خوبانی کے درخت پر خوبانیاں

زندان کے مکین

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

سائرہ نعیم / کراچی :

کمرے کے وسط میں فرانسیسی طرز کی بنی لمبی کھڑکی کے سامنے بے چینی سے جھولا کرسی پر جھولتے وہ پانی کا پورا جگ خالی کر چکی تھی۔ آج آنکھیں بھی باغی ہورہی تھیں اور لگتا تھا دل بھی مکمل ساتھ دینے پر آمادہ ہے۔ ہاتھ میں پکڑے لفافے کو دیکھتے سوچ کا طائر اسے چھوٹی سی میرم روشانہ کے پاس لے گیا جب ایک دن ڈیڈی شلوار قمیض پر خوبصورت پشاوری چپل پہنے اسے بہت شاندار لگے تھے۔

” ڈیڈی اتنی ایلیگنٹ سینڈل کہاں سے لی؟ “ ستائشی نظروں سے پوچھے گئے سوال پر ڈیڈی نے ایک قہقہہ لگاکر اسے گود میں اٹھایا ۔
” یہ پاکستان سے آئی ہے، تم کو چاہئے؟ “
” وائے ناٹ ڈیڈی “ ایک ادا سے جواب دیا گیا۔
” میں اپنی میرم روشانہ کے لئے اس سے بھی شاندار سینڈل منگواؤں گا “۔

ڈیڈی نے اس کا بوسہ لیا اور اس کی ماں کے پاس اسے بٹھاتے ہوئے بولے :
” تمہیں بھی پاکستان سے کچھ منگوانا ہو تو بتادینا، جنرل کل جارہا ہے“۔
” میں کیا منگواؤں؟ یہاں تو سب ہی مل جاتا ہے۔ بلکہ آپ کشمیری شال بھجوا دیں اپنے دوستوں کو۔“ ماہ رخ نے مشورہ دیا۔

” ہاں یہ ٹھیک رہے گا، ابھی جنرل کے ساتھ میٹنگ ہے، لنچ بھی ادھر ہی ہے۔ سر شام واپسی ہوگی“۔انہوں نے جواب دیا۔ پھر اپنی ماں کو سلام کرکے میر شہباز حبیب باہر نکلے، باغ میں میر عبدالحق کو کھیلتا دیکھ کر مسکراتے ہوئے فور وہیلر میں روانہ ہوگئے۔

میرم روشانہ کا پاکستانی ناگرہ جوتے اور پنجاب کے کینو سے دل میں اگا محبت کا نازک سا پودا اتنا بڑھا کہ پورے پندرہ دن پاکستان کی سیر کرکے بھی تشنگی رہی۔
” مما کیا ہم یہاں ہمیشہ کے لئے رہ سکتے ہیں؟ “۔ واپسی پر اداس لہجے میں اس نے والدہ سے پوچھا :
” تم کو یہ جگہ اتنی پسند آگئی؟“ مما نے مسکرا کر جواب دینے سے گریز کیا اور اس کی چھوٹی بہن کے لئے بسکٹ کا ڈبہ کھولنے لگیں۔ پھر وہ میر عبدالحق کی جانب متوجہ ہوئیں ۔
” ڈائری لکھ لی تم نے؟ “۔
” ہاں کچھ نکات لکھے ہیں۔“ اس نے ڈائری ماں کی طرف بڑھائی ۔

وہ وقت بھی آیا جب پورا خاندان انگلستان منتقل ہوگیا اور وہ دہلی۔ ” میں تمہیں فورس نہیں کررہا لیکن تم وہاں زیادہ اچھی تعلیم حاصل کرسکتی ہو“۔
جانے سے ایک ہفتے قبل کھانے کی میز پر میر شہباز نے اسے ساتھ چلنے کے لئے غالباً آخری کوشش کرنی چاہی تھی۔
” میں نے اعلیٰ تعلیم حاصل کرلی ہے ۔“ روشانہ مسکراتے ہوئے پلاؤ کباب کی طرف متوجہ تھی ۔

” ہم نہ سہی، بعد کی نسلیں جب آزاد فضاؤں میں سانس لیں گی تو یقیناً ہماری روحیں سرشار ہونگیں۔ “ گلاس لبوں سے لگائے وہ ڈیڈی کو دیکھ رہی تھی۔
” کس کی آزادی کی بات کرتی ہو بیٹی؟“ وہ تلخی سے مسکرائے
” اور آزاد ہوکر کریں گے کیا ؟ پاکستان جائیں گے؟ جہاں کے حکمرانوں نے کبھی اس جنگ میں اپنے ساتھ کا یقین نہیں دلایا بلکہ سرحدوں پر باڑ لگادی؟ تاکہ ہم چاہیں بھی تو مل نہ سکیں؟“ وہ تلخی سے بولے تھے۔ دکھ کے احساس نے جانے کیا یاد دلایا تھا، بے اختیار ان کی نظریں سامنے دیوار پر لگی اپنے ماں باپ کی تصویر پر ٹک گئی تھیں۔ چندلمحوں بعد گہرا سانس لے کر وہ بولے:

