ویلنٹائن ڈے ، دل

ویلنٹائن ڈے ، محبت کی توہین کا دن لیکن کیسے؟

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

سمیرا منیر :

ہر انسان فطری طور پر محبت کا دلدادہ ہوتا ہے مگر آج کل الٹی گنگا بہہ رہی ہے۔ ہمارے معاشرے میں اپنی من مانی کو آزاد خیالی سمجھتے ہیں۔ ہماری نوجوان نسل شریعت سے باغی ہو رہی ہے ۔ وہ مغربی معاشرے کی طرز پر آزادی چاہتی ہے ۔ ” پرائیویسی “ کے نام پر اپنے والدین کی ذمہ داریوں سے چھٹکارہ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔

”living relationship “ میں رہ کر بیوی بچوں کے فرائض سے فرار کے طلب گار ہیں۔ دولت کی ہوس میں” shortcuts “ نے بالکل ناکارہ بنا دیا ہے۔ میڈیا پر نشر ہونے والے گیم شوز انھیں لالی پاپ کی طرح لگتے ہیں کہ ہینگ لگے نہ پھٹکڑی اور رنگ بھی چوکھا آئے۔ نکاح زنا کی راہ میں نقب لگاتا ہے مگر اس کا حصول بھی مشکل بنا دیا گیا ہے۔ خاندانی نظام کا خاتمہ ہمارے معاشرے کی بنیادوں کو کھوکھلا کر رہا ہے۔

اگر آج ہم اپنے جذبہ ایمانی کو ٹتولنے کے لیے خود سے یہ سوال پوچھیں کہ دور حاضر میں مسلمانوں پر چھائی ذلت و مسکنت سے نکالنے کے لیے محمد بن قاسم اور صلاح الدین ایوبی جیسی شخصیات کے منتظر ہیں تو ہم یقینی طور پر صمْ بکمْ ہو جائیں گے کیونکہ میڈیا نے ہماری نسلوں کو میٹھا زہر پلا دیا ہے اور ہمیں ، ہماری پہچان اور مقصد حیات سے بڑی چالاکی سے ہٹایا ہے۔

سب سے اہم نکتہ تو یہ ہے کہ صیہونی اور طاغوتی قوتوں کو ہمارا امن، خاندانی نظام ، ایمان ، شرم و حیا اور اخلاقی اقدار شروع دن سے ہی کھٹکتے ہیں ۔ اس لیے بے راہ روی پھیلانے کے واسطے نت نئے ایجنڈے ترتیب دیے جاتے ہیں۔ این۔ جی۔ اوز اور میڈیا کو بطور ہتھیار استعمال کیا جاتا ہے ۔ لوگ ” شارٹ کٹ “ سے امیر بننے کی لالچ میں اپنی اور اپنے خاندان کی آبرو کو داغدار کر دیتے ہیں۔ بےہنگم اور مضحکہ خیز حلیے اور کردار نبھانے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ اس لیے ہر گزرتے دن کے ساتھ پیٹ پوجا کا سامان مہنگا اور سامان بے حیائی کم قیمت اور ہر قیمت پر دستیاب ہوتی ہے۔

مجھے اکٹر لگتا ہے کہ ہم نہ صرف جذباتی قوم ہیں بلکہ تصوراتی اور تخیلاتی دنیا کے باسی ہیں اور خودساختہ احمقوں کی جنت میں رہ کر سرشار رہتے ہیں۔ ہمارا حال بالکل ایسا ہے جیسے ہاتھی کھانے اور دکھانے کے لیے الگ الگ دانت رکھتا ہے یعنی ہم ، ہمارے عقائد ، ہماری ثقافت ، ہمارے رسم و رواج ، سماجی رویے ، بود وباش سبھی تو ایک دوسرے کے منافی ہیں۔ یہی وجہ کہ ہماری اخلاقی اقدار دیوالیہ ہوچکی ہیں ۔ ایمانداری، ادب، لحاظ، شرم وحیا کے چراغ بجھنے سے پہلے ٹمٹما رہے ہیں۔

ایسی صورت حال میں ” ویلنٹائن ڈے “ کا جوش وخروش سے منایا جانا جلتی پر تیل کا کام کرتا ہے جو نام نہاد عاشقوں کا دن کہلاتا ہے۔ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے کہ یہ دن بطور فتنہ اکیسویں صدی کی شروعات میں ایشیائی ممالک خصوصا پاک و ہند میں داخل ہوا۔ مغربی ممالک میں اس کی دھوم جانے کتنے قرنوں سے ہے مگر باشعور لوگ جہاں اس سے کنی کتراتے نظر آتے ہیں ، وہیں کثیر تعداد اس کا خیر مقدم کرتی دکھائی دیتی ہے۔

پھر رفتہ رفتہ یہ دن ہر خاص وعام میں مقبول ہونے لگا اور کسی ” لائی لگ “ کی طرح لوگ اس کے لڑ لگ کئے، بغیر انجام کی پرواہ کیے ۔ لال رنگ تو جیسے اس دن ” انتحابی نشان “ بن گیا۔ جوتے ، ملبوسات ، کھانا، پینا ، پھول ، کیک ، دل ، منیاری ہی کیا سارے کاروباری لوازمات لال ولال ہوگئے۔

ویلنٹائن ڈے ڈائن بن کر نوجوانوں سے چمٹ گیا۔ ہر مطلوبہ شے کی قیمتیں دوگنی ہو جاتی ہیں۔ میڈیا کے رنگا رنگ پروگرام منعقد کرکے رہی سہی کسر نکال لی جاتی ہے۔ اور ہم نے دوسروں کی نقالی میں اپنا منہ چپیڑوں سے لال کر لیا ، یہ سوچے سمجھے بغیر کہ یہ دن ” مغربی کلچر “ کا حصہ ہے ہمارا اس سے قطعی کوئی تعلق نہیں ہے۔

پانچ فروری ( یوم یکجہتی کشمیر) کے آہ ونالوں کی گونج ابھی فضا میں ہوتی ہے کہ اسی ظالم اور دشمن ملک کی فلموں، نغموں اور ڈراموں کی ریٹنگ ہماری پسندیدگی کی بدولت کہاں سے کہاں پہنچ جاتی ہے کیونکہ ملک دشمن عناصر کے سامنے یہ بات عیاں ہو چکی ہے کہ وطن عزیز کو فوجی محاذ پر شکست دینا نا گزیر ہے مگر ثقافتی یلغار سے ان کہ بنیادوں کو کھوکھلا کیا جاسکتا ہے۔

اس دن کو منانے کے حوالے سے نوجوانانِ وطن کی تیاریاں دیدنی ہوتی ہیں ، ایسے میں ہوٙٹل اور نجی محافل میں جو مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں وہ کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں ۔ یونیورسٹی سے لے کر سکول تک چاند رات جیسا ہلاگلا دیکھنے کو ملتا ہے۔ لڑکے لڑکیاں انتہائی بیہودگی کا مظاہرہ کرتے پائے جاتے ہیں ۔ اسے منانے والے سمجھ رہے ہوتے کہ آج ان کی ” محبتاں سچیاں “ ہیں جبکہ ان یارانِ وطن سے بڑا دغا باز کوئی نہیں ہو سکتا ہے جو اس دن کو یادگار بنانے کے چکروں میں کھلم کھلا یا چوری چھپے ایسے کاموں کا ارتکاب کر بیٹھتے ہیں جو باقی سارا سال ان کے لیے شرمندگی کا سامان بنا رہتا ہے ۔

گھروں میں چاہے فاقوں کا عالم ہو مگر محبوب کے لیے تحفہ خریدنا لازم ہو جا تا ہے۔ اگر کوئی قطع تعلق کرنا چاہے بھی تو بلیک میلنگ کا نیا سلسلہ چل نکلتا ہے۔ اس لیے یہ کہنا مناسب ہوگا کہ یہ دن محبت کی توہین کا دن ہے کہ جس میں لوگ حیا، خلوص ،ایثار اور مقدس رشتوں سے بے پرواہی برتتے ہیں ۔ اپنی موج مستی ، عریانی اور بے لگام جذبوں کے سامنے حلال وحرام کی تمیز بھول جاتے ہیں۔

دیکھا جائے تو یہ رشتوں کی سوداگری کا دن بن چکا ہے جس میں نہ جانے کتنے مرد و زن اپنا سب سے قیمتی اثاثہ اپنی عزت داوٰ پہ لگا کر ہار جاتے ہیں۔ اگلے دن اخبارات کی سرخیاں انھی لرزہ خیز واقعات کی ترجمان ہوتی ہیں۔ ریپ کیسز کی بڑھتی شرح چیخ چیخ کر بےحیائی پھیلانے والے ایسے تمام عناصر اور عوامل پر قدغن لگانے کی اپیل کرتی ہے۔

اسلام محبت اور خیر خواہی کا دین ہے مگر وہ کسی بھی طریقے سے انسان کے جذباتی ، معاشی ، معاشرتی ، سماجی استحصال سے منع کرتا ہے۔ زنا ، بدکاری اور بے حیائی کے تمام رستوں کو مسدود کرتا ہے۔ ایمان کی محبت کو اعلیٰ اور ارفع تسلیم کرتا ہے۔

یہی وطیرہ اہل ایمان کی اہم صفت ہے جس کی مثال ایک صحابی حضرت زید بن نجاری (ابو طلحہؓ) اسلام لانے سے پہلے کا واقعہ ہے کہ جب انھوں نے حضرت رمیصاء بنت ملحان ( ام سلیمؓ ) کو نکاح کی پیشکش کی تو انہوں نے منع فرما دیا ۔ حضرت ام سلیمؓ کی جوابی وضاحت سنہری حروف میں لکھے جانے کے لائق ہے :

” ابو طلحہ ! میں آپ کو اور اللہ تعالی اور اس کے رسول کو گواہ بنا کر کہتی ہوں کہ اگر آپ اسلام قبول کرلیں تو میں سونا چاندی اور مال و دولت کے بغیرآپ سے نکاح کر لوں گی اور آپ کے اسلام کو اپنا مہر قرار دوں گی ۔“

چنانچہ وہ ایمان لے آئے پھر انہوں نے حضرت ام سلیمؓ سے نکاح کر لیا ۔ مسلمان اس نکاح کے متعلق کہتے تھے کہ
” ہم نے آج تک کسی مہر کے بارے میں نہیں سنا جو ام سلیم کے مہر سے زیادہ بہتر اور قیمتی ہو ۔انہوں نے اسلام کو اپنا مہر قرار دیا ۔“ ( بحوالہ کتاب:زندگیاں صحابہ رضی اللہ تعالی عنہ کی ،مصنف: ڈاکٹر عبد الرحمن رافت پاشا ،ترجمہ: ابو جاوید اقبال احمد قاسمی )

اگر ہم شریعت کی روشنی میں دیکھیں تو ویلنٹائن ڈے کا تصور ہمارے لیے زہر قاتل ، بھونڈا اور قابل مذمت ہے کیونکہ شیطانی عزائم کا خلاصہ اللّه سبحانہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں بھی فرما دیا ہے کہ ” شیطان تمہارا کھلا دشمن ہے۔“ ( سورة یاسین )

سورة النور،سورة النساء میں مرد و زن کو حلال وحرام، محرم و غیر محرم کے تصورات اور ہماری حدود قیود اچھی طرح سے واضح کر دی گئی ہیں ۔ سورہ یوسف میں حضرت یوسف علیہ السلام کی پاک دامنی کو ہمارے لیے بطور مثال بیان فرمایا گیا ہے۔اسی طرح مرد ہو یا عورت، خواہ وہ کسی رنگ ،نسل ، قوم اور مذہب سے وابستہ ہو، شرم و حیا اس کا زیور ہے۔

ہم لوگ اغیار کی تقلید میں بھول جاتے ہیں کہ ہم اس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی ہیں جو شرم وحیا کے پیکر تھے جن کی شرافت اور پاکیزگی کی گواہی ان کے بدترین دشمن بھی ہمہ وقت دیتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جا بجا فرمایا ہے کہ ” الحیاء من ایمان “ (سنن النسائی502)

ایک اور مقام پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
ترجمہ : ” حیا جنت میں لے جانے کا راستہ ہے“۔ (سنن ترمذی 2009) ، صیحح بخاری(5769) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بہت خوبصورت حدیث میں حیا سے متعلق بیان ہے۔آپ نے فرمایا:
ترجمہ: ” جس شخص میں شرم و حیا نہ رہے تو وہ بڑی سے بڑی بے ہودگی، نافرمانی اور فساد برپا کر سکتا ہے“ ۔

ہمارا مذہب اسلام ہرگز تنگ نظر نہیں ہے ۔ ہم پر نافذ ہونے والی تمام حدود میں دراصل ہماری اپنی بھلائی پوشیدہ ہوتی ہے۔ اسلام جائز اور حلال تعلقات کو فروغ دے کر حرام و ناجائز رشتوں کی بیخ کنی کرتا ہے۔ انسانی جبلت کو مدنظر رکھ ہم پر وہ سب قوانین لاگو کرتا ہے جو دنیا اور آخرت میں ہماری کامیابی کی کنجی بن سکتے ہیں۔

میرے خیال میں محبت جیسے پاکیزہ جذبے کا اظہار ہونا چاہیے اور بار بار ہونا چاہیے مگر حلال رشتوں سے جو اس کے اصل حق دار ہیں۔

ویلنٹائن ڈے کے نام پر فروغ پانے والی خباثت کے ذمہ دار ہم سب ہیں کیونکہ تالی ہمیشہ دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے۔ اب حالات یہ ہیں کہ تربیت کرنے والوں کو بھی تربیت کی اشد ضرورت ہے۔ اس لیے ہمارے میڈیا، حکومتی اداروں، والدین، اساتذہ پر دوہری ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ اگر ہم وطن عزیز کو ریاست مدینہ میں ڈھالنے کے خواہاں ہیں تو اپنی زندگیوں کو دین اسلام کے خوبصورت سانچے میں ڈھالنا ہوگا تاکہ آئندہ نسلیں یقینی طور پر نظریہ پاکستان ( لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ‎ )کی ضرورت اور اہمیت کو سمجھ سکیں اور اس مضمون کا خلاصہ علامہ محمد اقبال اس شعر کی صورت کیا جا سکتا ہے:

” اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قومِ رسول ہاشمی “


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں