ویلنٹائن ڈے ، دل اور گلاب کے پھول

متاعِ جاں ! آبگینے چھلک نہ جائیں

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زرافشاں فرحین :

” باجی جی ! یہ خرید لیں نا دیکھیں ، یہ آپ پر بہت اچھا لگے گا ۔“
ایک نوعمر سی باحجاب لڑکی کے ہاتھ میں کچھ خوش رنگ اسکارف تھے جو وہ میری جانب ہاتھ بڑھا رہی تھی۔
میرے ساتھ میری کم سن بیٹی ہانیہ بھی تھی اس کی نگاہوں میں اشتیاق سا ابھرا مگر میری توجہ کہیں اور تھی ۔

” یہ بہت قیمتی اور نفیس نازک سا کام ذرا پلیز اسے بہت احتیاط سے رکھیے گا۔“ میں نے بہت فکرمندی سے ٹیلر کو سوٹ پیک ڈبے میں دیتے ہوئے تاکید کی۔ سوٹ ڈبے کے اندر بھی مزید مضبوط بیگ میں تھا پھر بھی میری فکر دیدنی تھی ۔ پھر بہت ہی خوبصورت گولڈ کا سیٹ جیولر سے خریدا۔ افففف سونے کی قیمت تو آسمان سے باتیں کررہی ہے، اتنا مہنگا ہوگیا ہے ، ایک سیٹ ہی اتنا قیمتی ۔۔۔۔ اوپر سے اتنا نازک اور حسین ۔۔۔۔ یااللہ !میری ہی نظر نہ لگ جائے ۔ بے حد سنبھال کر ڈبہ بند کیا، بیگ میں ڈالا اوپر مزید ایک بیگ اور کور کیا کسی کی نظروں میں نہ آجائے اتنا مہنگا سیٹ ۔۔۔ دکان سے قدم نکالے تو بیگ کو مضبوطی سے بغل میں ہی نہیں ہاتھوں میں بھی چھپا لیا۔

ابھی تو جوتا لینا بھی ہے
میری خاص الخاص شاپنگ
آخر کیوں نہ ہو ، میں ہوں بھی تو خاص ،
اپنے ماما بابا کی لاڈلی میاں جی کی چہیتی ، ساس سسر کی منظور نظر ،
خاندان بھر میں ہر دلعزیز،
اور میری ہر چیز سب سے اعلیٰ سب سے نایاب ،
نظر نہ لگ جائے بھئی

انہی سوچوں میں غلطاں گاڑی کی طرف بڑھی تو ایک لڑکا پھر آن کھڑا ہوا
” باجی جی ! یہ لے لیں۔“ کچھ چادریں تھیں رنگ برنگی۔
” گڑیا کے لئے ہی لے لیں ۔“ اس کی نظریں ہانیہ کی طرف تھیں ۔
میں نے سختی سے اسے گھورا ۔ ابھی ہانیہ کا سوٹ لینا تھا ۔ تیزی سے اگلی بوتیک، پھر بے حد حسین سلیولیس میکسی پسند کرکے ہم گھر لوٹے۔

کسی کو نہیں دکھانا ابھی
سارا سامان گھر آتے ہی الماری میں چھپا کر رکھ دیا
ہزار دشمن تو لاکھ بد نظریں
نہ ہی کسی کو نظر آئیں تو اچھا ہے
یہ احساسات کس کے نہیں ہوتے۔ خواتین میں تو عام بات ہے مگر
اپنی سب سے قیمتی نایاب متاع کی حفاظت سے غافل
گھر سے تعلیمی ادارے تک
بازار کی رنگ برنگی بھول بھلیوں میں
شادی بیاہ کی رنگین محفلوں میں
اور اب تو شومئی قسمت
چوراہوں پر
سڑکوں پر
شاپنگ مالز میں
پارکوں میں
اپنی سب سے قیمتی متاع سے غافل
میری حیا میرا وقار
میری شرم کا حصار
میری حسن کی چادر تارتار
تو کبھی میری لخت جگر
معصوم کلیوں کو میلی ہوسناک نظروں کے تیر چھلنی کردیتے ہیں
اور میں جو چیزیں سنبھال سنبھال کر رکھنے میں اپنا جواب نہیں رکھتی یہاں مات کھا جاتی ہوں۔

آج ہانیہ نے جب وہ میکسی زیب تن کی ابھی ہانیہ دس سال کی ہے مگر اس کے خوبصورت گداز سفید بازو
الگ ہی بہار دکھا رہے تھے لحظہ بھر کو میں ٹھٹکی
اور جب وہ نظریں چرا کر بولی :
” ماما ! آپ لے لیتی نا وہ اسکارف ، مجھے نہیں پہننے یہ ایسے کپڑے ۔
میں جو بہت احتیاط پسند ہوں میں بھول ہی گئی کیا سنبھالنا تھا اور کب سنبھالنا تھا

میں بھول جاتی ہوں کہ
انہی میں وہ قرینے ہیں
یہی وہ آبگینے ہیں
کہ جو گھر بھر کی زینت بھی
یہی آنکھوں کی ٹھنڈک
یہی فرحت بھی ، یہی راحت بھی
انہی سے رونق محفل
انہی سے حرمت محمل
بھری شاداب دنیا میں
یہی سرسبز اک حاصل
یہی جنت کے زینے ہیں
اور نہ سنبھال پائی تو
یہی خزینے لوٹ نہ لے جائیں

آنکھوں میں شرمندگی ندامت کے آنسو ہیں آج مگر کچھ روشنی باقی تو ہے ہر چند کہ کم ہے۔۔۔۔۔۔ میری بیٹی نے میری آنکھیں کھول دیں کیا آپ کی بھی ؟

حلقہ کیے بیٹھے رہو اِک شمع کو یارو
کچھ روشنی باقی تو ہے، ہر چند کہ کم ہے!


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں