مسلمان خاتون سفید سکارف اور سفید لباس میں

دیکھنا ! کہیں آبگینہ ٹوٹنے نہ پائے!

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

ڈاکٹر مریم خالد :

سبز رنگ اسے شروع ہی سے بہت پسند تھا۔ گھر کے لان میں لگا امرود کا درخت اس کی یادوں کے ہرے بھرے گلستان کا ایک شاداب باب تھا۔ وہ امرود کا درخت جس کی ٹہنی، ہر شاخ پر اس کے خوبصورت بچپن کی حسین یادوں کے میٹھے امرود لگے ہوئے تھے۔ اس درخت نے اس روز اسے ایسا سبق دیا کہ وہ سبق اس نے کبھی فراموش نہیں کیا۔

وہ اس کے ایامِ بچپن کی ایک چلچلاتی دوپہر تھی، جب وہ کڑی دھوپ میں درخت پہ ایک امرود اتارنے کی کوششِ پیہم میں مشغول تھی۔ اچانک ایک ہمسائے کا گلی میں سے گزر ہوا۔ اس کو یوں تیز دھوپ میں امرود اتارتا دیکھ کر اسے حیرت ہوئی اور ہنسی بھی آئی۔ ہمسائے نے اس سے گھر والوں کا حال پوچھا اور جانے کی بجائے وہیں کھڑا اس کے شغل کا نظارہ کرنے لگا۔

اس نے شرمندہ ہو کر منہ پھیرا اور خود کو پتوں میں چھپا لیا۔ کچھ دیر بعد اس شخص کا خیال آیا تو پلٹ کر گلی میں دیکھا۔ اب وہ نیچے بیٹھ کر اس کی طرف دیکھ رہا تھا، مسکراہٹ اب بھی موجود تھی۔ شرم و حیا کا دھارا اسے عرق عرق کر گیا۔ وہ نیچے اتر آئی کہ یہ شخص جائے تو پھر امرود اتارنے کی کوششِ ناتمام کا دوبارہ آغاز کیا جائے کیونکہ اسے یقین تھا کہ انگور کھٹے نہیں، امرود میٹھے ہیں۔

کافی دیر بعد اس شخص کے چلے جانے کے یقین کے ساتھ دیوار کے پار جھانکا تو عجیب منظر تھا۔ وہ اب بھی وہیں بیٹھا ادھر ہی دیکھ رہا تھا، مسکراہٹ بدستور موجود تھی۔ اسے حیرت ہوئی کہ یہاں کیا ہے جو یہ ادھر ہی دیکھے جا رہا ہے؟ ذرا چھپ کر اس نے اس کی نگاہیں پڑھنے کی کوشش کی کہ یہ شخص درخت کے امرود گن رہا ہے یا اس کے شغل کا لطف اٹھا رہا ہے؟ مگر نگاہیں بہت عجیب تھیں، اسے کچھ سمجھ نہیں آئی اور وہ اندر چلی آئی۔

اور پھر اس نے درخت پہ چڑھنا بہت کم کر دیا۔ اگر چڑھنا ہوتا تو گلی میں مردوں کی غیر موجودگی میں چڑھ لیتی اور چڑھنے سے پہلے سر ڈھانپ لیتی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کیسے دکھ کی بات ہو اگر عروسِ شب کی زلفیں اپنے دلکش خم سے ناآشنا ہوں۔ بہاریں اپنے طلسم سے واقف نہ ہوں۔ بلبل کو محشرِ نغمات بپا کرنے کا یارا نہ ہو اور مور کے نوحے اسے دلکش معلوم ہوتے ہوں۔ کتنا افسوس ہو اگر کائنات کے نازک آبگینے اپنی نزاکت و دلربائی سے آگاہ نہ ہوں اور پتھروں کی شقاوت انہیں اپنا اسیر کیے جاتی ہو۔

آج اس زیاں خانے کا سب سے بڑا زیاں یہ ہے کہ عورت نسوانیت سے آگاہ نہیں ہے۔ افسوس اس بات کا نہیں کہ اس نے مقامِ نسواں جانا نہیں، دکھ تو یہ ہے کہ اس نے یہ مقام جانا، سیکھا، پڑھا اور پڑھ کے بھلا دیا۔ صدیوں سے رائج اور لوحِ کائنات پر جگمگاتے نسوانیت کے اصول یوں ذہن سے مٹا دیے جیسے کبھی جانے ہی نہ تھے۔ بھٹکتی ہوئی دنیا کے ساتھ یوں بھٹکنا شروع کردیا جیسے کامیابیوں کے راستے اسے کسی سے کبھی سمجھائے ہی نہ تھے۔