” خیر تمہاری چوائس ہے لیکن اپنے آپ کو قابل بناؤ تاکہ نتیجہ خیز کام کرسکو“۔ وہ نیپکن سے منہ ہاتھ صاف کرتے اٹھ گئے تھے۔
” میرا ضمیر گوارا نہیں کرتا ڈیڈی کہ اپنی پیاری وادی کے پیارے لوگوں سے دور قابلیت ڈھونڈتی رہوں اور یہ اکیلے ہی مسائل کا سامنا کریں۔“ روشانہ کا لہجہ مضبوط تھا۔
”آپ لوگ دعا کریں کہ میں اس قابل بن جاؤں۔“ اس نے مسکرا کر ڈیڈی کو دیکھتے ہوئے مما کا ہاتھ تھاما۔
” ہماری دعا ہے کہ خدا تمہیں عقل دے۔“ سنجیدہ لہجے میں کہتے وہ مڑ چکے تھے۔ وہ دن اس موضوع پر گفتگو کا آخری دن تھا۔

” مجھے یہ خوبانی کا درخت بہت یاد آئے گا، آپ اس کی پکچرز ضرور واٹس ایپ کرتی رہیے گا۔“ شرارتی لہجے میں میرم رومانہ نے کہتے شاید ماحول کی تلخی کم کرنے کی کوشش کی تھی۔

دو سال کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد دہلی سے کشمیر آئے ہوئے ایک ماہ ہونے کو تھا،اخبار ” کشمیر فرنٹ “ کی اسسٹنٹ ڈائریکٹر کی پوسٹ پر فائز ہونے کے بعد اسی خوبانی کے درخت کے نیچے کھڑے ہوکر اس نے اپنی تصویر Both of “ us ” love and miss you کے کیپشن کے ساتھ میرم رومانہ کو بھیجی تھی۔

عوام میں آزادی کا بڑھتا ہوا جوش اور معاشرے کے اکابرین اور لیڈرز کا رویہ اسے بے چین رکھتا۔ وہ معاشرے کے پسے ہوئے طبقے اور بے حس حکمرانوں کے خلاف آواز اٹھاتی ۔
” تمہارا مضمون آج انڈیا ٹوڈے میں لگا ہے۔“ میر عبدالحق کا پیغام موصول ہوا۔
” بہت خوب! لیکن یار ذرا ہاتھ ہلکا رکھو!۔“ پیغام پڑھ کر وہ اداسی سے مسکرائی۔ لیڈرز کی خاموشی اور عوام کی پذیرائی۔ ہر شخص اپنی دکان سجائے اپنی پروڈکٹس بیچ رہا ہے، اور عوام اپنے خواب انہیں سونپ کر مطمئن ہوگئے ہیں۔

” لوگوں کو نیند سے بیدار کرنے کے لئے ذرا سخت ہاتھ رکھنا پڑتا ہے۔“ اس نے جواب دیا ۔
” جب بنیادی حقوق سلب کئے جارہے ہوں اور ظلم و ستم اس حد تک بڑھ جائے کہ زندہ رہنا بھی جرم بن جائے تو دماغ اور آنکھوں کی بیداری ناگزیر ہوجاتی ہے“ ۔ وہ افسردہ تھی۔
” یار میں سمجھتا ہوں کہ آپ خود شانت رہیں گے تو ہی کسی کی مدد کرسکتے ہیں، جیسے آکسیجن ماسک پہلے خود پہن کر پھر دوسروں کو پہننے میں مدد دو“۔ یو کے کا تعلیم یافتہ کشمیری عبدالحق اپنے خیالات کا اظہار کررہا تھا۔

” تم نے پہن لیا نا ماسک! اب اپنے لوگوں کے لئے انتظام کرو۔“ روشانہ ہنسی۔
” کیوں نہیں!“ عبدالحق کھلے دل سے مسکرایا۔
” لیکن میری بہن تو ماسک لگانا ہی نہیں چاہ رہی“ ۔
” جب آکسیجن کی طلب زیادہ ہو تو ماسک کی نہیں سیلنڈر کی ضرورت ہوتی ہے بھائی“ ۔ روشانہ ہار ماننے والی کہاں تھی۔

