طوبیٰ ناصر کی زلزلہ کے تناظر میں لکھی ایک منفرد اور پرتاثیر اردو کہانی
تھرتھراتے درودیوار رکنے کا نام نہیں لے رہے تھے، ہر طرف ایک شور تھا ، سب بھاگ رہے تھے لیکن کہاں ہر طرف تو زمین گردش میں تھی۔
” مائرہ ! اٹھو باہر چلو! “ اس کا کندھا بھی کسی نے جھنجھوڑ تھا، اس نے خالی خالی نظروں سے اس کی طرف دیکھا کہ وہ کون ہے ۔ اسے پہچاننے میں مشکل ہو رہی تھی، وہ وہیں بیٹھی رہی، بھاگ کر جایا بھی کہاں جا سکتا تھا۔ جو یہاں زمین کو الٹ پلٹ سکتا تھا وہ باہر نکلنے والوں کو بھی الٹ پلٹ سکتا تھا۔ بھاگ کر جایا بھی کہاں جا سکتا تھا۔
شور بڑھتا جا رہا تھا، بھگڈر مچ چکی تھی، ہر انسان عالم بدحواسی میں تھا ۔ زمین آج رکنے کا نام نہیں لے رہی تھی۔ رک بھی کیسے سکتی تھی ، ابھی اسے رکنے کا حکم نہیں ملا تھا۔
اذا زلزلت الارض زلزالہا
جب زمین اپنی پوری شدت کے ساتھ ہلا ڈالی جائے گی۔
وہی وقت تو آن پہنچا تھا، کیا ؟؟ ایسا کیسے ہوسکتا ہے، ابھی تو میں اس کے لیے تیار نہیں تھی، ابھی تو میں نے تیاری کرنی تھی۔ یہ نہیں ہو سکتا ، مائرہ نے بے یقینی سے ادھر اُدھر دیکھا اور باہر بھاگی لیکن یہ کیا منظر بدل چکا تھا ۔
یہ تو وہ جگہ ہی نہیں تھی جہاں وہ کچھ دیر پہلے تھی، ہر چیز فنا تھی، اس نے واپس جانا چاہا ، پیچھے مڑ کر دیکھا تو وہاں کچھ بھی نہیں تھا۔ میرا گھر، کہاں گیا ؟ یہیں تو تھا ابھی ، وہ پھٹی پھٹی نظروں سے اس جگہ کو دیکھ رہی تھی جہاں ابھی کچھ دیر پہلے اس کا اپنا گھر تھا جسے اس نے کتنی ہی محنت اور کوشش سے بنایا تھا، کتنا ہی وقت اور صلاحیتیں تھی جو اس نے اس گھر کو بنانے میں لگائی تھی لیکن وہ تو سب ضائع ہو گیا میری ہر محنت، وقت سب ملبے کا ڈھیر تھا، ایک آواز اس کے کانوں میں گونج رہی تھی۔
واخرجت الارض اثقالہا
اور زمین اپنے اندر کے سارے بوجھ نکال کر باہر ڈال دے گی
اس کا وہ اتنا قیمتی گھر جو اس دنیا کو دکھانے کے لیے بنایا تھا وہ زمین پر بوجھ ہی تھا۔
اس کی آنکھوں کے سامنے ایک فلم چلنے لگی ، جب وہ اپنے گھر کی ڈیزائننگ کا فیصلہ کر رہی تھی تو اس کی والدہ نے کہا تھا:
” بیٹا ! تم اپنے آپ کو کیوں اتنا کھپا رہی ہو، گھر ہی تو ہے ، بن جائے گا۔“
اس نے کہا تھا :
” امی ! آپ کو نہیں پتہ ، دنیا بہت بدل گئی ہے ، اس کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلنے کے لیے بہت محنت کرنی پڑتی ہے، ورنہ آپ پیچھے رہ جاتے ہیں، اور بس ایک بار گھر بن جائے پھر آرام ہی آرام ہے۔“
لیکن یہ کیا وہ گھر تو اس کے سامنے ملبے کا ڈھیر بن چکا تھا۔ اس بات سے بے خبر کہ اس کو بنانے میں کتنی محنت لگی ہے۔
وقال الانسان مالہا
اور انسان کہے گا کہ یہ اس کو کیا ہو رہا ہے
ہر انسان بوکھلایا ہوا پھر رہا تھا ، کوئی خود سے پوچھ رہا تھا اور کوئی زمین سے ، یہ کیا ہو گیا ہے ؟ کیوں کہ کسی اور انسان کے پاس تو نا وقت تھا اور نا حواس کہ کسی سوال کا جواب دیتا، مائرہ نے کچھ آگے نکل کر دیکھا۔
ہر طرف خون تھا، انسانوں کے کٹے آدھے ادھورے جسم جو آدھے تو ملبے کے نیچے تھے اور آدھے باہر۔
یومئذ تحدث اخبارہاا
اس روز وہ اپنے ﴿اوپر گزرے ہوئے﴾ حالات بیان کرے گی
مائرہ چلتی جاتی تھی اور اور یہ آواز زمین و آسمان میں گونج رہی تھی، ہر اگلے قدم پر اسے اس رب کی کبریائی نظر آ رہی تھی، وہ بے نیاز تھا اور سب کو لوٹ کر اسی کے پاس جانا تھا۔
بان ربک اوحیٰ لہا
