کیا بنے گا؟ پھر ہم کہاں جائیں گی؟
شوہر اور سسرال والوں نے ہمیں ہمیشہ پریشان اور ذلیل کیا ہے۔ اب ہم ان کی خاطر والدین اور بھائیوں کی مرضی کے خلاف کیسے قدم اٹھا سکتی ہیں؟
بعض اوقات لڑکی والے صلح صفائی اور رجوع کرنا چاہتے ہیں لیکن مرد دوبارہ انہیں اپنے گھر میں بسانے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صلح صفائی کی تمام کوششوں کے باوجود اگر زوجین کا رشتہ ختم ہوگیا تو یہ علیحدگی ان کی تقدیر میں لکھی تھی۔ فریقین اس کو قبول کرلیں اور ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے کے بجائے آئندہ زندگی کی بہتری کی طرف توجہ دیں۔
زوجین گزشتہ ناکام ازدواجی زندگی کے تلخ تجربے سے سبق حاصل کرکے اپنی غلطیاں دور کرنے کی کوشش کریں۔ اور ان کے اہل خانہ بھی ان کا غیر اخلاقی ساتھ دینے کے بجائے صرف فریق ثانی کو طلاق کا ذمہ دار نہ ٹھہرائیں۔ بلکہ اپنے بچوں کی غلطیوں کا ادراک اور اعتراف کرتے ہوئے انہیں سمجھائیں بجھائیں۔ تاکہ وہ آئندہ کامیاب ازدواجی زندگی گزارنے کے قابل بن سکیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
طلاق کے مسائل کے حل کی بہتری کے لیےچند تجاویز
جب لوگ طلاق کے شرعی احکام ومسائل سے آگاہ ہوتے ہیں تو وہ حیران رہ جاتے بلکہ سر پکڑ کر بیٹھ جاتے ہیں کہ طلاق کے شرعی احکامات میں فریقین کے لیے کتنی آسانی اور بہتری ہے! لیکن لوگوں نے ان کو معاشرے میں کس طرح غلط طریقوں سے رائج کیا ہوا ہے۔ اور اپنے لیے کتنی مشکلات کھڑی کی ہوئی ہیں!
اس معاملے کی بہتری کے لیے چند تجاویز درج ذیل ہیں :
1) والدین اولاد کی شادی کی باقی تیاریوں کے ساتھ ساتھ شادی سے ایک دو ہفتے پہلے خصوصی طور پر دلہا اور دلہن کی تربیت خود کریں یا کسی سمجھ دار متعلقہ (پیشہ ورانہ یا غیر پیشہ ورانہ) فردسے کروائیں اور شوہر کی اطاعت وخدمت، سسرال والوں سے صلہ رحمی اور اچھے تعلقات رکھنا، شادی شدہ زندگی میں پیش آئند دیگر متوقع مسائل اور ان کے حل سے انہیں واقف کروائیں۔
2) شادی کے بعد بھی میاں بیوی کی اکٹھی رسمی یا غیر رسمی کاؤنسلنگ (جیسے ممکن ہو) کروائیں تاکہ ان کی ایک دوسرے کے ساتھ نئی زندگی آسان اور خوشگوار ہو اور نئے معاملات و مسائل کا حل بھی ہو۔
بیٹیوں کے علاوہ بیٹوں کی تربیت کا معاملہ بھی بہت اہم ہے جس کی طرف والدین عموماً توجہ ہی نہیں دیتے۔
3) پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر طلاق کے شرعی احکام ومسائل عام فہم انداز میں بیان کیے جائیں۔
ڈراموں، فلموں، ویڈیو کلپس اور لطیفوں میں ساس بہو، داماد اور سسر اور دیگر سسرالی افراد کی روایتی سیاست، مکاریوں اور چالاکیوں کے بجائے زوجین کے باہمی تعلقات، سسرال والوں سے بنا کر رکھنا، صبر و تحمل، قوت برداشت، ایثار و قربانی، صلہ رحمی، اور خاندان کے ایک ایک فرد کی اہمیت کو اجاگر کیا جائے۔
بہو کو بھی بےچاری، نوکرانی اور ملازمہ بنانے اور دکھانے کے بجائے گھر کی بہو کی عزت و اہمیت دی جائے۔ اور گھر کے ایک مستقل باعزت فرد کی حیثیت سے اس کا مثبت اور متوازن کردار دکھایا جائے۔
4) علمائے کرام اور خطیب حضرات منبر ومحراب سے درس اور جمعہ کے خطبات میں طلاق کے احکام ومسائل پر روشنی ڈالتے ہوئے ان شرعی احکامات کو واضح کریں۔ تاکہ عوام کو ان کے بارے میں صحیح مسائل کا علم ہو۔ اور معاشرے میں طلاق کی بڑھتی ہوئی شرح میں کمی واقع ہو۔
2 پر “طلاق ایک امر ناخوشگوار” جوابات
ماشاء اللہ بہت اعلیٰ
حقیقت پر مبنی معاملات ہیں.