مزاحمتی تحریکیں اپنے عروج پر تھیں، بھارت میں مودی مسلط ہوچکا تھا۔ میرم روشانہ نے کشمیر کا مقدمہ ہر سطح پر اٹھایا تھا۔ اس کی جان اپنے وطن کی امانت تھی اور خطے کے لوگوں کو امن دینا اس کا مشن ٹھہرا تھا۔ فارن فنڈنگ اس نے اپنے وطن کے جانبازوں کے نام کر رکھی تھیں ۔ اس صدی لوگوں کو منزل تقریباً قریب دکھائی دینے لگی تھی اور سیاسی پارٹیاں بھی بادل ناخواستہ ایک دوسرے کا ساتھ دینے پر آمادہ دکھائی دے رہی تھیں کہ دہلی حکام نے خطرے کی بو محسوس کرتے ہوئے بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 کے مطابق کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرکے موت کا فرمان جاری کردیا۔ کشمیر کو بیرونی دنیا سے کاٹ دیا گیا تھا۔

14 ماہ سے حسین وادی بدترین جیل خانے میں تبدیل ہوچکی تھی۔ فون،انٹرنیٹ سروس سب ہی بند تھا۔ میر شہباز نے اپنے ریسورسز استعمال کرکے اس کی دہلی سے لندن روانگی کا انتظام کردیا تھا۔ کسی خفیہ ذریعے سے آج یہ انولپ اسے موصول ہوا تھا جس میں دہلی پہنچنے سے لے کر لندن پہنچنے کا سارا پروگرام درج تھا۔

” مجھے راستے میں موت آگئی تو مفرور لکھی جاؤں گی ، ناقابل معافی مجرم جو میدان جہاد میں پیٹھ موڑ گیا اور میرا وطن جب پوچھے گا میرم روشانہ ہم پر مصیبت آئی تو تم ہم کو تنہا کر گئیں؟“ وہ سوچتی چلی گئی

” نہیں ، نہیں مجھ سے نہیں ہوگا ۔۔۔ یا اللہ مجھے حوصلہ دے، میرے وطن اور ہم وطنوں پر رحم فرما۔“ آنسوؤں کا دریا الہ العلمین کے سامنے فریاد کناں تھا۔
” ڈیڈی! ایک بار پھر معذرت! زندگی رہی تو ضرور ملیں گے ورنہ آخرت میں ملاقات ہونی ہی ہے“۔ دونوں ہاتھوں میں چہرہ چھپائے گریہ جاری تھا۔

فجر کا وقت ہوچکا تھا۔اس نے اٹھ کر نماز ادا کی۔ عرصہ ہوا وادی میں اذان کی آواز بھی نہیں گونجتی تھی۔ دروازے پر دستک ہوئی اس کی برسوں پرانی ملازمہ آئی تھیں ۔
” آجائیں اماں“ اس وادی زندان میں وہی دونوں ایک دوجے کے غم گسار ٹھہرے تھے۔
” آج لگتا ہے تم جاگتی رہی ہو ساری رات؟ “ وہ چائے سائڈ ٹیبل پر رکھتی ہوئی کھڑکی کے پاس آ کھڑی ہوئیں۔
” ہاں کچھ حساب کرنے بیٹھی تو وقت کا پتا ہی نہیں چلا، کیا آپ بھی نہیں سوئیں؟“ روشانہ نے جانماز تہہ کرتے ہوئے پوچھا۔

” میری نیند تو عرصہ ہوا بیٹا مجھ سے روٹھ چکی ہے ، کبھی بھولے بسرے آگئی تو آگئی ورنہ دل کے بے آباد خطے اودھم مچائے رکھتے ہیں“ ۔ جمیلہ اماں ساٹھ سال کے لگ بھگ صحت مند خاتون اور شہداء کی وارث تھیں۔
” جب بھی تمہارے کمرے کی طرف نظر پڑی روشنی نظر آئی“،وہ روشانہ کی جانب مڑیں۔
” بیٹا اب کیا ہونے والا ہے؟ کیا ہم اسی طرح بے یارومددگار وادی کے دامن میں مر کھپ جائیں گے اور دنیا ہمارا تماشا دیکھے گی؟“ وہ آنکھوں پر ڈوپٹہ رکھے سسکیاں بھرنے لگیں ان کا پورا جسم کانپ رہا تھا۔ روشانہ کے تسلی بھرے الفاظ کب کے مر چکے تھے ۔ مایوسی اور خوف کے بڑھتے طوفان نے بقا کی آرزو تیز کردی تھی ۔

” نہیں اماں! اللہ۔۔۔ اللہ ہے نا ہمارا مالک! “۔ اس کے منہ سے بمشکل ادا ہوا ” وہ ۔۔۔ وہ مدد کرے گا ضرور! مظلوم کی آہ عرش تک بغیر کسی رکاوٹ کے جاتی ہے اماں!“ اس کے بازو جمیلہ اماں کے گرد حمائل ہوگئے۔
” بس ایک ہی زوردار ڈانٹ پڑے گی اور زندگی کے شرارے بجھ کر رہ جائیں گے“۔ اس کے ذہن میں قرآن کی آیت گونجی۔ لمبی کھڑکیوں سے آتی نرم دھوپ کی روشنی کمرے میں پھیل رہی تھی۔گویا آزادی کی امید غالب ہورہی ہو۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں