آصفہ عنبرین قاضی :
وہ بھی دسمبر کی آخری ساعتیں تھیں ۔ ہاسٹل کی صبح بھی ایسی ہی ٹھٹھرتی ہوئی تھی۔ نجی ہاسٹل کی وجہ سے مسز فرید کا رعب و دبدبہ اور پابندیاں صرف ہم پر تھیں۔ ان کو ہم آسمانی بجلی کہتے تھے ۔ یہ بجلی بن بادل بھی گر جاتی تھی۔ کسی نے ہم پانچوں کی تصویریں دکھا کر ان سے عہد لیا تھا کہ ان کو سکھ کا سانس مت لینے دیجیو ( یہی عہد ہم نے بھی کر رکھا تھا)۔
31 دسمبر کو چھٹی تھی، اور ہم نے بہت منت سماجت سے ان کو راضی کیا کہ شام ہم انارکلی کا چکر لگائیں گے اور کھانا کھا کر شرافت سے 8 بجے واپس آ جائیں گے۔ ایسا موقع سال میں بہت کم ملتا تھا، اجازت ملنے کے بعد خوشی عروج پر تھی۔ ہاسٹل میں صرف طوبیٰ علیم کے پاس گاڑی تھی۔ دوپہر کا کھانا پہلے ہی ہم لوگ نہیں کھاتے تھے ، باورچی کو رات کے کھانے کے لیے بھی منع کر دیا۔
ذہن میں لذیذ لاہوری کھابے ( اس وقت کھوتے نہیں تھے) سوار تھے۔ 3 بجے جب ہم ہاسٹل کے پچھواڑے ،چھوٹے سے لان میں دھوپ سینک رہے تھے تو عجیب منظر دیکھا۔۔۔ طوبی کبھی عمارت میں جاتی کبھی گھبرائی سی واپس آتی اور گول گول چکر کاٹنے لگتی۔ ہمیں پہلی بار تشویش لاحق ہوئی اس وقت وہ طوبی سے زیادہ ڈرائیور نظر آ رہی تھی ۔
استفسار کے بعد پتا چلا درد شکم ہے۔ کوئی بھاگ کے سوڈے کی بوتل لے آئی کوئی پھکی۔۔۔ جب طوبیٰ نے پانچویں دفعہ کہا مجھے بیت الخلا جانا ہے تو ہمیں ہر طرف خلا نظر آنے لگا۔
” نہ کرو چندا ،6 بجے تک سنبھلی رہو ، بھلے کچھ نہ کھانا اور سیٹ پر پڑی رہنا لیکن یہ ظلم نہ کر۔۔۔“
زائشہ نیم حکیم تھی اس نے خارجہ پالیسی کو کنٹرول کرنے کے لیے ہر دوا آزمائی ۔ مگر کوئی ٹوٹکہ ، کوئی کشتہ ، کوئی نسخہ کام نہ آ رہا تھا۔ آدھ گھنٹے کا وقفہ غنیمت لگ ہی رہا ہوتا کہ اسے پھر اندرونی خلفشار محفل سے اٹھا کر لے جاتا۔
پتا نہیں کس نے جمال گھوٹا پلایا تھا ! نہ معجونیں کام آئیں نہ مناجات۔۔۔۔ چھ بجے تک بینک دیوالیہ ہو چکا تھا۔ وہ نڈھال سی پڑی تھی۔
” اب کیسے جائیں گے ؟ “ سب کو ایک ہی فکر تھی۔
” رکشہ کروا لیتے ہیں ۔۔۔“
” نہیں! ایمبولینس کرا لیتے ہیں، ہم انارکلی اتر جائیں گے اور یہ ہسپتال ۔۔۔۔“
خود غرضی بھی عروج پر تھی۔ طوبیٰ اپنی جمع پونجی لٹا کر رضاکارانہ طور پر کلچوں سے دستبردار اور ہم گاڑی سے محروم ہوگئے ۔ طے یہ پایا کہ رکشہ کروا لیتے ہیں، پتا نہیں بات آسمانی بجلی تک کیسے پہنچی وہ فوراؐ بھاگی چلی آئیں۔
” رکشے پہ کوئی اکیلے نہیں جائے گا۔“ بجلی چمکی۔
” چار اکیلے کہاں ہوتے ہیں ؟“ کوئی منمنایا تھا۔
” مجھے نہیں پتا میں سردیوں کی رات میں نکلنے نہ دوں گی “ بجلی اب کے کڑکی تھی.
” گھنٹے دو کی تو بات ہے میم پلیز“
” نہیں! منظور بنارسی تمہارے ساتھ جائے گا. بالآخر بجلی گر گئی۔ منظور کا نام سن کے سب کے منہ کا ذائقہ خراب ہوا۔ ( منظور بنارسی کے تعارف اور خدمات کے لیے طویل پوسٹ چاہیے)۔
” ہم اگلے سال چلے جائیں گے “ سیالکوٹ کی رابعہ کو طائر لاہوتی والا شعر یاد آ گیا ۔
اس سال کے سورج کے ساتھ ہماری امیدیں بھی ڈوب گئیں۔ رات گئے کسی نے بسکٹ کھائے ، کسی نے سیب تو کسی نے پیچ و تاب ۔۔۔۔ البتہ طوبی کے کمرے کی بتی ساری رات جلتی بجھتی رہی، کسی نے اس سے دلیے اور کھچڑی تک کا نہ پوچھا۔۔۔۔!