خیرالنساء مریم :
تربیت اولاد کے سلسلے میں والدین کو چاہئے کہ بر وقت اور موثر حکمت عملی اختیار کر یں۔ اس سلسلے میں والدین کا متوازن رویہ بہت بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ والدین کے مختلف رویے اولاد کی شخصیت پر مختلف انداز میں اثر انداز ہوتے ہیں۔ جن والدین کو بر وقت اپنی ذمہ داری کی حساسیت کا احساس ہو جاتا ہے وہ اپنی اولاد کی تربیت بہترین خطوط پر کرسکتے ہیں ۔
جولوگ ڈانٹ پھٹکار اور مار پیٹ کو ہی تربیت کا ذریعہ سمجھتے ہیں وہ نا سمجھی میں اپنے اور اپنے بچوں کےدرمیان ایک فاصلہ پیدا کر لیتے ہیں۔ ان کا یہ رویہ اولاد کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں کو کمزور کرنے کا باعث بنتا ہے۔ دیکھا گیا ہے کہ عام طور پر ایسے بچے اپنے معمولات زندگی میں جلد مسائل کا شکار ہو جاتے ہیں۔ یہ بچے زندگی میں آنے والی چھوٹی چھوٹی الجھنوں کو حل کرنے کا حوصلہ نہیں رکھتے۔ ان بچوں کے دل میں ماں باپ کے لئے ایک فطری محبت کا جذبہ تو موجود ہوتا ہے جو کہ قدرت کی طرف سے ودیعت کردہ ہے لیکن اپنے اور والدین کے درمیان وہ مضبوط بانڈ بنانے میں ناکام رہتے ہیں جس کو مثالی کہا جا سکے۔
تجربات و مشاہدات کی روشنی میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ جو والدین اپنے بچوں کو طنز وطعن اور ہر وقت کی بےجا روک ٹوک کی بجائے اپنے عمل کے ذریعے آداب زیست سے متعارف کرواتے ہیں ان کے بچوں کی شخصیت میں ایک توازن اور ٹھہرائو ہوتا ہے۔ ان بچوں نے اپنے گھر میں والدین کو جن اخلاقی اقدار کی پابندی کرتے دیکھا ہوتا ہے وہ خود بخود ان کو اپنانے لگتے ہیں۔
مثال کے طور پر اگر گھر کا ماحول با حیاء ہے تو بچپن میں ہی بچے کے ننھے منے ذہن میں حیاء کا وسیع تصور رچ بس جائے گا۔ پھر بار بار بچے کو ٹوکنا نہیں پڑے گا کہ یہ لباس شرعی تقاضوں کے متقاضی ہے ،یا اسے کس طرح کی محافل سے اجتناب کرنا چاہئے یا کون سے عوامل اس کی حیاء کو ضرب لگا سکتے ہیں ۔
اسی طرح اگر وہ دیکھتا ہے کہ اس کے گھر میں نظام صلاۃ قائم ہے تو وہ خود بخود نماز کا پابند ہو جائے گا۔ جو بچے اپنے والدین میں الفت اور محبت بھرے تعلق کا مشاہدہ کرتے ہیں وہ مل جل کر رہنا سیکھ جاتے ہیں ۔
مندرجہ بالا بحث کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ بچوں کو زبان سے کچھ نہ سکھایا جائے بلکہ وقتاً فوقتاً بچے کو اسلامی اقدار اور تہذیب ضرور بتائیں، اپنی تاریخ سے متعارف کروائیں، اسلاف کے قصے سنائیں ،قرآن و سنت کے طریقے سکھلائیں، اچھے برے کی تمیز سکھائیں۔
قابل اعتراض بات یہ پے کہ بچے کی عین موقع پر بے عزتی کر دی جائے یا دوسرے لوگوں کے سامنے اس کی تذلیل کی جائے۔ اس کے نتیجے می بچے میں جارحانہ اور باغیانہ پن پیدا ہوتا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ بچہ والدین سے دور ہوتا جاتا ہے۔ اس طرح کے والدین اکثر شکایت کرتے نظر آتے ہیں کہ ہمارے بچے ہمیں وقت نہیں دیتے یا ہم سے کتراتے ہیں ۔ایسے بچے غلط مشاغل کی طرف جلد مائل ہوتے ہیں یا پھر اپنی ذات اور ہر قریبی رشتے سے بھروسہ کھونے لگتے ہیں ۔ یہ زندگی کو بھرپور انداز میں جینے کے قابل نہیں رہتے۔ ان کی تخلیقی صلاحیتیں ختم ہو جاتی ہیں ۔
جبکہ ایک دوسری انتہاء یہ ہے کہ والدین بچے کو شتر بے مہار کی طرح بالکل ہی آزاد چھوڑ دیں۔ ایسے والدین بھی بچوں کے ساتھ زیادتی کرتے ہیں۔ بچے نا سمجھ ہوتے ہیں ان کو سنوارنا آپ کی ذمہ داری ہے۔ اگر آپ کے اس غیرذمہ دارانہ رویے کے باعٹ بچے کا اخلاق وکردار متاثر ہوتا ہے تو آپ سے اس کی جواب دہی کی جائے گی۔ ارشاد باری تعالی ہے کہ:
” یا ایھاالذین امنو اقوا انفسکم امواھلیکم نارا“
” اے ایمان والو تم خود کو اور اپنے گھر والوں کو دوزخ کی آگ سے بچائو۔“
اکثر لوگ اپنی دیگر مصروفیات کے باعث اپنی اولادکو وہ وقت نہیں دے پاتے جو ان کی ضرورت بھی ہے اور حق بھی۔ تلاش معاش باپ کی ذمہ داری ہے مگر اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ وہ روزی کی تلاش میں اس قدر مصروف ہو جائے کہ اپنے بچوں کی اخلاقی و روحانی تربیت سے غافل ہو جائے۔ تربیت اولاد میں باپ کے کردار کو کبھی بھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔
حدیث نبوی کے مطابق:
” مرداپنے گھر کا رکھوالا ہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں باز پرس ہو گی۔“(بخاری و مسلم)
اور ماں کی تو پہلی ترجیح ہی بچے ہیں۔ اگر وہ اولاد کو نظر انداز کر کے دیگر کاموں کا بوجھ اٹھانے لگتی ہے خواہ وہ اللہ کے دین کی دعوت ہی کیوں نہ ہو تو وہ بہت بڑی غلطی پر ہے۔ اس کی پہلی ترجیح اس کے بچے ،اس کا خاندان ہیں۔ اس مادیت پرستی کے دور میں اکثر والدین کی سوچ حقوق اولاد کے حوالے سے بہت محدود ہو گئی ہے۔
وہ سمجھنے لگے ہیں کہ اولاد کو اچھا کھلا کر اور برانڈڈ کپڑے پہنا کر ہم نے اپنا فرض ادا کر دیا۔ یا پھر دنیاوی تعلیم کے حصول کے لئے بچے کی تمام صلاحیتیں اور وقت صرف کر کے سمجھتے ہیں کہ ہم نے اپنے بچے کو سب کچھ دے دیا۔ اس سب کی اہمیت سے انکار نہیں یہ اپنی جگہ بہت اہم ہے مگر کافی نہیں!! اگر آپ نے اپنے بچے کواس کی تخلیق کا اصل مقصد نہ بتایا، رب کائنات سے متعارف نہ کروایا،اس کی خوشنودی کے گڑ نہ سکھائے تو پھر کیا سکھایا؟؟
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
” باپ اپنی اولاد کو جو کچھ دے سکتا ہے اس میں سے سب سے بہترین عطیہ اولاد کی تعلیم و تربیت ہے۔“
اپنے بچے کو وقت دیں کیونکہ عدم توجہ کا شکار ہونے والے بچے کے ذہن پر شیطان قابض ہو جاتا ہےجو اس کے ننھے ذہن میں طرح طرح کے وسوسے ڈالتا ہے۔ بچہ عجب بے چینی کا شکار ہو جاتا ہے جس کے نتیجے میں اس سے الٹی سیدھی حرکات سر زد ہوتی ہیں۔ اس کی زندگی میں ایک احساس محرومی جنم لے لیتا ہے۔
ماں کی گود بچے کی پہلی درس گاہ ہے بچے نے جو بننا ہے اس میں بننا پے۔ ماں کی تربیت کی مثال ایک درخت کے بیج کی طرح ہے ماں جو بیج بوئے گی بچے کی شخصیت کی صورت میں اسی کا پھل لگے گا۔ دوسرے عناصر سکول، مدرسہ یا ورکشاپس بعد ازاں ہوا پانی کی طرح اس کی نشو نما کا باعث تو بن سکتے ہیں مگر بنیادوں کو نہیں ہلا سکتے۔
مال اور اولاد کو آزمائش کہا گیا ہے۔ اللہ تعالی ہمارے لیے اس آزمائش کو آسان کر دیں۔ ہمیں اس میں پورا اترنے کے لئے حکمت اور دانائی سے نواز دیں اور ہماری اولاد کو ہماری آنکھوں کی ٹھنڈک بنا دیں ۔ آمین۔