کیونکہ تیرے رب نے اسے ﴿ایسا کرنے کا ﴾ حکم دیا ہوگا ۔
زمین اپنی داستاں چیخ چیخ کر سنا رہی تھی لیکن انسان کے پاس نا پہلے وقت تھا اس کی آواز سننے کا نا آج مہلت کے اس کی آواز سن سکیں۔
یومئذ یصدر الناس اشتاتا لیرو اعمالہم
اس روز لوگ متفرق حالت میں پلٹیں گے تاکہ ان کے اعمال ان کو دکھائے جائیں ۔
لوگ اتنے بدحواس تھے کہ ایک دوسرے کو نہیں پہچان رہے تھے، ہر انسان اپنی جان بچانے کی فکر میں تھا کہ کسی طرح یہ زمین رک جائے اور اسے ایک اور موقع مل جائے پلٹنے کا، لیکن یہ موقع ہر بار تو نہیں مل سکتا، ہر انسان کی قیامت نے تو آنا ہی ہے اور وہ ہمارے سروں پر کھڑی ہے لیکن ہم اس سے نظریں چرائے پھر رہے ہیں
فمن یعمل مثقال ذرہ خیرا یرہ
پھر جس نے ذرہ برابر نیکی کی ہوگی وہ اس کو دیکھ لے گا ،
یہ آواز مسلسل گونج رہی تھی، اس آیت نے مائرہ کو چونکا دیا تھا۔ اس نے جلدی سے سوچنا شروع کیا کہ اس نے کون کون سی نیکیاں کی ہیں، لیکن یہ کیا اسے تو بہت ذہن پر زور دینے سے بھی کوئی نیکی یاد نہیں آ رہی تھی، اس نے خود سے بحث کرنے کی کوشش کی وہ اس دن تو میں نے بھابھی کو پیسے دیے تھے ان کی مالی مدد کی تھی وہ نیکی ہی تو تھی ۔
اس نے جیسے خود سے تصدیق چاہی لیکن آج اس کا اپنا آپ بھی اسے کوئی تسلی نہیں دے رہا تھا اسے یاد آیا ان کی مدد کرتے ہوئے بھی اس نے انھیں کتنا جتایا تھا جس سے ان کی شرمندگی سامنے نظر آ رہی تھی، پھر میں نے کتنے ہی لوگوں کو یہ بات بتائی تھی تو وہ نیکی تو کہیں سے بھی نہیں تھی،
وہ ایک ایک کر کے ہر بات کو یاد کر رہی تھی لیکن آج اس کا ضمیر صرف سچ بول رہا تھا اور اسے کوئی نیکی نا ملی جو برائے نام اس نے نیکیاں کی بھی تھی وہ بھی دکھاوے کی یا جتلا کر ضائع کر چکی تھی، اب اس کے پاس پچھتانے کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں تھا
ومن یعمل مثقال ذرہ شرا یرہ
اور جس نے ذرہ برابر بدی کی ہوگی وہ اس کو دیکھ لے گا
مائرہ کے اوسان خطا ہو چکے تھے ، اسے نیکیاں ڈھونڈتے ہوئے اتنا اندازہ تو ہو چکا تھا کہ نیکی میں تو اس کا حصہ نہیں ہے لیکن بدی میں وہ اپنا حصہ ڈالتی رہی تھی، اور یہ اس کے انجام کے لیے کافی تھا، اب کیا ہو گا وہ وہیں سجدے میں گر گئی اور اللہ سے ایک دعا کرنے لگی کہ
”اسے ایک موقع دے دیں، وہ اب سیدھے راستے کو کبھی نہیں چھوڑے گی، وہ روتی جاتی اور دعا کرتی جاتی، صرف ایک بار، صرف ایک بار اللہ تعالیٰ۔“
مائرہ، مائرہ کوئی اسے جنجھوڑ رہا تھا اور اس کا نام پکار رہا تھا ، اس نے سجدے سے سر اٹھایا تو وہ اس کی امی تھی جو اسے بلا رہی تھی۔ کیا ہوا مائرہ تم اتنا اونچی آواز سے کیوں رو رہی ہو؟ مائرہ نے ماں کے اس سوال پر گردوپیش کا جائزہ لیا، یہ کیا وہ اپنے گھر میں تھی، اس کا اپنا گھر، جہاں وہ نماز پڑھ کر وہیں جائے نماز پر سو گئی تھی لیکن سوئی کہاں تھی ابھی تو جاگی تھی،
وہ اس جہاں سے ہو آئی تھی جہاں اس نے آج نہیں تو کل جانا تھا، اس کا ابدی گھر، اس نے مہلت مانگی تھی اور اسے مل گئی تھی، وہ واقعی خوش قسمت تھی، اس نے خوشی سے اپنے آنسو پونچھے اور اپنی امی کو مسکرا کر دیکھا تھا، کچھ نہیں امی بس اللہ تعالیٰ سے کچھ مانگا تھا وہ مل گیا ۔
اب بس اس وعدے کا حق ادا کرنا ہے، اور ایک آواز مسلسل اس کے کانوں میں گونج رہی تھی۔۔۔۔
جب زمین اپنی پوری شدت کے ساتھ ہلا ڈالی جائے گی
اور اس نے سوچ لیا تھا اب اسے کیا کرنا ہے