عورت کی قوت و اختیار میں کسے شک ہے؟ اس صنف کی طاقت کے کیا کہنے جو گھر میں بیٹھ کر بھی تقدیریں بدل دیتی ہے۔ مرد کے اثرات پورے خاندان تک ہوتے ہیں مگر عورت کے اثرات نسلوں تک جاتے ہیں۔ خاندان کی زمام اس کے ہاتھ میں ہوتی ہے مگر اس کے باوجود اپنی فطرت میں وہ عورت ہے، نازک آبگینہ ہے!

خالقِ کائنات نے اسے ایک مکمل ہستی بنایا۔ ایک ممتاز شناخت دی۔ عمل کا خاص میدان مقرر کیا اور اسے دلنشیں رنگ بنا کر تصویرِ کائنات میں بھر دیا۔ مگر نجانے کس نے اسے اپنی ہی ہستی سے متنفر کر دیا۔ نہیں معلوم کیوں اس نے ادھر ادھر کے قوانین اپنا لیے، ملے جلے حقوق خود پہ لاگو کر لیے، اغیار کے حلیے اپنا لیے اور اپنی علیحدہ ہستی کی مخصوص شناخت ہی مٹا دی۔

یہاں دیکھیے!
یہ قومِ مسلم کی بیٹیاں ہیں۔ شاعر نے انہیں صدق و صفا اور حیا کے پھول کہا ہے مگر حال یہ ہے کہ دوپٹہ سکڑتے سکڑتے ٹائی بن گیا ہے۔ آستینیں مختصر ہوتے ہوتے غائب ہو رہی ہیں۔ لباس یوں تنگ ہو رہا ہے کہ بےلباسی ہی کے معنوں میں آ رہا ہے۔ شلواریں ٹراؤزرز میں بدلیں، ٹراؤزرز جینز میں اور بچی بچے میں بدل گئی۔ لانگ شرٹس ٹی شرٹس میں بدل گئیں

مگر ہائے افسوس! تنگ جینز کی تنگ دامنی کی تھوڑی سی بھی وسعت نصیب نہ ہوسکی۔ شرم و حیا کے آنچل تار تار کر کے بےحیائی کی چند دھجیاں اہنے جسم پہ چپکا لی گئیں۔ عریاں کثافتوں کو ثقافت کا نام دے دیا گیا اور ہر لچر سی چیز کو کلچر کہہ دیا گیا۔

نجانے کیوں عورت کو غلط لگا اپنا عورت ہونا۔ اپنی نزاکت ساری دنیا کو دکھا کر اسے یوں لگا کہ شاید وہ بہت مضبوط ہو گئی ہے۔ تحفظ کے پردے اتار کر اسے یوں محسوس ہوا جیسے وہ بہت محفوظ ہو گئی ہو۔ اسی وہم میں اس نے بھلا دیا کہ وہ عورت ہے، نازک آبگینہ ہے!

اسے تب بھی اپنے غلط ہونے کا احساس نہ ہوا جب اس نے اپنے عمررسیدہ استاد کو انتہائی گرم جوشی سے سلام کرنے کے بعد ان کا حال احوال پوچھا تو انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا،
” آپ یوں مجھ سے اتنی لگاوٹ سے باتیں نہ کیا کریں۔ مجھے یوں لگتا ہے کہ میں پھر سے جوان ہو گیا ہوں۔“

احساس ۔۔۔ وہ تو شاید رفتہ رفتہ مر ہی گیا تھا۔ احساس کی لو بجھی تو اندھے جوش اور جنون کے مہیب شعلے بھڑک اٹھے۔ اگر شرم و حیا اور سوچ کی پرچھائیں بھی اس میں باقی ہوتیں تو اسے تب تو احساس ہوتا جب میوزیکل کنسرٹ میں اس نے گلوگار کو اس کی شیدائی ہونے کا بتایا تو اس نے بڑھ کر اسے گلے ہی لگا لیا۔ بےحیائی کی آگ لگی اس کے دل میں تھی مگر حقیقتاً یہ آگ تاریخ کے اوراق سے اس قوم کی عظمت کے باب خاکستر کر رہی تھی۔

صنفِ نازک کا حال بھی عجیب ہے۔ ایک طرف اسے یہ دعویٰ ہے کہ کسی میں اس کی جانب میلی نگاہ سے دیکھنے کی ہمت نہیں، دوسری جانب کسی مہہ جبیں کی ’ میلی نگاہ ‘ کے لیے اس نے دل و روح کے ارمان لٹا دیے۔ ایک جانب یہ تاثر دیتی ہے کہ وہ خود ذی شعور اور خود مختار ہستی ہے، کوئی اس کے بارے میں غلط سوچنے کی ہمت نہ کرے۔

دوسری جانب حال یہ ہے کہ دل کے نہاں خانوں سے ایک نام ابھرتا ہے اور اس کے ہونٹوں پہ ایک مسکراہٹ دوڑتی چلی جاتی ہے۔ ٹی وی پہ ایک فنکار ابھرتا ہے اور دل کی دھڑکنیں شدید ہونے لگتی ہیں۔ موبائل ٹون بجتی ہے اور دل میں کچھ شرمیلے، کچھ رنگیلے اور کچھ بھڑکیلے جذبات تلاطم بپا کرنے لگتے ہیں۔ جذبات کا یہ بہتا ہوا دھارا بھلا دیتا ہے کہ وہ عورت ہے، نازک آبگینہ ہے!

صورتحال یہ ہو چکی ہے کہ مخلوط تعلیمی اداروں کے امڈتے ہوئے جال، لڑکیوں کے بےتحاشہ بےوجہ ملازمتوں، نامناسب اخبارات اور رسائل کے عام مطالعہ، نیٹ اور موبائل کے بےجا استعمال، شہوت اور عریانی کی بےلگام تبلیغ، معاشرے میں خوفٍ خدا کی بڑھتی ہوئی کمی، تربیت میں فقدان اور اولاد کی غلط کاریوں اور غلط حلیوں پہ والدین کی چشم پوشی نے ایک الاؤ بھڑکا دیا ہے۔

ایک اندازے کے مطابق بڑے شہروں کی تقرہباً چالیس فیصد لڑکیوں نے بوائے فرینڈز بنا رکھے ہیں۔ نتیجہ معلوم کہ وہ نازک آبگینے کرچی کرچی ہو رہے ہیں۔ پنکھڑیوں کے لب کچلے جارہے ہیں۔ جب بلبل خود ہی خود کو صیاد کے حوالے کر دے تو انجام وہی ہوتا ہے جو اخبار میں لکھا ہے:

” سرکاری اخباری رپورٹ برائے 2013 (آج کیا صورتحال ہو گی، آپ سوچ سکتے ہیں) پنجاب میں 2576 لڑکیاں ریپ، 193 اجتماعی زیادتیاں، ہر 3 گھنٹے 40 منٹ کے بعد ایک بےگناہ خاتون زیادتی کا شکار بنتی رہی۔“

ہزاروں وہ ہیں جو معاشرتی رسوائی سے بچنے کےلیے پولیس کے پاس ہی نہیں جاتے، وہ اس کے علاوہ ہیں۔ کئی وہ کیس جن میں لڑکیاں خود ملوث تھیں، اس کے سوا ہیں۔ نوائے کراچی کی رپورٹ کے مطابق 2010 میں ساڑھے چار ہزار بچوں کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا، آج یہ گراف کہاں ہو گا؟ پہلے اخبار میں روزانہ خودکشیوں کی خبر آیا کرتی تھی اب زیادتی کی خبریں مستقل بنیادوں پہ آنے لگی ہیں۔

عورت نے خود کو بہت محفوظ سمجھا تھا مگر ہائے افسوس! زیادتی تو زیادتی رہی۔ کتنی ہی لڑکیاں تھیں جنہیں زیادتی کے بعد ہاتھ پاؤں باندھ کر قتل کر دیا اور کتنی ہی تھیں جنہیں آگ لگا دی گئی۔ کتنی ہی تھیں جنہیں مار کر ہسپتالوں کے باہر پھینک دیا گیا۔ ان لڑکیوں کا شمار کسے معلوم ہے جنہیں ایک شخص سے دوسرے اور آگے سے آگے منتقل کیاجاتا رہا جنہیں دبئی اور دوسرے ممالک میں سمگل کر دیا گیا۔ اور کتنی ہی وہ ہیں جنہیں والدین اور معاشرے نے راندہ درگاہ قرار دیا اور وہ دارالامان میں ناجائز اولاد کے ساتھ سسک سسک کر اور سانسیں گن گن کر جینے پر مجبور ہیں۔

معاشرے کی زبوں حالی جوبن پر ہے۔ میڈیا نے نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کو بہکانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اور انہیں بہکا کر سینما، ہوٹلوں، پارکوں اور تفریح گاہوں میں لے آیا ہے۔ دھرتی اہنے نوجوانوں کے ہاتھوں داغدار ہو رہی ہے۔ خوشبوؤں اور محبتوں کے سائے میں پروان چڑھنے والی یہ عشق کی داستان کوڑے کے ڈھیر پہ ختم ہوتی ہے۔ جی ہاں! کوڑے کے ڈھیر پر۔ جہاں ان اعمال کا نتیجہ پولی تھین کے لفافے میں باندھ کر الٹ دیا جاتا ہے. زیادہ دور نہیں آج ہی کے اخبار کی خبر ہے اور میرے ہی شہر کی خبر ہے:

” ایک گھنٹے کا نومولود سول ہسپتال کے چلڈرن وارڈ کے کوڑے دان سے برآمد۔ کچھ دیر موت اور حیات کی کشمکش میں مبتلا رہنے کے بعد دم توڑ گیا۔ گزشتہ روز بھی تھانہ سول لائن سیالکوٹ آٹو مارکیٹ کے قریب کوڑے کے ڈھیر سے ایک نومولود کی لاش ملی تھی۔ پولیس کو شبہ ہے کہ گناہ چھپانے کی کوشش میں ایسا کیا گیا۔“

پہلے اخبارات میں کوڑے کے ڈھیر سے کارآمد چیزیں چننے والے بچوں کی خبریں آتی تھیں۔ اب کوڑے کے ڈھیر سے وہ بچے چننے کی خبر آتی ہے جن میں زندگی کی رمق ہو اور انہیں ایدھی ہومز بھیج دیا جاتا ہے۔
یہ نام نہاد عشق کی آگ جو جلے تو سیاہ کاری اور بجھے تو سیاہی در سیاہی اور نتیجہ؟ کوڑے کا ڈھیر۔

بجھی عشق کی آگ اندھیر ہے
مسلماں نہیں ’ کوڑے ‘ کا ڈھیر ہے

عورت کے گوہرِ عصمت کی قدر و قیمت کیا ہے؟ اس سوال کے جواب میں ہوائیں میری سوچوں کے دھارے بہا لیے جاتی ہیں۔ پیچھے، کہیں بہت پیچھے۔ قیامِ پاکستان کے موقع کی جانب۔ کسی طوفان کے مناظر نظر آتے ہیں۔ یہ بھی اسی قوم کی بیٹیاں ہیں۔ ادھر سکھوں نے دہلیز پھلانگی، ادھر یہ عفت مآب بیٹیاں کنویں کی دیوار پار کر گئیں۔ ان والد اور بھائیوں کی اندوہ ناک داستانیں آج بھی دل دہلاتی ہیں جنہوں نے اپنی بیٹیوں اور بہنوں کو خود قتل کردیا. اور ان لٹی ہوئی عزتوں والی عورتوں کے تڑپا دینے والے جذبات، جنہوں نے مرتے دم پاکستان جانے والوں سے یوں کہا، ” ہم شاید اس پاک دھرتی کے قابل نہ تھے۔ بس ایک کام کرنا۔ پاکستان کو میرا سلام کہنا!“

اور وہ حیا سے عاری لوگ جن کے لیے عزت و شرافت کوئی معنی نہیں رکھتی ان کے اندوہ ناک انجام کا ایک خفیف عکس، تاریخ کے آئینے سے۔۔۔

