عطیہ ظفر ، راولپنڈی :
ہرعورت کی بنیادی طور پر اپنی زندگی میں چار حیثیتیں ہوتی ہیں:
(1) ۔ بیٹی ، جب وہ پیدا ہوتی ہے تو بیٹی ہوتی ہے
(2) ۔ بہن اگر اس کے ماں باپ کی اور بھی کوئی اولاد ہوتو وہ اس کا رشتہ بہن کا ہوتا ہے۔
(3) ۔ بیوی نکاح کے بعد وہ اپنے شوہر کی بیوی بن جاتی ہے۔
(4)۔ جب اللہ اس کی گود میں اولاد کی نعمت عطا فرماتا تو ماں بنتی ہے ۔
اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اور ان سبھی حیثیتوں میں اسے نہایت اہم درجہ دیتا ہے۔ یہ اور بات ہےکہ لوگوں نے اس پر تعجب یا لاعلمی کے پردے ڈال دیے ہیں ۔
اسلام کی روشنی میں عورت کی ان چار حیثیتیوں پر ایک نظر
عورت بحیثیت بیٹی
اسلام نے بیٹی کی حیثیت سے عورت کو کیا مقام دیا، نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی بعثت سے قبل عرب میں بیٹی کی ولادت پر باپ کا کیا حال ہوتا تھا۔ بیٹی کی پیدائش وہ اپنے لیے بعثت شرم وعار سمجھتا تھا اور لوگوں سے اپنا چہرہ چھپائے پھرتا تھا ۔ ندامت اور شرمندگی کی بنا پر اس پھول سی بیٹی کوکسی گڑھے میں دبا دیتا۔
قرآن میں اللہ تعالی ارشاد فرماتے ہیں کہ قیامت کے دن کیا حال ہو گا جب زندہ گاڑی ہوئی لڑکی سے پوچھا جائے گا کہ وہ کس قصور پر ماری گئی ؟ حدیث میں آتا ہے کہ ’’ بیٹی کا باپ ہونا ہرگز موجب عار نہیں بلکہ باعث سعادت ہے“۔(صحیح ومسلم) ۔ ایک اور جگہ فرمایا کہ’’ جس نے دو لڑکیوں کی پرورش کی یہاں تک کہ وہ بلوغت کوپہنچ گئیں تو قیامت کے دن میں اور وہ اس طرح ہوں گے، آپ صلی علیہ والہ وسلم نے اپنی شہادت والی انگلی کو ساتھ والی انگلی سے ملا کر دکھایا۔
بیٹی اللہ کی رحمت ہوتی ہے لیکن معاشرے میں بیٹی کو کسی خاطر ہی نہیں لایا جاتا ہے۔ بیٹیوں کو ایک بوجھ سمجھا جاتا ہے۔ ہمارے خاندانوں میں کسی کے ہاں بیٹی ہوتی ہے تو بیٹی کے ساتھ بہو کو بھی کوسا جاتا ہے اور نحوست جیسے طرح طرح کے الفاظ کہے جاتے ہیں جبکہ ہمارے آقا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی چار بیٹیاں تھیں۔ آپ نے ان چاروں کی نہایت محبت اور شفقت کے ساتھ پرورش فرمائی۔
آپ کی بیٹیوں سے جو انس و محبت تھی وہ سیرت کا مطالعہ کرنے سے بخوبی معلوم ہوتی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حضرت فاطمہ الزہرہ رضی اللہ عنہ سے جو محبت تھی، اس کا عالم یہ تھا کہ وہ شادی کے بعد ملنے آتیں تو آپ صلی علیہ والہ وسلم ان کےلیے کھڑے ہو جاتے ،جگہ چھوڑ دیتے اور اپنی چادر ان کےلیے بچھاتے تھے اور بہت اصرار سے ان کو اس پر بیٹھاتے تھے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیٹیوں کےلیے فرماتے کہ یہ میرے جگر کا ٹکڑا ہیں۔ اپنی بیٹیوں کے ساتھ محبت، شفقت اور عزت واحترام کا معاملہ کر کے دکھایا۔ یقیناً اس میں یہ حکمت ہے، پوری دنیا کو معلوم ہو جائے کہ بیٹیوں کا وجود ہرگز شرم وعار یا بوجھ نہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیٹی کے ساتھ اس طرز عمل واحترام کو ذلت وعار کے مقام سے اٹھا کر اس عزت واحترام کے بلند مقام پر فائز کیا جس کی نظیر نہیں ملتی۔
اسی طرح عورت بحیثیت بہن بھی اسلام میں بہت محترم ہے، جس طرح بیٹی کے حقوق باپ کی ذمہ داری ہوتی ہے اسی طرح سے بہن کے حقوق کی ذمہ داری باپ کے بعد بھائی پر ہے بڑی بہن کا درجہ ماں کے برابر ہے اس وہ اس کی عزت واحترام کرے اور چھوٹی بہن کا درجہ بیٹی کے برابر ہے اس لیے اس کے ساتھ شفقت ورحمت سے پیش آئے۔
اگر بہن محتاج ہواور بھائی صاحب حیثیت ہو تو شرعاً اس بہن کے نان ونفقہ کےلیے بھائی پر جبر کیا جائے گا اور جبراً نان ونفقہ وصول کیا جاسکتا ہے۔ اسلام نے وراثت میں بھی بہن کے حقوق ادا کرنے میں بہت زور دیا ہے اور جب اس بہن یا بیٹی کا نکاح ہوتا ہے تو اس عورت کی حیثیت ایک بیوی کی ہوتی ہے۔
اسلامی معاشرے میں خاندان کی ابتداء ایک مرد اور عورت کے نکاح میں جڑ جانے سے ہوتی ہے۔ نکاح اس لحاظ سے بہت اہمیت رکھتا ہے کہ اصل میں وہی خاندان کی بنیاد ہے اس لیے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سہل اور سادہ انداز میں نکاح کی تاکید فرمائی اور ساتھ ہی نکاح کا یہ معیار دیا کہ عورت سے چار چیزوں کی بنیاد پر شادی کی جاتی ہے اس کا مال ، حسب ، نسب ، خوبصورتی اور دین داری ۔ تمہیں چاہیے کہ تم دین دار عورت کو حاصل کرو۔
بیوی کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا :
” جب تم اس کو دیکھو تو وہ تمہیں خوش کر دے جب تم اس کو کوئی حکم دو تو وہ اس کی اطاعت کرے اور جب تم گھر پر نہ ہو تو وہ تمہارے گھر اور بچوں کی حفاظت کرے۔“
مرد خاندان کےلیے ایک مضبوط اور مہربان سائبان کی مانند ہوتا ہے لیکن عورت ایک ایسی رفیق حیات ثابت ہوتی ہے جو اس سائبان کےلیے سہارے کا کام دیتی ہے ، اس کی ہمت بندھاتی ہے ، مسائل اور مشکلات سے نبردآزما ہونے کےلیے اس کو ہمت، طاقت، اعتماد اور حوصلہ دیتی ہے ۔
جب نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر پہلی وحی نازل ہوئی تو وہ اس قدر خوف زدہ ہوئے کہ جان کا خطرہ محسوس کرنے لگے لیکن ان حالات میں حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہ ہی تھیں جو ایک مہربان رفیق ثابت ہوئیں اور وفا شعاری سے آپ صلی علیہ وآلہ وسلم کی دل جوئی کی اور تسلی دی ۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہ کی ہمدردی، جاں سوزی اور جان نثاری تھی کہ آپ صلی علیہ وآلہ وسلم ان سے بے پناہ محبت کرتے تھے اور آپ کی موجودگی میں دوسرا نکاح نہیں کیا۔
مرد ہمہ وقت گھر پر نہیں رہ سکتا ، کسب معاش کے لیے اسے گھر سے باہر جانا پڑتا ہے ۔ بعض مرتبہ کئی کئی مہینے اور سال کے کےلیے بھی باہر رہنا پڑتا ہے ، ایسے میں گھر کی حفاظت، بچوں کی پرورش ان تعلیم وتربیت کی ذمہ داری عورت پر ہوتی ہے اور وہ اسے ادا بھی کرتی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب غار حرا میں جاتے تو کئی کئی دنوں تک وہیں پر رہتے۔ اس عرصے میں آپ صلی علیہ وآلہ وسلم کی بنات کی پرورش اور تربیت حضرت ِخدیجہ ہی کیا کرتی تھیں۔
یہ حضرت خدیجہ ہی تھیں جنہوں نے آپ صلی علیہ وآلہ وسلم کوخانگی مسائل اورفکر سے بےنیاز رکھا تھا ۔ آپ صلی علیہ وآلہ وسلم کی کو ان کی ذات پر پورا بھروسہ تھا کہ وہ میری غیر موجودگی میں تمام کام بخوبی انجام دیں گی۔
اسی طرح عورت کی چوتھی حیثیت ماں کی ہے ماں کے درجات اس قدر بلند کر دیے کہ اس کے قدموں تلے جنت جیسی نعمت رکھ دی ۔ حدیث میں آتا ہے کہ ’’ ایک شخص نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا کہ میرے حسن سلوک کازیادہ حق دار کون ہے؟ فرمایا: تمہاری ماں ، دوسری مرتبہ پھر پوچھا تو جواب میں پھر فرمایا : تمہاری ماں ، تیسری مرتبہ پھر پوچھا تو فرمایا : تمہاری ماں۔ سوال کرنے والے نے چوتھی مرتبہ پوچھا تو فرمایا : تمہارا باپ۔“
ماں کا درجہ اس لیے زیادہ رکھا کیونکہ اللہ تعالی ارشاد فرماتے ہیں(مفہوم )ہم نے انسان کو اپنے والدین کا حق پہچاننے کی تاکید کی ہے اس کی ماں نے ضعف پرضعف ٹھا کر اسے اپنے پیٹ میں رکھا اور دو سال اس کا دودھ چھوٹنے میں لگے اس لیے ہم نے اس کو نصیحت کی کہ میرا شکر کر اور اپنے والدین کا شکر بجا لا۔“
ماں کا درجہ باپ کے درجے سے تین گناہ اسی لیے بڑھا کر رکھا کہ وہ حمل کا بوجھ اٹھاتی ہے ولادت کی تکلیف برداشت کرتی ہے اور دو سال دودھ پلاتی ہے ۔ اللہ پاک نے عورت کو منظم بنایا لیکن قدیم جاہلیت نے عورت کوجس پستی کے گڑھے میں پھینک دیا اور جدید جاہلیت نے اسے آزادی کا لالچ دے کر جس ذلت سے دوچار کیا وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔
ایک طرف قدیم جاہلیت نے اسے زندگی کے حق سے محروم کیا تو جدید جاہلیت نے اسے زندگی کے ہر میدان میں مرد کے شانہ بشانہ چلنے کی ترغیب دی اور اسے گھر کی چار دیواری سے نکال کر شمع محفل بنا دیا۔ جاہل انسانوں نے اسے لہب ولعب کا کھلونا بنا دیا ، اس کی بدترین توہین کی اور اس پر ظلم وستم کی انتہا کردی۔
تاریخ کے اوراق سے پتہ چلتا ہے کہ ہر عہد میں عورت کےلیے کیسے مصائب وفکرات جھیلتی رہی اور کتنی بے دردی سے کیسی کیسی پستییوں میں پھینک دی گئی، اور عورت اپنی عزت اور وقار کھو بیٹھی ۔ آزادی کے نام پر غلامی کا شکار ہو ئی لیکن جب اسلام کا ابررحمت برسا تو عورت کی حیثیت یکدم بدل گئی۔
محسن انسانیت حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انسانی سماج پر احسان عظیم فرمایا :عورتوں کو ظلم، بے حیائی، رسوائی اور تباہی کے گھڑے سے نکال کر انہیں تحفظ بخشا ان کے حقوق اجاگر کیے بیٹی، بہن، بیوی اور ماں کی حیثیت سے ان کے فرائض بتلائے اور انہیں شمع خانہ بنایا۔