نوائے وقت کے ممتاز کالم نگار سکندر خان بلوچ نے اپنے کالم میں اس بات کا تذکرہ کیا کہ 1972 میں غالباً بھارتی رسالے کے توسط سے یہ بات سامنے آئی کہ 20 ویں صدی کی ابتدا میں کلکتہ کورٹ میں چاندی داس نامی ایک مشہور وکیل تھا جس کا ایک منشی شیخ لطف الرحمٰن تھا۔ چاندی داس کی اکلوتی بیٹی گوری بالا داس اسی عدالت کے ایک نوجوان وکیل کمار چکروتی کے عشق میں مبتلا ہو گئی۔ 1920 میں ان کے ہاں ایک ناجائز بچے کی پیدائش ہوئی جس کا نام دیوداس چکروتی رکھا گیا۔

گوری بالاداس نے کمارچکروتی پہ زور دیا کہ وہ معاشرے میں بھرم رکھنے کے لیے اس سے شادی کر لے مگر اس نے انکار کر دیا کیونکہ وہ اونچی ذات سے تعلق رکھتا تھا۔ مجبوراً چاندی داس نے اپنی بیٹی کی شادی شیخ لطف الرحمٰن سے کروا دی اور اسے کورٹ میں سرکاری ملازمت دلوا دی۔ گوری بالاداس بالآخر مسلمان ہوگئی اور اس کا نام بدل کر ساحرہ بیگم رکھا گیا۔ دیوداس چکروتی کا نام بدل کر شیخ مجیب الرحمٰن رکھ دیا گیا۔ اس حقیقت کا انکشاف بیان حلفی نمبر 118 مورخہ 10-11-1923 روبرو عدالت سٹی مجسٹریٹ کلکتہ روبرو داروغہ عبدالرحمٰن شفاعت پولیس سٹیشن ونداریہ ضلع باریسال اور انیل کمار داروغہ کورٹ باریسال کے ذریعے ہوا۔

جی ہاں، یہ ناجائز بچہ ” شیخ مجیب الرحمٰن“ وہی نام نہاد بنگلہ بدھو ہے جس نے نہ صرف پاکستان توڑ کر ایک سے دو کردیا بلکہ ان کے درمیان نفرتوں کی ایسی آگ لگائی جس کے شعلے بجھنے میں نہیں آتے۔ یہ اپنے گھر میں اہل و عیال سمیت گولیوں سے بھون دیا گیا۔ ایک بیٹی حسینہ واجد بچی جو آج بنگال میں خانہ جنگیوں کا وہ آتش فشاں دہکا رہی ہے جس کی حدت بنگال سے شاید ہی کبھی زائل ہو۔

غور کیجیے۔ غلط کام شیخ مجیب الرحمٰن کے ماں باپ نے کیا تھا، اثرات تیسری نسل تک آگئے ہیں۔ غلطی دو اشخاص کی تھی، خمیازہ پوری قوم کو بھگتنا پڑا ہے۔ خطا لمحوں نے کی تھی، سزا تاریخ نے پائی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پیاری بہنا!
تصویرِ کائنات میں جو دل نشیں رنگینی ہے، وہ آپ ہی کی عطاکردہ ہے۔ وقار اور احترام کائنات کی کسی اور مخلوق کے لیے خاص طور پہ مخصوص نہیں کیا گیا مگر آپ کے لیے۔ آپ کا نام آتا ہے تو زمانے کی نگاہیں احترام سے لبریز ہو جاتی ہیں۔

آپ عائشہؓ ہیں تو فرشتے آپ کے لیے سلام پہنچاتے ہیں۔ آپ مریمؑ ہیں تو ربِ کائنات آپ کو پوری کائنات کی عورتوں پہ فضیلت دے کر آپ کو چن لینے کی خوشخبری سناتے ہیں۔ آپ فاطمہؓ ہیں تو دنیا تو دنیا رہی، جنت کی رونقیں بھی آپ کے بغیر پوری نہیں ہوتیں۔

کیا ہے جو آپ کے بس میں نہیں؟ آپ نے خدیجہؓ بن کر شام و عرب میں تجارت کی۔ آپ عائشہؓ بن کر ان گنت جلیل صحابہؓ و تابعینؒ کی استاد کہلائیں۔ آپ نے خنساءؓ بن کر سرزمینِ عرب کی بہترین شاعرہ ہونے کا اعزاز حاصل کیا۔ سمیہؓ بن کر آپ نے نخلِ اسلام کی سب سے پہلے اپنے لہو سے آبیاری کی اور امِ عمارہؓ بن کر آپ نے تیغ و سناں سے وہ نغمۂ جانفزا پیدا کیا کہ میدانِ احد نے آج تک بھلایا نہیں۔

آپ کے صبر، حوصلے اور جرأت کے لیے الفاظ نہیں جب آپ نے مریمؑ بن کر ایک زمانے کی کڑوی باتیں تنہا برداشت کیں۔ آپ کی عزت و احترام کی حد کیا کہ جب آپ نے ہاجرہؑ بن کر صفا و مروہ کے درمیان دوڑ لگائی تو آپ کے احترام میں آج لاکھوں فرزندانِ اسلام صفا اور مروہ کے درمیان دوڑتے پھرتے ہیں۔

آپ کی آنکھوں کی چمک قمر و نجم کی تابانیوں سے بڑھ کر ہے۔ آپ کی آواز کوئل کے نغموں سے کہیں بڑھ کر اثر رکھتی ہے۔ آپ فطرت کا ایک قیمتی تحفہ ہیں۔ آپ کی ذات سیپ کے موتی سے بھی بڑھ کر تحفظ چاہتی ہے اور کیوں نہ چاہے، آپ نازک آبگینوں سے بھی بڑھ کے ہیں!

آپ کے بغیر تصویرِ کائنات مکمل ہے نہ نظامِ کائنات۔ خاندانی نظام آپ کے دم قدم سے ہے۔ آپ کے بغیر گھر کوئی معنی نہیں رکھتے۔تصویرِ کائنات کوئی رنگ نہیں رکھتی مگر وہ رنگ جو آپ اس میں بھریں۔ تو پھر بہنا! اس میں محبت و اخوت، حیا اور ایمان کے رنگ بھریں۔ اگر آپ والدہ کے درجے تک پہنچیں تو فاطمہؓ کی طرح، جنہوں نے گھر ہی آباد نہیں کیا بلکہ ان کے گھرانے نے جنتوں کو بھی رونقیں بخشیں۔ ڈاکٹر اور استاد ضرور بنیں مگر عائشہؓ کی طرح جن کی طب و حکمت بھی مسلم اور بطور بیوی کردار بھی قابلِ تقلید۔ علم و ادب کے میدان میں آگے ضرور بڑھیں مگر خنساء کی طرح جن کی شاعری بھی مشہور اور ممتا بھی راہنما۔

آپ کی حقیقی راہِ عمل یہ ہے، پہچان جائیے۔ آپ کی ذات اور مقصدِ ذات انتہائی اہم ہے، جان جائیے۔ بہنا! آپ اپنی فطرت میں نازک آبگینہ ہیں، مان جائیے!

دنیا کے بہکاووں میں آکر بہکیے نہ، سیدھا چلیے۔ دنیا پہ اپنی عظمت کا سکہ بٹھا کر چلیے۔ دنیا کی تباہ کن رنگینیوں سے اپنا دامن بچا کر چلیے۔ اپنا حلیہ وقارِ نسواں کے مطابق بنا کر چلیے۔ آپ کے احترام سے ناواقف یہاں شیطان کے چیلے بہت ہیں بہنا! اپنا چہرہ چھپا کے چلیے۔ سر ضرور اٹھا کے چلیے مگر نگاہیں جھکا کے چلیے۔

آپ عظیم ہیں، اپنی عظمت کی حفاظت کیجیے۔ آپ عفیف ہیں، اپنی عفت کی نگہبانی کیجیے۔ گوہرِ عصمت صرف آپ ہی کی دولتِ انمول نہیں، یہ پوری ملت اور ارضِ پاک کی امانت ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ عزت و حیا کے یہ جام چھلک جائیں اور ارضِ پاک کی قبا داغدار ہو جائے۔ آپ پاک قوم کی پاکباز بیٹی ہیں، پاکیزگی پہ حرف نہ آنے دیجیے۔

اپنے اردگرد میں میں، ادھر ادھر میں ہمسائیوں کی نگاہوں کو پیچاننا سیکھیے۔ مانا کہ امرود بہت ہی میٹھے ہیں مگر یہ سر ڈھانپ کر بھی اتارے جاسکتے ہیں اور گلی میں مردوں کی غیر موجودگی میں بھی۔ بس ذرا احتیاط کی ضرورت ہے، بہاروں کی رونقیں آپ کے لیے ہی ہیں۔ ﷲ تعالیٰ آپ کی حفاظت فرمائے۔ آمین!


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں